ایسے لگتا ہے جیسے ہمارے حکمران
امریکہ کے غلام ہیں اور یہ خیال اس وقت یقین کی سرحدوں کو چھونے لگتا ہے جب
امریکہ کی طرف سے ایک کال آنے پر ہمارے حکمران من وعن سر تسلیم خم کر دیتے
ہیں۔ ہر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اس کا اقتدار امریکہ کی خوشنودی سے منسلک ہے،
مگر یہ سوچنے کی زحمت کوئی نہیں کرتا کہ امریکہ کو اس خطہ میں آنے کا جواز
کس نے فراہم کیا؟ ہم اپنے ہمسایہ ممالک ایران اور چین سے بھی سبق نہ سیکھ
سکے کہ جنہوں نے امریکہ کو اپنے پاس بھی نہ ٹپکنے دیا۔ پاکستان کی وجہ سے
آج ایران اور چین کی سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ امریکہ پوری طرح
ہماری جڑوں میں سرایت کر چکا ہے۔ ہم یہ ہرگز نہیں کہتے کہ امریکہ سے تعلقات
میں خواہ مخواہ بگاڑ لایا جائے، مگر اس کی اجازت بھی ہرگز نہیں دیں گے کہ
اپنے آپ کو اس کی غلامی میں دیا جائے۔
امریکہ سے دوستی ضرور رکھی جائے مگر غلام بن کر نہیں بلکہ برابری کی سطح کی
دوستی روا رکھی جائے۔ ہم ایک خودمختار اور آزاد قوم ہیں مگر کیا یہ ہماری
آزادی پر حرف نہیں ہے کہ ایک ایٹمی ریاست ہو کر بھی کسی ڈکٹیشن کو قبول
کریں۔ امریکہ نے ہر اہم موقع پر ہمارا ساتھ چھوڑ دیا کیا یہ اس کی بے وفائی
کا منہ بولتا ثبوت نہیں ہے۔ امریکہ کا بحری بیڑہ آج تک پاکستان کی مدد کو
نہ پہنچ سکا۔ امریکہ نے آج تک مسئلہ کشمیر کے حل میں کوئی مدد نہ کی جس کا
وعدہ ہر اہم مواقع پر کیا جاتا رہا۔ پاکستان میں برسر اقتدار آنے والے ہر
آمر کی پشت پناہی کی۔ پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں دھکیل دیا گیا، بھلا
ہمارے حکمرانوں کو کیا ضرورت تھی کہ دوسروں کی جنگ کو پاک سر زمین پر منتقل
کر دیں۔ ہمارے کسی حکمران نے امریکہ کو یہ بتانے کی کوشش نہ کی کہ جہاں سے
ہماری ناک شروع ہوتی ہے وہاں سے آپ کی آزادی کی سرحدیں ختم ہو جاتی ہیں۔
ہمارے کسی حکمران نے امریکہ کے سامنے اس بات کی تشریح نہ کی کہ ہم اس فوج
کے سپاہی ہیں جو تعداد میں ٣١٣ تھے مگر اپنے سے کئی گناہ بڑے دشمن کو شکست
سے دو چار کیا، ہھم اس فوج کے جانباز ہیں جنہوں نے ساحل پر پہنچ کر کشتیاں
جلا دیں اور ہم اس فلسفہ پر عمل پیرا ہیں ‘‘ گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر
کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے‘‘ |