امن عامہ کے ذمہ دار ادارے کہاں ہیں؟

بد امنی، دہشتگردی، قتل اور غارت گری کی آکاش بیل قومی زندگی کی نرم و ناز شاخوں سے زندگی کا رس چوس کر تباہی و بربادی کی پت جھڑ پیدا کر چکی ہے، یوں لگتا ہے کہ خوف و دہشت اور بے یقینی کے ماحول میں زندگی بسر کرنا اب ہمارا قومی مقدر بن چکا ہے۔ انجانے خوف، دل کو ڈرا دینے والے وسوسے اور قلب و روح کو ہلا دینے والے ڈر نے ہمارا آرام اور سکون چھین لیا ہے۔ اب تو یہ صورتحال ہے کہ گھر سے نکلنے والوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ واپس آئیں گے بھی یا نہیں۔ایک طرف عسکریت پسندی کے نام پر وقت تاریخ کے اوراق پر تباہی و بربادی کی داستان رقم کر رہا ہے تو دوسری جانب ملک بھر میں ہونے والے دھماکوں اور دیگر حادثات نے نوحے بکھیر رکھے ہیں ۔ عجب حال ہے کہ کہیں بم دھماکے، تو کہیں خود کش حملے، کہیں دہشت گردوں کی جانب سے جلسے جلوسوں اور عبادت گاہوں پر شب خون اور کہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فورسز پر حملے معمول بن چکے ہیں جن کے سبب بد امنی کے خوں آشام عفریت نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے لیکن حیرت ناک امر ہے کہ اس مخدوش ترین صورتحال کے باوجود عوام کی حفاظت کے ذمہ دار حکمران”سب اچھا“کی گردان کر رہے ہیں اور ہر دھماکے یا دہشتگردی کے واقعہ کے بعد بات روایتی بیانات اور اقدامات کے وعدوں سے آگے نہیں بڑھتی۔

دہشتگردی یا امن عامہ کی مخدوش صورتحال کے پس پردہ کونسے عوامل کار فرما ہیں یا ان کے عزائم اور مقاصد کیا ہیں یہ ایک الگ بحث ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ اربوں کھربوں کا بجٹ رکھنے اور ملکی وسائل سے اپنی ضروریات کے نام پر بھاری حصہ وصول کرنے والے ذمہ دار ادارے کیا کر رہے ہیں؟ خاص طور پر جب سے ہم دہشتگردی کیخلاف جنگ میں اتحادی بنے ہیں پورا ملک ایک ایسی صورتحال سے دوچار ہے کہ لاتعداد بے گناہوں کے خون کی ہولی کھیلنے والے سر عام دندناتے پھر رہے ہیں اور ہماری سلامتی کے ذمہ دار اداروں کو ان کے ”سر “اور ”پیروں“ کے علاوہ کبھی بھی کوئی چیز نہیں ملی۔ عوام تو عوام، پولیس اور دیگر ادارے بھی اپنی جگہ لیکن اب تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اہم ترین حساس اداروں کی املاک اور دفاتر کو بھی بے دھڑک نشانہ بنایا جا رہا ہے حتیٰ کہ ملک کے سپریم تین ادارے پارلیمنٹ کو اڑانے کی دھمکیاں ریکارڈ پر ہیں لیکن ہمارے ہاں حکام ہر دھمکی کے بعد”ریڈ الرٹ“ کر کے محفوظ ترین تصور کرنے لگتے ہیں جبکہ شرپسند ایسے طریقوں سے اپنا کام دکھا جاتے ہیں جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ مان لیا کہ خود کش حملوں کو روکنے کے لیے دنیا بھر میں کوئی ٹیکنالوجی موجود نہیں لیکن کیا کیجئے کہ ہمارے ہاں تو خود کش کے علاوہ بھی حملہ آوروں کی کئی قسمیں موجود وہ طوفان برپا کئے ہوئے ہیں کہ خدا کی پناہ ۔ پولیس ہی کو لیجئے، یہ ادارہ ملک میں حالات کو معمول پر رکھنے کے لیے بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن جب بھی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے ہمارے ”شیر جوان“ سب سے پہلے اپنی جانوں کی فکر کرتے ہیں، یقین نہ آئے تو گزشتہ ایک ماہ کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجئے کہیں نہ کہیں سی سی پی او آفس لاہور کو اڑانے کی دھمکی کے بعد کیپٹیل سٹی پولیس آفیسر پرویز راٹھور کی دفتر سے فوراً غائب ہوجانے کی خبر مل ہی جائے گی۔ کہنے کو تو پولیس ہماری محافظ ہے لیکن حال یہ ہے کہ اب وہ خود محافظوں کی محتاج ہے، ہر تھانے اور اعلیٰ پولیس افسر کے دفتر میں عوام کا داخلہ بند، کئی کئی سو میٹر اطراف میں مورچے، اور بکتر بند گاڑیوں کی قطاریں سب اسی بات کا ثبوت ہیں جبکہ دوسری جانب مختلف اوقات میں پولیس کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات نے بھی ہمارے ان ”محافظوں“ کو اس قدر خوف زدہ کر دیا ہے کہ اب واقعہ کے بعد جائے وقوعہ پر پہنچنے کی روایت بھی دم توڑ چکی ہے جو شر پسند عناصر کے لیے انتہائی حوصلہ افزاء ہے وہیں امن عامہ کی صورتحال کو مزید خراب کرنے میں بھی بنیادی وجہ ہے۔

پولیس کے بعد ہمارے ہاں کے خفیہ ادارے قومی سلامتی اور امن عامہ کی بحالی کے ذمہ دار تصور کئے جاتے ہیں لیکن بد قسمتی سے ایک طرف تو پولیس ہی کی طرح یہ خود بھی نشانہ بنے ہوئے ہیں جبکہ دوسری جانب ان اداروں میں بے جا سیاسی مداخلت نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ وہ ایجنسیاں یا ادارے یا حکومت مخالفین کو لتاڑنے اور حکومتی حمائیتیوں کو نوازنے کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں جو براہ راست ایک ایسے خلاء کا سبب ہے جو شر پسند عناصر کے لئے آئیڈیل ہے اور جس کی وہ ہمیشہ تلاش میں رہتے ہیں اور موقع ملتے ہی اپنا کام دکھا جاتے ہیں۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ شدت پسند یا دہشتگردی کا خاتمہ عوامی تعاون کے بغیر ممکن نہیں لیکن اس سوال کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں کہ عوام آخر بلا واسطہ حکومت تک رسائی کیسے حاصل کریں؟ کیونکہ اگر عام آدمی ایسا کرنا بھی چاہے تب بھی اسے سو طرح کے اندیشے لاحق رہتے ہیں کہ اسے بھی انہی حکومتی اداروں ہی کی وساطت درکار ہوتی ہے، اب یہ ادارے یا ان کے حکام تعاون کرنے والے عوام سے کس طرح ”تعاون“ کرتے ہیں یہ کسی سے بھی پوشید ہ نہیں ۔ باالفرض اگر یہ بات غلط بھی مان لی جائے اور تسلیم کر لیا جائے کہ شر پسندی کی اطلاعات اور معلومات فراہم کرنے والے شہریوں کی شکایات پر کارروائی نہ ہونے کا تاثر درست نہیں لیکن اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ معلومات فراہم کرنے والے شر پسندوں کی دسترس سے محفوظ ہیں۔ ویسے بھی ہمارے سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے پاس جائز شکایات لیجانے ہزار بار سوچتے ہیں وہ معلومات کہا ں سے فراہم کریں گے۔ یہ خلاء بھی شدت اور شر پسندوں کے لیے خاصا حوصلہ افزاء ہے اور عوام اور ان کے محافظوں کے درمیان اعتماد کے فقدان کے سبب بھی انہیں کھل کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ کسی بھی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے اسے خراب کرنے والے محرکات اور وجوہات کا خاتمہ ضروری ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں اس سلسلہ میں بھی پیش رفت نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ ”بیمار ہوئے جس کے سبب، اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں“ کے مترادف ہمارے حکمران حالات کو موجودہ نہج پر پہنچانے والے عوامل جن میں امریکہ کی بے جا جی حضوری، مہنگائی اور نا انصافی وغیر سر فہرست ہیں کو ختم کرنے کے بجائے ان سے مکمل چشم پوشی اختیار کیے ملک کو موجودہ بحرانوں میں دھکیلنے والوں ہی سے امداد کے لیے پکار رہے ہیں۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 56958 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.