گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا

گالیوں سے پرہیز کریں آپکو جرمانہ یا سزا ہوسکتی ہے۔

اتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب ۔گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا، بعض کہنے والے کہتے ہیں گالیاں تہںیب کی علامت ہیں،اگر آپ کو کسی کے اہل زبان ہونے کا پتا لگانا ہو تو ان کی گالیوں کا موازنہ کریں ، وہیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ سیانے کہتے ہیں کہ کسی زبان کو سیکھنا ہو تو اسکے لئے سب سے پہلے اس کی گالیاں سیکھنی چاھئیں۔شائد اسی لئے اس سیانے نے یہ بات ایک گالی دیتے ہوئے کہی تھی۔گالی کا خیال اس لئے آیا کہ روسی صدر نے ایک حکم نامہ جاری کر دیا ہے، جس کی رو سے گالیاں دینے والوں پر جرمانہ کیا جائے گا۔ دوران گفتگو شائستہ زبان کا استعمال اچھی شخصیت کاآئینہ دار ہوتا ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ گالم گلوچ اور انسانی رویوں کے مابین ایک فطری تعلق پایا جاتا ہے۔ اشتعال کے عالم میں بڑے بڑے دانش ور اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی بازاری زبان استعمال کرتے ہیں، تاہم روسی شہریوں کو اب غصے کی حالت میں بھی اپنے جذ بات پر قابو رکھنا ہوگا، بہ صورت دیگر ان کی جیب پر بوجھ پڑے گا۔دراصل روس میں حال ہی میں ایک قانون منظور کیا گیا ہے جس کے تحت فحش گوئی اور نازیبا زبان استعمال کرنے پر جرمانہ عائد ہوگا۔ اس قانون کی منظوری گذشتہ پیر کو روسی صدر ولادیمیر پیوتن نے دی جس کا اطلاق یکم جولائی سے ہوگا۔ قانون کے مطابق فحش گوئی کا الزام ثابت ہونے پر ایک فرد پر ڈھائی ہزار روبل تک جرمانہ عائد ہوگا، جب کہ اداروں کے لیے جرمانے کی حد 50000 روبل تک ہے۔یکم جولائی سے تمام ثقافتی، تفریحی اور فن سے متعلق تقاریب میں نازیبا زبان استعمال کرنا ممنوع ہوگا۔ اگر کسی فلم میں فحش مکالمات شامل ہوئے تو اسے نمائش کا اجازت نامہ جاری نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح جن کتابوں، سی ڈیز میں بیہودہ الفاظ استعمال کیے گئے ہوں، ان کی پیکنگ پر ’’ نازیبا الفاظ شامل ہیں‘‘ درج ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ جہاں کہیں نازیبا الفاظ پر تنازع جنم لے گا وہاں ماہرین کا ایک پینل الفاظ کے بیہودہ ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرے گا۔ روس میں مخالفین کی جانب سے اس قانون پر تنقید کی جارہی ہے جو اسے آزادی اظہار پر قدغن لگانے سے تعبیر کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح قدامت پسند اور قوم پرست نقطہ نظر کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ اس قانون کا اطلاق سوشل میڈیا، جیسے فیس بْک اور ٹویٹر کے استعمال کنندگان پر ہوگا یا نہیں۔ بھارت کے پارلیمانی انتخابات کی مہم بھی گالی گلوچ سے گزر کر اب شائستگی کے دائرہ میں آئی ہے۔ الیکشن میں سیاست دانوں کی زبان شدت اختیار گئی تھی۔ الیکشن کے جلسوں یں حریف رہنماؤں نے ایک دوسرے کے خلاف جس طرح کی زبان استعمال کی ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے ایک تقریر میں میں مودی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’زہرکی کھیتی کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ انہیں ایک بار ’موت کا سوداگر کہہ چکی ہیں۔بی بے پی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی سونیا گاندھی کے غیر ملکی ہونے پر اکثر طنز کرتے رہے ہیں۔ وہ کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی کو ہمیشہ ’شہزادے‘ کہہ کرمخاطب کرتے ہیں۔پچھلے دنوں انھوں نے کہا کہ اگر سونیا گجرات کی ترقی کے بارے میں سوال کر سکتی ہیں تو پھر ’شہزادے کی ماں کے بارے بھی سوال اٹھ سکتے ہیں۔‘لیکن سونیا گاندھی کے بارے میں سب سے زیادہ غیر پارلمیانی بیان ایک آر ایس ایس نواز سادھو بابا رام دیو کی طرف سے آیا۔ انھوں نے سونیا گاندھی کو ’غیر ملکی لٹیری بہو‘ کہا اور ان کا موازنہ ایک تمثیلی دیونی سے کیا جو سب کو نگل جاتی ہے۔"عوامی بیداری، تبدیلی کی خواہش، بڑی تعداد میں نئے ووٹروں کی موجودگی اور سوشل میڈیا کے سبب اس بار کے پارلیمانی انتخابات ماضی کے مقابلے زیادہ سخت اور چیلنجنگ رہے ہیں۔ انتخابی مہم میں سیاست دان کروڑوں روپئے داؤ پر لگا کر ہر قیت پر انتخاب جیتنا چاہتے ہیں۔ "مودی نے کچھ دنوں پہلے کہا تھا کہ بھارت کو تین ’اے کے سے خطرہ ہے، اے کے47 یعنی دہشت گردی، وزیر دفاع اے کے اینٹونی جنہوں نے بقول مودی فوج کے جذبوں کو پست کیا اور تیسرے اے کے یعنی اروند کیجریوال جو ملک کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔مودی کے خلاف سب سے سخت بیان سہارن پور سے کانگریس کے امیدوار عمران مسعود کی طرف سے آیا۔ انہوں نے کہا: ’اگر مودی نے یوپی کو گجرات بنانے (فسادات کرانے) کی کوشش کی تو وہ مودی کی بوٹی بوٹی کر دیں گے۔‘ انھیں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا ہے۔سماجوادی پارٹی کی ایک امیدوار ناہید حسن نے مایاوتی کا مذاق اڑاتے ہوئے ایک تقریر میں کہا: ’مایاوتی تین بار مودی کی گود میں بیٹھ چکی ہیں۔ اور دونوں ہی غیر شادی شدہ ہیں۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ گالیاں دینے کے بھی آداب ہوتے ہیں مرزا نوشہ اسد اﷲ خان غالب کے مخالف انہیں خطوط میں گالیاں لکھتے رہتے تھے۔ ایک بار کسی مخالف نے انہیں ماں کی گالی لکھ دی۔ مرزا اسے پڑھ کر ہنسے اور بولے، اس بیوقوف کو گالی دینے کا بھی شعور نہیں ہے۔ بوڑھے اور ادھیڑ عمر شخص کو بیٹی کی گالی دینی چاہئیے تاکہ اسے غیرت آئے۔ جوان آدمی کو ہمیشہ جورو کی گالی دو کہ اسے جورو سے بہت لگاؤ ہوتا ہے اور بچے کوہمیشہ ماں کی گالی دیتے ہیں کیونکہ وہ سب سے زیادہ ماں سے مانوس ہوتا ہے۔ہمارا ذوق بھی خوب ہے کہ اردو زبان کی گالی دل پر جا لگتی ہے اور انگریزی میں دی گئی گالی کو ہنسی خوشی مذاق ہی مذاق میں ٹال دیتے ہیں۔ ہماری تہذیب میں گالیاں دینا سخت معیوب سمجھا جاتا تھا۔گالی کا تہذیب یا بدتہذیبی سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ ذخیرہ الفاظ کیطرح یہ بھی ایک زبان کے زندہ ہونے کی نشانی ہوتی ہیں مثلا اربن ڈکشنری کو ہی لیجئے۔ پہلے تو یہ بھی گالی میں شمار ہوتا تھا کہ ‘اجی کیا پاجامہ آدمی ہیں آپ، یہ بلی کا گو لے کر آے کیا’’ پنجابی زبان کو گالیوں کے حوالے سے بڑا بدنام قرار دیا جاتا ہے۔بقولِ یوسفی ‘‘گنتی، گالی اور گندہ لطیفہ اپنی مادری زبان میں ہی لطف دیتے ہیں۔ پنجابی زبان کے بارے میں میاں محمد طفیل سابق امیرِ جماعت ‘‘اسلامی’’ کیا خوب فرما گئے ہیں کہ ‘‘پنجابی فقط گالیوں کی زبان ہے۔ ایک صاحب جو عرصے کے بعد پاکستان آئے تھے، فرماتے ہیں کہ ملتان میں جمعہ کا خطبہ سنا اور پہلی بار اتنی ساری پنجابی زبان بغیر گالی کے سنی تو کانوں پر یقین نہ آیا۔ چٹکی لے کر یقین دلایا گیا کہ خواب نہیں تھا۔ وہ لطیفہ بھی آپ کو یاد ہوگا کہ ایک پنجاب سے تعلق رکھنے والے کی ایک انگریز سے لڑائی ہوگئی، انھوں نے انگریزی میں خوب گالیاں دیں، لیکن جب دل نہ بھر اور طبعیت سیر نہ ہوئی تو فرمانے لگے، مور اوور ان پنجابی اور پھر اپنی زبان میں دل کھول کر گالیاں دیں۔ لغت کے لحاظ سے گالی ، نا شائستہ ، نازیبا ، سخت ، کڑوے کسیلے الفاظ کا وہ مجموعہ ہے جو کسی کو ذلیل کرنے کے لیے اور اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے بولا جائے۔ یہ ایک آلہ ہے جس کے ذریعے یہ پیمائش کی جا سکتی ہے کہ ایک فرد ، سماج یا معاشرہ کتنا تہذیب یافتہ ہے ؟" گالی " عموماً غصّے کی حالت میں وجود میں آتی ہے۔ لیکن کبھی کبھی زبان کی علاقائی فرق کی وجہ سے بھی عجیب و غریب انداز میں لا شعوری طور پر" گالی " عالم وجود میں آتی ہے۔ہماری پارلیمان بھی اس معاملے میں بہت آگے ہے۔ پہلی پارلیمانی زبان شرافت اور وقار کی علامت ھی۔ اب پارلیمانی زبان کا مفروضہ بھی اب پرانا ہوچلا کہ اب جو زبان پارلیمان میں بولی جاتی ہے اس سے ادارہ گالیوں کی لغت ‘فیروزالمغلظات’ بنانے کا کام لیتاہے۔ ہمارے وزیر قانون کے قانون کے لمبے ہاتھ تو سبھی کو یاد ہیں مگر اس کے علاوہ اب ہمارے معزز ایونوں میں اس طرح باتیں ہوتی ہیں کہ‘‘سابق وزیر قانون عبد الرشید عباسی نے کہا کہ دنیا میں بڑے بڑے واقعات ہو جاتے ہیں ماں بہن کی گالی برداشت نہیں ہے دونوں صاحبان معذرت کر لیں’ یا پھر آزاد کشمیر کی اسمبلی کے رکن نے کہا کہ ‘’’میرے سامنے ایک رکن نے ماں کی گالی دی پھراس پر یہ بھی انصاف ہوناچاہیے اس موقع پرانہوں نے مصطفیٰ گیلانی کوایوان سے باہر بھیج دیا۔’’ وغیرہ اردو زبان کی گالیوں کی تین مختلف اصناف ہیں۔ وہ گالیاں جو مہذب محفل میں کچھ جھجک کے ساتھ دی جاسکتی ہیں مثلا اکبر الہ آبادی کی گالیاں وغیرہ۔ دوسری جو یاروں دوستوں کے ہمراہ دی جاتی ہیں مثلا بھینس کا منہ اور تیسری قسم مزید شدید جیسے کسی کو پرویز مشرف یا میر جعفر کہ دینا، یہ دل آزاری کی بدترین قسم ہے۔
گالیوں کے آداب کے سلسلے میں آبِ گم میں مشتاق احمد یوسفی کہتے ہیں کہ بزرگوار موجودہ الہ دین یعنی رحیم بخش کو عام طور پر الہ دین ہی کہتے تھے۔ البتہ کوئی خاص کام مثلاً پیر دبوانے ہوں یا بے وقت چلم بھروانی ہو یا محض پیار اور شفقت جتانی ہو تو الہ دین میاں کہ کر پکارتے۔ لیکن گالی دینی ہو تو اصل نام لیکر گالی دیتے تھے۔مزید آداب مغلظات کے سلسلے میں مثال سے فرماتے ہیں کہ’’ خلیفہ نے غصے سے بے قابو ہو کر دو مرتبہ اسے ‘‘ تیرا دھنی مرے! کی گالی دی تو بشارت سناٹے میں آگئے۔ لیکن سرِ دست وہ گھوڑے کو قابو میں لانا چاہ رہے تھے۔اور بسا اوقات گالیوں کا استعمال بوقت ضرورت مدعا کے بیان کے لئے بھی کیا جا سکتا ہے مثلا‘‘کوئی جوان عورت مچھلی لینے آتی تو مچھلی والا ڈھال ڈھال کر بلی کوآرزو بھری گالیاں دینے لگتا۔’’قدرت اﷲ شہاب نے ّ شہاب نامہ ّ میں ملک امیر محمد کا ذکر کرتے ہوئے ایک دلچسپ واقع رقم کیا ہے. لکھتے ہیں کہ چوہدری ظہور الاہی سیاست کے افق پر نمودار ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے فوجی آمر ایوب کے نزدیک ہو گئے….پہلے تو نواب نے چوھدری ظہور الہی کو موٹی موٹی اور غلیظ گالیاں دیں اور ساتھ ہی کاغذوں کا ایک پلندہ ایوب کے سامنے رکھ دیا ، جو کہ ایک ایس پی نے ابھی ابھی پیش کیا تھا، اور فرمایا کہ حضور ان کاغذات میں اس (گالی) آدمی کا کچا چٹھا ہے . ساتھ میں یہ بھی فرمایا کہ جناب ابھی تو میں نے اپنا شکاری کتا اس پہ نہیں چھوڑا’وزرا کا یہ وطیرہ تو تبدیل نہیں ہوا، اب تک ہے کہ’’ کسٹم حکام کو خدشہ تھا کہ وزیرموصوف کے بنکاک سے انے والے مہمانوں کے پاس غیر قانونی سامان ہے-اٍسی لئے انہوں نے تلاشی کرنا چاہی تو چوہدری صاحب طیش میں اکر کسٹم حکام پر برس پڑے-انہیں گالیاں دیں اور نوکری سے گو شمالی کا قصیدہ گایا-ایرپورٹ کے کیمروں نے چوہدری صاحب کی توتکار و دھکم پیل ثبوت کے لئے محفوظ کرلی-اٍسی وزیر کے خلاف لاہور کے تھانوں میں عملے کو گالیاں و دھمکیاں دینے پر رپٹ درج ہے-تھانہ نو لکھا کے انسپکٹر نوید گجر نے صحافیوں کو بتایا کہ وزیر نے ایک ملزم انتظار شاہ کو فوری رہا نہ کرنے کی پاداش میں تھانے کے عملے کو ننگی گالیاں اور نوکری سے برخواست کروانے کی دھمکیاں دیں۔سب سابق چوہدری عبدالغفور نے بائیس مئی کو پریس کانفرنس میں تمام الزامات کی تردید کی-’’ بعض حضرات گالی کے فوائد بھی بتاتے ہیں ، ان کے مطابق گالی ٹانک کا کام کرتی ہے آدمی کو ری چارج کرتی ہے۔مالک نے نوکر کو گالی دے کرڈانٹا، حرام زادے! ذرا تیزی دکھا ابھی بہت کام باقی ہے ، نوکر کو غصّہ آیا۔ دل ہی دل میں مالک کو گالیاں دیتا ہوا تیزی سے ہاتھ چلانے لگا۔ مالک کے حسب منشا وقت پر کام نمٹ گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہوٹلوں ، ڈھابوں ، گیراجوں اور دکانوں پر کام کرنے والے نوکروں کو خصوصاً کم سن بچوں کو مالکان ، گالیوں سے نوازتے رہتے ہیں۔ جس دن مالک نوکر کو گالیوں سے نہیں نوازتا وہ جان لیتا ہے کہ ، آج مالک سالا بیمار ہے۔، پھر وہ یہ سوچ کر کہ آج مالک زیادہ تنگ نہیں کرے گا خود کو پرسکون محسوس کرتا ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ جو نوکر مالک کی گالیاں خاموشی سے سن لے ، بھلے ہی ٹھیک سے کام نہ کرے، اچھا نوکر۔ اور جو نوکر مالک کی گالیوں کے جواب میں اس کے منہ کو آئے بھلے ہی دل و جان سے کام کرے برا نوکر کہلاتا ہے۔گالی کمزور کا ہتھیار ہے۔ اپنے سے طاقتور مدمقابل پر جب اس کا زور نہیں چلتا تو دل ہی دل میں اسے گالیاں دے کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتا ہے۔ ایسا کرنے سے اس کا ذہنی تناؤ دور ہوتا ہے۔ ذرا سوچیے ! اگر گالیاں نہ ہوتیں تو اسکا ذہنی تناؤ اتنی آسانی سے کیسے دور ہوتا ؟ "گالی" ڈھال کا کام کرتی ہے۔ آپ کا پڑوسی آپ سے جھگڑنے آیا کہ آپ کے لائق فرزند ارجمند نے اس کے فرزند کو پیٹ دیا۔ اس کی شکایت سنتے ہی آپ نے اپنے فرزند کو ڈانٹا اور چار پانچ اعلی وارفع گالیاں اسے دے ڈالیں۔ پڑوسی کا کلیجہ اور غصّہ ٹھنڈا ہوگیا۔ معاملہ رفع دفع ہوگیا۔پاکستانی سیاست میں گالی کا چلن گو غلام محمد ، امیر محمد خان نواب کالا باغ سے شروع ہوا تھا، لیکن عوامی سطح پر پہلی بار میڈیا یعنی ریڈیو پر گالی جو پوری قوم اور دنیا نے سنی وہ ذوالفقار علی بھٹو کی تھی، جوکراچی میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔ جوش خطابت میں انھوں نے ایک فحش گالی دے ڈالی، پھر بار بار کہتے رہے کاٹ دو، اسے کاٹ دو، ریڈیو پر نشر ہونے والی گالی تو پوری قوم نے سن لی، اب اس کو کاٹ دو یا مٹا دو سے کیا ہوسکتا ہے، بھٹو اس بارے میں مشہور تھے، وہ نجی محفلوں میں دھڑلے سے گالیوں کو استعمال کرتے تھے۔ بعد میں آنے والے دور میں سابق صدر مشرف اور عوامی لیڈر شیخ رشید نے بھی اس میدان میں خوب شہرت پائی، شیخ رشید بھرے جلسوں میں ایسی باتیں اور اشارے کرتے جو گالی سے بڑھ کر تھے۔ پاکستان میں سیاسی عمل جنرل ضیاء الحق کی حادثاتی موت کے بعد اگست 1988ء میں شروع ہوا تھا۔ صدر غلام اسحاق خان کے تین خطابات میں خوب ہنگامہ آرائی ہوئی، اور قومی اسمبلی کا ایوان ’’گو بابا گو‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھا۔ اس قسم کے منفی احتجاج اور ردھم (Rhythem) میں نعروں کی ابتدا پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو نے کی تھی اور انہوں نے ہی اسے پروان چڑھایا۔ اعلیٰ عدالتوں کو ’’کنگرو کورٹس‘‘ اور فیصلوں کے خلاف منفی احتجاج کا رحجان بھی انہوں نے ہی پیدا کیا تھا۔ اپنے دور میں سردار فاروق لغاری کو صدارت کا عہدہ بے نظیر بھٹو نے اپنی پیپلز پارٹی کا مخلص ترین رکن سمجھ کر ہی پیش کیا تھا لیکن ان کے باطن سے ایک حقیقی صدر برآمد ہوا تو انہوں نے پیپلز پارٹی کی رکنیت ترک کردی اور 8ویں ترمیم کے تحت بے نظیر بھٹو کو برطرف کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔ دوسری طرف صدر لغاری کے صدارتی خطابات ہنگاموں سے خالی نہیں تھے۔ ایک خطاب میں ڈیسک کھڑکانے اور نعرہ بازی پر ہی اکتفا نہ کیا گیا بلکہ اپوزیشن کی رکن تہمینہ دولتانہ نے برافراختہ ہو کر اپنا دوپٹہ بھی اتار پھینکااور لغاری صاحب نے اپنی تقریر شور شرابے اور نعرہ بازی میں مکمل کی۔ تاریخی سانحہ یہ بھی ہے کہ صدر فاروق لغاری کے تیسرے خطاب میں مہمانوں کی گیلری سے اپوزیشن پر جوتے پھینکے گئے اور ایوان میں ہاتھا پائی اور گالی گلوچ بھی ہوا اور اب یہ کہنا بھی مناسب ہے کہ صدر کے خطاب کے دوران اپوزیشن کے پْرغضب احتجاج، ہنگامہ آرائی اور شور و غوغا کی روایت بھی سیاسی عمل کے ساتھ پروان چڑھتی رہی ہے۔ جسے سابق صدر پرویز مشرف برداشت نہ کرسکے۔ انہوں نے اپنے ناپسندیدہ سیاستدانوں کو انتخابی عمل سے باہر رکھنے کیلئے ’’گریجوایٹ اسمبلی‘‘ منتخب کرائی لیکن پہلے اجلاس کے خطاب میں ہی ان کی وردی کا رعب جم نہ سکا، اور انہیں پرزور اور پر شور احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اس پہلے خطاب کے بعد ایوان اسمبلی میں مْکاّ دکھا کر گئے اور پھر اسمبلی کو ’’بدتہذیب‘‘ بھی کہتے رہے لیکن پانچ سال کے اس دور میں دوبارہ ’’خطاب‘‘ پر آمادہ نہ ہوئے ۔ گالی کے ذریعہ شہرت پانے والوں میں مشرف کے ایک سابق وزیر وصی ظفر اور پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری کو بھی حاصل ہے۔ ایک معروف ٹی وی شو میں اپنے مؤکل کے دفاع میں انھوں نے وزیراعظم نواز شریف کو ایسی رذیل گالیاں دیں کہ سننے والوں کے سر شرم سے جھک گئے۔ شو کے اینکر نے دونوں ہاتھ جوڑ دیئے، اور خاموش رہنے کے لیے منت سماجت شروع کر دی لیکن بات نہ بنی۔یہ شو اس وقت خواجہ سراؤں کی منڈلی بن گیا جب طلال چوہدری نے مشرف کو سائیکل چور اور بھینس چور کہہ دیا۔ احمد رضا قصوری جو پہلے ہی سے غصے میں بھرے بیٹھے تھے یکدم لال بھگولہ ہو کر آپے سے باہر ہو گئے۔طلال چوہدری کو بے اتمنائی سے نظر انداز کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف پر اندھا دھند چڑھ دوڑے، طلال چوہدری کی طرف دیکھتے ہوئے وہ گرجے اور اخلاق و حدود کی تمام حدیں پا کر گئے۔ اس شو کا سب سے اہم حصّہ تجزیہ نگار بابر کے وہ جملے تھے جو انہوں نے کاشف عباسی کو طنزیہ انداز میں کہے انھوں نے کہا کاشف صاحب یہ آپ ہی کا کمال ہے کہ آپ یہ سب کروا لیتے ہیں اپنے پروگرام میں۔پنجاب اسمبلی گالیوں میں سر فہرست ہے،2012 میں ہونے والے اکثر اجلاس میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے گالیوں کا خوب استعمال کیا۔ پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں بدترین ہنگامہ آرائی ہوئی ، ارکان میں ہاتھا پائی ، گالی گلوچ ہوئی اور تھپڑ بھی چل گئے۔ایک دوسرے کیخلاف شدید نعرہ بازی اور الزمات کی بوچھاڑ کے باعث ایوان مچھلی منڈی بنا رہا۔ وزیر اعلی شہباز شریف کیخلاف ریمارکس لکھ کر ایوان میں لہرانے، خاتون پر صوبائی وزیر جیل خانہ جات چودھری عبدالغفور کے حملہ اور سینئر صوبائی وزیر راجہ ریاض احمد کی جانب سے مسلم لیگ (ق) کے رکن محسن لغاری کو غدار قرار دینے پر پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہنگامہ آرائی کی نظر ہو گیا ، جبکہ مسلم لیگ (ق) اور یونیفکیشن گروپ کے رہنما عطا محمد مانیکانے صوبائی وزیر جیل خانہ جات کے رویہ پر ایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا۔پنجاب اسمبلی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حکومتی مرد اراکین کی جانب سے اپوزیشن کی خواتین اراکین کو بد ترین تضحیک کا نشانہ بناتے ہوئے ننگی گالی دی گئی اور ’’ موت کے کنویں میں ناچنے والی خواتین ‘‘قرار دے دیاگیاہے جس پر اپوزیشن خواتین اراکین نے شدید ردعمل کا اظہارکیا، عمران خان نے عدلیہ کے بارے میں لفظ شرمناک کہا تو اسے ایک گالی سمجھا گیا اور اسو پر خان صاحب کو عالت میں پیش ہوکر معافی مانگنا پڑی، دوسری جان عمران خان کے خلاف ہر طرح کے الزامات اور گالیاں اب اشوشل میڈیا پر بھی دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ سابق وفاقی وزیر فردوس اعواں اور کشمالہ طارق کے درمیاں ٹی وی پر ہونے والے گالی گلوچ اور الزامات سے مزیں شو کو بھی لوگ یاد کرتے ہیں، سندھ اسمبلی میں ارباب غلام رحیم پر جوتے پھینکے کا واقعہ گالی سے بڑھ کر ہے۔ پاکستان مین نیوز چینلز پر ہونے والی بحث و تکرار بھی اب گالیوں تک پہنچ گئی ہیں۔ ان شو میں ایک گالی۔ ایک فتنہ۔ایک دشنام ان کی ریٹنگ کو بڑھاتا ہے، جس کے لئے وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں۔ نیوز چینلز جرائم ، خصوصاََ جنسی بے راہ روی کے معاملات کو اچھالتے اور ’’چَسکے’’ لے لے کر بیان کرتے ہیں، مقصد اصلاحِ معاشرہ نہیں ، ریٹنگ محض ریٹنگ کہ جتنی ریٹنگ زیادہ ہو گی اْتنا ہی زیادہ ’’دھَن’’ اکٹھا ہو گا۔دَھن کی ’’دْھن’’ میں مست نیوز چینلز مالکان کے حکم پر ترتیب دیئے گئے جرائم پر مبنی یہ پروگرام معاشرے کی اصلاح نہیں ، بگاڑ کا باعث بن رہے ہیں اور کوئی غیرت مند خاندان ایسے پروگراموں کو اکٹھے بیٹھ کر دیکھ ہی نہیں سکتا۔ٹاک شوز میں وہ اْدھم مچا ہوتا ہے کہ اﷲ کی پناہ۔یہ عین حقیقت ہے کہ اپنے مْنہ سے جہالت کا کوئی بھی اقرار نہیں کرتا ماسوائے اْس شخص کے کہ دوسرے نے ابھی بات ختم نہ کی ہو اور وہ اپنی بات شروع کر دے۔ ہمارے اینکرز جو ماشا اﷲ خود سیاست دانوں سے بھی بڑے سیاست دان ہیں، کسی مہمان کو کَم کَم ہی بولنے کا موقع دیتے ہیں اور ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ دوسرے کی بات ابھی ادھوری ہوتی ہے اور وہ درمیان میں کود پڑتے ہیں۔اْدھر ٹاک شوز کے شْرکا کا یہ عالم کہ باہم تْو تکار، محض تو تکار اور کَج بحثی۔اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ سبھی بیک وقت بولنا شروع کر دیتے ہیں اور اینکر خوش کہ ریٹنگ بڑھ رہی ہے اگر نوبت گالی گلوچ تک پہنچ جائے تو اینکر کی ریٹنگ آسمان کی رفعتوں کو چھونے لگتی ہے۔ مزاحیہ پروگرام ’’تھیٹروں’’ میں ڈھل چکے ہیں جہاں پگڑیاں اچھالی جاتی اور ذو معنی جملوں اور پھکڑ پَن کی بھرمار نظر آتی ہے۔وہی سٹیج اداکار اور اداکارائیں جو کبھی مخصوص جگہوں پر اپنے ’’فَن’’ کا مظاہرہ کیا کرتے تھے اور جن سے ’’مخصوص ذہنیت ’’ کے لوگ ہی’’ مستفید’’ ہوا کرتے تھے ، وہ سب اب الیکٹرانک میڈیا کی مہربانی سے گھر گھر پھیل چکے ہیں۔ گالیوں کا یہ چلن پورے معاشرے کے لئے ایک خطرے کی گھنٹی ہے، مادر پدر معاشرے بھی اب حدود و قیود میں آ رہے ہیں تو پاکستان جو ایک اسلامی نظریاتی مملکت ہے، یہاں ان اصولوں اور قوانیں اورضابطہ اخلاق کا اطلاق کیوں نہیں ہوتا۔
 

Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387634 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More