پاکستانی سیاست کا معاملہ شاید سب سے جدا ہے۔ صحرائے
سیاست کی تمازت میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہوتا رہتا ہے اور وقتاً فوقتاً
اچانک سیاسی انگارے پوری حدت و شدت سے دہکنا شروع ہوجاتے ہیں، اسی گرمی کے
باعث ایک دوسرے کے خلاف الزامات اور طعن وتشنیع کی گولہ باری بھی جاری رہتی
ہے۔ دوسروں کی آنکھ کا تنکا بھی نظر آجاتا ہے، اپنی آنکھ کا شہتیر بھی کسی
کو سدھائی نہیں دیتا۔ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہے کہ آج ساری سیاست
ہی مفادات کی بھینٹ چڑھ چکی ہے، بلکہ مفادات کی چکی میں پس کر گرینڈ ہوچکی
ہے۔ اپنے مفادات کی خاطر مختلف حیلوں بہانوں سے عوام کو ورغلایا جاتا ہے،
ہر آنے والا سیاستدان ایک نیا ہی تماشا سجاتا ہے اور اپنی پٹاری سے کچھ نہ
کچھ نکال کر عوام کو بہلانے وپھسلانے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنے مفادات کی خاطر
پاکستان کے عوام کو ان کی ہمدردی کا جھانسا دے کر ہر کوئی استعمال کرتا ہے،
لیکن عوام کے دکھوں کا مداوا کوئی نہیں کرتا، ہر اقدام کی ڈور کا سرامفادات
کے کھونٹے سے ہی بندھا ملتا ہے۔ 11 مئی کو ملک میںعوامی لیگ کے سربراہ
ڈاکٹر طاہر القادری اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی سربراہی میں
حکومت کے خلاف بھرپور احتجاج کیا گیا، کینڈا میں بیٹھے قادری صاحب نے
ٹیلیفون کے ذریعے موجودہ حکومت کا خاتمہ واجب قراردیتے ہوئے عنقریب انقلاب
کی حتمی کال دینے کا اعلان بھی کیا، جسے حکومتی ارکان نے یہ کہتے ہوئے
مسترد کردیا کہ جو شخص اپنی کینڈا کی شہریت ترک کر کے ملک آنے کے لیے تیار
نہ ہو وہ انقلاب کیا خاک لائے گا۔ سیاسی حلقوں کی جانب سے قادری صاحب کے
موجودہ نظام کے خاتمے کی بات کوناپسند کرتے ہوئے جمہوریت کے خلاف کسی
گھناﺅنی سازش کا حصہ سمجھا گیا۔ دوسری جانب اسی روز ملک کی تیسری بڑی سیاسی
جماعت تحریک انصاف نے بھی گزشتہ سال ہونے والے عام انتخابات میں چار سیٹوں
پر دھاندلی کوبنیاد بنا کر عوام کو حکومت کے خلاف اسلام آباد میں جمع کیا،
نئے الیکشن کمیشن کی تشکیل سمیت متعدد مطالبات کیے اورمطالبات منظور نہ
ہونے تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے فیصل آباد میں بھی بڑے جلسے
کی تاریخ دے دی۔
اگرچہ خان صاحب کو اس قسم کے احتجاج کا حق حاصل ہے، لیکن جمہوری و سیاسی
حلقوں نے اس طرز کو جمہوریت کے لیے نقصان دہ قراردیتے ہوئے کہا کہ انتخابات
میں دھاندلی کے خلاف احتجاج سڑکوں پر نہیں، پارلیمان میں رہ کر کیا جانا
چاہیے، کیونکہ جب بھی انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کیا گیا اور سڑکوں پر
احتجاج ہوا، اس سے فائدہ غیر جمہوری طاقتوں نے اٹھایا اور جمہوریت کو نقصان
پہنچا ہے ، اس قسم کے احتجاج کے نتائج بھیانک نکل سکتے ہیںاور اگر تحریک
انصاف الیکشن کمیشن میں ترمیم یا کوئی اور مطالبہ منظور کرانا چاہتی ہے تو
وہ خود پارلیمان میں ایک بڑی جماعت کی حیثیت سے موجود ہے، اس لیے پارلیمانی
طریقے سے مطالبات منظور کیوں نہیں کرواتی؟
برطانوی اخبار دی میل کے مطابق عمران خان کے احتجاج کا مقصد حکومت کو کمزور
کرنا تھا، لیکن یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ بات بات پر اس قسم کے احتجاج کر
کے حکومت کوکمزور کرنے کا مطلب جمہوریت کی عمارت میں دراڑ ڈالنا ہے۔ اس
حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملک خداداد کی تاریخ جمہوریت اور آمریت
کی کشمکش اور ٹکراﺅ سے عبارت ہے۔ ہماری قومی زندگی کا بڑا حصہ طالع آزماﺅں
اور آمران وقت کی تگ وتاز کی نذر ہوچکا ہے۔ حصول آزادی کے بعد ریاست میں
جمہوری روایات اور سیاسی اقدار کو استحکام ،ثبات اور مضبوطی حاصل نہ ہوسکی،
کیونکہ ہمارے ہاں تاحال عمومی طورپر سیاسی جماعتوں اور ان سے وابستہ قائدین
اور عام کارکنان میں وہ سیاسی شعور، پختہ فکری اور بالغ نظری پیدا نہیں
ہوسکی، جو ملک وقوم کے حقیقی مفادات کا تحفظ کرنے اور موجودہ مسائل و مصائب
کی دلدل سے نکلنے میں ممد ومعاون ثابت ہوسکتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ
افسوس ناک روایت قائم ہوچکی ہے کہ سیاست دان عوامی جذبات واحساسات کو اپنے
سیاسی مفادات و اغراض کی بھینٹ چڑھانے سے نہیں چوکتے۔ جب تک ہمارے سیاسی
قائدین اور رہنما اس منفی طرز عمل کی اصلاح کے لیے قرار واقعی سنجیدگی اور
خلوص کا اظہار نہیں کریں گے ، صورت حال میںکسی مثبت اور خوش کن تبدیلی کی
امید رکھنا بے جا امر ہوگا۔ سردست وطن عزیز کو بدامنی، مہنگائی، لوڈشیڈنگ
اور بے روزگاری سمیت مختلف النوع بحرانوں اور مسائل کا سامنا ہے، جن سے
بحسن وخوبی اسی صورت نمٹاجاسکتا ہے، جب تمام سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما
ملک وملت کے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے بیدار مغزی اور باہم اتحاد کا مظاہرہ
کریں ، لیکن تحریک انصاف دھاندلی کو عنوان بناکر حکومت کے خلاف موچہ زن ہے۔
اس میں شک نہیں کہ گزشتہ انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے بہت ساری
جماعتوں کو شکایات ہیں۔ پی ٹی آئی پنجاب اور کراچی میں دھاندلیوں کی شکایت
کررہی ہے، ن لیگ اور جمعیت علمائے اسلام کو خیبرپختونخوا میں، جبکہ فنکشنل
لیگ کو سندھ میں اسی نوعیت کے اعتراضات ہیں۔ ق لیگ اور اے این پی بھی
انتخابات کو شفاف ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پیپلزپارٹی کا موقف ہے کہ
پنجاب میں ہماری سیٹیں ہتھیائی گئی ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں نے
بھی دھاندلی کے الزامات لگائے تھے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت عام انتخابات کو
شفاف ماننے کے لیے تیار نہیں ہے،یہاں تک کہ چیف الیکشن کمیشن نے ہی اس بات
کا اظہار کردیا تھا کہ بعض علاقوں میں الیکشن شفاف نہیں ہوئے۔ حقیقت بھی
یہی ہے کہ الیکشن میں جس کا جہاں جتنا بس چلا، اس نے وہ کیا، لیکن اس کا یہ
طریقہ کسی طور بھی درست نہیں کہ ہر جماعت حکومت کے خلاف محاذ سنبھال لے اور
جمہوریت کا نعرہ لگانے والی سیاسی جماعتیں خود ہی جمہوریت کی عمارت کو
احتجاجوں اور دھرنوں کے کدالوں سے زمین بوس کر نے کے لیے کوشاں ہوجائیں۔
یہ شاید ہمارے ہی معاشرے کا خاصہ ہے کہ یہاںشکست کھانے والا ہر امیدوار
دھاندلی کا شور مچاتا ہے اور حکومت کو ملیا میٹ کرنے کے درپے ہوتا ہے،
حالانکہ دنیا کے اکثر ممالک میں جمہوری نظام رائج ہے، وہاں ایسا کچھ نہیں
ہوتا۔ الیکشن میں ہارنے والے بھی ملکی مفاد میں فاتح جماعت کا ساتھ دیتے
ہیں، ایک دوسرے پر نہ تو دھاندلیوں کے الزامات لگتے ہیں اور نہ ہی حکومت کو
گرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے جمہوریت والے پڑوسی ملک بھارت
کو ہی لے لیجیے! اب تک وہاں سولہ بار انتخابات ہوچکے ہیں، لیکن شاید ایسی
کوئی مثال نہ ملے کہ منتخب سیاسی جماعت کو گرانے کی کوشش کی گئی ہو اور نہ
ہی وہاں کبھی فوج نے جمہوری حکومت پر شب خون مارا۔ جب تمام جمہوری جماعتیں
ہی جمہوریت کو بچانے کے لیے متفق ہوں توکوئی اس پر قبضہ کیونکر کرے گا،
لیکن یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ شکست خوردہ جماعتوں کے حکومت کو
ناکام ثابت کرنے میں گزر جاتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ عمران خان کے
مطالبات غلط ہیں، ان کے مطالبات بالکل درست، لیکن طریقہ درست نہیں ہے۔ ان
کے مطالبات کو پورا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ دھاندلی کے الزامات کی
آئینی اور قانونی طریقہ کار کے تحت چھان بین ہونی چاہیے اوراس کے ساتھ
انتخابات کا طریقہ ہر طرح کی دھاندلی سے صاف و شفاف بنانے کی اہم ضرورت ہے،
انتخابی اصلاحات کا مطالبہ صرف عمران خان کا نہیں، بلکہ پوری قوم کا ہے۔ |