کراچی سے دہشتگردی کا سدباب ممکن ہے

3 حساس اداروں کی جانب سے رپورٹ کے مطابق سندھ پولیس میں جرائم پیشہ عناصر موجود ہیں جس پر سی پی ایل سی نے 02اکتوبر 2019کو لیٹر نمبر CCPO/Discp (PC) 87968-72میں دو ہزار کانسٹیبلز کے ریکارڈ میں سے چھ سو مشکوک افراد کے ریکارڈکو اپنی رپورٹ کے ساتھ آئی جی سندھ کو بھیج دیا جن کی ہدایت پر ڈی آئی جی ساؤتھ غلام نبی میمن کو ان جرائم پیشہ کانسٹیبلز کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا گیا تھالیکن اُس تحقیقات کا کیا کیا نتیجہ نکلا اس سے آج تک عوام بے خبر ہیں ۔ حالاں کہ اس وقت اسلام آباد میں لرزاں طاری ہوگیا تھا کہ خطرناک جرائم میں ملوث افراد شہداد پور ، اور کراچی میں ٹریننگ حاصل کر رہے ہیں ۔ سی پی ایل سی کے اُس وقت کے چیف شرف الدین میمن نے رپورٹ کی تصدیق کی تھی۔ تاہم اس حوالے سے اس موقف کو بھی دوہرایا تھا کہ ممکن ہے کہ اس فہرست میں کچھ ایسے افراد بھی شامل ہوگئے ہوں جو نام و ولدیت کی مماثلت کی وجہ سے بے گناہ ہوں تاہم اس سلسلے میں حتمی بات تحقیقات کے بعد ہی کہی جا سکتی ہے ۔ لیکن سندھ حکومت نے ابھی تک اس اہم معاملے کو زیر التوا رکھا ہوا ہے۔

آئی جی سندھ اقبال محمود نے گارڈن پولیس ہیڈ کواٹر میں دربار سے دوران خطاب اس وقت انکشاف کیا تھاجب وہ ایڈیشنل آئی جی کراچی پولیس تھے ،ان کا کہنا تھاکہ نارتھ ناظم آباد کے ایس پی لطیف صدیقی نے ٹرینگ کے بعد سے اب تک اسلحے کو ہاتھ نہیں لگایا اور اگر کبھی جرائم پیشہ افراد سے سامنا ہو جائے تو وہ ملزمان سے مقابلہ کرنے کے بجائے انھیں پتھر مار کر بھگائیں گے۔ اس موقع پر ڈی آئی جی سی آئی ڈی منظور مغل ، ضلع کے ڈی آئی جیز کے علاوہ ڈی آئی جی ایڈمن عمران یعقوب منہاس بھی موجود تھے۔اس وقت کے ایڈیشنل آئی جی کراچی اور موجودہ آئی جی سندھ اقبال محمود کا کہنا تھا کہ اگر پولیس اہلکار زخمی ہوجائے تو ٹاؤن کے ایس پیز اس لئے جانے سے کتراتے ہیں کہ کہیں انھیں عیادت کے دوران پیسے نہ دینے پڑ جائیں ۔ کرائم سین پر دیر سے پہنچ کرافسران کے منہ تکتے ہیں اور جائے وقوع دیر سے پہنچنے کی عادت کی وجہ سے شواہد ہی مٹ جاتے ہیں اورتفتیشی عمل میں کوئی پیش رفت نہیں ہوتی۔ایس او ایچ سیاسی شخصیات اور بیوروکریسی سے سفارشی فون کراتے ہیں ۔ افسران وردی کے بجائے کاٹن کے کپڑوں میں علاقوں میں گھومتے ہیں اور جرائم کی بیخ کنی کے بجائے انھیں منشیات اور جرائم کے اڈے چلانے سے فرصت نہیں۔ جواری سر عام پولیس کو زد و کوب کرتے ہیں اور ایس ایچ اوز کی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ جواری کو پکڑ کر بند کریں ۔ آئی جی سندھ اقبال محمود کے یہ انکشافات لمحہ فکریہ ہیں اور وہ اپنا یہ خطاب بھولے بھی نہیں ہونگے۔ بقول خود ان کے ایسا نہ ہو جرائم پیشہ عناصر تھانوں میں گھس کر پولیس کو ماریں اور شہر میں پولیس کی رٹ ختم ہوجائے۔ پولیس کی یہ کارکردگی خود ان کے اعلی ترین افسر کے جانب سے کی گئی ہے ۔ لیکن پولیس کا یہ نظام کوئی آج کا بگاڑ کا نتیجہ نہیں ہے ۔کراچی جلے گا نہیں تو کیوں نہیں جلے گا ۔پولیس کی اس کارکردگی پر سپریم کورٹ کاایک ریمارکس تاریخ کا حصہ بن گیا،کراچی میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کے ساتھ کراچی بد امنی کیس کی سماعت ہوئی تھی تودوران سماعت ایڈوکیٹ جنرل سندھ کیجانب سے پیش کردہ رپورٹ پر سپریم کورٹ نے مکمل عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی سندھ کو سرزنش کی کہ بغیر اسکوڈ کے چار دن کراچی میں گھوم کر دکھائیں، اگر ڈر لگتا ہے تو عہدہ چھوڑ دیں۔

کراچی بدامنی کا سب سے بڑا ہولناک انکشاف کراچی سیکورٹی کے حوالے سے ایک سرکاری رپورٹ میں کیا گیا کہ دہشت گردی کا عفریت کراچی پر پوری طرح چھایا ہوا ہے اور کراچی کے بعض علاقے"وزیرستان"بن گئے ہیں، جبکہ ایک غیر ملکی رپورٹ جو حکومت پاکستان کے پاس ریکارڈ میں یہ ہوش ربا انکشاف کیا گیا کہ ـ"پاکستانوں"کے پاس دو کروڑ مہلک ترین ہتھیار ہیں اور جدید ترین ہتھیار رکھنے والے 178ملکوں کی فہرست میں پاکستان کا ساتواں نمبر ہے۔اوسطا 20بیگناہ شہری ہلاک ہوتے ہیں۔وزرات داخلہ کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں بھتہ خور، اسلحہ مافیا ،قبضہ گروپ ، لسانی ، مذہبی ، گروہی اور فرقہ واریت میں ملوث گروپوں سمیت49کالعدم شدت پسند تنظیمیں بے گناہوں کا خون بہا رہی ہیں ا، شہریوں سے طالبان کے نام پر کوئی بھی بھتہ مانگ سکتا ہے ، اس میں طالبان ملوث ہیں یا ان کا سنام استعمال کیا جاتا ہے پولیس بھی ابھی تک واضح نہیں کرسکی۔

ادارے،سیاسی جماعتیں اور ارباب اختیار سب جانتے ہیں ، سمجھتے ہیں، لیکن کراچی کے حالات پر کسی نے بھی سنجیدگی اختیار نہیں کی ۔ حکومتی ایوانوں تک صرف کراچی پر پوائنٹ اسکورنگ کی جاتی رہی ہے ، کراچی آج دہشت گردی کی آگ میں جل رہا لیکن اس آگ کو بجھانے والا کوئی نہیں ہے۔ آگ میں تیل ڈال کر ہوا دینے والے ، زخموں پرمرہم رکھنے والے کم اور کفن پہنانے والے بہت ہیں۔گولیاں چلانے والوں کو روکنے والے کم اور اسلحہ لائسنس جاری کرنیوالے بہت ہیں۔کراچی کا غم بانٹنے والے کم ، کراچی پر دکھاوا کرنے والے بہت ہیں۔آج کراچی جل رہا ہے اور اس کا کوئی غمگسار نہیں ہے۔یاد رکھو ، کراچی سے مت کھیلو ، سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا ۔۔۔اس آگ سے ایک کا نہیں سب کا گھر جلے گا۔صرف راکھ ہی مقدر بنے گی ۔ کراچی ابھی مکمل وزیرستان بنا نہیں ہے ۔ یہ خبر بھی تصدیق نہیں چاہتی کہ کراچی کے دس فیصد حصے پر شدت پسند تنظیموں کا عملی قبضہ ہوچکا ہے۔وال اسٹریٹ کی تحقیق کے مطابق کراچی کی ایک تہائی رقبے یعنی470مربع میل کے علاقے پر شدت پسندوں کا قبضہ ہے جہاں کم از کم 25لاکھ نفوس آباد ہیں۔ کراچی کا خدوخال ہی بدلتا جارہا ہے بین الاقوامی طور پر کراچی کی شناخت انتہائی خطرناک ترین شہروں میں کئے جانے لگا ہے اور کہا جاتا ہے کہ کراچی کی178یونین کونسلوں میں سے 33یونین کونسلیں منی وزیرستان بن گئے ہیں جس میں اب غیر پشتون لیاری جیسے علاقے بھی شامل ہیں۔کراچی صرف چند مخصوص علاقوں میں بد امنی کا نام نہیں ہے ، قانون شکن جب چاہتے ہیں ، جہاں چاہتے ہیں ، جس طرح چاہتے ہیں اپنا کام کرتے ہیں ، انھیں کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے کا خوف بھی نہیں ۔

قانون نافذ کرنے والوں اداروں کو عوام کے ٹیکس سے اربوں روپے دئیے جا رہے ہیں اور عوام اس کا نتیجہ مانگتے ہیں ، لیکن عوام کو خود بھی اپنی اصلاح کرنی ہوگی ،قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ساتھ دینا ہوگا ، بلا شبہ کالی بھیڑوں سے کوئی ادارہ ، کوئی سیاسی و مذہبی جماعت صاف نہیں ہے ، لیکن عوام کو خود بھی آگے بڑھنا ہوگا ، اس روز روز کے تماشے کو ختم کرنے کیلئے اپنے علاقوں میں خود کو منظم کرکے قانون کے ہاتھ مضبوط کرنا ہونگے ۔نووارد ، پر اسرار اور مشکوک افراد سے اپنے علاقوں کو صاف کرنا عوام کی طاقت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ہم سب ذمے داری پولیس ، رینجرز پر ڈال کر بری الزما نہیں ہوسکتے ، کوئی جنگ عوام کی طاقت کے بغیر نہیں جیتی جا سکتی ، جہاں ایک طرف اداروں میں ضرورت اس بات کی ہے کہ تطہیر کا عمل کیا جائے تو دوسری جانب سیاسی جماعتوں کا بھی جرائم پیشہ افراد سے لاتعلقی کا اعلان انتہائی حوصلہ افزا ہے ، لیکن اس کے لئے نیتوں کی پاکیزگی ضروری ہے ، اگر ایک طرف قانون نافذ کرنے والوں کے ہاتھ کسی بے گناہ یا سیاسی وابستگی کی بنا ء پر محض شک کی بنیاد پر جھوٹے کیسوں کی بنیاد نہ بنیں تو یقینی طور پر عوام کا اعتماد ان اداروں پر بڑھے گا اور کالی بھیڑوں کو اپنی صفوں سے باہر نکالنے کیلئے عوام ہر قسم کی مدد کو تیار اس لئے ہوگی کیونکہ اس عمل میں ان کی بقا ہے۔کراچی کے امن میں عوام کی نسل کی تعلیم و تربیت و عزت نفس سمیت غیرت کے تحفظ پوشیدہ ہے۔اپنی نسلوں کو محفوظ بنانا ہے ، اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کرنی ہے اور اپنے رب کے آگے سرخرو ہونا ہے تو ہمیں ایک مٹھی ہوکر طاقت بننا ہوگی ، بکھرے ہوئے عوام کبھی بھی قوم نہیں کہلائی جاتی اور یہی عین کمزوری ہے۔ایک قوم بننا ہے تو نظریہ پاکستان کے تحت ایک مسلم ، ایک اسلام ، ایک قرآن اور ایک نبی آخری الزماں ﷺ پر یقین رکھتے ہوئے اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744811 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.