اسلم راہی کی شاعری۔۔۔۔ مجموعہ زخم گلاب ہوئے

اسلم راہی بھائی جو ہمیشہ مجھے اپنی بہن سمجھتے ہیں انہوں نے اپنے دو شعری نسخے “ہوا کے رنگین پیرہن پر“ اور “زخم گلاب ہوئے“ مجھے بھجوائے اور مجھ ایسی طفلِ مکتبِ سخن سے رائے دینے کو کہا
میرے لیے تو یہ بہت مشکل امر ہے کہ میں اسلم راہی بھائی کی شاعری کے حوالے سے کہوں،

بازارِ ادب میں انکی شاعرانہ قدر و قیمت کا تعین کرتے ہوئے میری کیفیت اس بڑھیا کی مانند ہے جو سوت کی ایک اٹی لے کر قیمتِ یوسف لگانے آئی تھی-

فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی سے لے کر جلیل عالی اور رفیق سندیلوی تک تشکیل پانے والا عہدِ غزل اگر مکمل نہیں تو غالب حد تک اس عہد سے مختلف ہے جو قلی قطب شاہ سے کر داغ دہلوی پر ختم ہو جاتا ہے یہ تبدیلی موضوعات کی تبدیلی ہے، اور موضوعات کے ساتھ لسانی ڈھانچے بھی متغیر ہوئے،

ویسے تو اسلم راہی کی شاعری فیس بک کے حوالے سے پڑھنے کو میسر آتی رہی مگر کتابی صورت میں جب دیکھا تو مو خرالذکر عہد کے کسی استاد شاعر کا گمشدہ نسخہ نظر آیا،

کیونکہ زبان کے و بیان کے اعتبار سے یہ اردو کی کلاسیکی غزل کی تمام تر روایات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ لیکن جیسے جیسے مطالعہ کرتی رہی مجھے اپنی رائے بدلنی پڑی

کیونکہ اسلم راہی کے مجموعہ “زخم گلاب ہوئے“میں ہمعصر سماجی شعور اور حسیت کا عکس بھی ملااردو غزل کے قدیم موضوعات میں سے حسن و عشق کا موضوع بھی باریش رومانویت کے ساتھ در آیا
اور انہوں نے قدیم علامات سرِ بازار، نرگسِ بیمار، دلِ افگار، سایہ ء دیوار ، دلِ مضطر، سنگِ ملامت ، قصہ ء الفت ، فصیلِ شہر ، ذکرِ لب و چشم ، شبِ دیجور ، سرِ مقتل، غرورِ حسن ، طرزِ جفا ، طرزِ ستم ، نغمہ ء جرس، داغِ فرقت، کہیں ان کا محبوب حقیقی ہے تو کہیں غزل کا روایتی محبوب ہے،

تاہم معاملاتِ عشق میں اسلم راہی کے بیان میں سوز و گداز کے عناصر ملتے ہیں

صرف داغ اور جرات کی سی بیباکی ہی نہیں ہے بلکہ ایک سلجھاؤ اور پاکیزگی کا احساس ہوتا ہے
اسلم راہی کے اس مجموعہ میں بہت سی طرحی غزلیں ہیں جو ان کی ادب محفلی کی عکاسی کرتی ہیں اور روایتی غزل کے فروغ کا موجب ہیں

اسلم راہی کی شاعری میں عصری حسیت اور سیاسی شعور بکثرت ملتا ہے اور یہ ان کی شاعری کا ایک رخ ہے، کوئی بھی شاعر گرد و پیش سے متاثر ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا اور گھٹن قفس کو چیرتی ہوئی غزلیات بھی انکی شاعری کا اہم جزو ہیں

ادب ادب کے لیے کہ زندگی کے لیےاس سوال کا جواب اسلم راہی کی شاعری سے ملتا ہے جہاں ادب اور زندگی کو ساتھ ساتھ لے کر چلنے کا وجدان کسی سالک کی طرح نظر آتا ہے

اسلم راہی ایک مشاق اور استاد شاعر ہیں ان کے ہاں نوک پلک اس خوبصورتی سے سنواری جاتی ہے کہ بسا اوقات محسوس ہوتا ہے جیسے کسی جوہری نے بہت مہارت سے نگینے زیور میں جڑ دیے ہیں
اسلم راہی کی عصری حسیت انہیں روایتی موضوعاتِ تنگنائے غزل سے نکال کر جدید شعری تقاضوں کی سر سبز وادی میں لے آتی ہے۔

انکی گہری بصیرت دورِ حاضر کی روشنی پر ظلمتوں کے دبیز پردے دیکھ لیتی ہے اور سیاسی سطح پر وہ اس کا کھلم کھلا اظہار بھی کرتے ہیں

ماں سے محبت انکی شاعری کا ایک ایسا رخ ہے جو دعائے نور کے ماں کے دم کی طرح درخشاں حوالہ ہے

اسلم راہی کی کتاب “زخم گلاب ہوئے“ سے کچھ اشعار قارئین کی ذوقِ مطالعہ کی نذر کرتی ہوں

کس سے کہنا کیا بربادی کے اسباب ہوئے
زخم کہے اور زخم لکھے تو زخم گلاب ہوئے

ساتھ جینے کی رعایت لے کر
کوئی مرتا ہے تو مر جانے دے

بستیاں روز اجڑ جاتی ہیں
روز ملتی ہے خبر جانے دے

چشمِ حیراں سے ہر اک دیکھے گا
زلفِ جاناں سنور جانے دے

اب بھی کرتا ہے شرارت وہی بچوں جیسی
دل پہ حالانکہ چلائے گئے آرے کتنے

جب بھی امیرِ شہر کی شہ سرخیاں لگیں
اس نے کہا کہ شام کے اخبار آگئے

منصور کے لقب سے نوازا گیا انہیں
حق بات کے لیے جو سرِ دار آگئے

اک امتحان بھی ہوتا ہے آدمی کے لیے
کبھی کبھی کوئی عجلت میں فیصلہ کرنا

فیصلہ دل کی عدالت پہ جو رکھا ہے تو پھر
یار کو میں نے مرے یار نے بخشا مجھ کو

داغِ ہر خونِ تمنا، غمِ دوراں غمِ دل
ہائےکیا کیا نہ ترے پیار نے بخشا مجھ کو

کس کو فرصت ہے اتنی
دیکھے جو اندر کی آگ

بجھتی خون افشانی سے
کاش دلِ مضطر کی آگ

کم نہ ہوئی اسلم راہی
اور بڑھی اندر کی آگ

زمانہ مجھ کو جھلاتا رہا صلیبوں پر
کہ بولتی رہی میری انا غلط کو غلظ

ہمیں نصیب سے کوئی گلہ نہیں راہی
کہ ہم غلط ہیں ملے رہنما غلط کو غلط

خدا کی دین ہے ورنہ کبھی عطا کے بغیر
یہ دولتِ ہنرِ شاعری نہیں ملتی

یزیدِ وقت سے وہ صلح کر نہیں سکتا
تمام لڑا جو یزیدیت کے خلاف

کھو بیٹھے ایک بار جو عمامہ ء وقار
پھر اس کے بعد شانِ فضیلت نہ لے سکے

اربابِ اختیار پہ ہم جاں بھی وار کر
کچھ ایسے کم بساط کہ اجرت نہ لے سکے

اس قدردوست کی رسوائی سے خائف ہیں کہ ہم
روز اک خط اسے لکھتے ہین جلا دیتے ہیں

ایسی قسمت ہی ہماری ہے کہ ہم لوگ جسے
ٹوٹ کر چاہنے لگتے ہیں گنوا دیتے ہیں

کتنے صابر ہیں ترے چاہنے والے کہ تجھے
ٹوٹ کر پیار بھی کرتے ہیں جتاتے بھی نہیں

توضیح عدالت میں نہیں ہے جسکی
آئین کہا جائے ہے پھر کیا کیجے

تم نے دور سے کونجوں کی آواز سنی ہے

نغمہ ء فرقت کیا ہوتا ہے تم کیا جانو

ہم سے پوچھو ہم عنوان ہیں اس قصہ کا
قصہ ء الفت کیا ہوتا ہے تم کیا جانو

خون تھوکا شبِ فرقت میں بسر ہونے تک
کیا بتاؤں کہ جو بیتی ہے سحر ہونے تک

فاش کر سکتی ہیں وہ راز نگاہیں اُن کی
ایک قطرے میں جو مضمر ہے گہر ہونے تک

کوئی پودا جو لگایا بھی تو اسلم راہی
دیکھ بھال اس کی بہت کی ہے شجر ہونے تک

وہ نگاہ دیکھ سکتی یہ تبسمِ لبِ گل
کوئی رشتہ شاعری سے اگر استوار ہوتا

نہ راس آئی یہاں کی
ہمیں آب و ہوا کچھ

عجب قسمت ہے راہی
کیا کچھ ہو گیا کچھ

اب رلاتی نہیں کسی کی یاد
خوں بہائے ہوئے زمانہ ہوا

ستادہ ہیں جو مرے آس پاس دیواریں
کسے دروں نہ کہوں میں کسے بروں نہ کہوں


جوش کو راہ نہ دی ہوش کو قائم رکھا
سامنے ایک منہاجِ عزائم رکھا

بھولنے کی مجھے عادت نہیں اسلم راہی
یاد رکھا جسے میں نے اسے دائم رکھا

ایک مدت سے یہی حالِ زبوں ہے یوں ہے
ہم سے مت پوچھیے بس دیکھیے کیوں ہے یوں ہے

اب نہ وہ ذکرِ لب و چشم نہ وہ زینتِ خواب
شہرِ آشوب میں کچھ اور فسوں ہے یوں ہے

ایک بھائی کی ہوگئی تذلیل
دیکھ کر خوش ہے دوسرا بھائی

فراق میں کسی خط کی طرح جلائے مجھے
کبھی تو راکھ بنوں اور وہ اڑائے مجھے

بہت دنوں سے کوئی بوجھ ہے مرے دل پر
وہ آئے اور وہ آکر بہت رلائے مجھے

ایک اک کر کے ستارے بجھ گئے
آسماں پر چاند تنہا رہ گیا

آج پھر فاقہ کشوں کے درمیاں
میرے ہونٹوں تک نوالہ رہ گیا

اس ایک آس پہ اُس بے وفا سے ملتا ہُوں
کبھی وہ پیار سے شاید گلے لگائے مجھے

غرورِ حسن کبھی مہرباں نہیں ہوتا

وہ مہرباں ہے تو پھر یُوں نہ آزمائے مجھے

وہ روح کے ملبوس میں رکھتا ہے مرے زخم
میرا وہ سراپا مجھے ہونے نہیں دیتا

ساحل پہ چمکتا ہوں کسی ریت کی صورت
وہ ریت سے دریا مجھے ہونے نہیں دیتا

بندھے ہوئے ہاتھوں سے قفس کھول رہا ہوں
اُڑنے کے لیے آج بھی پر تول رہا ہُوں

یہ تتلیاں یہ جگنو یہ تیور بہار کے
ہمراہ کیسے کیسے ہیں سوغات پیار کے

مرتے ہوئے بھی ایک وہی سامنے رہا
نکلی ہماری جان اسی کو پکار کے

کیا بھلا اس کے مقابل کوئی نعمت اچھی
ماں کے قدموں سے جو لپٹی وہی جنت اچھی

حج کے طالب ہو تو دیکھا کرو ماں کا چہرہ
اِس سے ہوجاتی ہے کعبہ کی زیارت اچھی

میرے بچے بھی مجھے اچھی طرح برتیں گے
میں نے کی ہوگی اگر ماں تری خدمت اچھی

بس مجھے ماں کی دعا چاہیے اور کچھ بھی نہیں
یہی سرمایہ ہے اچھا یہی دولت اچھی

مجھے چاہے سنوارے یا بکھیرے
اُسکے گیسوئے پیچاک میں ہُوں

یہ مرے شعر مرے گیت یہ میرے نغمات
تیری سوغات ہیں تو ان کے بہانے آجا

دیے جلاکے بھی ہر آدمی اندھیرے میں
تلاش کرنے لگا روشنی اندھیرے میں

سب سے لاگ لگاؤ
نہیں کسی سے بیر

پریم کی گنگا میں
تیر مزے سے تیر

درد سینے میں پالتے رہنا
اور پھر دل سنبھالتے رہنا

ہم نے سیکھا ہے عشق میں راہی
رنجشین ہنس کے ٹالتے رہنا

اے جانِ جاں پلٹ کے مرا کوئی دم نہ آئے
جس دم بھی تیری یادسے پہلو تہی کروں

یہ شہر اس لیے کرتا ہے احتیاط زرا
نہ جانے حادثہ اس ناتواں پہ کب ہو جائے

اپنی آواز میرے کانوں میں
گھول جاتا ہے کوئی رس کی طرح

کس قیامت کے منتظر ہیں لوگ
اور بھی آئے گی قیامت کیا

کال ہو جب پانی اور اَن ( اناج) کا
آپ ڈھلک جاتا ہے منکا

جب اس کے زیرِ سایہ ء دیوار آگئے
ہر بار ہم گئے کہیں ہر بار آگئے

آج ہر ایک غنچہ ء زخم گلاب کر دیا
تم نے خراب حال کو اور خراب کر دیا

تجھ سے منسوب ہوئے خواب ہمارے کتنے
جھلملائے ہیں سرِ شام ستارے کتنے

ایک ایک کر کے جدا ہو گئے اسلم راہی
میرے دلبر میرے اپنے مرے پیارے کتنے
Aisha Baig Aashi
About the Author: Aisha Baig Aashi Read More Articles by Aisha Baig Aashi: 4 Articles with 15145 views
تصور سے نہاں ہوتی نہیں ہُوں
نگاہوں پر عیاں ہوتی نہیں ہُوں

جہاں ہوتی ہُوں واں ہوتی نہیں ہُوں
میں ہوتی ہُوں جہاں ہوتی نہیں ہُوں

فسانوں کو بیاں
.. View More