ان دنوں جب ہر طرف فریڈم آف سپیچ (Freedom of Speech) کا
چرچا ہے آج پھر سے ان الفاظ کے مفہوم سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔اسی کھوج
میں 1973 کے آئین کے آرٹیکل 19تک جا پہنچا ہوں اس آرٹیکل کے مطابق پاکستان
کا ہر شہری اپنی رائے کے آزادانہ اظہار کا حق رکھتا ہے اسی شق میں فریڈم آف
پریس کے الفاظ بھی موجود ہیں،لیکن ساتھ ہی ساتھ آئین پاکستان کے اسی آرٹیکل
میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں ملکی سالمیت،اسلام،بیرون ممالک کے ساتھ تعلقات
اور عدلیہ اس اظہار رائے کی آزادی سے متاثر نہ ہو۔مجھے سکریہ ادا کرنا ہے
پی ایف یو سی (پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹ)کا جنہوں نے نئے لکھنے والوں
کے لئے ایک تربیتی نشست کا اہتمام کر رکھا تھااسی نشست میں عرض کیا کہ
اظہار رائے کی آزادی ہونی چاہئے لیکن حدود و قیودبھی طے ہونی چاہئے۔ جہاں
ہمارا معاشرہ ہر طرح سے پستی کا شکار ہو رہا ہے تو اس پستی کا اثر میڈیا پر
بھی ہوا ہے اور جب معاشرے تباہی کی طرف جا رہے ہوں تو وہاں کچھ محفوظ نہیں
رہتا وہاں ’’آزادی‘‘ کو اسی طرح سے ڈھال بنایا جاتا ہے۔
برادرم سلیمان عابد نے ’’اظہارِ آزادیٔ رائے‘‘جیسے اہم موضوع پر بڑ ی
خوبصورت باتیں کیں کہ جمہوریت رائے کے اظہار کی آزادی تودیتی ہے مگر یہ
آزادی مادرپدرآزادی نہیں ہے کہ کوئی پوچھ گچھ ہی نہ ہو۔اگر آپ کے قول یا
تحریر سے کوئی شخص متاثر ہورہا ہے تو آپ اُس آزادی کی حد سے آگے جا رہے
ہیں۔ہرملک میں ایسا ہوتا ہے کہ ریاست اپنے ریاستی میڈیا کو قواعد وضوابط کا
پابند بناتی ہے اور پھر پرائیویٹ میڈیا ریاستی میڈیا کے نقش قدم پر چلتے
ہوئے اُن قواعد وضوابط کا خیال رکھتا ہے۔اس کے علاوہ میڈیا کے اپنے بھی کچھ
قواعد وضابط ہوتے ہیں جن کی پاس داری میڈیا گروپوں پر لازم ہوتی ہے۔مگر
ہمارے ہاں اس کے برعکس ہورہا ہے۔پرائیویٹ میڈیا ہمارے ریاستی میڈیا کو
ڈکٹیٹ کررہا ہے ۔حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ میڈیا ریاست کی پالیسی کے مطابق
کام کرے جیسے امریکہ اور باقی یورپیئن ممالک میں ہوتا ہے۔اسی طرح میڈیا کو
تنقید کا تو حق ہوتا ہے مگر آج کل تنقید اپنی حد پارکرکے ’’تضحیک‘‘کے درجے
میں پہنچ گئی ہے جو بہت پریشان کن بات ہے۔ہمارے ہاں اکثرکالم نگار صرف اپنی
تحریر کو سچ مانتے ہیں اور کسی کی کوئی بات بھی انہیں سچ نظر نہیں آتی اس
کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں میں برداشت کا مادہ ختم ہورہا ہے۔اسی طرح میڈیا کی
آزادی کے حوالے سے یہ بات بہت حد تک نقصان دہ ہے کہ ایڈیٹر انسٹی ٹیوشن ختم
ہوگیا ہے ۔
ایسے کالم لکھے جانے چاہئے جس سے سوسائٹی تقسیم درتقسیم نہ ہو اور متحد
ہوسکے۔ریاست کی پالیسی کے مطابق کام کریں خاص کر قومی سلامتی کے امور کے
بارے میں تو انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہیے تاکہ جگ ہنسائی کا موقع کسی
کو میسر نہ آئے۔جس طرح جیو نے ڈی جی آئی ایس آئی پر الزامات لگا کر لوگوں
کو پاکستان پر آوازیں کسنے کا موقع فراہم کیا۔کالم نگاروں کو چاہیے کہ خود
اپنے اوپر قواعد وضوابط لاگو کریں اور ذمہ داری کے ساتھ کالم لکھیں۔کالم
نگاروں کو موضوعات کی تخصیص کرنی چاہیے یعنی کالم نگاروں کی بھی
specializationہونی چاہیے۔
برادرم اطہر خرم کے مطابق صحافت کی فیلڈمیں نئے آنے والوں کے لیے صحیح
معنوں میں عملی کاوشوں کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔جبکہ ہماری
یونیورسٹیاں تو صرف ڈگریاں بانٹ رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی سے ماس
کمیونیکیشن میں ماسٹر کی ڈگری لینے والے کو صحافت کے عملی کام کی الف ب تک
معلوم نہیں ہوتی۔اُس کی وجہ یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کا نصاب پاکستان کی عملی
صحافت سے یکسر مختلف ہے۔ کہ بیرونی ممالک میں رپوٹرز اور صحافیوں کی
باقاعدہ ٹریننگ ہوتی ہے کہ جنگ کی رپوٹنگ کیسے کرنی ہے اور عام حالات میں
رپورٹٹنگ کیسے کرنی ہے‘مگر بہت افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ ہمارے ہاں ایسا
کچھ نہیں ہے بلکہ یہاں تو کوئی ایسا انسٹی ٹیوشن ہی نہیں ہے جو لوگوں کو
عملی ٹریننگ دے سکے۔
اے ایم ساجد نے صحافی کو معاشرے کی آنکھ‘کان اور زبان ہوتاہے اس لیے اُ سے
چاہیے کہ وہ اپنے اردگرد کے عوامی مسائل کو اُجاگر کرے اور کسی سیاسی پارٹی
کا ترجمان نہیں بننا چاہئے ۔
اسی نشست میں بزرگوار سجاد میر نے چند دن پہلے جیو کے مارننگ شو میں ہونے
والے واقعے پر کہااگر تو یہ سب کچھ دانستہ ہوا تو یہ بہت بڑی سازش ہے اور
اس میں شامل لوگوں کو کڑی سے بھی کڑی سزا دینا لازم ہے اور اگر یہ غیر
دانستہ ہوا ہے تو پھر یہ اور بھی خطرناک بات ہے اس لیے کہ اس سے معلوم ہوتا
ہے کہ ہماری معاشرتی اور اسلامی اقدار کو لوگ بھول چکے ہیں اور یہ بیماری
ہماری جڑوں کو کاٹ رہی ہے۔ امریکہ کی ایک کمپنی نے سروے کیا کہ کس طرح
پاکستان کو اُن کی معاشرتی اقدادسے دور کیا جا سکتا تو اس کا جواب یہ ملا
کہ صوفیاء کے ذریعے ایسا کرنا ممکن ہے۔اس پر امریکہ نے فنڈ جاری کیے اور
ایک بڑے پیمانے پر اب ’’صوفی ازم‘‘کو فروغ دیا جا رہا ہے۔اب صوفی میوزک بہت
مشہور ہوگیا حالانکہ یہ سراسر بے حیائی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اُس دن جیو کے
پروگرام میں کسی کو پتا نہ چلا کہ صوفیانہ شاعری پر کیسی بد تہذیبی ہورہی
ہے۔ اب ہمارے ہاں یہ رجحان زور پکڑ رہا ہے کہ ہمارے سیاستدان کسی صحافی کو
ہائر کرکے اُس سے کالم لکھواتے ہیں اور پھر سیاستدان کے نام سے وہ کالم
شائع ہوتا ہے۔ کالم نگاروں نے علامہ اقبال خطبہ الہٰ باد میں موجود اس جملے
کو مشعل راہ بنانا چاہیے:’’مجھے کسی پارٹی کی ضرورت نہیں اور نہ میں کسی
لیڈر کے نقش قدم پہ چلوں گا‘‘۔
اس نشست میں روزنامہ جہان پاکستان کی نمائیندگی ایڈیٹر ایڈیٹوریل جناب اشرف
سہیل کر رہے تھے۔محترم اشرف سہیل شفقت و ررہنمائی بھی فرماتے ہیں۔راقم
الحرو ف کی دعوت پر تشریف بھی لائے اسی نشست میں جب نوجوانوں نے صحافت کے
چند نام لے کر موروثیت پر بات کرنا چاہی کہ صحافت میں بھی مورثیت آگئی تو
عزیزم اشر ف سہیل صاحب نے بڑے خوبصورت جوابات دیے ’’کہ اب وقت آگیا ہے کہ
ہمیں موروثی سیاست اور موروثی صحافت سے آزاد ہوکر سوچنا چاہیے۔میڈیا کو بہت
جلدی آزادی حاصل ہوئی یہی وجہ ہے کہ اُن سے یہ آزادی ذمہ داری سے ادا نہ
ہوسکی اور جیو والا واقعہ پیش آیا جو میرے نزدیک انتہائی غلط ہوا۔انہوں نے
کہا کہ یہاں ہر ایک کو موقع ملنا چاہیے اور پھر جو اس موقع سے فائدہ اٹھائے
وہ ترقی کی منزلیں طے کرکے ایک مشہور ومعروف شخصیت بن سکتا ہے۔
محترم عباس تابش نے ایک بڑا اچھا واقعہ سنایاکہ بھارت کے ایک مشاعرے میں
ایک سینئر شاعر اپنا کلام سنا رہے تھے کہ پچھلی نشستوں سے ایک نوجوان نے
آوازیں کسنا شروع کر دیں تو شاعر نے نوجوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا’’بیٹا
اگر میں اٹھ کر تمہاری نشست تک پہنچنا چاہوں اس میں مجھے صرف دو منٹ لگیں
گے لیکن اگر تم وہاں سے اٹھ کر سٹیج تک آنا چاہو تو تمہیں چالیس سال کا
عرصہ لگے گا‘‘۔
تقریب کے میزبان بدر سعید،شہزاد چوہدری،حافظ ذوہیب طیب ،فرید رزاقی اور
شہباز سعید نے میزبانی کے فرائض صحیح معنوں میں ادا کئے ۔میرے خیال میں
ایسی محفلوں کا آغاز دوبارہ سے ہونا چاہئے ،مکالمے کی روایت کو برقرار
رکھنا چاہئے سے اس سے کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ |