فضائے بدر پیدا کر

عرصہ دراز سے پاکستان دہشت گردی کی زد میں، اس دہشت گردی کی لہر میں اس وقت سے بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے جب سے ہمارے سابقہ ”کمانڈو“ اور آمر مشرف نے صرف ایک فون کال پر پاکستان کو امریکہ کے سامنے نہ صرف سجدے کی حالت میں گرا دیا بلکہ قومی غیرت و حمیت کو انتہائی ارزاں نرخوں پر بیچ دیا۔ وہ جنگ جو غیر ہمارے بھائیوں کے ساتھ لڑنا چاہتے تھے اس جنگ میں انہوں سے سب سے پہلے ہمیں نشانہ بنایا اور ملک خداداد پاکستان کو دہشت گردوں کے حوالے کردیا۔ جب پاک فوج کرائے کے لڑاکوں میں تبدیل ہونا شروع ہوئی تو وہ مسلمان چاہے وہ پاکستانی ہوں یا کسی اور ملک کے باشندے، ان کے دلوں میں پاک فوج کی عزت و توقیر نہ صرف کم ہونا شروع ہوگئی بلکہ وہ اسے اپنی مصیبتوں کی ذمہ دار بھی گرداننا شروع ہوگئے۔ ایک آمر اور امریکہ کے ”چیلے“ کی پالیسیوں کی وجہ سے نہ صرف پاک فوج کا مورال کم ہوا بلکہ اسے بیرونی دشمنوں کے ساتھ اندرونی طالع آزماﺅں کی سازشوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ امریکہ جہاں بھی ”قدم رنجہ“ فرماتا ہے وہاں دہشت گردی کا سیلاب رواں بھی ساتھ لے کر جاتا ہے۔ سب سے پہلے وہ وہاں اپنے حواری تلاش کرتا ہے جو بآسانی دستیاب ہوتے ہیں، میر جعفروں و میر صادقوں کی کوئی کمی نہیں، ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں.... اور پاکستان میں چونکہ امریکہ کی پالیسیاں ہی چلتی ہیں، ہمارے حکمرانوں نے شروع دن سے ہی ان کی غلامی کا ”چولہ“پہنا ہوا ہے، چنانچہ عوام کو ایسی باتوں سے ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے جن کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ ایک طرف ہم ایٹمی طاقت ہیں تو دوسری طرف امریکی امداد کے منتظر، نہ صرف منتظر بلکہ ایک حاضر باش لشکر کی طرح اس کے احکامات کو بلا چون و چراں ماننے کے لئے مجبور و بے کس بھی۔ ظاہر ہے امریکہ ہمارا رشتے دار تو نہیں، جب وہ امداد دے گا تو شرائط بھی منوائے گا چاہے جیسی بھی ہوں۔ معدنیات اور دیگر قدرتی وسائل کے بے پناہ ذخائر رکھنے کے باوجود پاکستان کا شمار امداد کے منظر ملکوں میں ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں کہاں کی خود مختاری اور کیسی عزت؟

پاک فوج جس کا شمار دنیا کی چند بہترین افواج میں کیا جاتا ہے اس کو بار بار سیاست میں گھسیٹ کر اور فوجی بھائیوں کو اقتدار کا چسکا اور تڑکا لگا کر اس کے نظم و نسق پر بہت سے سوالیہ نشان لگا دیے گئے ہیں۔ فوج سے عوام اسی وقت پیار کریں گے جب وہ دشمنوں سے بر سر پیکار ہو، لیکن جب وہ اپنے ہی لوگوں کو فتح کرنے نکل کھڑی ہو تو اس کی محبت میں کمی آنا ایک قدرتی بات ہے۔ اس ملک پر آمریت مسلط رکھنے اور عوام کو ظلم و تشدد کی چکی میں پیسنے کے باوجود اکثر پاکستانی اپنے فوجی جوانوں کے لئے بے پایاں محبت اور عقیدت رکھتے ہیں۔ جب سے اس ملک کو فوجی آمریت کی کالی گھٹاﺅں سے آزادی ملی ہے، اس ملک کی جان امریکہ کے بغل بچے مشرف سے چھوٹی ہے اور فوج کی کمان ایک پیشہ ور سپاہی کے ہاتھ میں آئی ہے، فوج سے مایوسی اور اس کے سربراہ کی وجہ سے پیدا ہونے والی نفرت میں دن بدن کمی آتی جا رہی ہے بلکہ دوبارہ سے ایک محبت اور عقیدت کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ جی ایچ کیو پر بزدلانہ حملہ اور اس کے نتیجہ میں فوج کی شہادتوں پر ہر آنکھ اشکبار ہے لیکن خلق خدا یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ جب حملے کی پیشگی اطلاع مل چکی تھی تو پیشگی احتیاطی تدابیر کیوں نہ کی گئیں؟ ہر حملہ کو آنکھیں بند کرکے طالبان اور القاعدہ پر ڈال دینا صرف اور صرف امریکہ، ایوان صدر اور رحمان ملک کی منشاء تو ہوسکتی ہے لیکن حقیقت نہیں....! حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ، بھارت اور اسرائیل کی ٹرائیکا پاکستان اور خصوصاً اس کے ایٹمی پروگرام کے پیچھے ہاتے دھو کر پڑی ہوئی ہے۔ امریکہ کی جانب سے ایمبیسی میں توسیع بلکہ فوجی اڈے کی تعمیر اور بلیک واٹر کی آمد سے ہر پاکستانی تشویش کا شکار ہے لیکن اگر کوئی پریشانی اور تشویش موجود نہیں تو وہ حکومت میں شامل ان عناصر میں نہیں جو این آر او کا سہارا لیکر یہاں براجمان ہیں، جو کبھی مشیر بنتے ہیں تو بعد ازاں پورے وزیر۔ دنیا میں کہیں بھی اگر ریلوے کا حادثہ ہوجائے تو وزیر ریلوے اسعفیٰ دے دیتا ہے لیکن یہاں دن دیہاڑے خود کش حملے ہوتے ہیں، بم دھماکے ہوتے ہیں، چند لمحوں میں سینکڑوں انسان لقمہ اجل بن جاتے ہیں حتیٰ کہ فوج کے مرکز جی ایچ کیو پر حملہ ہوجاتا ہے، فوجی افسروں اور جوانوں کی شہادتیں ہوجاتی ہیں لیکن وزیر داخلہ صاحب کو ذرا بھی بے چینی نہیں ہوتی، کیا ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں؟ وہ کسی کو جوابدہ نہیں؟ کہاں گئی حکومت کی رٹ اور کہاں گئی حکومت؟ ذرائع کے مطابق جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والوں نے ایسا لباس پہنا ہوا تھا جیسا امریکی فوجی پہنتے ہیں، اس لباس کی خاصیت یہ ہے کہ اس پر گولی اثر نہیں کرتی اور اس کو تیار کرنے میں بہت سرمایہ بھی لگتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حملہ آور القاعدہ یا طالبان کے لوگ تھے تو ایسے لباس ان کے پاس کیسے آگئے؟ پورے ملک کے عوام چیخ رہے ہیں، دہائیاں دے رہے ہیں کہ اس سارے معاملہ میں ”بلیک واٹر“ بھی ملوث ہوسکتی ہے، بھارت، اسرائیل بھی لیکن حکومت کو کچھ نظر ہی نہیں آتا....! حکومت میں شامل لوگ اگر کچھ کر سکتے ہیں یا کررہے ہیں تو اپنے سائز سے بھی بڑا کشکول لے کر پھر رہے ہیں کہ ”دے جا سخیا راہ خدا.... ! ایک وقت وہ تھا جب انگریز کی حکومت ہوا کرتی تھی اور حکومت اپنی حکم عدولی کرنے پر جب سزا دیا کرتی تھی تو مجرم کو ”کالا پانی“کی سزا دے دی جاتی تھی، اب چونکہ پوری قوم مجرم ہے اس لئے ”کالا پانی“ نامی جگہ اتنی وسیع و عریض نہیں ہے کہ سولہ کروڑ عوام وہاں جا سکیں اور سما سکیں تو امریکی حکومت نے ”کالا پانی“ کو ہی یہاں بھیج دیا، آخر مجرموں کو سزا تو ملنی چاہئے، امریکہ کی ”رٹ“ قائم رکھنے کے لئے سزا ضروری ہے!

بعض سمجھدار اور عقلمند لوگ (جو اشارے کو کافی سمجھتے ہیں) یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ اصل مسئلہ پاکستان کا ایٹمی طاقت ہونا ہے، ظاہر ہے جب فوج اپنے مرکز اور نیوکلس ”جی ایچ کیو“ کی حفاظت نہیں کرسکتی تو وہ ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت کیسے کرپائے گی؟ کیا حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگ بالکل بچے ہیں، فیڈر پیتے ہیں جنہیں امریکی ایمبیسی میں توسیع، بلیک واٹر کی آمد، اسلام آباد میں سینکڑوں گھروں کے حصول، پورے ملک میں ”بلیک واٹر“ کی دہشت گردی پر مشتمل کارروائیوں میں کچھ نظر ہی نہیں آرہا؟ کیا وہ بالکل اندھے، گونگے اور بہرے ہیں جو بلیک واٹر کے دہشت گردوں کے ”محسن پاکستان“ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے گھر کے انتہائی قریب پہنچ جانے پر بھی ٹس سے مس نہیں ہورہے اور کہوٹہ کے بھی! پوری قوم کو یقین ہے کہ امریکہ بہادر کے ایجنٹوں پر مشتمل ٹولہ جو اس وقت انتہائی اہم عہدوں پر براجمان ہے کی سازشیں انشاء اللہ کامیاب نہیں ہوں گی۔ پاک فوج میں اب بھی اتنی صلاحیت ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی طالع آزمائی کا منہ توڑ جواب دے سکتی ہے، اس وقت ایک بار پھر پوری قوم اپنی فوج کی پشت پر کھڑی ہے۔ اگر فوجی کمان یہ چاہتی ہے کہ پاکستان کے عوام فوج سے محبت رکھیں تو انہیں بھی اس ملک اور اس کے عوام سے محبت کا اظہار کرنا ہوگا۔ پاکستان میں فوج کا سیاست میں کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، عوام اس کے سیاست میں کردار کو یقیناً تحسین کی نگاہ سے دیکھیں گے اگر وہ اس ملک اور یہاں بسنے والوں کے مفاد میں ہوگا۔ اگر فوج امریکی غلامی سے نکلنے کے لئے نعرہ بلند کرتی ہے، حکومت میں آئے بغیر کوئی کردار ادا کرتی ہے، سیاست دانوں کو حکومت کرنے دے اور خود نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کا دفاع کرے تو پھر قوم بھی اس کے شانہ بشانہ، بغیر ہتھیاروں کے صرف اپنے زور بازو پر لڑنے اور مرنے مارنے پر اتر سکتی ہے، اللہ کی مدد اور نصرت بھی شامل حال ہوسکتی ہے۔ پھر وہ وقت آسکتا ہے کہ جہاں سے فوجی جوان گزرے، اس کو سیلوٹ کئے جائیں، مشرف نے جو بے غیرتی والی ”ہاں“ کی تھی اس کو افتخار پاکستان، افتخار چودھری والی ”ناں“ میں بدلنے کی ضرورت ہے، اگر امریکہ کو آقا نہ سمجھا جائے، اس کے آگے ”ناں“ کردی جائے تو اللہ کی طرف سے ہمارے لئے ”ہاں“ ہوسکتی ہے۔ ایک بار آزما کر تو دیکھیں، پورے یقین، اعتماد اور دل کی گہرایوں سے اپنے اللہ کو پکار کر تو دیکھیں، اس کی طرف سے جواب بھی آئے گا، فرشتے بھی اتریں گے، فتح و کامرانی بھی ملے گی، بس فضائے بدر پیدا کرنے کی دیر ہے....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222526 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.