الیکٹرونک ووٹنگ مشین

غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی طرف سے قومی انتخابات میں پہلی بار زبردست کامیابی حاصل کرنے کے بعد، نریندر دامودرداس مودی جن کی عمر 63 سال ہے،بھارت کے اگلے وزیراعظم بننے کے لیے تیار ہیں۔حالیہ ہوئے انتخاب کے آنے والے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی نے ملک کے سولہویں لوک سبھا کے انتخابات میں زبردست پارلیمانی برتری حاصل کر لی ہے۔ اس سے پہلے بی جے پی نے تین بار حکومت کی ہے، 1996، 1998 اور 1991 میں مگر اسے کبھی اتنی بڑی اکثریت حاصل نہیں ہوئی ہے۔ جو نتائج کی توقع عمومی طبقہ لگائے بیٹھا تھا اس کے بر عکس فیصلہ آنے پر ہر خاص وعام حیران ہے،ہر کوئی اسکی اندرونی وجہ جاننا چاہتا ہے ،خاص طبقہ تو الیکٹرا نک ووٹنگ مشینوں پر ہی شک کر رہا ہے،کیونکہ انتخابات سے قبل الیکٹرا نک ووٹنگ مشینوں میں چھیڑ چھاڑ کی خبریں بھی منظر عام پر آئی تھیں جس میں کسی بھی امیدوار کی بٹن کو دبا نے پر ووٹنگ کی لال بتّی بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہی روشن ہوتی تھی،مگر یہ معاملہ شاید حکمت سے دبا دیا گیا،اب انتخابات کے نتائج پورے پورے بی جے پی کے حق میں ظاہر ہونے کے بعد الیکٹرا نک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کے ذریعہ ووٹوں میں گڑ بڑی کرنے اور نتائج کو بدلنے کے الزامات نہ صرف یہ کہ حزب اختلاف کی جماعتیں عائد کر رہی ہیں بلکہ بیرونی مما لک سے بھی اس طرح کی خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ ای وی ایم مشینوں میں چھیڑ چھاڑ کی گئی اور نتا ئج بدلے گئے۔ بی بی سی کے سائنس رپورٹر جولین سڈل نے امریکہ کی مشی گن یو نیور سٹی کے سائنس دانوں کے حوالے سے خبر دی ہے کہ ہندوستان کی ای وی ایم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے اور نتائج کو بدلا جا سکتا ہے۔حا لا نکہ الیکشن کمیشن کا دعوی ہے کہ ای وی ایم میں کسی طرح کی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جا سکتی بی بی سی نے مشی گن یو نیورسٹی کے ایک سائنس داٰں پروفیسر جے الیکس ہیلڈر مین کے حوالے سے خبر دی ہے کہ انہوں نے ایک ایسی ٹیکنک ایجاد کی ہے جس میں مو بائل فون کے ذریعہ میسج بھیج کر نتائج کو بدلا جا سکتا ہے۔ مسٹر ہیلڈ ر مین کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ تجربہ ای وی ایم جیسی ایک نقلی مشین بنا کر کیا۔ اس مشین کے نیچے انہوں نے ایک مائیکرو پروسیسر اور بلو توتھ ریڈ یو خفیہ طریقہ سے چپابدیا۔ تجربہ کے دوران وہ دیکھ کر حیرت زدہ ہو گئے کہ اس نقلی مشین میں دکھا ئی گئے نتائج کو بڑی آسانی کے ساتھ بدلا جا سکتا ہے اور اس کے اعداد و شمار میں مر ضی کے مطا بق تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں لیکن ہندوستان کے ڈپٹی الیکشن کمشنر آلوک شکلا کا دعوی ہے کہ ابھی تک ایسا کوئی سافٹ ویئر تیار نہیں ہوسکاہے جو ای وی ایم مشینوں کے اعداد و شمار میں کسی طرح کی تبدیلی کر سکے۔جنہیں ایک خاص طریقے سے پر پزبلٹ کمپیوٹرچپس کے ذریعہ محفوظ رکھا جاتا ہے۔ لیکن کانگریس پارٹی کے تر جمان اور حال ہی میں ممبئی شمال حلقے سے الیکشن ہارے سنجے نروپم نے الزام عائد کیا ہے کہ ان انتخابات میں بڑے پیمانے پر بی جے پی کار کنوں نے ای وی ایم میں مداخلت کی اور نتائج کو بدل دیا۔۔۔! ہمارے پڑوسی ملک کے مشہور سفیر جناب کنورمحمد دلشاد صاحب کہتے ہیں کہ دہلی میں قیام کے دوران مجھے میڈیا اور دیگر ماہرین نے بتایا کہبھارت کی الیکٹرانک ووٹنگ مشین غیر محفوظ ثابت ہوتی ہے۔ بھارتی ماہرین اور بین الاقوامی ماہرین کی ایک مشترکہ ٹیم نے باہمی اشتراک سے جو مو مطالعاتی رپورٹ تیار کی ہے۔ اس میں کافی سنسنی خیز انکشافات ہوئے ہیں جن میں سے کچھ اس طرح سے ہے کہ بھارتی انتخابات میں ماضی میں ووٹر الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے ووٹ ڈالتے رہے۔ ان کے تجربے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد کو من پسند انداز میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اور اس کے اندر موجودہ ووٹوں میں دھاندلی ہو سکتی ہے۔ بھارت میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی سوجھ بوجھ رکھنے والے یہ معلوم کر چکے ہیں کہ مجرموں کے ووٹ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے ڈلوائے جاسکتے ہیں اور الیکشن نتائج کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

بین الاقوامی ماہرین کے مطابق الیکشن کمیشن آف انڈیا کے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بارے میں غیر جانبداری، شفاف اور غلطیوں سے مبرا انتخابات کے دعوے بے سود ہو کر رہ گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کا یہ دعویٰ تھا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں عام انتخابات کے لئے جو الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم اختیار کئے جاتے رہے ہیں۔ ان میں ظہور پذیر ہونے والے نقائص بھارت کی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں نہیں ہے۔ یہ دعویٰ چند سال پیشتر کیا گیا تھا کہ بھارتی الیکٹرانک ووٹنگ مشین ہر لحاظ سے مکمل مشین ہے اور کوئی بھی ثابت نہ کرسکا کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا جو ووٹنگ مشین استعمال کر رہا ہے اس میں جعل سازی کی جاسکتی ہے۔ بھارت کے کروڑوں ووٹر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے ووٹ ڈالتے ہیں ۔ عام انتخابات میں تقریباً 14لاکھ سے زائد مشینیں استعمال کی گئی جو ساری کی ساری متنازعہ ہو جانے والی الیکٹرانک ووٹنگ مشین وارنٹی کی ہیں۔ یہ مشینیں انٹرنل میموری کے لئے ووٹ ریکارڈ کرتی ہیں لیکن بعد ازاں معائنے یا دوبارہ گنتی کے لئے کوئی پیپر ریکارڈ مہیا نہیں کرتیں۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر پر سارا بھروسہ کر رکھتے ہیں۔ جب کہ دنیا بھر میں پیپرلیس الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کو آج تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انہیں نقائص کو ملحوظ رکھ کر جرمنی، آئرلینڈ، ہالینڈ، برطانیہ، فن لینڈ، اٹلی اور کئی امریکی ریاستوں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا جنرل الیکشن کے لئے استعمال ترک کر دیا ہے اور انہوں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو بند کر کے دوبارہ بیلٹ کا نظام اپنا لیا ہے۔ اس حقیقت کے پیشِ نظر جنوبی ایشیائی ممالک پاکستان ، افغانستان ، بھارت، سری لنکا ، بھوٹان ، نیپال جیسے ممالک کے مقابلے میں مذکورہ یورپی ممالک بہت ترقی یافتہ ہیں۔ا گر یورپ اور امریکی ریاستیں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ناقابل اعتماد ہونے اور ان سے جعل سازی کے امکانات موجود ہونے کی بناء پر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا طریقہ کار ترک کر کے بیلٹ پیپر کی طرف واپس آگئے ہیں۔ تو بھارت کے عام انتخابات میں استعمال ہونے والی الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے بھی جنرل الیکشن کے جعلی نتائج سامنے لانا خارج از امکان نہیں۔ بھارتی الیکشن کمیشن کے دعوؤں کے برعکس کہ ان کا پیپر لیس الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم نقائص سے مبرا ہے مگر انٹرنیشنل ماہرین اور بھارتی ماہرین نے جو سروے بھارتی الیکٹرانک ووٹنگ مشین سسٹم کا کیا ہے۔ اس سے یہ بات سامنے آگئی ہے کہ انڈین الیکٹرانک ووٹنگ مشین نظام میں دھاندلی کے خواہاں امیدوار اپنے من پسند کمپیوٹر کے ماہرین اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ماہرین الیکشن رزلٹ تبدیل کراسکتے ہیں۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ الیکشن کمیشن آف انڈیاکو ان حقائق کے اِدارک کے لئے تحقیق کر کے ہی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے منصوبے کو آگے بڑھانا چاہیے۔
Asif Jaleel
About the Author: Asif Jaleel Read More Articles by Asif Jaleel: 225 Articles with 251038 views میں عزیز ہوں سب کو پر ضرورتوں کے لئے.. View More