سردار یعقوب مستعفی جمشید دستی معطل

پاکستان کی قومی اسمبلی اور آزاد کشمیر کی ’’قومی اسمبلی‘‘ آج کل ایک جیسے حالات کا شکار ہیں مگر شکاری کون ہے؟ سردار یعقوب مستعفیٰ جمشید دستی معطل… بات ایک ہی ہے۔ اصل مقابلہ سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار عتیق اور مستعفیٰ وزیراعظم سردار یعقوب میں ہے۔ اس میں ایمپائر صدر زرداری کو ہونا چاہئے مگر وہ غلط آؤٹ دے رہے ہیں۔ حکومتی میچ میں گیٹ آؤٹ ہوتا ہے یہ سب پاکستانی حکومتیں کرتی ہیں اب یہ سب کچھ گلگت بلتستان میں بھی ہوگا۔ جس طرح مقبوضہ کشمیر پر بھارت کی اجارہ داری ہے اسی طرح آزاد کشمیر کے معاملات پر پاکستان کی عملداری ہے۔ گلگت بلتستان آزاد کشمیر کا حصہ ہے مگر انہیں پوچھے بغیر اسے پاکستان کا صوبہ بنا دیا گیا ہے۔ یہی حال آزاد کشمیرکا کیا جائے گا۔ مقبوضہ کشمیر کو پہلے ہی بھارت نے اپنا حصہ بنا لیا ہے۔ اس کے لئے آئین میں ترمیم کی گئی ہے۔ اس کے بعد کشمیر کا مسئلہ ’’حل‘‘ ہو جائے گا۔ ہمارے حکمران بھارت سے دوستی کا خواب شرمندہ تعبیر کر لیں گے۔

یہاں ’’شرمندہ‘‘ اپنے پورے معانی دے رہا ہے۔ پاکستانی حکمران یہ بھی بھارت کی ’’مہربانی‘‘ سمجھیں گے کہ انہوں نے آزاد کشمیر ہمیں بخش دیا ہے۔ بھارت پاکستان سے ایسی ہی دوستی چاہتا ہے جیسی امریکہ کی پالیسی ہے۔ غلام پاکستان میں آزاد کشمیر کے ساتھ یہی کچھ ہونا تھا کہتے ہیں آزاد کشمیر نہ آزاد ہے اور نہ کشمیر۔ اس سے پہلے بھی آزاد کشمیر میں یہی کچھ ہوتا رہا ہے۔ پاکستان میں بھی سیاسی حکومتوں کی عمر اتنی ہی ہوتی ہے۔ اس میں قصور سیاستدان کا بھی ہوتا ہے بلکہ زیادہ قصور ہوتا ہے۔ آزاد کشمیر میں بھی سیاستدان اور حکمران اپنے ساتھ ظالمانہ مذاق کے خود ذمہ دار ہیں حکمران کا لفظ آزاد کشمیر کے حکمرانوں کیلئے بڑا عجیب سا لگتا ہے۔ پاکستان کے ایک وفاقی وزیر کے ساتھی وزیر شذیر نے پوچھا کہ تم اتنی بے عزتی کیسے برداشت کر لیتے ہو۔ اس نے کہا ایک آدمی کے سامنے بے عزتی کے مقابلے میں 17کروڑ عوام کے سامنے ’’عزت‘‘ بہت بڑی ہے اور سارے وزیروں کا تجربہ یہی ہے۔ جو کچھ سردار یعقوب کے ساتھ آزاد کشمیر میں ہو رہا ہے۔ اس کا وہ خود ذمہ دار ہے جس وزارت عظمیٰ کے لئے اس نے اپنی ہی جماعت سے غداری کی اور اپنے ساتھیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا آج اس کا نتیجہ اس کے سامنے آ گیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں نے استعفیٰ کسی دباؤ کے تحت نہیں دیا۔ یہ ایسا ہی دباؤ ہے جو اس نے اس وزارت عظمیٰ کا حلف لیتے ہوئے محسوس کیا ہوگا۔ مجھے اس کے استعفیٰ سے دکھ ہوا ہے۔ اسے مقابلہ کرنا چاہئے تھا ۔ دو آدمی جب میدان میں اترتے ہیں تو انہیں فتح کی امید کے ساتھ ساتھ شکست کا خدشہ بھی ہوتا ہے مگر وہ مقابلہ کرتے ہیں۔ اصل بات مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔

وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عتیق کو معلوم تھا کہ وہ کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ مگر انہوں نے آخر تک میدان نہ چھوڑا۔ مقابلہ کیا شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میر مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا تحریک عدم اعتماد سے پہلے ہی وہ آ گئے۔ انہیں خود پر بھی اعتماد نہیں ہے۔ یہ وہ ذرے ہیں جو ہوا چلنے سے پہلے ہی بکھر جاتے ہیں۔ پھر ہوا جدھر چاہتی ہے انہیں خس و خاشاک کی طرح اڑا کے لے جاتی ہے۔ انہوں نے تو استعفیٰ دیا اور کابینہ کے وزیر شذیر استعفیٰ کے بغیر چلے گئے۔ کدھر چلے گئے، انہیں خود بھی ابھی پتہ نہیں۔ سردار عتیق نے اس موقع پر بھی کسی رعونت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ پہلے صبر کیا تھا اب تحمل کیا ہے، تحمل ہی اصل میں تدبر ہوتا ہے۔ تدبر کرنا تکبر کرنے سے اچھا ہوتا ہے۔ سردار عتیق نے کہا کہ سردار یعقوب ناراض بھائی ہیں وہ میری کابینہ میں وزیر تھے وہ واپس آ جائیں۔ سردار عتیق نے وزیراعظم کے لئے اپنے ایک ساتھی کا نام تجویز کیا ہے، خود اس جھگڑے میں نہیں پڑے۔ یہ بڑے دل گردے کی بات ہے ان کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ موروثی سیاست کے نتیجے میں آئے ہیں۔ سیاست کا یہ انداز پاکستان میں عام ہے اس کی تفصیل کا سب کو پتہ ہے۔ بھارت میں بھی ہے۔ بالعموم انسانوں میں اور بالخصوص مسلمانوں میں ایک روایت کی طرح یہ طرز سیاست و حکومت موجود ہے۔ یہ ولی عہد پر منحصر ہے کہ وہ کیسا جانشین ثابت ہوتا ہے۔ سیاست میں اپنے حق کی بات کرنے والے بھی اپنی اہلیت پر غور کریں۔

ایسا معاملہ آزاد کشمیر حکومت کے ساتھ پاکستانی حکومت کرتی ہے تو پاکستانی حکومت کے ساتھ کون کرتا ہے۔ اسمبلیوں میں بھی ’’دہشت گردی‘‘ کی واردات ہو رہی ہے پنجاب اسمبلی میں پچھلے کسی دن کی کارروائی میں رانا ثناء اللہ نے اپوزیشن کے ارکان کو بارہ دفعہ لوٹا کہا جبکہ اپوزیشن والے کو لوٹا نہیں کہا جاتا۔

قومی اسمبلی میں ڈاکٹر عذرا نے فیصل صالح حیات پر کوئی تنقید کی تو اس نے کہا کہ میں اگر کچھ کہہ دوں تو آپ منہ چھپاتی پھریں گی۔ اس اشارے کو اور تو کوئی نہ سمجھا جمشید دستی کو کچھ زیادہ ہی سمجھ آ گئی۔ وہ آگ بگولہ ہوئے پھر آپے سے باہر ہو گئے۔ اخباری رپورٹ کے مطابق فیصل کے خلاف بازاری زبان استعمال کی پھر دستی صاحب فیصل صاحب سے دست و گریبان ہونے کیلئے آگے بڑھے۔ ق لیگ اور پیپلز پارٹی کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک دوسرے کو لوٹا لوٹا کہنا شروع کر دیا۔ اس کا مطلب ہے کہ تمام ممبران کسی نہ کسی طرح لوٹا ہیں۔ لوٹا ازم ہمارے سیاسی ماحول کا سب سے بڑا ’’قومی نشان‘‘ بن گیا ہے۔ سیاسی جماعت کے اندر بھی لوٹا ازم کے فروغ کیلئے کارروائیاں ہو سکتی ہیں اور ہو رہی ہیں۔ پنجاب میں اسے فارورڈ بلاک کا نام دیا گیا ہے۔ ممتاز مزاح گو شاعر خالد مسعود لکھتا ہے
پہلے اُودھروں فیر ایدھروں اب فیر کھڑا ہے اودھروں
پبلک تنگ ہے لیکن لوٹا لوٹا ای ہوتا ہے

ق لیگ نے واک آؤٹ کیا۔ ڈپٹی سپیکر کنڈی صاحب نے فیصل صالح حیات کی رکنیت ایک دن کیلئے اور پیپلز پارٹی کے جمشید دستی کی سارے سیشن کیلئے معطل کر دی۔ پنجاب اسمبلی میں بھی صوبائی وزیر چودھری غفور کی جھڑپ ایک خاتون ممبر کے ساتھ ہوئی اور پورے سیشن کیلئے بے چارے کی رکنیت معطل ہو گئی کسی نہ کسی طرح ایسے معاملات میں خاتون ممبر ضرور ملوث ہوتی ہے۔ چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الہٰی نے اس واقعے پر حکومتی پارٹی کے رویے کیخلاف احتجاج کیا۔
Dr. Muhammad Ajmal Niazi
About the Author: Dr. Muhammad Ajmal Niazi Read More Articles by Dr. Muhammad Ajmal Niazi: 4 Articles with 3100 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.