شاعرِ رجائیت ۔۔۔۔۔ سید عارف ۔۔۔۔۔۔۔ کتاب ۔۔۔۔۔۔ ہم دیے جلاتے ہیں

سید عارف قلم قبیلے کی اس کھیپ سے تعلق رکھتے ہیں جن کے قلم نے ادب کی شعوری تحریک کے ساتھ روزِ اول ہی سے رشتہ جوڑا ،

ترقی پسند منشور کو گلے لگایا اور گو مگو کی کیفیت کی الجھن سے باہر آکر کمٹمنٹ کا شیہوہ اختیار کیا اور اپنے سفر کے لیے صراطِ رجعت کا انتخاب کیا ترقی پسند ادب ادب کی راہ پھولوں کی وادی کی ڈگر کی نشاندہی بھی کرتی ہے اور خارزار کی لذت سے بھی دوچار کرتی ہے،

اس دشت کی سیاحی میں جس اہلِ قلم نے بھی سفر کیا منزلِ داد پائی، سفر ہے تو کٹھن مگر حاصلِ سفر قند و نبات سے کسی طرح کم نہیں کہ آبلہ پائی میں سفر کی لذت اور بڑھ جاتی ہے

سید عارف جلد ہی اس راز کو پا گئے کہ شاعری صرف قافیہ بندی کا نام نہیں اور نہ ہی زلف و رخ و لب و رخسار کے قصے دہرا دینا ہی شعرسازی ہے، شعر گوئی فکر و نظر کی ہم آہنگی ہی سے فکر و نظر کی ترجمان ہوتی ہے۔

ا سکے لیے سب سے پہلے انسان دوستی، حرمتِ انا، اورتقدسِ فکر پر کامل آیقین ضروری ہے اور آفاقی اقدار و عوامل کو ساتھ لے کر قدم اٹھانا پڑتا ہے۔ شاعرخود ، اس کا وطن ، اس کی جنم بھومی اس کا گردوپیش چونکہ آفاقی اقدار ہی کا ایک جزو ہے لہٰذا وہ انہی حدود میں رہ کر سوچتا ہے اس طرح وہ عدل قائم رکھنے میں کامیاب رہتا ہے

سید عارف صرف شعرگوئی تک ہی محدو نہیں بلکہ انہوں نے بڑے تسلسل کے ساتھ اپنے ضمیر کی ترجمانی کرتے ہوئے ادب کے سانچوں میں ڈھالی اور مقصد و مرام کے لحاظ سے انکی فکری ہم آہنگی مسلم ہے
جناب سید عارف صاحب، کے بارے میں 1995 میں پروین شاکر نے کہا تھااقبال اور فیض کے شہر میں جنم لینا والا سید عارف مزاحمتی شاعری کا وہ روشن ستارہ ہے جسکی جگمگاہٹ آپ کو ایک ایک خوشگوار حیرت سے دوچار کرتی ہے، اس کا ایک سبب یہ بھی ہےکہ لہو رنگ شاعری کرنے والے عام طور پر جذبے کے بہاؤ میں فن کی نزاکتوں کا دھیان نہیں رکھتے۔ لیکن سید عارف کا کمال یہ ہے کہ جس خلوص کے ساتھ انہوں نے اپنے موضوع کو برتا ہے اُسی لگن کے ساتھ انہوں نے فنِ شاعری کے کے رموز کا ادراک بھی حاصل کیاہے۔ ایسے رواں اور آئینہ تمثال مصرعے سید عارف کے ہم عصروں میں ، میں نے تو کہیں نہیں دیکھے

زیرِ نظرمجموعہ “ہم دیے جلاتے ہیں“ بھی ایسی ہی حقیقتوں کا عکسِ حقیقی ہے، انسان اپنے ماحول کا ایک لازمی عنصرہے لہٰذا وہ اپنے ہی ماحول کے آب و رنگ میں ڈُوبا ہوتا ہے،

ماحول کے گُو نا گُوں رنگ ہیں ۔ تہذیب و تمدن کی بو قلمونیاں انسان کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ ان سے اثرپذیر ہو، معشرتی علوم، معاشی نا ہمواریاں، رسم و رواج و روایات کے بندھن، سیاست، ذاتی اور قبیلوی سیاست انسانی زندگی کے لوازماتِ ضروری ہیں۔ شاعر کہ عام انسان کی نسبت غیر معمولی احساس و شعور کا حامل ہے، ان سب کا تجزیہ اپنی تیز و تُند حس کی روشنی میں کرتا ہے۔

آج کی زندگی پر سیاست کا رنگ گہرا ہے آجکا عام عادمی بھی سیاست کے بغیرلقمہ نہیں توڑتا۔ شاعر کہ نباضِ فطرت بھی ہے اپنی بے پناہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر عوارض کی تشخیص میں غلطی نہی کرتا۔

سید عارف نے بھی اپنے معاشرہ کے عوارض کی کُنہ کو پالیا اور انک حساس مہارت میں ہمدردی ہے، دکھ ہے، جو جگر خراش کراہ بن کر ابھرتی ہے اور سماعتوں کو متاثر کرتی ہے۔ بہرے کانوں میں سیندھ لگا کر دلوں کے پاتال میں جگہ بنا لیتی ہے۔

ارضِ وطن کے بیشتر لمحوں پر مستبدانہ آمریت کا عفریت مسلط رہاہے۔ حسین خوابوں کی تمنا میں دھرتی کے مستعین بھیانک سپنے دیکھتے رہے ہیں،

روشن سحر کی بجائے داغدار اجالوں کے سائے سروں پر مسلسل منڈلاتے رہےہیں، آزادی ء رائے کی دیوی کا گلا گھونٹا جاتا رہا ہے، شاہراہوں پر سولیاں اور ٹکٹکیاں گاڑ کر شرفِ انسانی کی اہانت کی جاتی رہی ہے، خود سوزی کے کے مظاہرے ہوتے رہے ہیں، دانشوروں اور خواتین تک کے چہرے نوچے گئے، بچوں کو یتیمی کے شعلوں میں جھونکا گیا غرض کہ سوہنی دھرتی کو دہکتی آگ کی بھٹی میں تبدیل کر کے عوام کو مسلسل بھونا گیا اور نظریہ ء ضرورت کو جنم دیا گیا ان حالات میں سید عارف سخن طراز ہوتے ہیں

ہم دیے جلاتے ہیں سے کچھ اشعار اقتباس کرتی ہوں

لوحِ وقت پر دیکھیں کس کا نام رہتا ہے
تُم دیے بجھاتے ہو ہم دیے جلاتے ہیں

قد و قامت کو پرکھنے کے لیے ہم نفَساں
منصب و زر کو نہ معیار بنایا جائے

کتنا دشوار ہے یہ فیصلہ کرنا عارف
کس سے دل، کس سے فقط ہاتھ ملایا جائے

خدا کرے کہ کوئی ایسا معجزہ ہو جائے
یہ شہرِ قید شبِ جبر سے رہا ہو جائے

خدا کرے کہ مرا عہدِ مصلحت اندیش
منافقانہ رویوں سے ماوریٰ ہو جائے

ہر ایک گھر میں علم روشنی کے لہرائیں
ہر ایک گھر سے اندھیروں کا انخلا ہو جائے

خوف کی ہر دیوار گرا دے ایک غزل ایسی تو ہو
جو پانی میں آگ لگا دے ایک غزل ایسی تو ہو

تیرگیوں کو راکھ بنا دے ایک غزل ایسی تو ہو
شب کی دستاویز جلا دے ایک غزل ایسی تو ہو

جس میں غالب بول رہا ہو جس میں میر دھڑکتا ہو
جو دونوں کا عکس ملا دے ایک غزل ایسی تو ہو

لغزشوں سے ماوریٰ تو بھی نہیں میں بھی نہیں
دونوں انساں ہیں خدا تو بھی نہیں میں بھی نہیں

رات بھی وِیراں فصیلِ شہر بھی ٹوٹی ہوئی
اور ستم یہ جاگتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں

جن لمحوں کی آس میں ہم نے پیاس کے صحرا پار کیے
جانے کتنی دیر ابھی ہے ان لمحوں کو آنے میں

اک لمحہ درکار ہے اس کے خدو خال مٹانے کو
صدیاں بوڑھی ہوجاتی ہیں جو تصویر بنانے میں

قوموں کی تاریخ میں عارف وہ لمحہ بھی آتا ہے

فصل سروں کی کٹ جاتی ہے اک دستار بچانے میں


سنا ہے شاعری تو معنوی اولاد ہوتی ہے

یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنے بچے بیچ دیتے ہیں


تجھے معلوم کیا ان غمزدہ لوگوں کی مجبوری

جو مُردوں کے کفن قبروں کے کتبے بیچ دیتے ہیں


ہمارا عہد تو کٹھ پتلیوں کا عہد ہے عارف

جہاں سکوں کے بدلے لوگ چہرے بیچ دیتے ہیں


گِھرے ہوئے ہیں عجب عہدِ بے یقینی میں

خبر نہیں کہ کہاں کس کے ساتھ کیا ہو جائے


کہاں کہاں سے اٹھائے سروں کی فصل کوئی

تمام شہر ہی جب دشتِ کربلا ہوجائے


قفس ہو گا نہ دیوارِ قفس کی سختیاں ہوں گی

ذرا موسِم بدلنے دو بڑی تبدیلیاں ہوں گی


کون سا گھر تھا کہ جس گھر سے دھواں اٹھتا نہ تھا

شہر پر یُوں آگ کا بادل کبھی برسا نہ تھا


کتنی سڑکیں تھیں کہ سیلِ روشنی میں بہہ گئیں

کتنے ہی گھر تھے جہاں کوئی دیا جلتا نہ تھا


کہاں حسینؑ کا کردار اور کہاں ہم لوگ

کہاں وہ صبر کا کہسار اور کہاں ہم لوگ


کہاں وہ پیکرِ ایثار اور کہاں ہم لوگ

کہاں رسول کے اطوار اور کہاں ہم لوگ


کہ ہم ضمیر کا نیلامِ عام کرتے ہیں

ہر اک یزیدِ جہاں کو سلام کرتے ہیں


کب تک بن کو باغ لکھیں کانٹوں کو گلاب رقم کریں ہم

دشتِ گماں کی خاک اڑائیں اور سراب رقم کریں ہم


کتنے دکھ لفظوں میں سمیٹیں کتنے غم تحریر کریں

کس کس زخم کو شعر میں ڈھالیں کتنے عذاب رقم کریں ہم


تُم نے جاہ زرومنصب کی اطاعت کی تھی

ہم نے ہر دور میں انساں کی وکالت کی تھی


گھر میں در آیا ہے دشمن تو شکایت کیسی

ہم نے خود اس کو فراہم یہ سہولت کی تھی


نام و نسب کا ذات کا قائل نہیں ہوں میں

ایسی کسی بھی بات کا قائل نہیں ہُوں میں


مجھ سے کرو سحر کے اجالوں کا تذکرہ

غم کی سیاہ رات کا قائل نہیں ہُوں میں


خود داریوں کی موت ہو جن میں چھپی ہوئی

ایسی نوازشات کا قائل نہیں ہوں میں


شبِ سیاہ کا ہر ضابطہ مٹاتے ہوئے

قدم قدم پہ ردائے سحر بچھاتے ہوئے


ہر ایک لمحہ گزارو پیمبروں کی طرح

محبتوں کے چراگوں کی لو بڑھاتے ہوئے


مصافِ زیست میں اک لمحہء گرفت بھی ہے

یہ بات ذہن میں رکھ بستیاں جلاتے ہوئے


اے سیلِ رقصِ فنا تھم! کہ تھک گیا ہوں میں

جنازے پڑھتے ہوئے میتیں اتھاتے ہوئے


قدم قدم پہ ہے درپیش کربلا کا سفر

قدم قدم پہ ہیں منظر لہو رلاتے ہوئے


آخر کب تک روشنیوں کو زنجیریں پہناؤ گے

کب تک خواب جزیروں پر یہ تاریکی برساؤگے


کتنے لوگوں کو مارو گے کتنا خون بہاؤگے

کتنے گھر برباد کروگے کتنے شہر اجاڑو گے


آخر شب کو گزرنا تو ہے آخر دن تو چڑھنا ہے

کتنی صبحیں قتل کرو گے کتنے شہر جلاؤ گے


حقیقت میں کسی سے بھی نہیں ہے دوستی اسکی

بظاہر جو کسی کو بھی خفا ہونے نہیں دیتا


کہیں سیلِ ندا اس کو بہا کر ہی نہ لے جائے

وہ بستی کو ہم آغوشِ صدا ہونے نہیں دیتا


زمانہ اس لیے میرا مخالف ہے کہ میں عارف

کسی صورت بھی توہینِ انا ہونے نہیں دیتا


عشق میں وہ لمحہ بھی کبھی آتا ہے کہ دشتِ ہجراں میں

چلتے چلتے انساں آخر خود سے جدا ہوجاتا ہے


کبھی کبھی تو خاموشی بھی گویائی بن جاتی ہے

کبھی کبھی تو سناٹا خود بانگِ درا ہو جاتا ہے


شب کے سینے میں کوئی خنجر اترتا ہی نہیں

اب ہمارے شہر میں سورج نکلتا ہی نہیں


دُور تک پھیلے ہوئے ہیں خامشی کے دائرے

منجمد احساس کا دریا پگھلتا ہی نہیں


فکرِ سر چھوڑ دے ممکن ہوتو دستار سنبھال

قدو قامت کی سند ملتی ہے دستار کے ساتھ


کون اک دوسرے کو راستہ دیتا ہے یہاں

لوگ لوگوں کو لگا دیتے ہیں دیوار کے ساتھ


جانے کب آنکھ سے یہ نیند کا زنگ اترے گا

ربط کب ہوگا کسی لمحہء بیدار کے ساتھ


جو شخص زباں کھولے بھسم کر دیا جائے

جو سر بھی ذرا اُٹھے قلم کر دیا جائے


فرمان ہے یہ ظلِ الٰہی کی طرف سے

جو شخص جہاں ہے وہیں دم کردیا جائے


کس نے آنگن مرا تاریک بنایا ہوا ہے

کس نے سورج مرے حصے کا چرایا ہوا ہے


میرے معصوم سے لوگوں کی خدا خیر کرے

ایک سیلابِ ہوس ہے شہر میں آیا ہوا ہے


جگمگانے لگیں بجھتے ہوئے چہروں کے چراغ

ایسا موسم بھی کوئی شہر میں لایا جائے


مصلحت پرستوں کی بے ضمیر بستی میں

دشمنی بھی کرتے ہیں پیار بھی جتاتے ہیں


لوحِ وقت پر دیکھیں کس کا نام رہتا ہے

تم دیے بجھاتے ہو ہم دیے جلاتے ہیں


جب بھی شامِ ہجراں کی تیرگی اترتی ہے

ہم ترے تصور کی مشعلیں جلاتے ہیں


بس ایک میں ہی نہیں ہوں ترے خیال میں گم

ہے ایک عالمِ امکاں ترے جمال میں گُم


یہ اپنا اپنا مقدر ہے اپنا اپنا نصیب

کوئی فراق میں گم ہے کوئی جمال میں گم


اندھیروں کا تسلسل مختصر ہونے نہیں دیتا

سحر کا نام لیتا ہے سحر ہونے نہیں دیتا


ہمیشہ دوسروں میں فاصلے تقسیم کرتا ہے

وہ لوگوں کو بہم شیروشکر ہونے نہیں دیتا


وہ شب فطرت ہے اس کو روشنی اچھی نہیں لگتی

کسی گھر میں اجالوں کا گزر ہونے نہیں دیتا


وہ دہشت بانٹتا ہے خوف کے منظر بناتا ہے

کوئی شاخِ تمنا بارور ہونے نہیں دیتا


انا سے دستبرداری مجھے ہر گز نہیں آتی

سو کچھ بھی ہو مین توہینِ بشر ہونے نہیں دیتا


وہ سارے فیصلے حسبِ ضرورت آپ کرتا ہے

کسی کا حرف حرفِ معتبر ہونے نہیں دیتا


امیرِ کارواں رہنے کا اتنا شوق ہے اس کو

کہ دانستہ بھی تکمیلِ سفر ہونے نہیں دیتا


یہی ہوگا یہی ہوتا چلا آیا ہے دنیا میں

تہی دست و تہی داماں کبھی میں ہوں کبھی تو ہے


یہاں تکریم کی مسند کبھی تیری کبھی میری

یہاں تذلیل کا عنواں کبھی میں ہُوں کبھی تُو ہے


نہ اسیرِ دامِ وجود کر مرے چارہ گر

قیود کر مرے چارہ گر مجھے بے نیازِ


مرے چارسو ہے یہ چار سو کا حصار کیوں

مجھے ماورائے حدود کر مرے چارہ گر


تو رفتگان کی اقدار کو سنبھال کے رکھ

انا کی دولتِ بیدار کو سنبھال کے رکھ


ترا وجود کئی زلزلوں کی زد میں ہے

وجود کے درو دیوار کو سنبھال کے رکھ


اختیارات کی تقسیم غلط ہے ورنہ

کتنے ہی سر ہیں کہ جو لائقِ دستار نہیں


معرکہ جب بھی بپا کرب و بلا کا ہو گا

وہی خیمے وہی مققتل وہی صحرا ہو گا


بیعتِ جبر پہ اصرارکی عادت بھی وہی

آوہی شبیر کے انکار کا لہجہ ہوگا


جس کے سینے سے محبت کی ضیا پھوٹے گی

کتنی صدیوں پہ محیط ایک وہ لمحہ ہو گا


میری صبحیں اور اجالے سارے اغوا ہو گئے ہیں

لو دیتے ہوئے روشن لمحے سارے اغوا ہو گئے ہیں


چاروں جانب تاریکی کا وحشی جنگل پھیلا ہے

میرے فلک کے چاند ستارے سارے اغوا ہو گئے ہیں


روشنی دفن ہو گئی شب کے گھنے غبار میں

عمر تمام ہو گئی صبح کے انتظار میں


لمحہ ء خوشگوار کا رزق بنا گیا مجھے

مجھ سے ملا تھا جو کسی لمحہ ء خوشگوار میں


باہر کا موسم کیا کرے دل ہی اگر زندہ نہیں

یہ شہر ایسا شہر ہے اجڑے تو پھر بستا نہیں


میں نے تجھے چاہا نہ ہو، ڈھونڈا نہ ہو ، سوچا نہ ہو

ایسی کوئی ساعت نہیں ایسا کوئی لمحہ نہیں


تجھ سا تو کیا ہلکا سا بھی جس پر گماں گزرے ترا

ایسی کوئی صورت نہیں ایسا کوئی چہرہ نہیں


ستم کہنا ستم کو سرکشی کو سرکشی لکھنا

مری فطرت میں ہے سچ بولنا باتیں کھری لکھنا


مجھے عادت نہیں ہے دن کو عارف رات کہنے کی

مجھے آتا نہیں ہے تیرگی کو روشنی لکھنا


یا بن کے احتجاج بپھر جانا چاہیے

یا پھر غریبِ شہر کو مر جانا چاہیے


یہ اختلافِ رائے ضروری تو ہے مگر

یہ بھی نہیں کہ حد سے گذر جانا چاہیے


یا چاہیے اتار لیں دل میں کسی کو ہم

یا خود کسی کے دل میں اتر جانا چاہیے


وہی صبحِ سینہ فگار ہے، وہی موسمِ شبِ تار ہے

وہی تیرگی کا حصارتھا، وہی تیرگی کا حصار ہے


وہی قافلہ کسی خواب کا کسی دشتِ شب میں رکا ہوا

وہی منزلوں کا فریب ہے وہی فاصلوں کا غبار ہے


بزرگوں سے تو یہ بچے بھلے ہیں

کہ جو بے ساختہ سچ بولتے ہیں


وہی بچپن کے دن اچھے تھے عارف

بڑے ہو کرتو چھوٹے ہو گئے ہیں


آؤ کہیں سے اجلے اجلے موسم ڈھونڈ کے لے آئیں ہم

آؤ کوئی ہنستا ہوا موسم آنکھوں میں تصویر کریں


تاریکی کا کوئی لمحہ شہر میں داخل ہو نہ سکے

لمحوں کے اوراق پہ اتنی روشنیاں تحریر کریں


ہرجبرِ امتدادِ زمانہ کے باوجود

تاریخ کی جبیں پہ چمکتا رہا ہوں میں


سمٹا تو دردِ دل تھا جو پھیلا تو کائنات

قطرہ رہا ہوں میں کبھی دریا رہا ہوں میں


مہرباں ہے جو ستم گر بھی تو ہو سکتا ہے

پھول سے ہاتھ میں پتھر بھی تو ہو سکتا ہے


کسی انسان کو کمتر نہ سمجھ اپنے سے

کیا خبر تجھ سے وہ بہتر بھی تو ہو سکتا ہے


کوئی بابِ کتابِ نور وا ہونا ضروری تھا

گھروں سے تیرگی کا انخلا ہونا ضروری تھا


ہمیں اک دوسرے کے ساتھ کتنی دور جانا ہے

ہمارے درمیاں یہ فیصلہ ہونا ضروری تھا


اب دل میں وہ مہکے ہوئے جذبے نہیں ملتے

اجڑے ہوئے گلشن میں پرندے نہیں ملتے


اغراض کے بندوں سے نہ اخلاص طلب کر

صحرا میں گھنے پیڑوں کے سائے نہیں ملتے


غیرتِ پندارودستارِ انا درکار ہے

پھراندھیروں سے الجھنے کی ادا درکار ہے


بجھ رہے ہیں پھر زمانے میں صداقت کے چراغ

پھر شعورِ عظمتِ کرب و بلا درکار ہے


تُو مرے جلتے ہوئے شہروں کا نقشہ دیکھنا

ہر طرف گرتی ہوئی لاشوں کا ملبہ دیکھتا


یا کسی کی ٹوٹتی آہوں سے کرتا گفتگو

یا کسی بیوہ کے بیٹے کا جنازہ دیکھتا


شہر میں یہ کیا ہوا سب سے جدا سب سے الگ

جل اٹھی ساری فضا سب سے جدا سب سے الگ


رکھ دیے ہیں کس نے یہ جلتے ہوئے شعلوں پہ دل

یہ دھواں کیسا اٹھا سب سے جدا سب سے الگ


اجالوں میں گھلی اس کی ادائیں ساتھ رکھتا ہوں

میں اس زلفِ معنبر کی گھٹائیں ساتھ رکھتا ہوں


زمانے بھر کے لوگوں سے محبت میرا مسلک ہے

زمانے بھر کے لوگوں کی دعائیں ساتھ رکھتا ہوں


وفا کی راہ میں عارف کہیں کوفہ بھی آئے گا

سو میں ہر گام اپنی کربلائیں ساتھ رکھتا ہوں


روشنی جھوم کے خود انکے قدم چومتی ہے

پاراک بار جو دشتِ شبِ وحشت کر جائیں


جس کے ہر حرف میں آسودہ ہو صدیوں کا شعور

لوحِ امکاں پہ رقم ایسی عبارت کر جائیں


کتنی نسلیں بے یقیں لمحوں کا ایندھن بن گئیں

کتنی صدیاں ہو گئیں صبحوں کا رستہ دیکھتے


زندگی تو ایک دشت ِ بے درودیوار تھی

دشت میں ہم کیا درو دیوار و سایہ دیکھتے


یہ اشک و آہ میں ڈوبی صدا بھی اپنی ہے

فضا میں بکھرے ہوئے بال و پر بھی اپنے ہیں


یہ بین کرتی ہوئی ساعتیں بھی سب اپنی

یہ روتے پیٹتے شام و سحر بھی اپنے ہیں


پیشانیء ضمیر میں خم اور کتنی دیر

ہے سرنگوں انا کا الم اور کتنی دیر


بابِ سحر پہ رات کی زنجیر کب تلک

ہے صبح شب کے زیرِ قدم اور کتنی دیر


شہرِ جاں میں یہی ہوتا رہا لمحہ لمحہ

ٹوٹ کر کوئی بکھرتا رہا لمحہ لمحہ


ایک لمحہ جو ترے قرب میں بھیگا تھا کبھی

مجھ پہ وہ لمحہ اترتا رہا لمحہ لمحہ


میرے لیے انتخاب کافی کٹھن مرحلہ تھا کیونکہ ہر غزل کا ہر شعر اپنے اسلوب اپنے ابلاغ میں اتنا جامع نظر آیا کہ جی چاہتا تھا

پوری کی پوری غزل لکھ دی جائے، "ہم دیے جلاتے ہیں" کہ یہ اشعار امید ہے آپ احباب کے ذوقِ سخن کو جِلا بخشیں گے

اور آپ احباب کو سید عارف صاحب کی شاعری ان کا مزاحمتی انداز و اسلوب پسند آئیگا
میں دعا گو ہوں اللہ سید عارف ایسے سخنور کو عمرِ خضر عطا کرے آمین
Aisha Baig Aashi
About the Author: Aisha Baig Aashi Read More Articles by Aisha Baig Aashi: 4 Articles with 15146 views
تصور سے نہاں ہوتی نہیں ہُوں
نگاہوں پر عیاں ہوتی نہیں ہُوں

جہاں ہوتی ہُوں واں ہوتی نہیں ہُوں
میں ہوتی ہُوں جہاں ہوتی نہیں ہُوں

فسانوں کو بیاں
.. View More