بھارت میں کوئی بھی واقعہ ہوجائے
یا حکومت تبدیل ہو ہمارے ذرائع ابلاغ اسے خصوصی اہمیت دے کر پروگرام نشر
کرنے لگتے ہیں ۔ ہمسایہ ملک اور جارحانہ عزائم رکھنے کی وجہ سے ہمیں محتاط
ضرور ہونا چاہئے اور اپنی پوری تیاری رکھنی چاہئے لیکن اسے اس طرح اہمیت
نہیں دینی چاہئے کہ انہیں احساس ہو کہ وہ نہ جانے کیا ہیں اور کتنی طاقت
رکھتے ہیں ۔ بھارت میں بننے والی نئی حکومت کے بارے میں قیاس آرائیاں کی
جارہی ہیں ۔ خاص طور پر اس کی جارحانہ خارجہ پالیسی کے بارے میں کہ وہ کیسی
ہوگی ۔ حکومت میں آنے سے پہلے ووٹ لینے کے لئے لوگوں کو نئے نئے نعرے دیے
جاتے ہیں ، وعدے کیے جاتے ہیں اور تبدیلی لانے کے لئے ہر قسم کھائی جاتی
ہے۔ لیکن مسند حکومت پر بیٹھ کر وہ سب کچھ نظر آنے لگتا ہے جو پہلے اوجھل
تھا۔ پھر حالات کے مطابق پالیساں تشکیل دی جاتی ہیں ۔ سب سے اہم کردار ان
لوگوں کا ہوتا ہے جو وزیر اور مشیر ہوتے ہیں اور جن کی رائے اور معلومات پر
فیصلے کئے جاتے ہیں ۔ جتنے قابل اور نیک نیت مشورہ دینے والے ہوں گے حکومت
اتنی ہی بہتر اور سوجھ بوجھ سے فیصلے کرے گی۔ بھارت کے موجودہ حالات میں
ایک بات تو سمجھ آگئی کہ مسلمانوں کے لئے اب مشکل وقت آگیا ہے۔ ایک طرف تو
حکومت میں شریک لوگ نہ صرف محتسب بلکہ ہندواتہ کے نظریے کو مانتے ہیں ۔
مسلمانوں کی کم نمائندگی سے بھی بہت سے مسائل ہوں گے۔ اُن کی آواز اُٹھانے
اور سننے والے کم ہیں ۔ اس طرح مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسری اقلیتوں کے لئے
خطرہ ہوسکتا ہے کہ ا ن کے ساتھ تنگ نظری اور برا سلوک ہو۔ کشمیر کے
مسلمانوں کے لئے بھی آزمائش کا وقت ہے کیونکہ انہیں مزید دبانے کے حربے
استعمال کیے جائیں گے۔
بھارت کا سب سے بڑا مسئلہ خود کو خطے میں سب سے زیادہ طاقتور دکھانے کا ہے
اور اس کیلئے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے ۔ اب اس کے دو ہی طریقے ہیں۔ ایک تو
اسلحہ و بارود جمع کرنا اور دوسرا معاشی طور پر خود کو مستحکم کرنا۔ جہاں
تک دفاعی معاملات کا تعلق ہے بھارت کے جارحانہ عزائم کا سب کو علم ہے ۔
لیکن اس کے باوجود مغربی ممالک اسے جدید اسلحہ فروخت کرتے ہیں۔ ہماری تیاری
اور نیوکلئیر پروگرام ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے جس کی وجہ سے بھارت کو
کوئی قدم اُٹھانے سے پہلے سو بار سوچنا پڑتا ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم
اپنی دفاعی صلاحیت اور تیاری اتنی رکھیں کہ کسی کو بھی آنکھ اُٹھا کر
دیکھنے کی جرأت نہ ہو۔
بھارت کی اپنی فوج کے مسائل کافی شدید نوعیت کے ہیں جس کے باعث پچھلی ایک
دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے بارہ ہزار افسروں کی کمی کو پورا نہیں کیا جا
سکا ۔ فوج کے اعلیٰ عہدیداروں کا کرپشن اور اخلاقی معاملات میں ملوث ہونا
بھی باعث تشویش رہا ہے۔ حتیٰ کہ میجر جنرل کے عہدے پر کورٹ مارشل تک ہو ا۔
حد تو یہ ہے کہ اب آرمی چیف کے عہدے پر ایسے لوگ تعینات ہورہے ہیں جن پر
قتل کے الزامات ہیں ۔ بھارتی فوج کے مورال کا یہ حال ہے کہ پچھلے سالوں میں
خود کشی اور دیگر جرائم کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ۔ یہاں تک کہ دہلی میں
آرمی کے قبضے کی بازگشت بھی سنائی دی۔
بھارت کی دوسری ترجیح معاشی خود مختاری اور عالمی منڈیوں تک رسائی ہے۔
بھارت پہلے" شاننگ انڈیا" کا ڈھونگ رچا کر ساری دنیا کو بیوقوف بنا چکا ہے
۔ اس لئے اب شاید ان کا طریقہ کار بدلے اور وہ زیادہ سے زیادہ تجارت کو
فروغ دیں۔ اس کے لئے اسے ہمسایہ ممالک کے علاوہ مغربی ممالک کے بھی تعاون
کی ضرورت ہوگی۔ جہاں بھی منافع کی شرح بڑھا دی جائے سرمایہ دار بھی آجاتے
ہیں اور خریدار بھی۔ اس لئے بھارت اپنی معاشی ترقی کیلئے ایک ساز گار ماحول
بنانے کے لئے جدو جہد کرے گا۔ پاکستان ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں
مخلص ہے اور برابری کی سطح پر معاملات کو دیکھتا ہے۔ ایک طبقہ ایسا ہے کہ
جو تجارت کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے اپنے ملک میں مہنگائی پر
قابو پانا ضروری ہے۔ اپنے وسائل کا جانچنا اور درست طریقے سے استعمال کرنا
بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اﷲ تعالیٰ نے پاکستان کو ہر نعمت
سے نوازہ ہے۔ ذراسی عملی حکمت اور محنت ہمیں اس مقام پر پہنچا سکتی ہے جہاں
ہم خود دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں ۔
بھارت کی خارجہ پالیسی میں بھی تبدیلی متوقع ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ
بھارت اس میں سختی رکھے گا۔ جس طرح خاتون بھارتی سفارت کار کے ساتھ امریکہ
میں بُرا سلوک ہوا اور بھارت نے سخت موقف رکھا جب تک کہ خاتون کو رہا نہیں
کیاگیا اور باقی معاملات بھی طے نہیں ہوئے ۔
بھارت پاکستان کو دہشت گردی کے حوالے سے مشکلات سے دوچار کر سکتا ہے ۔ ابھی
جو لائن آف کنٹرول پر واقعات ہورہے ہیں وہ اسی کی کڑی ہیں ۔ الزامات کی بھر
مار ہوگی خاص طور پر دہشت گردوں کی کارروائی سے۔ اس معاملے کو ہوا دینے
کیلئے بھارت کسی بھی سطح پر جاسکتا ہے۔
پچھلے کچھ سالوں سے پاکستان میں بھارتی ثقافت کاکچھ نہ کچھ اثر و رسوخ نظر
آرہا ہے۔ خاص طور پر ہمارے میڈیا کہ وہ چینل جو ڈرامے دکھاتے میں یا دوسرے
شو پیش کرتے ہیں ۔اُنہوں نے ثقافت کے نام پر بھارتی کلچر کو کافی فروغ دیا
ہے۔ لب و لہجہ اور لباس بہت بدل گیا ہے اور وہ ہندی الفاظ استعمال کرنے لگے
ہیں ۔ بازار میں سی ڈی اور ڈی وی ڈی ہر جگہ موجود ہیں ۔ بھارت میں شائع
کتابوں کی بھرمار ہے۔ انٹر نیٹ پر بھارتی مواد اور اشتہارات نوجوانوں کو
ورغلانے کے لئے ہیں ۔ سونیا گاندھی نے دس بارہ سال پہلے جو ثقافتی یلغار کے
ذریعے اثر انداز ہونے کی بات کی تھی اس پر ہمارے میڈیا کے کچھ چینلز نے عمل
کر دکھایا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ظاہری طور پر کچھ بدلنے سے ہماری سوچ اور
نظریات نہیں بدل سکتے ۔
بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے لیکن اندرونی طور پر
اس کا انتشار واضح ہے۔ لوگ کس طرح سوچتے ہیں اس کی ایک مثال راہول گاندھی
کے پچھلے الیکشن کی مہم کے ایک واقعہ سے واضح ہوتی ہے۔ راہول گاندھی نے
بہار میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے دو انڈیا ہیں ۔ ایک وہ جو شاننگ اور
بھارت اور دوسرا وہ جو پیچھے رہ گیا۔ ایک چھوٹے سے دہقان سے پوچھا گیا کہ
اسے راہول کی تقریر سے کیا سمجھ آئی۔ دہقان نے کہا " راہول جی نے کہا ہے کہ
دو انڈیا ہیں۔" اور پوچھا گیا کہ کیا وہ کانگریس کو ووٹ دے گا تو اس نے
جواب دیا "پچاس سال سے انہوں نے حکومت کی اور کہتے ہیں دو انڈیا ہیں ۔ اگر
ہم ان کو پانچ سال اور دیں گے تو یہ ہمیں بتائیں گے کہ تین انڈیا ہیں" اس
سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں کوبھی اپنے سیاستدانوں کی بات سمجھ نہیں آتی۔
یہ سیاست دان اپنے لوگوں سے کتنے دُور ہیں کہ ان کے احساسات اور ضروریات کو
سمجھ نہیں پاتے ۔ پھر کون سی جمہوریت کا پرچار کرتے ہیں ؟
بھارت میں حکومتی تبدیلی آئے یا کوئی اور ہمیں اپنے ملک اور اپنے معاملات
کی پہلے فکر کرنی چاہئے ۔ ہم جتنے مضبوط ہوں گے اتنا ہی اچھا دوسروں کا ردِ
عمل ہو گا۔ ہمارا اتحاد ایک پیغام دے گا کہ اس قوم کو کچھ کہنے سے پہلے سوچ
لو۔ ہماری ذہنی پختگی اور دفاعی تیاری ہمارا وہ ہتھیار ہے جس سے ہم ہر
مسئلے پر قابو پا سکتے ہیں ۔ |