شب برأت
فضیلت و اہمیت اور مسنون اعمال
ماہِ شعبان المعظم اور اس کی پندرھویں شب یعنی ’’شب برات‘‘ کی عظمت و فضیلت
اور اہمیت امت مسلمہ میں ہمیشہ سے مُسلّمہ رہی ہے کیونکہ یہ عظیم الشان رات
گناہ گاروں کی بخشش و مغفرت اور جہنم سے نجا ت کی رات ہو تی ہے۔ یہ رات ذکر
و فکر، تسبیح و تلاوت ، توبہ و استغفار، کثرتِ نوافل،صدقات و خیرات، عجزو
نیاز مندی اور مراقبہ و احتسابِ عمل کی رات ہے۔جس طرح زمین پرمسلمانوں کی
دوعیدیں (عیدالفطر اور عیدالاضحی) ہیں،اسی طرح فرشتوں کی بھی دوعیدیں
آسمانوں پر ہیں اور’’شب برات‘‘ وہ عظیم رات ہے، جسے آسمانوں میں فرشتوں
کی’’ عید‘‘ کہا جاتا ہے۔
اس مبارک و مقدس رات کے بارے میں قرآن پاک میں ارشادِ خداوندی ہے :
حٰمٓo وَالْکِتٰبِ الْمُبِیْنo إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃٍ
مُّبَارَکَۃٍ إِنَّا کُنَّا مُنذِرِیْنَoفِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ
حَکِیْمٍo أَمْراً مَّنْ عِنْدِنَا إِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَo رَحْمَۃً
مِّنْ رَّبِّکَ إِنَّہُ ہُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُo
ترجمہ: ’’حمؔ (حق کو واضح کر نے والی ) کتاب (قرآن ) کی قسم ! ہم نے اس کو
با برکت رات میں نازل فر ما یا ہے، ہم بر وقت خبردار کر دیا کر تے ہیں ،
اسی رات میں تمام حکمت والے کاموں کا فیصلہ کیا جا تا ہے، ہر حکم ہماری جا
نب سے صادر ہو تا ہے ، بلا شبہ ہم ہی (تمہاری طرف کتاب و رسول ) بھیجتے ہیں
، تمہارے رب کی طرف سے سراسر رحمت ہے ، بے شک وہی سب کچھ سننے وا لا اور
بہت جا ننے وا لا ہے ‘‘۔
(سورۃ الدخان: آیت نمبر 1-6)
شب برأت کی وجہ تسمیہ اورمشہور نام
شعبان کی پندرھویں شب کو ’’شب برأت ‘‘ اس لئے کہتے ہیں کہ ’’برأت ‘‘ کا
معنی ہے : ’’ نجات پا نا‘‘ اور’ آزادوبری ہو جا نا‘ ‘، چو نکہ اس عظیم رات
میں اﷲ تعالیٰ بے شمار گناہ گاروں کو جہنم سے نجات اورآزادی عطا فر ما دیتا
ہے ، اس لئے اس رات کو ’’ شب برات‘‘ کہتے ہیں ۔
احادیثِ مبا رکہ میں شعبان المعظم کی پندرھویں شب یعنی شب برات کے چا ر
مشہور نام وارد ہوئے ہیں ، جو حسب ِ ذیل ہیں:
O ’’لَیْلَۃُ الْبَرَأت ‘‘ …… نجات والی رات
O ’’لَیْلَۃُ الرَّحْمَتْ ‘‘ …… رحمتوں والی رات
O ’’لَیْلَۃُ الْمُبَارَکْ‘‘ …… برکتوں والی رات
O ’’لَیْلَۃُ الصَّکْ‘‘ …… نجا ت کا چیک ملنے والی رات
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺنے ارشادفرمایاکہ:
’’شعبان کی پندرھویں رات(یعنی شب برات) کویہ لکھ دیا جاتا ہے کہ اس سال سال
کون کون آدمی پید اہوگا اوراس سال سال کون کون انتقال کرے گا اور اس رات
کوبنی آدم کے اعمال اﷲ کی بارگاہ میں اٹھائے جاتے ہیں اوراس رات کواُن کا
رزق (اسباب کے ساتھ )نازل کیاجاتا ہے (یعنی وہ تمام فیصلے جو تقدیر الٰہی
میں پہلے ہی سے طے شدہ ہو تے ہیں ،ا س رات میں لو حِ محفوظ سے علیحدہ کر کے
متعلقہ فرشتوں کے سپرد کئے جا تے ہیں ، جس کی وہ سال بھر میں تعمیل کر تے
ہیں ) پھر رسو ل اﷲ ﷺ نے فرمایاکہ جوشخص بھی جنت میں داخل ہو گاوہ اﷲ
تعالیٰ کی رحمت ہی سے ہو گا‘‘۔(بیہقی فی دعوات الکبیر،مشکوٰۃ
المصابیح،صفحہ115قدیمی کتب خانہ کراچی)
ماہ شعبان اور شب برات کی عظمت و فضیلت
حضرت عر وہ بن ہشام رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اﷲ عنہا فر ما تی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ (ماہِ شعبان میں) اکثر روزے
رکھتے تھے۔میں نے عرض کیا، یا رسول اﷲ ﷺ ! کیا وجہ ہے میں آپ کو ماہِ شعبان
میں اکثر روزہ رکھتے ہوئے دیکھتی ہوں ۔ آپ ﷺ نے فر ما یا کہ : ’’اے عائشہ(
رضی اﷲ عنہا )یہ وہ مہینا ہے کہ جس میں فرشتے کو ایک تحریر دی جا تی ہے، اس
میں ان لوگوں کے نام درج ہو تے ہیں جن کی آئندہ سال روح قبض کی جا تی ہے ،
پس میں چاہتا ہوں کہ جب میرا نام لکھا جائے تو میں روزہ کی حا لت میں ہوں
‘‘۔(غنیۃ الطالبین)
ایک اور حدیث مبارکہ میں شب برات کے متعلق فرمان رسول ﷺ ہیـ:
’’عن اسامۃ بن زید انہ قال: قلت یارسول اﷲ، لم ارک تصوم من شھر من
الشھورماتصوم من شعبان؟ قال:ذٰلک شھریغفل الناس عنہ بین رجب ورمضان
وھوشھرترفع فیہ الاعمال الی رب العٰلمین، فأحب أن یرفع عملي وأناصائم‘‘۔
حضرت اسامہ بن زیدرضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ سے پوچھاگیا،
یارسول اﷲﷺ!آپ باقی مہینوں کی نسبت شعبان میں زیادہ روزے کیوں رکھتے
ہیں؟رسول اﷲ ﷺ نے فر ما یا کہ:’’ شعبان کا مہینا رجب اور رمضان کے درمیان
ہے اور لو گ اس (کی عظمت و اہمیت)سے غافل ہیں،اس میں بندوں کے اعمال پر ور
دگارِ عالم کی با رگا ہ میں اٹھائے جا تے ہیں،لہٰذامیں چاہتاہوں کہ جب میرے
اعمال اٹھائے جائیں تو میں روزے کی حالت میں ہوں‘ ‘۔
(سنن ابی داؤد،سنن ابن ماجہ،سنن بیہقی ،ماثبت من السنہ)
اسی طرح ایک اور حدیث شریف میں حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فر ما یا کہ:
’’رجب اﷲ تعالیٰ کا مہینا ہے،شعبان میر ا مہینا ہے اور رمضان میری امت
کامہینا ہے۔شعبان گناہوں کا مٹانے والااوررمضان المبارک گناہوں سے پا ک کر
نے وا لا ہے ‘‘۔(غنیۃ الطالبین،ماثبت من السنہ)
شب برأت کی برکتیں
شعبان المعظم کی پندرھویں شب کوشب برأت کہاجاتا ہے یعنی جہنم سے نجات اور
آزادی کی رات،مغفرت ورحمت کی رات، مرحومین کیلئے ایصالِ ثواب کی رات جو اﷲ
تعالیٰ کی طرف سے امت ِ مسلمہ کیلئے ایک خصوصی تحفہ ہے۔اس عظیم البرکت را ت
کی عظمت و فضیلت کو بیان کر تے ہوئے حضور نبی کریم ﷺ فر ما تے ہیں :
’’عن علی قال قال رسول اﷲﷺ: اذاکان لیلۃ النصف من شعبان فقوموالیلھا
وصوموایومھا فان اﷲ تعالٰی ینزل فیھالغروب الشمس الی سماء الدنیافیقول
اَلامن مستغفرٍفأغفرُلہ، اَلا مسترزقٌ فأرزقہ،أَلامن مبتلی فاعافیہ، الاکذا
الاکذا حتی یطلع الفجر‘‘۔
ترجمہ: رسول اﷲ ﷺنے ارشادفرمایاکہ: ’’ جب نصف شعبان کی رات آئے تو رات کو
جا گو اور نمازیں پڑھو جبکہ دن کو روزرکھو، اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ اس رات کو
غروب آفتاب کے وقت سے ہی آسمانِ دنیا پر توجہ فر ماتا ہے اور ارشاد فرماتا
ہے کہ …… ہے کوئی مغفرت چا ہنے وا لا کہ میں اس کی مغفرت کر دوں ……ہے کو ئی
رزق ما نگنے والا کہ میں اس کو رزق عطا کروں …… ہے کوئی گرفتارِ مصیبت کہ
میں اس کو مصیبت سے نجات دے دوں ۔ اسی طرح یہ صدائے عام برابرجا ری رہتی ہے
، یہاں تک کہ صبح صادق ہو جائے‘‘۔(سنن ابن ماجہ: جلد۲صفحہ۱۶۰،مشکوٰۃ
المصابیح،ص۱۱۵،سنن بیہقی)
حضر ت ابو ہر یرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور سیدعالم ﷺ نے فر ما یا کہ
: ’’حضر ت جبرائیل علیہ السلام شعبا ن کی پندرھویں شب کو میرے پاس آئے اور
کہا :
’’ اے محمد ﷺ ! آسمان کی طرف اپنا سر اقدس اٹھا ئیں۔ آپﷺ نے پو چھا یہ کو ن
سی رات ہے ؟۔ حضرت جبرا ئیل نے جو اب دیا، یہ وہ رات ہے کہ جس میں اﷲ
تعالیٰ رحمت کے دروازوں میں سے تین سو دروازے کھو ل دیتا ہے اور ہراس شخص
کو بخش دیتا ہے جو مشرک نہ ہو، البتہ جا دو گروں ، کا ہنوں ، عادی شرابیوں
،با بار سود کھا نے والوں اورزنا کا ر کی بخشش نہیں ہو تی جب تک کہ وہ سچی
تو بہ نہ کریں …… جب رات کا چو تھا ئی حصہ ہوا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام
نے دو با رہ عرض کی، اے اﷲ کے رسول ﷺ اپنا سراٹھا ئیں ۔ آپ ﷺ نے اپنا سر
انور اٹھا کر دیکھا تو جنت کے دروازے کھلے ہو ئے تھے اور پہلے دروزے پر ایک
فرشتہ ندا دے رہا تھا کہ اس رات کو رکوع کر نے و الوں کیلئے خوشخبری ہے
……دوسرے دروازے پر کھڑ افرشتہ کہہ رہا تھا کہ آج سجدہ کر نے وا لوں کیلئے
خوشخبری ہے …… تیسرے دروازے پر فرشتہ پکا ر رہا تھا کہ اس رات دعا مانگنے
وا لوں کیلئے خو شخبری ہے …… چو تھے دروازے والے فرشتے کی ندا تھی ،اس رات
ذکر خداوندی کر نے والوں کیلئے خو شخبری ہے …… پا نچویں دروازے پر فرشتے کی
پکا ر تھی، اس رات اﷲ تعالیٰ کے خوف سے رونے والوں کے لئے خوشخبری ہے ……
چھٹے دروازے پرفر شتے کا کہنا تھا اس رات تمام (عبا دت گزار ) مسلمانوں کے
لئے خوشخبری ہے ……سا تویں دروازے پر مو جود فرشتہ کی آواز تھی،ہے کو ئی
سائل جس کو سوال کے مطابق عطا کیا جائے ……جبکہ آٹھویں دروازے وا لا فرشتہ
کہہ رہا تھا، ہے کو ئی بخشش کا طلب گار جس کو بخش دیا جا ئے ……حضور نبی ﷺ
فر ما تے ہیں کہ میں نے پو چھا کہ یہ دروازے کب تک کھلے رہیں گے تو حضرت
جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ دروازے رات کے شروع ہو نے سے طلو ع فجر
تک کھلے رہیں گے اور اس رات اﷲ تعالیٰ(عرب کے مشہور) ’’قبیلہ بنو کلب‘‘ کی
بکریوں کے با لوں کے برا بر لو گوں کو جہنم سے آزاد فر ماد یتاہے ‘‘۔
(غنیۃ الطالبین(مترجم) : صفحہ 378،مطبوعہ پروگریسوبکس لاہور)
شب برات کے مسنون اعمال
توبہ واستغفار،تلاوت قرآن،صدقہ وخیرات،ایصالِ ثواب
شعبان المعظم کی پندرھویں شب کو حضور رحمت دو عالم ﷺ کا خاص معمول تھا کہ
آپ ﷺ خاص طور پر اس رات کو کثرت سے نوا فل ادا فر ما تے۔ جنت البقیع کے
قبرستان جا کر آپ ﷺ اس رات کو اﷲ تعالیٰ کی خوب عبادت و بندگی کر تے اور دن
کو روزے کا خاص اہتمام فر ما تے تھے ۔
کرتے رہے تلاوت عبادت تمام رات
خود مصطفی نے ایسے منائی شب برات
شعبان کی پندرہویں رات یعنی شب برات کے مسنون اور افضل ترین اعمال میں
غروبِ آفتاب سے لے کر صبح صادق تک رات بھر اﷲ تعالیٰ کی عبادت و بندگی کر
نا ، نو افل ادا کرنا ، قرآن مجید کی تلا و ت کرنا ، صدقہ و خیرات کر نا ،
تو بہ و استغفار کر نا ، ذکر و اذکار میں مصروف رہنا اور اﷲ تعالیٰ سے رحمت
و مغفرت مانگنا ، وسعت رزق و روزگار ، امن و سلامتی اور دین و دنیا کی خیر
اور بھلائیوں کی دعائیں کر نا شامل ہے ۔ نیز اپنے ماں باپ ، اساتذۂ کر ام ،
عزیز رشتہ داروں، تمام مسلمان بھائیوں اور وطن عزیز کی سلامتی واستحکام کے
لئے دعائیں ما نگنا اور حضورنبی کریم ﷺکی با رگاہ میں ھدیۂ درودو سلام
بھیجنا خصوصیت سے شامل ہیں ۔
قبرستا ن جانا……فاتحہ خوانی…… ایصالِ ثواب کرنا
شعبان کی پندرہویں شب کو اپنے عزیزواقارب اور دیگر مسلمان بھائیوں کے
ایصالِ ثواب کیلئے دعائے مغفرت و رحمت اور حصول عبرت و نصیحت کیلئے قبرستان
جا نا بھی رسول اﷲ ﷺ کی سنت ہے ۔ اسی طرح شعبان کی پندرہ تاریخ کو روزہ
رکھنا بھی سنت ہے،چونکہ یہ رات بڑی ہی برکت اور مقبولیت کی رات ہے لہٰذا جس
قدرہوسکے اﷲ تعالیٰ کے حضورخوب روروکر(یارونی صورت بنا کر)اپنے گناہوں سے
توبہ کی جائے تا کہ یہ شب برات واقعی ہمارے لئے گناہوں سے آزادی کی رات بن
جائے۔
قبرستان جانا اور مرحومین کیلئے دعائے مغفرت ورحمت کرناسنت رسول ﷺہے۔ جب آپ
قبرستان جائیں تو وضو کرکے جائیں اورقبرستان میں داخل ہوتے ہی
’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَااَھْلَ الْقُبُوْرِ‘‘(یعنی اے قبروں والے تم
پرسلامتی ہو) کہیں اور قبروں کے تقدس اور احترام کا پوراپوراخیال رکھتے
ہوئے اپنے عزیزوں، رشتہ داروں، اساتذہ اوردوست احباب کی قبروں پر جائیں اور
وہاں کھڑے ہو کریابیٹھ کرقرآن پاک یا مخصوص سورتوں کی تلاوت کریں، درودشریف
پڑھیں اور پھرسب مسلمانوں کیلئے اور بالخصوص اپنے عزیز واقارب کیلئے فاتحہ
خوانی کریں اور دعائے مغفرت ورحمت کریں۔
شب برأت کے خصوصی نوافل
O شب برأت کو نمازِعصرادا کرنے کے بعدمسجدیاگھر میں ایک تسبیح (۱۰۰ مرتبہ)
’’اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ
اِلَیْہِ‘‘اورایک تسبیح’’لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّابِاللّٰہِ
الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ‘‘پڑھ لیں۔
O نمازِمغرب کی ادائیگی کے بعد6نوافل دودورکعات کرکے پڑھیں۔ہر 2رکعت نفل
پڑھنے کے بعد ایک بارسورۂ یٰسین اوردعائے نصف شعبان پڑھیں۔اس کے بعدخصوصیت
کے ساتھ رزق اورروزگارمیں خیروبرکت اور وسعت کیلئے دعاکریں کہ یااﷲ مجھے
صرف اپنامحتاج بنا اور غیروں کی محتاجی سے محفوظ فرما۔
O پھر2رکعت نفل پڑھیں اور ایک بارسورۂ یٰسین اوردعائے نصف شعبان پڑھیں،اس
کے بعدخصوصیت کے ساتھ درازیٔ عمربالخیرکیلئے دعاکریں۔
O پھر2رکعت نفل پڑھیں اور ایک بارسورۂ یٰسین شریف اوردعائے نصف شعبان
پڑھیں،اس کے بعدخصوصیت کے ساتھ ناگہانی آفات وحادثات سے بچنے کیلئے دعا
کریں کہ یااﷲ مجھے ہر قسم کی زمینی وآسمانی بلاؤں اورآفات وحادثات سے محفوظ
فرما۔
O پھر اس کے بعدنمازِ عشاء کی ادائیگی کے بعدایک تسبیح’’اَللّٰھُمَّ
اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَفَاعْفُ عَنِّیْ
یَاغَفُوْرُ‘‘پڑھیں۔پھر8رکعات نوافل دو دو کرکے ادا کریں اور ہر رکعت میں
سورۂ فاتحہ کے بعد10 بار سورۃ الکافرون پڑھیں۔پھر 2 رکعت نفل پڑھیں اور ہر
رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد10 بار سورۃ الاخلاص پڑھیں۔ پھر2رکعت نفل پڑھیں
اور ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد10 بار سورۃالفلق پڑھیں۔ پھر2رکعت نفل
پڑھیں اور ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد10 بارسورۃ الناس پڑھیں۔ اس کے بعد
ایک بارسورۃ الکہف،سورۂ یٰسین،سورۃ الدخان، سورۃ الرحمٰن، سورۃ الواقعہ،
سورۃالملک اور سورۃ المزمل پڑھ لیں اورپھر ساری رات تلاوت قرآن مجید،درود
شریف،توبہ واستغفار،ذکرواذکار اور نوافل اداکرتے رہیں۔
O حضور اکرم ﷺ نے فرمایاجو شخص رات کوسوتے وقت تین بار یہ دعا پڑھے : ’’
اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ الَّذِیْ لَااِلٰہَ اِلَّاھُوَالْحَيُّ الْقَیُّوْمُ
وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ‘‘ تو اﷲ تعالیٰ اس کے تمام گناہوں کو بخش دے گا خواہ
وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہو ں یا ریتلی وادی کی ریت یا درخت کے پتوں یا
دنیا کے ایام کے برابرہوں۔(جامع ترمذی، مشکوٰۃ)
O تین مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھنے کا ثواب: جو شخص صدق دل سے تین بارکلمہ طیبہ
(لاالٰہ الااﷲ محمد رسول اﷲ) پڑھے، اﷲ تعالیٰپہلی مرتبہ پڑھنے پراس کے گناہ
معاف کردیتا ہے۔ دوسری بار پڑھنے سے جہنم سے آزادی عطا کر دیتا ہے اور
تیسری مرتبہ پڑھنے پرجنت واجب فرمادیتا ہے۔
صلوٰۃ التسبیح کی فضیلت
حضرت عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺنے ارشاد فرمایاکہ جو شخص
صلوٰۃ التسبیح پڑھے گا تواﷲ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے ، دانستہ ونادانستہ
چھوٹے بڑے تمام گناہ معاف فرما دیتاہے۔ اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ اگر ممکن
ہو تو اس نماز کوروزانہ پڑھاکرو یا ہر جمعہ کو پڑھ لو یا مہینہ میں ایک بار
پڑھ لو یا سال میں ایک بار پڑھ لو اور یہ بھی نہ ہو سکے تو کم سے کم زندگی
میں ایک بار ضرور پڑھ لیں۔
(سنن ابوداؤد،سنن ابن ماجہ،جامع ترمذی،سنن بیہقی،مشکوٰۃ المصابیح)
صلوٰۃ التسبیح کا طریقہ
چار رکعت صلوٰۃ التسبیح کی نیت باندھ کر ’’سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ‘‘پڑھیں،
پھر 15مرتبہ تیسرا کلمہ (سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ
وَلَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُوَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ
اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم) پڑھیں ۔پھر سورۂ فاتحہ اورکوئی
سورت پڑھیں ،پھر 10 باریہی کلمہ پڑھیں۔ پھر رکوع میں’’سبحان ربی العظیم‘‘
کے بعد10باریہی کلمہ،پھر قومہ میں(تسمیع وتحمید کے بعد)10بار،پھرپہلے سجدہ
میں’’سبحان ربی الاعلیٰ‘‘ کے بعد 10 بار،پھر جلسہ میں 10 بار،پھردوسرے سجدے
میں10بار یہی کلمہ پڑھیں۔اس طرح ایک رکعت میں 75بار یہ کلمہ پڑھاجاتا ہے۔
پھر اسی طرح دوسری رکعت، تیسری اور چوتھی رکعت میں کھڑے ہو کرپہلے 15
بارتسبیح پڑھیں اورپھر الحمد اور سورت پڑھ کر اسی ترتیب سے باقی تسبیحات
اوررکعتیں پڑھیں۔ اس طرح چاروں رکعتوں میں پچھہتر (75) بار پڑھنے سے کل
تسبیحات 300بار پڑھی جائیں گی۔
خصوصی نوٹ:
صلوٰۃ التسبیح کی چاروں رکعتوں میں کوئی بھی سورت پڑھی جا سکتی ہے اور
آسانی کے لیے چاروں قل پڑھ لیں…… اور یہ کہ اگر کسی رکن(مثلاً رکوع ،سجدہ)
میں تسبیح پڑھنا بھول جائیں تو اگلے رکن میں اتنی بار زیادہ پڑھ لیں…… یہ
نماز مکروہ وقت کے علاوہ کسی بھی وقت پڑھی جا سکتی ہے، البتہ زوال کے
بعداور نمازِ ظہرسے پہلے پڑھنا مسنون اور زیادہ ثواب ہے……ان تسبیحات کوگننے
کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہاتھ اپنی حالت پر رکھاہو اہو اور صرف انگلیاں اٹھا
کر گنتے رہیں، لیکن زبان سے ہرگزنہ گنیں ، ورنہ نماز ٹوٹ جائے گی۔
شب برات ہررات کے خصوصی عملیات
حضور اقدس ﷺنے ایک مرتبہ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے ارشاد فرمایا:
’’اے علی! ہررات کو پانچ کام کرکے سویا کرو‘‘۔
(۱) چارہزار دیناصدقہ دے کر سویا کرو۔
(۲) ایک قرآن شریف پڑھ کرسویا کرو۔
(۳) جنت کی قیمت دے کرسویا کرو۔
(۴) دولڑنے والے والوں میں صلح کراکر سویا کرو۔
(۵) ایک حج کرکے سویا کرو۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ!یہ امورمحال (ناممکن) ہیں،
مجھ سے کیسے ہو سکیں گے؟حضور سید عالم ﷺ نے ارشادفرمایا کہ:
۱۔ چار مرتبہ سورۃ الفاتحہ(الحمد) پڑھ کرسویا کرو،اس کاثواب چارہزار
دینارصدقہ کے برابر تمھارے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا۔
۲۔ تین مرتبہ قل ھواﷲ احدپڑھ کرسویا کروایک قرآن مجید پڑھنے کے برابرثواب
ہو گا
۳۔ دس مرتبہ درود شریف پڑھ کر سویاکرو، جنت کی قیمت ادا ہوگی۔
۴۔ دس مرتبہ استغفار(اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ
وَّاَتُوْبُ اِلَیْہِ)پڑھ کر سویاکرو، دو لڑنے والوں کے درمیان صلح کرنے
کاثواب ہو گا۔
۵۔ چار مرتبہ تیسراکلمہ (سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وَلَااِلٰہَ
اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُوَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا
بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم) پڑھ کر سویاکرو، ایک حج کا ثواب ملے
گا۔پھر حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا: ’’یارسول اﷲﷺ! اب تو میں روزانہ
یہی عملیات کرکے سویا کروں گا‘‘۔
آتش بازی اورپٹاخوں کا شیطانی عمل
شب برأت بہت بابرکت اورعظمت والی رات ہے اور یہ رات عبادتِ خداوندی، تلاوت
قرآن،ذکرواذکار،توبہ واستغفاراوردرودشریف پڑھنے کی رات ہے،لیکن کچھ ناسمجھ
اور نادان لوگ اس رات آتش بازی اور پٹاخے پھوڑتے ہیں، حالانکہ اس رات سے
آتش بازی اور پٹاخوں کا کوئی تعلق اورمناسبت نہیں ہے بلکہ اس بابرکت رات
میں آتش بازی کرنایاپٹاخے پھوڑنا سراسرناجائز،گناہِ کبیرہ ، حرام کاری
اورشیطانی عمل ہے۔کس قدر احمق اور نادان ہیں وہ لوگ جو اس مقدس رات میں آتش
بازی اورشیطانی عمل کرکے نہ صرف اپنی دولت کو آگ لگاتے ہیں بلکہ پٹاخوں کے
شور اورہنگاموں سے اﷲ تعالیٰ کے بندوں کوناجائزاذیت وتکلیف دے کر اﷲ تعالیٰ
کو ناراض کرتے ہیں،کیونکہ مسلمانوں کوناجائزتنگ اورپریشان کرنے اورانھیں
کسی قسم کی اذیت و تکلیف دینے سے متعلق رسول اﷲﷺارشادفرماتے ہیں:
﴿ اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَیَدِہٖ۔ ﴾
ترجمہ: ’’ (حقیقی) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کی اذیت وتکلیف) سے
دوسرے مسلمان محفوظ ہوں‘‘۔(صحیح بخاری،صحیح مسلم)
﴿ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: وَاللّٰہِ لَایُؤْمِنُ، وَاللّٰہِ لَایُؤْمِنُ،
وَاللّٰہِ لَایُؤْمِنُ قِیْلَ مَنْ؟ یَارَسُوْلَ اللّٰہِﷺ! قَالَ اَلَّذِیْ
لَایَامَنُ جَارُہٗ بِوَائِقِہٖ۔(متفق علیہ) قَالَ النَّوَوِیْ:وفی روایۃ
لمسلم : لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ لَّا یَأْمَنُ جَارُہٗ بَوَائِقَہٖ۔
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے تین
مرتبہ فرمایاکہ ’’ اﷲ کی قسم وہ ایمان نہیں رکھتا‘‘۔ پوچھا گیا:’’ یا رسول
اﷲ ﷺ! کون ایمان نہیں رکھتا‘‘؟ فرمایا کہ:
’’ وہ شخص جس کا پڑوسی اس کی (زبان اور ہاتھ کی) تکلیفوں(اورشرانگیزی) سے
محفوظ نہ رہے ‘‘۔ جبکہ علامہ شرف الدین یحییٰ نووی کہتے ہیں کہ صحیح مسلم
کی روایت میں یہ ارشاد ہے : ’’جنت میں وہ شخص داخل نہیں ہو گا، جس کا پڑوسی
اس کی شر انگیزی سے محفوظ نہیں ‘‘۔(ریاض الصالحین ، باب حق الجار والوصیۃ
بہ ، حدیث نمبر ۳۰۷)
رسول اﷲ ﷺ نے اپنے متعددارشادات اور فرامین میں حقیقی مسلمان کی نشانی یہ
بیان فرمائی ہے کہ اس کی ذات سے کسی مسلمان کو اذیت وتکلیف نہیں پہنچتی۔
لہٰذا ہر مسلمان بشمول والدین،بہن بھائیوں، سرپرستوں، ائمہ وخطباء، پرنٹ و
الیکٹرانک میڈیاکے صحافیوں،اینکرز اورمعاشرے کے بزرگوں پرفرض ہے کہ وہ ایسے
تمام افراد اور بچوں کوجو اس حرام اورناجائز عمل میں ملوث ہوں سختی سے
روکیں تا کہ اس بابرکت رات میں عبادت کرنے والے مسلما ن خواتین و حضرات کی
عبادت میں خلل واقع نہ ہواور وہ دلجمعی سے اﷲ تعالیٰ کی عبادت کر سکیں۔
دُعاہے کہ اﷲ تعالیٰ ہم سب اہل ایمان کوحسن عمل کی ہمت وتوفیق عطا فرمائے
اورہم سب کی جملہ عبادات اورصدقات وخیرات کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے۔( آمین
ثم آمین )
دُعاء نصف شعبان المعظم
اَللّٰھُمَّ یَا ذَالْمَنِّ وَلَا یُمََنُّ عَلَیْہِ یَا ذَاْلَجَلَالِ
وَالْاِکْرَامِ o یَا ذَالطَّوْلِ وَالْاِ نْعَامِ oلَا اِلَہَ اِلَّا
اَنْتَ ظَھْرُ الَّاجِیْنَ وَ جَارَ اْلمُسْتَجِیْرِیْنَ وَاَمَانُ الْخَاْ
ئِفِیْنَo اَللّٰھُمَّ اِنْ کُنْتَ کَتَبْتَنِیْ عِنْدَکَ فِیْ اُمِّ
الْکِتٰبِ شَقِیّاً اَوْمَحْرُوْماً اَوْ مَطْرُوْدًا اَوْمُقَتَّراً
عَلَیَّ فِی الرِّزْقِ فَامْحُo اَللَّھُمّٰ بِفَضْلِکَ شَقَاوَتِیْ
وَحِرْمَانِیْ وَطَرْدِیْ وَاقْتِتَارَ رِزْقِیْ وَاثْبِتْنِیْ عِنْدَکَ
فِیْ اُمِّ الْکِتَابِ سَعِیْدًا مَّرْزُوْقاً مُّوَفِّقاً لِّلْخَیْرَاتِo
فَاِنَّکَ قُلْتَ وَقَولُکَ الْحَقُّ فِیْ کِتَابِکَ المُنَزَّلِ عَلٰی
لِسَانِ نَبِیِّکَ الْمُرسَلِ یَمْحُوا اللّٰہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثْبِتُ
وَعِنْدَہٗ اُمُّ الْکِتَابِo اِلٰھِیْ بِالتَّجَلِّی الْاَعْظَمِ فِیْ
لَیْلَۃٍ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانِ اْلمُکَرَّمِ الَّتِیْ یُفْرَقَ فِیْھَا
کُلُّ اَمْرٍحَکِیْمٍ وَّیُبْرَمُ اَنْ تَکْشِفَ عَنَّامِنَ الْبَلَاءِ
وَالْبَلْوَاءِ مَانَعْلَمُ وَ مَالَا نَعْلَمُ وَمَا اَنْتَ بَہٖٓ
اَعْلَمُ اِنَّکَ اَنْتَ الاَعَزُّ الْاَ کْرَمُo وَصَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَولَانَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِہٖ
وَاَصْحَابِہٖ وَسَلَّم وَالْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo
ترجمہ: اے اﷲ عزوجل اے حسان کرنے والے کہ جس پر احسان نہیں کیاجاتا، اے بڑی
شان وشوکت والے اے فضل وانعام والے، تیرے سواکوئی معبودنہیں توپریشان حالوں
کا مددرگار، پناہ مانگنے والوں کو پناہ اور خوف زدوں کو امان دینے والا
ہے،اے اﷲ! اگر تو اپنے یہاں ام الکتاب (یعنی لوحِ محفوظ) میں مجھے شقی
(بدبخت) ، محروم، دھتکاراہو ااوررزق میں تنگی دیاہوالکھ چکا ہے تو اے اﷲ
اپنے فضل سے میری بدبختی، محرومی، ذلت اور رزق کی تنگی کو مٹادے اور اپنے
پاس ام الکتاب میں مجھے خوش بخت،رزق دیاہوا اور بھلائیوں کی توفیق دیا
ہواثبت فرمادے کہ تو نے ہی تیری نازل کی ہوئی کتاب میں تیرے ہی بھیجے ہوئے
نبی ﷺکی زبان پر فرمایا اورتیرا فرمانا حق ہے’’ اﷲ جو چاہے مٹا تا ہے
اورثابت کرتا ہے اور اصل لکھا ہوااسی کے پاس ہے‘‘۔اے اﷲ! تجلی اعظم کے
وسیلے سے جو نصف شعبان المکرم کی رات میں ہے کہ جس میں بانٹ دیاجاتا ہے ہر
حکمت والا کام اور اٹل کردیا جاتا ہے، یا اﷲ! مصیبتوں اور رنجشوں کو ہم سے
دور فرما کہ جنھیں ہم جانتے اور نہیں بھی جانتے جبکہ تو انھیں سب سے زیادہ
جاننے والا ہے۔ بے شک تو سب سے بڑھ کر عزیز اور عزت والا ہے۔ اﷲ تعالیٰ
ہمارے سردار محمد(ﷺ)پر اورآپ کی آل واصحاب (رضی اﷲ عنہم)پردرودوسلام بھیجے،
سب خوبیاں سب جہاں کے پالنے والے اﷲ تعالیٰ کیلئے ہیں۔ |