جب ڈوبنے کشتی لگتی ہے اِحسان اُتارا کرتے ہیں

حالیہ پارلیمانی انتخابات میں جس طرح سے عوام نے زندہ دِلی کا واضع ثبوت پیش کر کے خاندانی راج، عوام دشمن اور تباہ کُن سیاست کا بیڑا غرق کیا شائد ہی اسطرح کا آج سے قبل کوئی عوامی فیصلہ لیا گیا ہو۔ عوامی غصے کی زور دار لہرو ں کی ز د میں آکر مخلوط سرکار اب مفلوج سرکار بن کر رہ گئی ۔سیاست دانوں کو منہ کی کھانی پڑی کیونکہ عوام میں سر اُٹھا کر جینے کا سلیقہ پیدا ہو چکا ہے ملی جلی سرکارکا اصلی چہرا اس طرح سے سامنے آیا کہ سب کو معلوم ہوچکا کہ یہ ملی جلی سرکار نہیں بلکہ ملی بھگت سرکار تھی جنھوں نے آپسی ملی بھگت کر کے عوام کی آرزﺅں پہ ہمیشہ شبِ خون مارا ہے اس ملی بھگت سرکار نے آج تک جس طرح سے عوامی مسائل کو زیر غور نہ لاتے ہوئے عوام کے ساتھ بھدا مذاق کیا ہے یہی سب اس کا نتیجہ ہے کسی کی آرزﺅںپہ شب ِ خون مارنے والے آج خود خون کے آنسو رو رہے ہیں۔عرصہ دراز سے عوامی مسائل کو زیر التواءمیں رکھا گیا۔ عوامی مظاہرے ہوتے رہے عوام سڑکوں پہ دھرنے دیتی رہی، ملازمین پہ لاٹھی چارج کیا گیا ،عوامی خون بہتا گیا چاہئے وہ پولیس ملازمین کی شکل میں بہا یا سول محکموں کے ملازمین کی شکل میں لیکن لیڈر حضرات ٹس سے مس نہیں مخلوط سرکار کی ہٹ دھرمی بدستور جاری رہی ایک مانی سب کی ان سنی کر دی وزراءحضرات صرف سیاسی بھاشنوں سے کام چلو سرکار چلاتے رہے اور عوامی مسائل دن بدن بڑھتے رہے ۔ مسائل بڑھنے کے ساتھ ساتھ عوامی غصہ بھی بڑھتا گیا وقت آیا اور عوامی غم و غصے کی لہر پھیل گئی ۔ کانگریس و نیشنل کانفرنس کی ملی جلی(ملی بھگت ) سرکار نے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کر نے کے لئے کو ئی کسر باقی نے چھوڑی، ووٹ حاصل کرنے کے لئے ایک بعد ایک حربہ استعمال کیا لیکن سب بے سود ۔

کم ہمتی دیکھئے کہ مخلوط سرکار نے اچھے بھلے لیڈروں کو میدانِ عمل میں مہرے کی طرح لاکھڑا کر دیا یہاں تک کہ مذہب کے نام پہ بھی ووٹوں کی بھیک مانگی لیکن عوام کا غصہ مخلوط سرکار کی بد عنوانیوں کے تئیں اس قدر بھڑکا تھا کہ عوام نے ہندو ، مسلم ،سکھ ،اتحاد کے بجھتے ہوئے چراغ کو پھر سے روشن کر کے بنا کسی مذہب و ملت ،ذات پات کے اپنے رائے دیہی مدبرانہ استعمال کیا۔ریاست جموںو کشمیر میں نیشنل کانفرنس و کانگرس کی مخلوط سرکار کے اُمیدواروں کو پارلیمانی انتخاب میں بالکل اسی طرح سے دھول چٹوائی گئی جس طرح سے عوام کے ہزاروں مسائل حل ہونے کی طلب میں سیاسی انتقام گیری کا شکار ہو کر سرکاری دفاتروں میں دھول چاٹ رہے ہیں، سیاسی انتقام گیری کی شکار عوام نے آج سر عام مخلوط سرکار کا اس طرح سے انتقام لیا کہ اب سنبھلنا مشکل ہو گیا ہے ۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ مونچھ جب داڑھی سے لمبی ہو جاتی ہے تو مونچھ کو کاٹ پھینکا جاتا ہے۔عوام نے اس محاورے پہ کھرا اُترتے ہوئے مخلوط سرکار کا اس طرح سے بیڑا غرق کیا کہ مخلوط سرکار کو مفلوج سرکار،اپاہج سرکار بنا کر رکھ دیا ہے ۔اور اس طرح سے مخلوط سرکار کی لگاتار عوام کے ساتھ دغابازیوں، شعبدہ بازیوں،اور خامیوں نے مخلوط سرکار کے لیڈر حضرات کو ایک ایسے مقام پہ لاکھڑا کر دیا کہ اب وہ سب مسائل کو حل کرنے کی تگ و دو میں لگ چکے ہیں۔لیکن....”اب پچھتائے کیا ہو جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت“....عوامی غم و غصے کی لہر نے دونوں پارٹیوں کے لیڈر حضرات کے اُوپر ایسا قہر برپا کر دیا ہے کہ سب کے سب اپنی تنظیم کی سیاسی ساکھ کو بچانے میں جٹ گئے ہیں ۔لیکن سیاسی ساکھ پہ اس قدر قہر برپا ہو ا ہے لیڈر حضرات تڑپ رہے ہیں، سسک رہے ہیں، دوہائی دے رہے ہیںکہ کیا وجہ سے جو آپ نے ہمیں للکارا ،ہماری بنیاد اکھاڑ دی عرصہ دراز سے بدعنوانیوں کا جو محل ہم نے تعمیر کیا ہو اتھا اُس کو آپ نے کیونکر تباہ و برباد کر دیا ہمیں اس کا جواب دو؟؟لیکن ملی بھگت سرکار خود کا محاسبہ کرے تو معلوم ہوگا کہ وہ خود ہی اپنے سوالوں کادندان شکن جواب ہیں ۔کسی سے جواب کی اُمید بھی کیا رکھی جائے کون سنے اَن لوگوں کی جنھوں نے کبھی کسی غریب کی فریاد سنی ہی نہیں اس لئے آج عوام ملی بھگت سرکارسے بس اتنا ہی کہتی ہے کہ”’ہم پہ ہم جیسے ہی حکومت کیوں نہیں کرتے“‘مخلوط سرکار کی دونوں پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت نے زمینی سطح پر سیاسی ساکھ کو مضبوط رکھنے کے لئے جن لیڈران کو بچاﺅ کے لئے تعینات رکھا تھا انھوں نے زمینی سطح پر عوام کے تئیں کس قدر اپنے فرائض کارِ انجام دئے ہیں یہ سب بھی اچھی طرح سے ظاہر ہو گیا انھوں نے تو دونوں تنظیموں کو عوامی غم و غصے کی جس سونامی کے آگے لا کھڑا کر دیا ایسا لگتا یہ سیاسی کشتی جو عوامی غم و غصے کے طوفان کی زور دار لہروں میں غوطہ زن ہے ڈوبتی چلی جارہی اور ممکن ہے کہ یہ سیاسی کشتی اس سونامی کی نذر ہو جائے۔

سیاسی بصیرت سے نابلد دونوں پارٹیوں کی سیاسی ساکھ داﺅ پر لگی ہے اس لئے اب اپنی سیاسی ساکھ کو بچانے کی خاطر جس طرح سے ریاستی وزیر اعلیٰ نے عوامی غصے کو کم کرنے لئے ”نئے بھرتی پالیسی “ کو کالعدم کیا ۔ اس سے صاف ظاہر ہوا کہ آج تک جان بوجھ کر عوام پہ ظلم ڈھایا جا تارہا جو کہ مخلو ط سرکار کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔پارلیمانی انتخابات میں تباہ کُن شکست کے بعد نیشنل کانفرس کی مخلوط سرکار نے جس طرح سے کبھی نہ ہونے کاموں کو کر دکھانے کا موڑ بنا لیا ہے جیسے کہ الیکشن سے قبل بلاجواز نوجوانوں کی گرفتاریوںکے بارے میں یہ بیان دیا جا تا تھاکہ دہشت گردی میں ملوث افراد امن کے لئے خطرہ ہیں لیکن شکست ملنے کے بعد اپنا بیان ایک دم بدل دیا کہنے لگے کہ گرفتار شدہ نوجوان ہمارے اپنے اولاد جیسے ہیں انھیں فوراًرہا کیا جائے ۔الیکشن سے قبل SMSپہ پابندی”معاملہ انتہائی نازک ہے امن کےلئے شدید خطرہ ہے مرکز فیصلہ لینے کا مجاز ہم کچھ نہیں کر سکتے ۔لیکن شکست کھانے کے فوراً بعد کہا کہ اب حالات پُر امن ہیں اس لئے SMSپہ پابندی ختم کی گئی۔ریٹائرمنٹ میں توسیع :الیکشن سے قبل کسی بھی صورت میں ممکن نہیں وسائل نہایت ہی کم کسی کی غنڈہ گردی نہیں چلے گی ملازمین ایسا سوچیں بھی مت نوجوانوں کے ساتھ ظلم نہیں کر سکتے ۔لیکن الیکشن کے فوراً بعد زبانی پھسلن ایک دم ختم کر کے تو سیع تو ملازمین کا حق، کسی کا حق چھین نہیں سکتے دیگر مراعات بھی دی جائیںگی۔الیکشن سے قبل پولیس محکمہ کی دیرانہ مانگیں پوری کی جائیں نہیں تو احتجاج کیا جائے گا ۔احتجاج ایک بار چھوڑ کے ہزار کیا جائے یہاں پولیس راج نہیں چلے گا کسی بھی پولیس ملازم نے اگر ایسی بات زبان پر لائی تو اُس کی زبان ہی کاٹ پھینکی جائے گی لیکن جب الیکشن میں منہ کی کھانی پڑی تو اب پولیس ہے ہماری ریاست کا سرمایہ ہے پولیس ہماری محافظ ہے پولیس ہی ہے جو ہر جگہ اپنی اس دیش کی خاطر اور ریاست کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتی ہے ۔لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ سب الیکشن سے قبل ممکن نہیں تھا ممکن تھا لیکن اس سب کو ناممکن بنانے کا کام مخلوط سرکاراس لئے کر رہی تھی کہ کس طرح سے اپنی تجوریاں بھری جائیںاپنی تجوریاں بھرے کی خاطرکسی بھی وزیر نے کوئی کسر باقی نہ چھوڑی بقول ِ شاعر....
نہ جانے کس مٹی کے بنے پُتلے ہیں یہ سیاست دان
جنہیں ایک بھوکے کے منہ میں روٹی اچھی نہیں لگتی

اب جبکہ مخلوط سرکارکو عوام کی پھٹکار کا سامنا ہو اتو ایک دم سے ریاستی وزیر اعلیٰ نے لوگوں سے رائے حاصل کرنے کے لئے" “[email protected]کا سہارا لیا“[email protected] کا کمال پری پیڈ ی SMSبحال اب عمر صاحب کیا جاننا چاہتے ہیں یہ سب عمر صاحب ہی جانتے ہوں گے کہ آخر اُن کو عوامی رائے لینے سے کیا مراد بحر حال یہاں چند ایک رائے دی جائیںتو بہتر ہو گا تاکہ ریاستی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ ناراض نہ ہوں کہ آپ لوگوں نے مجھے اپنی رائے سے نوازا نہیں لیکن کہیں کجریوال کی طرح عمر صاحب بھی رائے نہ لیں جس طرح سے کجریوال نے وزیر اعلیٰ کی کرسی پہ بیٹھنے سے قبل عوام سے رائے ضرور لی تھی لیکن جب کرسی سے نیچے اُترے تو اُس وقت عوام سے رائے نہیں لی تو نتیجہ کیا نکلا یہ سب کو معلوم ہے۔

رائے درج ذیل ہیں سب سے پہلے تعلیمی نظام میں سدھار لانے کے لئے دور دراز علاقوں میں تدریسی عملے کی کمی کا خاتمہ کیا جائے۔نمبر دوم اگر ریاست بھر میں آپ اپنی سیاسی ساکھ کو برقرار رکھنے کے خواہشمند ہو تو ملازمین کے مسائل کو جلد از جلد حل کیا جائے اور بالخصوص محکمہ پولیس کے ملازمین کی دیرینہ مانگیں جو ہیں اُن کو حل کیا جائے محکمہ پولیس کا ٹائم بونڈ سول محکموں کی طرح بڑھا کر ۹سال کی جائے ، ڈھائی دن کے تنخواہ کو بڑھا کر چار دن کیا جائے ، اسی طرح سے راشن منی کا مسئلہ جو عرصہ دراز سے صرف ۰۰۶ روپے دیا جا رہا ہے جو کہ پولیس ملازمین کے ساتھ ایک مذاق ہے آسمان چھوتی مہنگائی کے اس دور میں راشن منی صرف۰۰۶ روپے دینا مخلوط سرکار کے لئے نہایت کی ہتک آمیز بات ہے ۰۰۶ روپے فی ماہ کے راشن منی پہ ایک پولیس نوجوان کا گذارا کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے ،اس طرح سے” رسک الاﺅنس“ صرف ۰۰۱ روپے دیا جا تا ہے جو کہ کافی شرمناک بات ہے کہ اگر ریاست کے محافظوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے جو لیڈروں کے لئے ووٹ بھی دیتے ہیں اور جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرتے ہیں تو عام لوگوں کاکیا ہوگا جوصرف ووٹ دیتے ہیں جسے الیکشن جیت جانے کے بعد سیاست دان بھول جانے کے لئے آنکھ پھڑکنے تک کا ٹائم بھی نہیں دیتے ہیں۔اسی طرح سے پولیس ملازمین کو کٹھن حالات میںکام کرنے کے لئے ”ہارڈ شپ “ کے نام کا ایک الاﺅنس دیا جاتا ہے جو کہ صرف دس فیصد دیا جا تا تھا جس پر محکمہ کی طرف سے عدالت میں مقدمہ درج ہوا تھامحکمہ کی لگاتار احتجاج کی بدولت عدالت نے انصاف کر کے یہ فیصلہ محکمہ پولیس کے حق میں دیا اس پر مرکزی سرکار نے ”ہارڈ شپ “ الاﺅنس ۰۱ فیصد سے بڑھا کر ۰۲ فیصد کر دیا لیکن ستم ظریفی کہ” اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں جب یہ فائل ریاستی سرکار کے وزیر خزانہ کے ہاتھ میں آئی تو معلوم نہیں اس فائل کو آسمان نگل گیا یا زمین کھا گئی تب سے لے کر اب تک مرکزی سرکار کی طرف سے جو ۰۱ فیصد کا الاﺅنس بڑھایا تھا اُس کو دس فیصدکا الاﺅنس محکمہ پولیس کو ملا ہی نہیں بلکہ اس کو ریاستی سرکارکے خزانے پہ بیٹھا ناگ وزیر خزانہ بلا کسی خوف و خطر ہڑپ رہا ہے اور اس طرح سے حق تلفی کر کے بار عرصہ الاﺅنس کو ہڑپ کیا جا رہا ہے جبکہ محکمہ کو صرف 10%کا الاﺅنس دیا جا رہا ہے۔اس لئے محکمہ پولیس کو اُن کا اپنا حق دیا جائے نہ کہ خزانے پہ ناگ کی مانند بیٹھ کر حق تلفی کی جائے ۔اس طرح سے SPOsکی مستقلی کا اہم ایک اور جائز مسئلہ ہے جو کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کی تقدیر کو بدلا سکتا ہے یاد رہے عمر صاحب اگر اِس وقت آپ نے SPOsکی مستقلی کایہ اہم کام انجام دیا تو سمجھ لینا آپ کی ڈوبتی جارہی سیاسی نیا ڈوبنے سے بچ سکتی ہے اور ممکن ہے کہ آئندہ اسمبلی انتخابات میں آپ کو شاندار جیت نصیب ہو گی ورنہ عمر صاحب تمام عمر آپ کو یہ احساس ستاتا رہے گاکہ کاش!! میں اُس ڈوبتی کشتی کو بچا نہ پایا جبکہ اُس کشتی کو میں بچاسکتا تھا لیکن نہ جانے کیوں میں نے اُس کشتی کا ڈوبنے سے بچایا نہیںبس آپ ہمیشہ اپنے آپکو کوستے رہو گے ۔اس لئے عمر صاحب اگر آپ کے دِل میں ریاست بھرکے لوگوں کی خدمت کرنے کا جذبہ ہے تو ................
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِ آدم ہے، ضمیر ِ کُن فکاں ہے زندگی

ناکامی آخرکیوں؟؟ناکامی کی اصل وجہ لوگوں سے کئے وعدے وفا نہ کرنا بلکہ ہر ۵ سال کے بعد پرانے وعدوں کو مزارِ جھوٹ میں دفنا کر نئے سرے سے کبھی نہ وفا ہونےوالے وعدے کرنا ناکامی کی ایک اہم وجہ ہے۔ لیکن اب کی بار اسمبلی انتخاب سے قبل ہی لوگوں نے ایسا فیصلہ لیا کہ اب بن مانگے مانگیں پوری کی جانی لگی لیکن عوامی حلقوں میں اس تمام ڈارمے کو وقتی سیاست کے سوا کچھ نہیں کہا جارہا ہے ۔۸۰۰۲ءکے اسمبلی انتخاب کے دوران عمر صاحب نے جو وعدے کئے تھے کیا اُن میں کوئی بھی وعدہ پورا نہ ہوااگر عوام سے کئے گئے وعدے پورے کئے ہوتے تویوں رسوائی نہ سامنا نہ ہوتا۔ ۸۰۰۲ءکے اسمبلی انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے لئے عمر صاحب کا سب سے پہلا اور اہم وعدہ کہ ہر گھر میں ایک سرکاری ملازم مڈل پاس نوجوانوں کو سرکاری نوکریاں دی جائیں گے ہر تحصیل میں پولیس کی ایک سپیشل بھرتی ہوگی انِ تمام وعدوں میں ایک بھی وعدہ وفا نہ ہو سکا ۸۰۰۲ءکے اسمبلی انتخابات میں نوجوانوں کو سرکاری نوکریاں فراہم کرنے کا وعدہ کر کے عوام سے ووٹ حاصل کیا کیا کہ کرسی پہ بیٹھ جانے کے بعد راجوری میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران وزیر اعلیٰ نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ نوجوان پرائیویٹ سیکٹروں پہ اپنی توجہ مرکوز رکھیں کسی بھی قیمت پہ سرکاری نوکریاں مل نہیں سکتی ۔نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ پرائیویٹ سیکٹر میں اپنے روزگار ڈھونڈیں نہ کہ سرکاری نوکریوں کے پیچھے بھاگیں جو کہ فضول مشق کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمانی انتخابات میں مخلوط سرکار کو تباہ کن ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ سیاست ہے اس کے کیا کہنے
ہر قدم اک نیا خدا دے گی
سب کو سجدے یہ کس لئے بیتاب
یہ عبادت بھی کیا جزا دے گی

MOHAMMAD SHAFI MIR
About the Author: MOHAMMAD SHAFI MIR Read More Articles by MOHAMMAD SHAFI MIR: 36 Articles with 30011 views Ek Pata Hoon Nahi Kam Ye Muqader Mera
Rasta Dekhta Rehta Hai Sumander Mera
.. View More