یہ انداز گفتگو کیا ہے؟

فیصل صالح حیات نے ڈاکٹر عذرا فضل پیچیوہو کے خلاف جو کلمات کہے ہوں گے، وہ یقیناً پاکستان کی پارلیمانی روایات کے منافی ہوں گے۔ شاید یہ وجہ ہے کہ قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر فیصل کریم کنڈی نے اس معاملے کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے۔ قومی اسمبلی میں منگل کو گالم گلوچ اور نازیبا الفاظ استعمال کرنے کی پاداش میں مسلم لیگ (ق) کے پارلیمانی لیڈر فیصل صالح حیات کو سزا کے طور پر ایک جب کہ پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی جمشید دستی کو تین روز تک اجلاس میں شرکت سے روک دیا گیا۔

ہماری پارلیمنٹ میں دھول دھپہ اور عوامی انداز کا استعمال کوئی نئی بات نہیں ہے، اس کا آغاز عوامی دور ہی سے ہوا تھا۔ جب اپوزیشن رہنما مفتی محمود، نوبزادہ نصراللہ، پروفیسر غفور احمد کو اسمبلی سے اٹھا کر باہر پھینک دیا گیا تھا۔ بھٹو دور میں عوامی طاقت کا پہلا وار اپوزیشن پر ہی ہوا تھا۔ لیکن اس دور کے اپوزیشن ارکان زبانی طور پر اس قدر بد زبان نہیں ہوئے تھے۔ اقتدار والے بھی ٹانگیں توڑنے کی دھمکیاں تو دیتے تھے، لیکن اسمبلی میں مہذب انداز ہی میں بات کرتے تھے۔ پارلیمنٹ میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی غلام اسحاق خان کے خلاف گو بابا گو، گو بابا گو کے نعرے لگوائے، تہمینہ دولتانہ نے بھی اسمبلی میں کھبی چوڑیاں اور کبھی دوپٹہ پھینک کر احتجاج کیا۔ شاید یہ وجہ تھی کہ مشرف دور میں صدر کا حوصلہ نہیں ہوا کہ وہ اسمبلی سے خطاب کرسکیں، کیونکہ پڑھی لکھی اسمبلی کے ارکان کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ منگل کو قومی اسمبلی میں اس وقت بدمزگی پیدا ہوگئی تھی جب مسلم لیگ (ق) کے پارلیمانی لیڈر مخدوم فیصل صالح حیات اور صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کے درمیاں گرما گرمی ہوئی۔

موجودہ اسمبلی کی تقریباً ڈیڑھ سالہ مدت میں یہ دوسرا موقع تھا کہ حکومت اور حزب مخالف کے اراکین میں غیر پارلیمانی جملہ بازی ہوئی، لوٹے لوٹے اور شیم شیم کے نعرے سننے کو ملے اور اراکین ایک دوسرے کی طرف لڑنے کے لیے لپکتے رہے۔ یہ بدمزگی اس وقت پیدا ہوئی جب فیصل صالح حیات نے ڈاکٹر عذرا فضل پیچیوہو کے خلاف مبینہ طور پر نازیبا الفاظ کہے۔ یہ الفاظ کاروئی سے سے حذف کردیے گئے ہیں۔ فیصل صالح حیات جیالے ہیں جو سنہ دو ہزار دو کے انتخاب میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن منتخب ہونے کے بعد فوجی صدر پرویز مشرف کے متوالے بن گئے تھے۔ ان کے مبینہ نازیبا الفاظ پر ان کے اور مظفر گڑھ سے پیپلز پارٹی کے منتخب نوجوان رکن اسمبلی جمشید دستی کے درمیاں گالم گلوچ ہوئی تھی۔ جمشید دستی اپنی نشست چھوڑ کر اگلی نشستوں تک آگئے تھے اور فیصل صالح حیات سے لڑنے کے لیے لپکے تھے تو انہیں سید خورشید شاہ اور رحمٰن ملک نے پکڑ کر بٹھا دیا تھا۔ اس دوران ایوان میں سخت ہنگامہ ہوگیا تھا اور پیپلز پارٹی کے بیشتر اراکین اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکر لوٹا لوٹا اور شیم شیم کے نعرے لگاتے رہے تھے۔ فیصل صالح حیات نے نکتہ اعتراض پر کہا تھا کہ ان کی دس تحاریک التوا سپیکر نے مسترد کردیں اور مسلم لیگ (ق) جو کہ ایوان میں عددی اعتبار سے تیسری بڑی جماعت ہے، اسے نظر انداز کیا گیا۔ جس پر حکومتی چیف وھپ سید خورشید نے وضاحت کی کہ تمام جماعتوں نے کیری لوگر بل پر تفصیلی بحث کا فیصلہ کیا اور ایسے میں کسی دوسری تحریک پر کیسے بحث ممکن ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حزب مخالف چاہے تو حکومت فیصل صالح حیات کی تحریک پر بحث کے لیے تیار ہے۔ لیکن فیصل صالح حیات نے کہا کہ ایوان کی کارروائی صبح شام چلائی جائے تو ان کی تحاریک پر بحث ہوسکتی ہے۔ اس پر ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے کہا کہ وہ روزانہ مقررہ وقت پر ایوان میں پہنچتی ہیں اور اکثر فیصل صالح حیات اور بعض دیگر اراکین نصف گھنٹہ بھی ایوان میں نہیں بیٹھتے اور ایسے میں وہ کیسے آٹھ گھنٹے کی کارروائی چلانے کی بات کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں فیصل صالح حیات نے متعلقہ خاتون کو ’دھمکی آمیز انداز میں‘ جو کچھ کہا وہ کارروائی سے حذف کردیا گیا اور ایوان میں ہنگامہ ہوگیا۔ ڈپٹی اسپیکر کا کہنا ہے کہ دونوں ارکان نے ایوان کے وقار کے منافی رویہ اختیار کیا۔ پارلیمانی لیڈر کشمالہ طارق اور اور مرکزی وزیر فردوس عاشق اعوان کی ایک میڈیا ٹاک شو میں ہونے والی گفتگو بھی ہماری تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ مخالفت میں اس قدر دور ہوجانا کہ ایک دوسرے کے خلاف غیر مہذب زبان کا استعمال اور لڑائی جھگڑا کرنا کسی صورت ایک مہذب معاشرے کا عکاس نہیں ہوسکتے۔ ہمارے معاشرے میں جو کچھ ہورہا ہے وہ برداشت اور عدم برداشت ہی کا نتیجہ ہے۔ گلیوں اور سڑکوں پر ہونے والی بازاری بات چیت اگر اسمبلی میں ہونے لگے تو اس کے اثرات عوام پر بھی مرتب ہوں گے۔کاش ہمارے رہنما یہ گفتگو کرتے ہوئے یہ سوچ لیا کریں کہ ان کی یہ گفتگو ان کے بچے، گھر والے، اور دیگر لوگ بھی دیکھیں گے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 391706 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More