مذہب اسلام نے اپنی تعلیمات اور ضابطہ حیات میں
انصاف پر بہت زیادہ زور دیا ہے اگر ہمارے حکمران مذہب اسلام کی بنیادی
تعلیمات ،قانون ،ضابطہ حیات اوراصلی آئین یعنی شریعت محمدیؐ پرعملدرآمد کو
یقینی بنائیں تو معاشرے میں کوئی مسئلہ پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔آج ہمارے
معاشرے میں وہ تمام برائیاں موجود ہیں ۔جو ایک مسلم معاشرے میں نہیں ہونی
چاہیں ۔میرے خیال میں دنیا کی ہر برائی نا انصافی سے شروع ہوتی ہے ۔اگر
معاشرے سے ناانصافی کا خاتمہ کردیا جائے تو پھر دنیا میں کوئی جھگڑا باقی
نہیں رہے گا ۔لیکن اس کام کے لیے ہمیں پوراپورااسلام میں داخل ہونا
ہوگاکیونکہ کائنات میں اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا ضابطہ حیات موجود نہیں ہے
۔اگر مسلمان اپنا کھویا ہوا مقام پھر سے حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پھر مزید
وقت ،طاقت اور قوت ضائع کیے بغیر اﷲ تعالیٰ کے دین کو اپنی زندگیوں میں
نافذ کریں۔دنیا میں ہرکام کے لیے حرکت ،طاقت اور قوت کی ضرورت ہوتی ہے اور
ہر کام کی انجام دہی محنت کہلاتی ہے ۔انسان کیلئے دنیا کی تمام ترخوب صورتی
،پائیداری محنت اورمشقت ہی کی بدولت ہے ۔محنت اس کائنات کا ایک ایسا اصول
ہے جس پر عمل کی بنیاد پر انسان کو زندگی کے ہر شعبے میں ثمرات میسر آتے
ہیں ۔خود خالق کائنات نے بھی بڑے واضح الفاظ میں فرما دیا ہے کہ انسان کو
زندگی میں وہی کچھ ملے گا جس کے لیے وہ محنت کرے گا ۔اور انسان کو وہی
کاٹنا پڑے گا جووہ اپنے ہاتھوں سے بوئے گا ۔طاقت اورقوت کااستعمال اگر غلط
حکمت عملی کی نظر کردیا جائے تو کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔اس حقیقت سے کون انکار
کرسکتا ہے کہ آج تک دنیا میں کبھی بھی کسی بھی قوم کو درست حکمت عملی ،
بہتر سے بہتر دستور بنائے بغیر حاصل نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی ہوگی۔اب
سوچنے اورسمجھنے کی بات یہ ہے کہ دستور جس کا دوسرا نام منشور بھی ہوسکتا
ہے اس کے بنانے والوں کی حیثیت کیا ہے وہ دنیاو آخرت کے کن ،کن امور میں
مہارت رکھتے ہیں ۔ بیشک انسان کواﷲ تعالیٰ نے دنیا کی تمام مخلوقات سے
اعلیٰ افضل بنا کر اشرف المخلوقت ہونے کا شرف بخشاء ہے ۔اس حقیقت میں بھی
شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے انسان پرکائنات کے وہ راز افشا ں
کیے جو کائنات کی کسی اور مخلوق پر نہیں کیے۔اور سب سے بڑھ کرکہ اﷲ تعالیٰ
نے انسان کوزندگی گزارنے کے لئے ایک ایسا دستور عطافرمایا ہے جس کا تا
قیامت کوئی متبادل نہیں ہوسکتا جی قارئین آپ بالکل ٹھیک سمجھے میرا اشارہ
قرآن کریم کی طرف ہی ہے۔میرا ایمان ہے کہ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی
موجود گی میں انسان کو زندگی گزارنے کے لیے کسی دوسرے قانون کی بالکل کوئی
ضرورت تھی نہ ہے اور نہ ہی قیامت تک ہوگی ۔کیونکہ اﷲ تعالیٰ کے قانون سے
بہتر کوئی قانون ہوہی نہیں سکتا اور کون ہے جو خالق کائنات کے قانون کو بدل
سکتا ہے ۔اﷲ کے سوا کون ہے جو سورج کو مشرق کی بجائے مغرب سے نکال سکتا ہے
۔کون ہے وہ جو بیمار کو شفاء دیتا ہے ۔میرے خیال میں جو مسلمان ہو، جسے اﷲ
تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین ہواور جو قرآن کریم کو کلام الٰہی مانتا ہواسے
کسی بھی دوسرے دستور کی ضرورت نہیں ۔لیکن بد قسمتی سے پچھلے 64.65سالوں سے
جب سے پاکستان آزاد ہوا ہے تب سے آج تک ہمارے حکمران اسلامی جمہوریہ
پاکستان کا دستور بنانے اور بنا کر بدلنے میں مصروف ہیں ۔لیکن ان عقل کے
اندھوں کو کون بتائے کہ مسلمانوں کے پاس کائنات کا سب سے اچھا ،سچا اورقابل
عمل دستور قرآن کریم کی صورت میں موجود ہے ۔اسی دستورکو نافذ کرنے کی ضرورت
حضرت علامہ اقبال ؒنے محسوس کی اور مسلمانوں کے لئے نہ صرف ایک آزاد ریاست
کاتصورپیش کیا بلکہ ملک خداداد کانقشہ بھی بتا دیا ۔اب ہمارے لیے سوچنے کی
بات یہ ہے کہ کیا پاکستان کے آزاد ہوجانے کے بعد ہمارے لیے وہ دستور (قرآن
کریم)نہ قابل قبول کیوں ہوگیا ؟جس پر عمل پیرا ہونے میں مشکلات کی وجہ سے
مسلمانوں نے ایک آزاد ریاست کے لیے جدوجہد کی تھی ۔مجھے پورا یقین ہے کہ
اگر برصغیر کے مسلمانوں کے پاس ان کا اپنا دستور (قرآن کریم ) موجود نہ
ہوتا تو کبھی بھی پاکستان آزاد نہ ہوتا ۔حکمران66سال تو کیا قیامت تک بھی
لگے رہیں پھر بھی کوئی دستور نہیں بنا سکتے نہ صرف پاکستان کے حکمران بلکہ
اگر پوری دنیا کے لوگ بھی اکٹھے ہو کربھی بنانا چاہیں توبھی میرے اﷲ کے
قرآن کے مقابلے کا دستور نہیں بنا سکتے ۔قارئین اگر میں صرف حکمرانوں کو ہی
تنقید کا نشانہ بناؤں،تو انصاف نہ ہوگا کیونکہ جیسی قوم ہوگی ویسے ہی
حکمران ہوں گے ۔حدیث شریف میں ہے کہ موسیٰ علیہ سلام نے اﷲ تعالیٰ سے سوال
کیا (یااﷲ جب آپ ناراض ہوتے ہیں تو کیا ہوتا ہے ۔اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
جب تم دیکھو ملک کی حکمرانی نااہل اور بدکار لوگوں کے ہاتھ ہے۔اور دولت
بخیلوں اور چوروں ڈاکوؤں کے پاس ہے تو سمجھ لینا کہ میں (اﷲ )اس قوم سے
ناراض ہوں۔حضرت موسیٰ علیہ سلام نے پھر سوال کیا یا اﷲ جب راضی ہوتے ہوتو
کیا ہوتا ہے ؟ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم دیکھو کے ملک کے حکمران
نیک ،ایمان دار ،انصاف پسنداور خوف خدا رکھنے والے ہیں تو سمجھ لو کہ میں
(یعنی اﷲ تعالیٰ)اس قوم پر بہت راضی ہوں ۔پاکستان کی آزادی ہم نے اس لیے
حاصل کی تھی کہ ایک ایسا معاشرہ ترتیب دے سکیں جس میں صرف اور صرف اﷲ
تعالیٰ کا دین نافذ ہو لیکن بد قسمتی سے آج مسلمان اصلی دستور یعنی اﷲ کے
قرآن کو جس میں ہماری تمام مشکلات کاحل موجود ہے کو چھوڑ اپنے پاس سے نئے
دستور بنانے میں اپنی طاقت اور قوت ضائع کررہے ہیں ۔ہم نے پاکستان لاالہ کی
بنیاد اور اﷲ تعالیٰ کے دین کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے حاصل کیا تھا جسے
آج آزادی کے66 برس گزرنے کے بعد بھی ایک خواب ہی تصورکیاجا سکتاہے۔ اگر ہم
وطن عزیز کے حالات دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ قوم سے ناراض
ہے۔،جرائم پیشہ لوگ حکومتی ایوانوں ،عدالتوں ،تھانوں،شعبہ تعلیم و صحت اور
دیگر تمام انتظامی محکموں پر راج کررہے ہیں۔چاروں طرف سودی نظام کی فروانی
ہے ۔سودجسے اﷲ تعالیٰ نے اپنے(اﷲ تعالیٰ )اور رسول اﷲ ﷺ کے خلاف جنگ قرار
دیا ہے جوپوری قوم پر مسلط کردیا گیاہے - |