جوسٹین گارڈرؔ نے اپنی فلسفیانہ ناو ل ’’صوفی کی
دنیا‘‘میں جس چوبی کُٹیاکا رومانی تصورپیش کیاہے۔ وہ ناروے کے شہرللے
سینڈکی جنگل میں کسی جھیل کے کنارے واقع ہے۔اُس چوبی کٹُیاکے بارے میں
شہرمیں یہی مشہورہے کہ کسی زمانے میں وہاں ایک غیرملکی معمرمیجراکیلارہا
کرتا تھا اور وہ ایک عجیب سا جنونی آدمی تھا۔ کئی سال پہلے وہ اس چوبی
کٹیاکواچانک خالی چھوڑکر کہیں دُورچلاگیا۔ لیکن وہاں کے باشندے بعد میں بھی
اُسی کٹُیاکو میجرکی چوبی کُٹیا کے نام سے یادکرنے لگے۔اُس غیرملکی بوڑھے
میجرکے کیاعزائم تھے جو اپنی خاندان اور ملک کو چھوڑ کر اُس چُوبی کُٹیامیں
آکربسیراکررہاتھا۔ اِس کے بارے میں شہر کے کسی بھی شخص کو معلوم نہیں تھا۔
کئی سال گزرنے بعد میجرکی چوبی کُٹیاکوخالی پاکر ایک اور بہروپیانے آکراُسے
اپنامسکن بنالیا۔دراصل نہ وہ کوئی غیرملکی میجرتھااور نہ ہی جنگل میں
موجودمیجرکی چوبی کُٹیااُن کا مستقل گھرتھا۔ بلکہ وہ پرانے شہرکے کسی فلیٹ
میں رہنے والا فلسفے کا استادالبرٹوکنوکس تھااوریہی بہروپیا کئی سال پہلے
ایک عجیب جنونی میجرکاروپ دھارکر وہاں رہ رہاتھا۔اوراب اپنے کّتے ہرمزکے
ساتھ اپنے اُسی چوبی کُٹیامیں دوبارہ آکرآبادہوا ۔وہ اپنی راتیں اُسی چوبی
کُٹیامیں گزارتاتھاور دن کوپرانے شہرمیں موجوداپنے فلیٹ میں منتقل
ہوجاتا۔اُس کے عزائم یہ تھے کہ وہ آس پاس کے گھروں میں رہائش پذیرسکول کی
کم عمر طالبات کوفرسودہ علوم ، توہم پرستی، نسل پرستی اور روایتی خیالات سے
دُور رکھ کرانہیں فلسفے کا نصاب ،تاریخ اور دیگرجدید علوم کی جانب راغب
کرکے سچّے اور کامل انسان بنائے تاکہ وہ دنیااور سماج کے بارے میں فلسفیوں
کی طرح اپنے الگ نقطۂ نظرقائم کرسکیں اور اُنہیں دنیامیں سچّ اور شعورکے
پرچارکا موقع ملے۔لیکن مذہبی راہبوں اور طالبات کے والدین کی ڈرسے وہ کسی
کو اپنے پاس بلاکرنہیں پڑھاسکتاتھا۔اسی لیے وہ اپنے عزائم کے ابتدائی مرحلے
میں لوگوں کے گھروں کے سامنے لگے ہوئے لیٹربکس میں اُن کے بیٹیوں کے نام
کاغذوں پرٹائپ شدہ مابعدالطبعیاتی سوالات لفافوں میں ڈال کر اُنہیں ان کے
جوابات ڈھونڈنے کے بارے میں سوچنے پر مجبورکرواتا۔وہ رات کے اندھیرے میں
ایک لمبی سی قباہ پہن کراور سرپر ایک قسم کی کپڑے کی ٹوپی رکھ کر یہ کام
کرنے کے بعدفوراًسایے کی طرح حرکت کرتاہواجنگل کی تاریکی میں پیوست ہوجاتا
۔جب کوئی شاگرداُن کی جانب راغب ہوکر دلچسپی لے لیتاتو وہ اگلی دفعہ
خودلیٹربکس میں لفافے ڈالنے نہیں آتابلکہ اپنے کُتے ہرمزکے ذریعے فلسفہ کے
نصاب اُن کے گھر تک پہنچادیتا۔
وہ جس میجرکی چوبی کُٹیامیں رہ رہاتھا وہاں اور کوئی قیمتی اشیانہیں ہے ۔
اُس کی ملکیت میں ایک پرانا اسٹوو،جس میں وہ رات کا کھانا پکاکرکھاتاہے،
کھانے کی خاصی بڑی میزپرٹائپ رائٹر، چند کتابیں،دوپنسلیں اور کاغذوں کا
انبارپڑاہواہے۔جس کے ذریعے وہ مغربی فلسفے کے تمام ادوار پرمشتمل نصاب
تیارکرتاہے۔ایک اور چھوٹی میزاوردوکرسیاں رکھی ہوئیں ہیں۔اُن کے علاوہ کمرے
میں مزیدخاص فرنیچرنہیں ہے۔ایک پوری دیوارکے ساتھ کتابوں کے شیلف بنے ہوئے
ہیں اور وہ ٹھساٹھس کتابوں سے بھری ہوئی ہیں۔سفید درازوں کی الماری کے
اوپرایک بڑاگول آئینہ لٹک رہاہے۔ اُس کا فریم پیتل کا ہے اور بہت وزنی
ہے۔اور یہ آئینہ بہت پرانا معلوم ہوتاہے۔ ایک دیوار پردوتصویریں لٹک رہی
ہیں۔ ایک روغنی تصویرکسی سفیدمکان کی ہے ۔ اسی تصویرکا عنوان
’’بجارکلی‘‘ہے۔بجارکلی کو بوڑھے کپتان کے مکان کے نام سے بھی جانا جاتاہے
جو کہ للے سینڈسے باہرہے۔اس پینٹنگ کے قریب کسی آدمی کا پوٹریٹ لٹک رہاہے۔
جو دریچے کے قریب بیٹھاہے اور اس نے اپنی گھٹنوں پرکتابیں رکھی ہوئی ہیں۔
یہ تصویرکچھ یوں نظرآرہی ہے جیسے کئی سوسال پہلے بنایاگیاہو۔اس
تصویرکاعنوان ’’بارکلی‘‘ہے اور مصوّرکانام سمائی برٹؔ ہے۔جارج بارکلی
آئرلینڈکابشپ تھاجس کا شمارتجربیت پسند فلسفیوں میں ہوتاہے۔ کُٹیامیں ایک
اور دروازہ تنگ سی خواب گاہ میں کھلتاہے۔ پلنگ کی پرلی جانب فرش پردو کمبل
پڑے ہوئے ہیں جس میں ایک پر اُس کاکتّاہرمزکے بال پڑے ہوئے ہیں۔
درازدارالماری کے اوپرسبزرنگ کا بٹوا پڑاہواہے ۔ اس میں ایک سوکراؤن کا نوٹ
ہے اور ایک پچاس کراؤن کا۔اور ایک سکول کا کارڈ ہے اس پرکسی لڑکی کی
تصویرہے اور اس کا نام ہلڈے مولرکنگ لکھاہواہے۔کتابوں اور کاغذوں کے
انبارمیں ایک سفیدلفافہ رکھاہواہے اور اُس پر تحریرہے : سوفی۔
سوفی امینڈسین وہی لڑکی ہے جو اس ناول کا مرکزی کردارہے اور البرٹوکنوکس کا
فلسفے کا غیررسمی شاگردہے اور بعدمیں فلسفے کے اسی نصاب کو ترتیب دے
کردنیاکی فلسفیانہ دستاویزی تاریخ مرتب کرتی ہے۔ اور’’ صوفی کی دنیا‘‘ کے
نام سے اس فلسفیانہ ناول کو شائع کرتی ہے ۔بعدمیں اُسے جس زبان میں بھی
ترجمہ کیاجاتاہے تو وہ اُسی ملک میں ایوارڈ حاصل کرتی ہے۔فلسفے کے اس نصاب
کے پڑھنے کے دوران نہ صرف دنیاکے بارے میں صوفی کے خیالات بدل جاتے ہیں
بلکہ کوئی بھی قاری اس کتاب کو پڑھنے کے دوران خودکو سوفی امینڈسین تصورکرے
گا۔
بحرحال وہ ایک خیالی میجرکی چوبی کُٹیاہے۔ جس میں دنیامیں فلسفہ
کاپرچارکرنے کے لیے علمی کام کیاجاتاہے اور دنیاکو فلسفیانہ شعورایک چھوٹی
سی لڑکی کے کردارکے توسط سے پہنچائی جاتی ہے اور لوگوں کو جدید علوم اور
دنیاکی ارتقائی تاریخ کے بارے میں مکمل آگاہی فراہم کرتی ہے۔لیکن ہمارے
مکران کے معاشرے میں کئی سال پہلے ایسی ہزاروں چوبی کُٹیائیں پہاڑی اور
میدانی علاقوں میں موجودتھیں جہاں عام سے سادہ لوح دیہاتی لوگ بسیراکرتے
تھے۔اچانک کسی دن سروں کوبلوچی پگڑیوں اور اور ایرانی رومالوں سے ڈھانپنے
والے یہی دیہاتی سادہ لوح قطاردرقطارکوہ مرادکے میدان میں جمع ہونا شروع
ہوگئے اور کچھ غیرملکی انہیں ایک ایسی لکڑی کے سامنے کھڑا کرتے تھے جس کا
ایک سرا زمین میں گھاڑا ہواتھا۔اور اُس کی اُنچائی تقریباً چھ فٹ سے تھوڑا
اوپرتھا۔ پہاڑی اور میدانی علاقوں سے آئے ہوئے جن جن دیہاتیوں کے قداسی
لکڑی کے برابر ہوجاتے توان کے ہاتھوں میں ایک خاص قسم کا ٹپّہ لگاکرانہیں
ایک طرف بیٹھنے کو کہاجاتا۔اور کسی دن انہیں دوبارہ بلاکرجہازوں میں
بٹھاکروہی غیرملکی اپنے ملک لے جاتے تھے۔
کئی عرصے تک یہی عمل جاری رہتاتھا اور وہی دیہاتی لوگ وقفے وقفے سے لوٹ کر
اپنے چوبی کُٹیاؤں کا رُخ کرتے تھے لیکن اب اُن کے سروں پر بلوچی پگڑیوں
اور ایرانی رومالوں کی جگہ ایک خاص قسم کی عربی رومال اور ایک لمبی سی ٹوپی
ہوتی تھی جس پر زیک زیک کی ہلکی سی سلک کی کشیدہ کاری ہوتی تھی۔اُن کے چہرے
پر ربین نامی قیمتی چشمے رکھے ہوتے تھے اورہاتھ میں راڈوگھڑیاں ہواکرتی
تھیں، اور کلین شیوکے سبب اُن کے چہرے پُررونق ہواکرتے تھے۔یہی لوگ بعد میں
کیپٹن اور میجرکے نام سے مشہورہوئے اور ان کے چوبی کُٹیاؤں کی جگہ کچّی
کُٹیاؤں نے لے لی ۔یہی صاحب لوگ دیکھتے ہی دیکھتے مکران کے معاشرے پر
چھاگئے اور انہی کی بدولت مکران میں نت نئی چیزیں متعارف ہوئیں۔ وہ اپنے
ساتھ سانیو ٹیپ ریکارڈربھی لاتے تھے جس سے اُن کے بچّے اپنے پیغام کیسٹ میں
ریکارڈ کرکے اُن تک پہنچادیتے تھے جب وہ اپنے کُٹیاؤں سے واپس جاچکے ہوتے
تھے۔ہرنئی جدید سازوسامان جو بیرون ملک میں دستیاب تھی وہ وہی مکران میں
متعارف کرتے تھے جس سے مکران کے لوگوں میں آہستہ آہستہ شعورپیداہونے
لگا۔انڈین گانوں سے لیکر بالی ووڈ کو مکران میں متعارف کرنے کا سہرابھی
انہی کے سر جاتاہے، جہاں سے وہ آتے تھے تو اپنے ساتھ ٹی وی اور وی سی
آرسمیت ویڈیوکیسٹ بھی لاتے تھے۔ جوکئی مہینوں تک اُن کے کُٹیاؤں میں باربار
گاؤں کے آدھے لوگ اکٹھے بیٹھ کر ایک ساتھ فلم دیکھتے تھے۔ اور وہ لوگوں کو
فلم کے ایکٹرزکے نام بھی بتاتے تھے۔ مکران کے دیہاتوں اور قصبے میں گاڑیوں
اور موٹر سائیکلوں کو بھی انہیں نے متعارف کروایا۔یوں مکران میں ایک شعوری
انقلاب کا آغازہونے لگا۔لوگ بلوچی زبان کے ساتھ ساتھ اردوزبان بھی سیکھنے
لگے۔
لیکن اُن کے کیپٹن اور میجربننے کی داستانیں بڑی عجیب اور مضحکہ خیزہیں
۔اُن میں سے کچھ لوگوں نے تومعاشرے میں دوسروں کے ناموں کی اہمیت کو دیکھ
کر خودکو ایسے ہی میجرکہلاناشروع کردیاتھا جب کہ اُن کے رینک چھوٹے ہوتے
تھے، لیکن کہاجاتاہے کہ اگر اُس وقت وہاں کسی کاتیربھی صحیح نشانے پرپڑ
جاتاتو اسے رینک دئیے جاتے تھے۔ایک ایسے ہی میجرصاحب ہمارے علاقے میں کئی
سال تک رہاکرتاتھا جس کے گھر میں ہم بچپن میں انڈین فلم دیکھنے جاتے تھے
کیوں کہ اُس وقت صرف اُن کے گھر میں فلم چلانے کی سہولت موجودتھی۔ بالی
ووڈکے تقریباً تمام پرانے ایکٹرزاور ایکٹریس کے بارے میں ہم اُسی کے گھرسے
آشناہوئے تھے اُس سے پہلے ہمیں اُنڈیاتک کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔ وہ
میجرصاحب ہمارے بچپن میں ہی اپنی فیملی کے ساتھ وہاں لوٹ گیا،جہاں سے وہ
میجربن کر آیاتھا۔کیوں کہ اُسے اب اپناعلاقہ راس نہیں آرہاتھا۔ اُس میجرکے
بارے میں کہاجاتاہے کہ جب وہ اپنی ڈیوٹی پر اُسی ملک کی سرحدکے قریب کسی
چھوٹی سی کیمپ میں موجودتھاکہ ہمسایہ ملک کی فوج نے اُس پر حملہ کردیا۔
تقریباً اُن کے تمام ساتھی ہلاک ہوگئے صرف وہی زندہ بچ گیا۔ جس پرسلطنت آف
عمان کے سلطان نے انہیں بہادرسمجھ کر ترقی دے دی۔ جب بعد میں اُن کے دوستوں
نے اُن سے پوچھاتھا کہ آپ زندہ کیسے بچے؟ تو انہوں نے جواب میں کہاتھاکہ
’’جب کیمپ پرحملہ ہوا تھا تو میں باتھ روم میں چھپ گیاتھا۔اسی وجہ سے زندہ
بچ گیااور بہادربن کر ترقی کرلی‘‘۔
مکران نے ایسے ہی میجروں کی بدولت بہت ترقی کرلی کیونکہ جب وہ وہاں سے فارغ
ہوئے تو اپنے ساتھ ایک کثیرمقدارمیں زرمبادلہ بھی لے کرآئے تھے اسی طرح اُن
کے کچّی کُٹیائیں پھر آہستہ آہستہ پکّی کُٹیاؤں میں تبدیل ہوتی گئیں ۔ پکّی
کُٹیاؤں کی جو روایت مکران میں انہوں نے متعارف کیا، جس کی بدولت دیکھتے ہی
دیکھتے ایک ایسامقابلے کا رجحان پیداہوگیاجس سے معاشرے کو چارچاندلگ
گئے۔انہی کے پیسوں سے مکران میں جیولری اور کشیدہ کاری کے مہنگے ورائٹی بھی
متعارف ہوئے جس سے معاشرے میں طبقاتی نظام کی جڑیں مضبوط ہوگئیں اور معاشرہ
امیراور غریب کے طبقوں میں تقسیم ہوکررہ گیا۔وہی میجرنہ صرف نئے خیالات
اورجدید چیزیں اپنے ساتھ لے آئے تھے بلکہ وہاں کی فوج کے معمولی سامان بھی
چوری کرکے اپنے ساتھ لاتے تھے جن میں اس مُلک کی فوج کے کوٹ، جوتے،
چارپائیاں، میڈٹرس،تکیے، کرسیاں ،چادریں اور گاڑیوں کے ٹائراور ترپال
وغیرہ۔ جس کے باعث پکڑے جانے پرکئی تو اپنی نوکریوں سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے
تھے۔دولت اور عزّت کی وجہ سے یہی میجر لوگ مکران کے اجارہ دار بن گئے اور
ہر شعبے میں ہرفن مولابن کر ہاتھ ڈالنے لگے ،جس سے معاشرے میں تعلیم یافتہ
طبقے کی جگہ انہی کاسکّہ چلنے لگا۔ جہاں تک انہی میجروں نے مکران کی
تعمیراور ترقی میں اہم کرداراداکیاتھا وہاں معاشرے کو بگاڑنے کا سہرابھی
انہیں کے سرجاتاہے۔یہ لوگ صنعت کاری سے ناوقف تھے اسی لیے مکران میں صنعتوں
کی روایتیں ڈالنے کا شعوران میں پیدانہیں ہوا۔چھوٹی موٹی دکانداری کے علاوہ
، وہ کوئی بڑی بزنس کی بنیادنہ ڈال سکے۔ البتہ ایک میجر نے تعلیم پہ تھوڑی
بہت سرمایہ کاری کی اور کچھ نے دوسری طرح کے بزنس میں ہاتھ ڈالنا شروع
کردیا۔ پاکستان سمیت آس پاس کے ممالک میں ایرانی پروڈکٹ کی مقبولیت اور
مانگ ہے لیکن وہ یہاں پر قانونی طور پر بزنس نہ کرسکے اور مختصر راستہ یعنی
کے اسمگلنگ کو ترجیحی دیتے رہے۔مکران میں کھجوراور مچھلیوں کے لیے وہ صنعت
کاری نہ کرسکے جو کہ یہاں کی اصل پیداور ہیں اور پوری دنیامیں ان کا مطالبہ
کیاجارہاہے ۔ کراچی اور ایران کے سرمایہ داروں نے انہی پیداوراپر بھاری
بھرکم سرمایہ کاری کی اور اپنی برانڈلگاکراندرون ملک اورہمسایہ ممالک میں
اپنی اچھی خاصی بزنس مارکیٹ بنالی۔ہمارے میجرسرمایہ دار، نہ ہی ثقافت پر
جدیدٹیکنالوجی کی بنیادپر صنعت کاری کرنے کے قابل ہوئے حالانکہ بلوچ ثقافت
پر سرمایہ کاری کرنے سے اُن کے پروڈکٹس خلیجی ممالک ، ایران، کراچی ،سندھ
کے دیگرعلاقوں اور پنجاب میں اچھاخاصامارکیٹ کرسکتے تھے۔ اپنے اصل کام کے
بجائے وہ وہی کام کرنے لگے جس سے جلد ہی وہ دیوالیہ بن گئے۔کوئٹہ کے ہزارہ
کمیونٹی اور پشتون برادری نے بلوچ ثقافت پر چھوٹے پیمانے پر سرمایہ کاری
کرکے بھاری بھرکم بزنس جمالیا مگرہمارے سرمایہ دار اس چیزسے عارمحسوس کرتے
رہے۔اندورن یا بیرون ملک کسی بھی پاکستانی کمپنی کی اعلیٰ کوالٹی کے پروڈکٹ
کو اٹھاکردیکھا جائے تو اُس پر ’’حب، لسبیلہ ،بلوچستان ‘‘لکھاہوا ہے۔ حب
میں انڈسٹریل ایریا موجودہونے کے باوجودیہ وہاں کسی کے ساتھ شراکت پر
سرمایہ کاری کرنے کے قابل نہ بن سکے کیوں کہ اُن کے پاس تو یہ شعورہی نہیں
تھی کہ ہم صنعت کاری کرسکتے ہیں ۔حب انڈسٹریل ایریا سے کراچی کے سرمایہ
داروں نے بھرپورفائدہ اٹھایا اور بلوچستان میں صنعت کاری کو فروغ دے کر
وہاں اپنا بزنس جمالیا۔ بعد میں دیوالیہ ہوکر یہی میجرجاکراُن کی کمپنیوں
کے سیکورٹی گارڈ بن گئے،اور باہرچوبی کُٹیاؤں میں رہنے لگے، کیوں کہ اُن کے
پاس تجربہ ہی یہی تھا۔ کچھ تو سیاست میں کھودکر معاشرے پر اجارہ داربن گئے۔
جن جن سیاسی پارٹیوں کے تابع اسٹوڈنس تنظیمیں اور بی ایس او نہیں تھے تو
انہوں نے انہی میجروں سے اپنا کام چلاناشروع کردیا۔
ان کا طریقہ کاریہ تھا کہ ایک ایسے ہی خودساختہ میجرکو کونسلربناتے تھے تو
وہ پورے گاؤں کے لوگوں کو اپنے تابع کرتاتھا اور انہی کے ووٹ اپنی پارٹی کے
رہنماکے پاس فروخت کرتاتھا یوں ایک میجرپورے گاؤں کو خاموشی سے
خریدلیتاتھااور کسی کو پتاتک نہیں چلتا۔ایک ایسے ہی میجرکو برطرف کرکے وہاں
کی فوج میں ملازمت کے لیے نااہل قرار دیاگیاتھا۔ مکران میں آکر سیاستدان بن
گیا اور ایک ’’مذہبی جمع سیاسی پارٹی‘‘ کے توسط سے پاکستانی سینیٹ میں
سینیٹر بن گیا ،کچھ ایسے ہی خودساختہ میجرتو نگران وزیربھی بنے جن کو سیاست
کے بارے میں کچھ پتاہی نہیں تھا۔ جب یہ سیاسی ورکراور نام نہادسیاستدان بن
گئے تو اُن کی چاندی ہوگئی، سوائے کرپشن اور اپنے لوگوں کو سفارش پر بھرتی
کروانے کے وہ اور کوئی اچھاکام نہ کرسکے۔ جن جن کو سیاسی چاپلوسی نہیں آتی
تھی تو اُن کو ٹھیکدار اور زکواۃ چیئرمین بناکراپنی پارٹیوں میں شامل
کروایاگیاانہوں نے نہ صرف غریب لوگوں کے زکواۃ کھائے بلکہ مکران کے تمام
اہم غیرمعیاری کام انہی میجرٹھیکداروں کے ذریعے کمیشن پرکروائے گئے۔انہی
میجروں کی وجہ سے ایک ایساغیرسیاسی نظام مکران میں رائج ہونے لگاکہ ایک
دوسرے کے یونین کونسلوں کو اس وجہ سے پسماندہ رکھنے لگے کہ انہوں نے تو
ہمیں ووٹ ہی نہیں دیاہے ہم ان کے لیے کیوں کام کریں۔ایسا نہیں لگتاکہ وہ
معاشرے کی بھلائی کے لیے منتخب ہوتے ہیں ، لگتاہے کہ صرف میجروں کے مخصوص
ٹولہ کا پیٹ پالنے کے لیے اُن کو منتخب کیاجاتاہے۔ آج کل جب بھی ان کی
پارٹی ہی کے کسی ورکر کو وزیریاروایتی سیاستدان سے ملنا پڑتاہے تو پہلے
انہیں اُن میجروں کی پکّی کُٹیاؤں میں جاکر اپناروناضرورروناپڑے گا۔اگر
میجران پر مہربان ہوں گے ،تو تب وہ اس قابل ہوجائیں گے کہ اپنی بات کسی
وزیر، سنیٹر،ایم این اے یا ایم پی تک پہنچاسکیں اور کام کے ہونے کی گارنٹی
اُس وقت ہے جب یہی میجراپنے لیڈر صاحب کے کانوں تک اُن کی بات پہنچائے۔
لیڈرصاحب براہ راست خود اس بے چارے سیاسی کارکن سے کوئی تعلق نہیں رکھنا
چاہتاکیونکہ اُس کی فیملی کے حق رائے دہی کا سوداتو پکّی کُٹیامیں میجر
لگاچکاہے۔
اسی طرح کے کئی سیاسی میجروں سے میراکئی دفعہ واستہ اُس وقت پڑاجب میں کچھ
سال پہلے سول سوسائٹی سے تعلق رکھتاتھا اور میراکام معاشرے میں سماجی خدمت
کرنا تھاتو مختلف این جی اوز میں بحیثیت ایک سماجی کارکن عوامی خدمت
سرانجام دیتارہا۔انسانی ترقی کے لیے دہی علاقوں کی شرح تعلیم پر سروئے کے
لیے ایک پاکستانی ادارہ نیشنل کمیشن فار ہیومن ڈویلپمنٹ نے مجھے کمیونٹی
سوشل موبلائزرکے طورپریہ ذمہ داری فراہم کی کہ میں تربت سے ساٹھ ،ستّر
کلومیٹر دُور دشت نگوْرکے یونین کونسل درچکو میں جاکرشرح تعلیم پرسروئے
کروں۔یونین کونسل کے بارے میں اپنی طرف سے معلومات حاصل کرنے کے بعد پتہ
چلاکہ وہاں ذگریوں کی بھی کثیرتعدادہے۔اس سے کام میں مزیددلچسپی پیداہوگئی
اور سُنی ہوتے ہوئے بھی روحانی جذبات کو پرکھنے اوردوستانہ تعلقات کے لیے
ذگریوں کو ترجیح دی۔خوردونوش سمیت اگرکبھی دیرہوجاتاتو رات بھی انہی کے ہاں
بسرکرتاتھا۔لیکن کام دونوں کمیونٹیزکے لیے یکساں طورپرکیے۔وہاں کئی دیہاتوں
میں تقریباً کونسلریا اجارہ دار کے طورپر مجھے چوبی کُٹیاؤں میں رہنے والے
میجرملے۔ وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ اس سروئے سے شاید کچھ پیسے بھی ملے گا۔
اسی لیے انہوں نے مجھے کافی غلط معلومات بھی فراہم کیے۔ اپنے اور قریبی
رشتہ داروں کے تقریباً پچیّس سے تیس سال کے لڑکے اور لڑکیوں کو بھی چاراور
پانچ سال کی عمر کے ظاہرکرکے اُن کے نام لکھواتے رہے۔جب میرے نگران نے کسی
دن انکوائری کے طور پر میرے سروئے رپورٹ اپنے ساتھ لے کرخودانہی علاقوں کا
دورہ کیااوران میں سے کچھ نام لے کراُن سے ملنے کی خواہش ظاہرکی تو وہی
سیاسی میجرانہیں لے آئے کہ شاید اب پیسے ملنے والے ہیں۔ جب میرے نگران نے
عمرکی نسبت سے انہیں دیکھاتو بہت برہم ہوئے اوروہاں سے سیدھا میرے گھرآگئے
اور میری عدم موجودگی میں پیغام دیاکہ کل میں ان سے دفترمیں آکرملوں۔دوسرے
دن جب ان سے ملنے دفتر گیاتوانہوں نے کہا’’ آپ نے ہمارے توقعات کے برعکس
کام کیے ہیں۔بڑی عمر کے لوگوں کو بچّے ثابت کرنے کے آپ کے مقاصدکیاہیں؟ کئی
گاؤں میں آپ کے سروئے میں یہی ایشوپائے گئے ہیں۔آپ کو دوبارہ پوری یونین
کونسل کا سروئے کرناپڑے گا‘‘۔ میں نے کہاکہ’’ پندرہ بیس ہزارکی آبادی کا
دوبارہ مکمل سروئے کرنا بہت مشکل ہے۔لوگ اس میں سیاست کو ملوث کرکے تعاون
نہیں کرتے ہیں اور کام کی نوعیّت کو نہیں سمجھتے۔ وہاں کی خواتین جملے کھس
کھس کرکہتی ہیں کہ آپ ہمارے بچّوں کے نام پرزکواۃ لے کرکھاتے ہیں۔علاقوں کے
درمیان بہت وسیع فاصلے ہیں۔ دوبارہ سروئے کے بجائے جہاں آپ نے غلطیاں پائی
ہیں انہیں جاکر تصدیق کرکے لاسکتاہوں‘‘۔اس نے نفی میں کہا’’غلطیاں اس سے
بھی زیادہ ہوسکتی ہیں۔ آپ کی رپورٹ ڈائریکٹرکو دے رہاہوں دیکھتے ہیں وہ
کیاکہتے ہیں‘‘۔ قلات کے کمشنرنورالحق بلوچ جس کا تعلق پنجگورسے ہے اُس وقت
ہمارے ڈائریکٹرتھے اس نے سب کے رپورٹ کی انکوائری کرنے کو کہاجب اس طرح کی
غلطیاں ہر سماجی کارکن کی رپورٹس میں ملے ، تو انہوں نے اس سروئے کو ختم
کرواکر ہمیں ہماری ذمہ داریوں سے سکبدوش کردیا۔اسی طرح شرح تعلیم پر ایک
اچھا خاصا پروجیکٹ انہی چوبی کُٹیاوالے سیاسی میجروں کی بدعنوانیوں کی وجہ
سے بغیرکسی نتیجے کے لپیٹاگیا۔
دوسراتجربہ اُس وقت ہوا جب پانچ چھ سال پہلے تربت میں سیلاب آگیااور کئی
مضافاتی علاقے اس کی زدمیں آکرملیامیٹ ہوئے، تو پاکستان ریڈکریسنٹ سوسائٹی
نے انٹر نیشنل ریڈکراس ترکی اور متحدہ عرب امارات ریڈکریسنٹ سوسائٹی کے
اشتراک سے سیلاب زدگان کی بحالی اور فلاح و بہبودکے لیے ایک پروجیکٹ شروع
کی ۔ جس میں مجھے بطور رضاکار سماجی کارکن اپنی ٹیم میں شامل کردیا۔اس میں
ہم دوستوں نے جان لگاکرسیلاب زدگان کی بحالی میں کرداراداکیااور ہمارا مشن
تین مرحلوں پرمشتمل تھا۔ پہلے مرحلے میں سیلاب زدہ علاقوں کا سروئے کرکے
متاثرین کی تعدادمعلوم کرنا۔ دوسرے مرحلے میں انہیں اشیاء خوردونوش اور
خیمے تقسیم کرنا اور تیسرے مرحلے میں ان کے لیے عارضی طورپرچوبی کُٹیائیں
تعمیرکروانا تھا۔وہاں بھی ہمارا سامنا اس طرح کے کئی میجروں سے ہوا جو
یونین کونسلوں میں اجارہ دارکے طور پرقابض تھے۔اور ہمیں اپنے تابع کروانے
کی مسلسل کوشش میں لگے رہے کہ ہم یہاں اُن کی مرضی کے مطابق کام کریں سروئے
رپورٹ بھی انہی کی نگرانی میں تیارکریں اور ان سے پوچھیں کہ کون کون
امدادکے مستحق ہیں۔ جب کہ ہمیں اس حوالے سے پہلے سے خاص ہدایتیں کی گئی تھی
کہ انٹر نیشنل امدادی تنظیمیں کسی سیاسی لیڈر،سرکاری یا فوجی افسرکی نگرانی
کے برعکس اپنا کام اپنے کارکنوں کی مرضی اور متاثرین کی باہمی رضامندی سے
کرتی ہیں۔ اس میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت قطعاً برداشت نہیں کی جائے
گی۔البتہ علاقوں میں پہلے سے موجودسرگرم سماجی تنظیموں کے ورکروں کو ساتھ
شامل کیاجاسکتاہے تاکہ امدادی کاموں میں کسی کی حق تلفی نہ ہو۔
مجھے کچھ دوستوں سمیت خمیوں کی ایک کیمپ دے دی گئی تھی ،ایک علاقے کے سکول
گراؤنڈمیں تمام سیلاب زدگان مرداور خواتین اپنے بھال بچّوں سمیت جمع
تھے،اور ہم اُن میں خیمے تقسیم کررہے تھے۔ ایسے میں ایک یونین کونسل کے
میجرناظم نے آکرعرض فرمایا’’ آپ خیمے میرے حوالے کریں میں خودانہیں تقسیم
کروں گا‘‘ ۔ میں نے کہاآپ اپنے سرکاری سے خیمہ طلب کریں اور انہیں تقسیم
کریں، ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے، اگر ہمارے خیمے آپ تقسیم کریں گے تو
ہمیں اس پر اعتراض ہوگا‘‘۔ پھراُس نے کہا’’ علاقہ میراہے اورلوگوں کو تو
مجھ پر بھروسہ ہے ، پھرآپ کیوں بھروسہ نہیں کرتے؟‘‘۔ پھرمیں نے جواب دیا۔
صاحب !بات بھروسے کی نہیں ہے ، میں تو آپ کی اجارہ داری کو قبول نہیں
کررہااور آپ کے اس عمل کو اپنے کام میں مداخلت سمجھ کر مستردکررہاہوں،
ہمارے رابطے براہِ راست متاثرین سے ہوں گے ،این جی اوز کے سماجی کاموں میں
کسی سیاست کی عمل دخل قبول نہیں کریں گے، ہمیں پتا ہے کہ ہمارے کام کو اپنے
کھاتے میں ڈال کرآپ ان پرسیاست چمکاناچاہتے ہیں۔ میراجواب سُن کروہ مجھے
غورکرچلاگیا۔ جب رات ہوگئی تو ہم کچھ خیمے وہاں کسی سماجی کارکن کی نگرانی
میں چھوڑکرچلاگئے۔ تو وہی ناظم میجرنے ہماری غیرموجودگی کا فائدہ اٹھاکروہ
خیمے ہڑپ کرلیے۔
نیشنل رورل سپورٹ پروگرام کے ایسرا پروجیکٹ میں بھی میں نے بطورسماجی کارکن
کام کیا اُس میں ہمیں کسی پرائمری سکول کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے
لیے تقریباً ایک لاکھ اسّی ہزارروپے دئے گئے۔یہاں بھی علاقائی اجارہ دار کے
طور پر ایک میجرنے مداخلت کی اور ہمیں اچھاکام کرنے نہیں دیا۔علاقائی اجارہ
دارکے طور پر ان چوبی کُٹیاکی میجروں نے ہروقت سماج میں نہ صرف سیاست ،
بلکہ ہر طرح کے کاموں میں مداخلت کرکے اپنی مرضی عوام پر مسلط کرنے کی
ہرممکن کوشش کی ہے۔ اسی لیے ہمارا سماج ہرشعبے میں اپنے کام کے متعلقہ بندے
پیداکرنے میں ناکام ہواہے۔ ان کو جو تھوڑی بہت عزّت معاشرے میں اپنے پیسوں
کے بل بوتے پر حاصل تھی تو انہوں نے خودکو عوام پرہر شعبے میں مسلط
کردیا۔یہ اپنے ساتھ کوئی خاص پروجیکٹ نہیں لائے تھے جس سے عوام کی فلاح و
بہبودمیں مددگارثابت ہوتے۔ اُن میجروں میں سے جو کم تعلیم یافتہ یا بے
تعلیم تھے تو وہ آتے ہی کسان بن کر اپنا وہی روایتی خاندانی زمینداری
والاپیشہ اختیارکرنے لگے۔ اور زمینداری میں بھی بزنس نہ کرسکے صرف اپنے
بھیڑبکریوں کے لیے چارہ پیداکرنے کے لیے خودکو لُٹاتے رہے اور جلد ہی
دیوالیہ بن کر افسوس کا اظہارکرتے رہے۔کچھ میجروں نے تو ادب میں بھی
آکراپنے پیسوں کے بل بوتے پر شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی اور جلدہی ادب میں
نسل پرستی اور قدامت پسندی کی گندمچاکررکھ دی۔وہی میجرجو ایک وقت میں خودکو
سماجی خدمت گزاری کے طورپرپیش کررہے تھے پھرآہستہ آہستہ بہروپیامیجروں کی
شکل اختیار کرتے گئے۔ان میں سے جو عیاشی اور شراب نوشی کی لت لے کر آئے تھے
تو انہوں نے اپنی دولت ،شراب نوشی اورکراچی کی منچلی طوائفوں پر لُٹادئیے۔
شراب اور منشیات کی بزنس بھی انہیں میجروں کی بدولت مکران میں پروان چڑھا۔
مزیددولت کمانے کے چکّرمیں وہی میجروں نے بہروپیاکا روپ دھارناشروع کردیا۔
خود تو پہریزگاری کی دکانیں چلانے لگے مگر اپنے بیٹوں کو سرمایہ فراہم کرکے
منشیات فروشی کو فروغ دیتے رہے اسی طرح باہرسے شریف جب کہ اندرسے سماج دشمن
عزائم رکھنے لگے ،کیونکہ وہ جلدسے جلد امیربننا چاہتے تھے اسی اثناء میں
نوجوانوں کو منشیات کی لت لگاکرگنتی کے چندے میجردیکھتے ہی دیکھتے ارب پتی
بن کر کراچی اوردبئی کے پوش علاقوں میں پکّی کُٹیاؤں کے مالک بن گئے اور
وہاں بیٹھ کر مکران میں اپنے خفیہ عزائم پرقائم رہے۔ کچھ توجلد ہی اپنے سے
بڑے اسمگلروں کے ہتھے چڑھ گئے انہوں نے نہ صرف خودمکران میں بلکہ اُسی ملک
میں منشیات کی اسمگلنگ شروع کردی جہاں سے وہ میجر بن کرآئے تھے کیونکہ ان
کی وہاں واقفیت تھی اسی لیے بڑے اسمگلروں نے اُن کو استعمال کرناشروع
کردیا۔ اُن میں سے کچھ میجروہاں گرفتارہوکر موت کی سزا تک بھی جاپہنچے۔
اپنے علاقے کو تباہ کرنے کے بعد انہوں نے نہ صرف اُسی ملک کو بھی تباہ
کردیابلکہ وہاں کے میجروں کو بھی منشیات فروشی کے گُرسکھادیئے۔آج کل جو بھی
میجروہاں سے ریٹائرڈہوکرآرہے ہیں اُن میں سے اکثر منشیات کی اسمگلنگ
پرسرمایہ کاری کررہے ہیں۔ جس میں معاشرے میں ہر نوجوان کو منشیات کی لت لگ
چُکی ہے۔ہمیں مکران کے کسی بھی علاقے میں ایسے کئی چوبی کُٹیائیں نظرآئیں
گی جہاں یہی میجردیوالیہ بننے کے بعد چھوٹے پیمانے پر منشیات فروخت کرتے
ہیں اور خود نوجوانوں کے ساتھ بیٹھ کر منشیات استعمال بھی کرتے ہیں۔مکران
میں منشیات کے دہندے کی مقبولیت کو دیکھ کرپھر کہیں اور سے کچھ
بہروپیامیجرنمودارہوئے اورا نہی کاموں میں اُن کے محافظ اور حصہ دار بن گئے
۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیابھرمیں مکران منشیات کی اسمگلنگ کا
مرکزہے، چوکہ مکران کے ہر باشندے کی پیشانی پر بدنما کَلنک ہے۔
ایک ترقی و تعلیم یافتہ اور پسماندہ وغیر تعلیم یافتہ معاشرے کے افرادمیں
یہی فرق ہوتاہے کہ ایک معاشرے کی تعمیروترقی اورمستقبل کے لیے اچھے عزائم
رکھتے ہیں اور معاشرے کی تعمیرمیں جدیدعلوم کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر دوسرے
معاشروں کو مثال کے طور ر اپناکران کے نقش قدم پر چل کرمعاشرے میں بہتری کے
لیے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ جبکہ دوسرے معاشرے پر رعب اور دب دبہ قائم کرنے،
اپنے معاشیات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہر ناجائزحربہ استعمال کرتے ہیں،
اور بغیرمنصوبہ بندی کے معاشرے کی برائیوں میں مزیداضافت کا باعث بنتے ہیں۔
ناروے کے خیالی بہروپیامیجرنے جہاں تک اپنی چوبی کُٹیامیں پوری دنیاکو علم
کی روشنی کے عزائم سے سجا کررکھ دیاتھا تو ہمارے حقیقی بہروپیامیجروں نے
پورے مکران کو ایک ایسی چوبی کُٹیابناکراسے اپنے عزائم سے مزّین کررکھاہے
کہ اس کی ہردیوارکی جھالر پر تباہی کے مکڑیوں نے جال بُنے ہوئے ہیں۔ |