11 مئی 2013، پاکستان میں ہونے
والے عام انتخابات کی ایک سال اور کئی دن گزُر گئے۔اس ایک سال سے پاکستان
کئی چیلنجوں کا سامنا کررہا ہے۔توتو اور میں میں کی پرانی کہانی اپنی جگہ
لیکن کچھ لوگوں نے درپیش چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے ملک کو آگے لے جانے
میں نمایاں کردار ادا کیا اور کر رہے ہیں۔جی ہاں! میں وزیراعظم صاحب اور
شہباز شریف صاحب کا ذکر کر رہا ہوں۔اس ایک سال میں انہوں نے بہت منصوبوں پر
کام شروع کیا اورکررہے ہے۔آج کل میٹرو ٹرین منصوبے کا ذکر زوروشورو پر
ہے۔بہت سارے لوگ اس منصوبہ سے خوش ہیں اور کئی لوگوں کو اعتراض ہے۔یہ پہلا
منصوبہ نہیں ہے جو لوگ تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔اس پہلے بھی کئی اور منصوبوں
پر لوگ تنقید کر چکے ہیں۔3G اور 4G ٹیکنالوجی کا ذکر آتا ہے تو کئی لوگ اور
سیاستدانان ااُسے فخاشی کہنا شروع کیا۔میٹروٹرین کا منصوبہ پیش ہوتا ہے تو
بھی فضول خرچی کا نام دیکراُس کی مخالفت کرنے جارہے ہیں۔کبھی بھی کسی نے
مثبت سوچ سے اُن کی منصوبہ کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔کئی لوگ وفاق کے ہر کام
اور ہر منصوبہ کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔لوگوں کی باتیں اور تنقید سُن کر
مجھے ایک کہانی یاد آجاتی ہے۔شائد سب نے سُنی ہوگی مگر پھر بھی میں یہاں اس
کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔کہتے ہیں کہ ایک آدمی اپنے بیٹے کے ساتھ اپنے
گدھے کو بھیجنے شہر کی طرف جارہاتھا۔دونوں باپ، بیٹا آپس میں باتیں کرنے
جارہے تھے اور ساتھ میں گدھا بھی چل رہا تھا۔چلتے چلتے اُن کو راستے میں
کچھ لڑکیاں نظر آئے جو اُن کی طرف دیکھ کر اشارہ کرکے ہنس ہنس کر کہہ رہی
تھی کہ یہ دیکھو کتنے بے وقوف ہیں دونوں، گدھا آرام سے چلاجا رہا ہے اور یہ
گرمی دھوپ میں پیدل جارہے ہیں ۔ دونوں میں سے ایک ہی گدھے پر بیٹھ ہی سکتا
ہے۔یہ سُنتے ہی باپ نے اپنے بیٹے کو گدھے پر بیٹھا دیااور خود ساتھ ساتھ چل
پڑا۔کچھ دیر گئے ہونگے کہ راستے میں ایک آدمی نے اپنے ساتھی سے کہا، دیکھو
کتنا بُرا زمانہ آگیا ہے، جوان بیٹا خود تو گدھے پر سوار ہے اور بوڑھا باپ
گرمی میں پیدل چل رہا ہے۔یہ سُن کر باپ نے بیٹے کو گدھے سے اُتارااور خود
سوار ہوگیا۔کچھ دیر بعد سامنے سے عورتیں آتی نظر آئی۔اُن میں سے ایک بولی،
باپ تو آرام سے گدھے پر بیٹھا ہوا ہے اور بے چارہ بیٹا گرمی میں پیدل جارہا
ہے، خالانکہ گدھا اتنا تندرست ہے کہ یہ دونوں اس پر سوار ہو سکتے ہیں۔یہ سن
کر باپ نے بیٹے کو بھی سوار کیا۔اس دفعہ ایک آدمی نے ااُسے روک کر کہا کہ
اس بے چارہ گدھے پر اس دھوپ میں تم دونوں سوار ہو۔ یہ ظلم نہ کر
ظالموں۔۔۔۔یہ سن کر دونوں باپ بیٹا گدھے سے اُتر کر ایک رسی کے ساتھ ایک
موٹی ڈنڈے پر گدھے کو باندھ کراور ڈنڈہ ڈھولی کرتے ہوئے چلے گئے۔چلتے چلتے
جب دونوں ایک پُل تک پہنچ گئے تو لوگ ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ دو بے وقوف
گدھے کو کیسے لے جارہے ہیں۔۔۔۔ یہ باتیں سن کر دونوں پریشان ہوگئے۔ جلدی
جلدی گدھے کی رسی کو کھولنے لگے۔ اتنے میں گدھا بھی بدمعاش ہوگیا اور جوش
میں آکردریا میں گرا اور ڈوب گیا۔۔۔۔۔
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وزیراعظم کو کسی کی باتوں کا پروا نہیں کرنی
چاہیے اور شائد وہ ایسا ہی کر رہا ہے۔ اس لئے تو ملک میں ترقیاتی کام تیزی
سے جاری ہے۔وفاقی اور پنجاب حکومت کا ذکر میں کن کن زاویوں سے کروں۔ملک میں
3G اور 4G ٹیکنالوجی سے شروع کروں کہ چین کی مدد سے ریلو ے ٹریک بچھانے سے
شروع کروں۔زرمبادلہ کے ذخائر 11 ارب 75 کروڑ ڈالرکی سطح پہنچنے کے بارے میں
کچھ کہوں کہ پاک چین اکنامک ریڈورپر کام کرنے کے بارے میں کچھ کہوں۔PIA کے
چار سال بعد منافع کمانے کا بحث کروں کہ راولپنڈی، اسلام آبادمیں میٹرو
منصوبے کی آغاز پر۔۔ملک میں پیدا ہونے والے مشکلات کا مقابلہ کرنے پر خراج
تحسین پیش کروں کہ 1000 میگا واٹ بجلی منصوبوں کے افتتاح پر انگشتہ بدنداں
ہو جاؤں۔۔۔۔۔۔
اگر ایک سال کی حکومت میں، جو کافی مشکلات کا شکار ہونے کے باوجودبھی ملک
میں اتنے کام ہوسکتے ہیں تو ذرا سوچئے کہ پانچ سال مکمل ہونے پر پاکستان
کہاں سے کہاں تک پہنچ سکتا ہے۔اس وقت ملک کو بچانے اور ترقی کرنے کیلئے
مثبت سوچ سے کام لینا ہوگا تاکہ ملک اسی طرح ترقی کرے جیسا کہ ایک سال سے
کرتا آرہا ہے۔۔اﷲ تعالی پاکستان کو ترقی دیں اور اُسے امن کا گہوارہ بنا
دیں۔ آمین |