وزیر اعظم نریندر مودی کی حلف برداری کوہندوستان کی سیاسی
تاریخ کا زعفرانی دن کہنا اس لئے مناسب حال معلوم ہوتا ہے کہ اس کے سیاہ و
سفید ہونے میں اختلاف ہے۔ ایک طرف جہاں ہندوتوادیوں کیلئے یہ ایک تابناک
مستقبل کی علامت ہے وہیں مسلمانوں کیلئے یہ یقینا ًیومِ سیاہہے اس لئے وہ
مودی کے مظالم کو نہ بھولے ہیں اور نہ بھول سکتے ہیں۔ اس میں کوئی حیرت کی
بات نہیں ہے ۔ ۱۹۹۱ میں ملائم سنگھ یادو نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے
بابری مسجد کو توڑنے کی کوشش کرنے والے کارسیوکوں پر گولی چلائی تھی ۔ سنگھ
پریوار اس کو ابھی تکبھول نہیں سکا اس لئے جب بھی ملائم کو کوئی سیاسی
کامیابی حاصل ہوتی ہے وہ چراغ پا ہو جاتا ہے۔گجرات کے فسادزدگان توخیربے
قصورتھے۔
راہل گاندھی کیلئے یہ سیاہ تر دن ہے جو گزشتہ۱۰ سالوں سے وزیراعظم بننے کا
خواب سجا رہا تھا اور جیسے تیسے اس بار کمان سنبھال لینا چاہتا تھا۔ اس کا
خواب توچکنا چور ہوگیا لیکن اب عمر ہی کیا ہے۔پھر سے قسمت آزمائی کرکے وہ
کامیاب بھی ہوسکتاہے۔لال کرشن اڈوانی کیلئے یہ سیاہ ترین دن ہے اس لئے کہ
اب وہ خواب میں بھی وزیراعظم نہیں بن سکتے گزشتہ دس سالوں سے منتظر
وزیراعظم کے لقب سےوہ محروم ہو چکے ہیں۔ جس شخص نے اقتدار کی خاطر بابری
مسجد کو شہید کیا اور سارے ملک میں آگ و خون کی ہولی کھیلی وہ تو اپنے
دردناک انجام کو پہنچ گیا۔جن کے ہاتھ معصوموں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں وہ
اپنے انجام کے منتظر ہیں ۔ مشیت کا کھیل ابھی ختم نہیں ہوا ہے بلکہ جاری ہے۔
انسانی نفسیا ت نتائج کو اپنی توقعات کی بنیاد پر مثبت یا منفی قرار دیتی
ہے یہی وجہ ہے کسی ایک کیلئے حوصلہ افزاء نتیجہ دوسرے کو دل شکستہ کردیتا
ہے۔نریندر مودی اور امیت شاہ کی سفاکیت اور انکاؤنٹرس کاشکار یوں توہرین
پنڈیا اور پرجاپتی جیسے ہندو بھی ہوئے لیکن سب سے زیادہ قیمت مسلمانوں نے
چکائی اسلئے دنیا کے سارےمظلوم ان دونوں کوبابو بجرنگی اور مایا کوندنانی
کے ہمراہ جیل کے اندر دیکھنا چاہتے تھے چونکہ اس کے برخلاف وہ اقتدار پر
فائز ہوگئے اس لئے مایوسی کا پیدا ہونا فطری ہے لیکن جس پارلیمان میں منتخب
ارکان کی ایک بڑی تعداد مجرم ہے بی جےپی کے ایک تہائی ارکان ِپارلیمان
خطرناک قسم کےمقدمات میں ملوث ہونے کا اعتراف کر چکے ہیں تو سربراہ کےمجرم
ہونے پر حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ اس حقیقت کاا نکار ممکن نہیں ہے کہ فی الحال
ہندوستانی جمہوریت کی گاڑی دولت اور جرم کے پہیوں پر چل رہی ہے۔
اس بارانتخابی مہم کا سب سےمنفی پہلودولت کےعیل پیل کے سبب ذرائع ابلاغ کی
جانبداری تھا مگر ماضی سے موازنہ کرنے پر ایک مثبت پہلو بھی سمجھ میں آتا
ہے۔ ۱۹۹۰ کی دہائی میں انتخاب سے قبل ایک دھرم سنسد ہوتی تھی ۔ سادھو سنت
وشوہندو پریشد کا پرچم تھام کر میدان میں نکل آتےتھے ۔ بجرنگ دل کے غنڈے
دنگا فساد کرنے میں جٹ جاتے تھے۔’’مندر وہیں بنائیں گے‘‘ کا نعرہ بلند
ہوتااور تمام مسلمانوں کو بابر کی اولاد قراردینے کی مذموم کوشش کی جاتی
تھی۔اس کے جواب میں راجیو گاندھی تک کو ایودھیا میں شیلانیاس کرکے رام
راجیہ قائم کرنے کا اعلان کرنا پڑتا تھا ۔ اس بارترقی و خوشحالی کی بنیاد
پر انتخابات ہوئے۔ بی جے پی کی ریاستوں میں کوئی بڑا فرقہ وارانہ فساد نہیں
ہوا۔ مظفر نگر میں ایس پی اور آسام کے بوڈو علاقوں میں کانگریسی خاموش
تماشائی بنی رہے۔ فرقہ وارانہ فسادات سے سیاسی فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ اعظم
گڑھ کے متعلق امیت شاہ کا دہشت گردی والا بیان بی جے پی کے کام نہ آسکا ۔
گری راج کے پاکستان والےبیان کی ذرائع ابلاغ میں مذمت ہوئی۔
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بی جے پی کوانتخاب فرقہ پرستی کے بجائے
خوشحالی و ترقی پر لڑنا تھا تواس نےنریندر مودی کو وزیراعظم کاامیدوار کیوں
بنایا ؟ اس کاسہل ترین جواب قحط الرجال ہے۔ بی جے پی کے پاس اس مرتبہ مودی
سے بہتر کوئی امیدوار موجود نہیں تھا لیکن اور بھی وجوہات ہیں۔ پچھلی بار
واجپائی ، اڈوانی اور پرمود مہاجن کی تریمورتی نے بی جے پی کو انتخاب میں
کامیابی سے ہمکنار کیا تھا۔واجپائی سنگھ کےباہر والوں کو خوش کرنے کیلئے
تھے۔ اڈوانی کا کام سنگھ کے اندرموجود سخت گیر عناصر کو مطمئن رکھنا تھااور
پرمود مہاجن کی ذمہ داری سرمایہ داروں سےچندہ جمع کرنے کی تھی۔ اس بار
گجرات میں سرمایہ داروں کو مراعات دے کر مودی نے پہلے تو مہاجن کاکام کیا
اس کے بعد اٹل جی کی سدبھاونا کا مکھوٹا اوڑھ لیا۔ سیکولر دانشوروں اور
مسلمان عوام کی مخالفت سے کٹر ہندو خوش ہوتے رہے اور سوچتے رہے چونکہ یہ
ہمارے دشمنوں کا دشمن ہے اس لئے ہمارانجات دہندہ ہوگا ہی ہوگا اس طرح گویا
ایک آدمی سے تین کام ہو گئے اور ۱۹۹۸ والا چمتکار پھرہوگیا۔
اس کے معنیٰ یہ بھی نہیں ہیں کہ فسطائیوں کے دل بدل گئے ہیں۔ ایک سیاسی
مجبوری فی الحالبی جے پی کوفرقہ پرستی سے اجتناب کروارہی ہے۔ خوشحالی و
ترقی کے نام پر قریب آنے والا نیا ووٹر اور تشہیر پر سرمایہ لگانے والا
نیا ڈونر دونوں چاہتے ہیں کہ امن و امان قائم رہے جوعوام و خواص کی ترقی
وخوشحالی کیلئے یہ ناگزیر ہے لیکن جب یہ دونوں مایوس ہو کر اپنا منہ
موڑنےلگیں گے تو بی جے پی بھی فسطائیت کی جانب رخ کرنے پر مجبور ہو جائیگی
۔یہ وقت کب آئیگا کوئی نہیں بتا سکتا لیکن چونکہ ان لوگوں کو فرقہ پرستی
کی سیاست کا اچھا خاصہ تجربہ ہے اور ان کا انحصار مسلمان رائے دہندگان پر
نہیں ہے اس لئے ان کے فسطائیت کی جانب راغب ہونے کے امکانات ہمیشہروشن رہتے
ہیں۔ ان حقائق کے پیش نظر مسلمانوں کو بی جے پی سے خوف کھانے یا اس کا
ہمنوا بن جانے کے بجائے اس کے متبادل کو مضبوط کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس
لئے کہ جمہوری نظام میں حزب اختلاف تو بہر حال موجود رہے گی۔
انتخابی نتائج کے فوراً بعدذرائع ابلاغ نے اس کامیابی کو خوب بڑھا چڑھا کر
پیش کیا تھا لیکن اب وہ خود اس کی قلعی کھول رہا ہے۔جہاں تک بی جے پی کا
سوال ہے یقینا ً اسے پہلی مرتبہ اکثریت حاصل ہوئی ہے لیکن یہ کوئی ایسی فتح
نہیں ہے جو پہلی بار کسی کے حصے میں آئی ہو بلکہ کسی کاصرف ۳۱ فیصد ووٹ سے
اکثریت کا حاصل کرلینا سب سے کمزور فتح ہے۔ گزشتہ انتخاب میں کانگریس کے
اپنے ۲۹ فیصد ووٹ تھے اس بار بی جےپی کے ۳۱ فیصد ہیں ۔ پچھلی باربی جے پی
نے۱۹ فیصد ووٹ حاصل کئے تھے اور اس بار کانگریس کے ۲۰ فیصد کئے ہیں گویا
رائے دہندگان کے حوالے سے فرق یکساں ہے لیکن بی جے پی کےاثرات چونکہ چند
ریاستوں میں مرتکزہیں اس لئے کامیابی کا تناسب بہتر نظر آتا ہے۔
تاریخی اعتبار سےاس باربی جے پی کو حاصل ہونے والی ۲۸۲ نشتیں ۱۹۸۴میں
کانگریس کی ۴۱۴ سے بہت کم ہیں۔اُس وقت بی جے پی ۲ پر پہنچ گئی تھی کانگریس
اب بھی ۴۴ پر ہے اور اترپردیش میں ۱۹۸۴ کے اندرکانگریس ۸۲ میں سے ۸۰
نشستوں پر کامیابی درج کرائی تھی جبکہ بی جے پی نے ۸۰ میں ۷۱ سیٹیں حاصل کی
ہیں ۔ اس لئے بلاوجہ کی مرعوبیت کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ انتخابی سیاست
جادو کا پٹارہ ہے۔ہندوستان کو ایک زمانے تک سپیروں کا اور جادوگروں کا ملک
کہا جاتا تھا ۔ اب حال یہ ہے سانپ تو سارے سیاسی جماعتوں میں چلے
گئےمگرانتخابی سیاست کا جادو پوری قوم کے سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔ عوام
کاالعنام سانپوں کیلئے آستینوں کا انتظام کرکے خود اپنے آپ کو برضا و
رغبت ڈسوانے کا اہتمام کرتے ہیں اور سیاستداں اپنی عیاری پربغلیں بجاتے
ہیں۔ حفیظ میرٹھی نے اس صورتحال کی کیا خوب ترجمانی کی ہے کہ ؎
سانپ آپس میں کہہ رہے ہیں حفیظؔ
آستینوں کا انتظا م کرو
انتخابی پٹارے سے نمودار ہونے والا یہ چمتکار نیا نہیں ہے لیکن چونکہ ذرائع
ابلاغ اس غبارے میں بہت زیادہ ہوا بھر چکا تھا اس لئے اس کی ندرت کو محسوس
نہیں کیا جاسکا۔ ہندوستان کی تاریخ میں تیسرا انتخاب ۱۹۶۲ میں ہوا جب پنڈت
جواہر لال نہرو اور ان کا ہندی چینی بھائی بھائی کا نعرہ بامِ عروج پر تھا
لیکن پھر چین کے ساتھ جنگ نے اس خواب کو نہ صرف چکنا چور کیا بلکہ ملک کو
پنڈت نہرو کی قیادت سے محروم کردیا۔ ان کے بعد لال بہادر شاستری وزیراعظم
بنے اور پاکستان کی جنگ کا صدمہ ان کی موت کا سبب بن گیا۔ اس وقت آزادی کی
جدوجہد میں شریک رہنے والے کئی معمر سیاستداں کانگریس پارٹی میں موجود تھے
اس کے باوجود گونگی گڑیا اندرا گاندھی کا وزیراعظم بن جانا ایک چمتکار تھا
لیکن اس کے بعد کانگریس میں پھوٹ پڑجانے کے باوجود اور سارے بڑے رہنماوں کی
بغاوت کے چلتے اندرا گاندی کا ۱۹۶۷ میں ۲۸۳ نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے
واضح اکثریت حاصل کرلینا ایک بہت بڑا انتخابی کرشمہ تھا۔
اندرا گاندھی اپنے بیٹے سنجے گاندھی کو اپنا ولیعہد بنانا چاہتی تھیں اور
راجیو گاندھی کا حال یہ تھا کہ وہ سونیا سے شادی کرکےاٹلی منتقل ہونے کا
منصوبہ بنا رہےتھے ۔ یہ ایک حقیقت ہے سنجے گاندھی کی حیات میں راجیو کبھی
بھی سیاست کے قریب نہیں پھٹکے لیکن مشیت کو یہ منظور تھا کہ سنجے کے بجائے
وہ وزیراعظم بنتے اور انتخابی سیاست نے یہ چمتکار بھی کیا کہ نوآزمودہ
راجیو گاندھی نے نہ صرف اپنے والدہ بلکہ نانا کا ریکارڈ توڑ دیا۔ یہ بھی
ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ نر سمھاراو جیسے گھاگ سیاستداں جس بی جے پی کو شکست
نہ دے سکے اس کو سونیا گاندھی کی قیادت میں کانگریس نے ۱۹۹۴ میں اقتدار سے
بے دخل کردیاحالانکہ اٹل بہاری واجپائی، ایل کے اڈوانی، جارج فرناڈیس جیسے
سیاستدانوں کے سامنے ایک غیر ملکی بہوکی جو ہندی زبان تک ٹھیک سے نہیں
جانتی تھی کوئی حیثیت نہیں تھی ۔ یہ یقینا ً ایک غیر متوقع کرشمہ تھا۔
نرسمھا راؤ اورمنموہن سنگھ کا وزیر اعظم بن جانا بھی ایک چمتکار ہے اس لئے
کہ ۱۹۸۹ کے انتخاب میں راجیو گاندھی نے انہیں ٹکٹ تک سے محروم کردیا تھا۔
وہ اپنی ریاست میں اس قدر غیر مقبول تھے کہ مہاراشٹر سے الیکشن لڑتے تھے
لیکن راجیو گاندھی کے قتل کے بعد این ڈی تیواری، ارجن سنگھ اور شرد پوا کی
لڑائی نے انہیں وزیر اعظم بنا دیااور پھر انہوں نے گاندھی خاندان سمیت ان
تینوں کو ٹھکانے لگادیا ۔ وزیر اعظم بننے کے بعد انہوں نےریکارڈ توڑ
کامیابی درج کرائی۔نرسمھا راؤ کا ایک کمال یہ تھا کہ انہوں نےاندرا
کانگریس کو پھر سے انڈین نیشنل کانگریس میں تبدیل کردیا ۔ منموہن کا دس سال
تک وزیر اعظم بنارہنا بھی ایک حیرت انگیز بات ہے اس لئے کہ وہ پیشہ ور
سیاستداں کبھی نہیں تھے۔ وہ تو لوک سبھا کا انتخاب لڑنا بھی ضروری نہیں
سمجھتے تھے بلکہ اقتدار کےچور دروازےراجیہ سبھا پر ہی اکتفا ء کرلیا کرتے
تھے۔
یہ معاملہ صرف کانگریسیوں کے ساتھ ہی نہیں ہوا ۔۱۹۹۶ میں جب بی جے پی کی
۱۳ دنوں والی حکومت گر گئی تو لوگوں نے وی پی سنگھ کو وزیراعظم بنانے کی
کوشش کی ان کے انکار پر جیوتی باسو کو تیار کیا گیا لیکن پارٹی نے اجازت
نہیں دی اس کے بعد ایک اور چمتکار ہوگیا دیوے گوڑا جو آخری نمبر کے ایم پی
تھے پہلے نمبر پر آکر وزیر اعظم بن گئے۔ بی جے پی کے ساتھ بھی یہ ہوا کہ
۱۹۸۴ کی زبردست ناکامی کے بعد اٹل جی کورسوا کرکے ہٹا دیا گیا اور اڈوانی
جی نے رتھ یاترا نکال کر پارٹی کو زندہ کیا لیکن الیکشن میں کامیابی کے
بعدحامی جماعتوں نے اڈوانی کو مسترد کردیا اور اٹل جی وزیراعظم بن گئےجبکہ
سنگھ اڈوانی کے حق میں تھا۔ کسی زمانے میں نریندرمودی کو کیشو بھائی پٹیل
اور سنجے جوشی نے گجرات بدر کرکے دہلی روانہ کردیا تھا ۔ وزیراعلیٰ بننے کے
بعدفرقہ وارانہ فسادکے سبب اٹل جی نے اس کا استعفیٰ طلب کرلیا تھالیکن
مہاجن اور جیٹلی وغیرہ کی مدد سے کسی طرح کرسی بچی اور۱۳ سال بعدوہ
ہندوستان کے وزیراعظم بن گئے جوجمہوریت کا ایک اور چمتکار ہے۔
اس انتخابی مہم کے دوران جن تنازعات کو نظر انداز کیا گیا تھاوہ اب پھر سے
سر اٹھانے لگے ہیں ۔ پہلے تو گجرات اسمبلی میں مودی کو دئیے جانے والے
الوداعیہ کے اندر کانگریسی رہنما شنکر سنگھ واگھیلا نے طنزیہ انداز میں ان
کا ذکر کیا۔ ایک سابق سنگھی سے جو مودی کے ساتھ پرچارک رہا ہو اس کی توقع
بیجانہیں ہےپھر وشو ہندو پریشد کے اشوک سنگھل ہوش میں آئے اور انہوں نے
ایک ایک کرکے رام مندر سمیت سارے مطالبات کا اعادہ کر دیالیکن اس بار انداز
جارحانہ نہیں تھا۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا تھا کہ اٹل جی کے
پاکستانی دورے کے مخالفت کرتے ہوئے وی ایچ پی نے کہا تھا ہم تو چاہتے ہیں
کہ وہ بس میں نہیں بلکہ ٹینک پر سوار ہوکرپاکستان جائیں لیکن اس بار نواز
شریف کی آمد کی مخالفت میں شدت نہیں ہے۔ اخبار نویسوں کے کرید نے پر سنگھل
نے کہا شریف کا دورہ علامتی نوعیت کاہے اسے ہو جانا چاہئے۔
نریندر مودی کی حلف برداری میں سری لنکا کے سربراہ مملکت کومدعو کرنے پر
تنازعہکھڑا ہوگیا۔ اتفاق سے اس بارمخالفت کرنے والا مسلمان نہیں بلکہ ہندو
طبقہ تھا اس کے برخلاف نواز شریف کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کا
مسلمانوں نے استقبال کیا۔ نواز شریف کی آمد کے اثرات سیاسی اور تجارتی
دونوں طرح کےہوں گے ۔ تجارتی سطح پراگر پڑوسی ممالک کے تعلقات میں بہتری
آتی ہے تو اس کا فائدہ مسلمانوں سے زیادہ ہندوتاجروں کو ہوگا لیکن اس کے
سبب اگر پاکستان دشمنی کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کا کام بند
ہو جائے تو یہ مسلمانوں کیلئے عافیت کا سبب ہوگی ۔سچ تو یہ ہے کہ نریندر
مودی نے اپنی حلف برداری تقریب میں نواز شریف کوبلاکر ایک مثبت پیغام دیا
ہے ۔ خدا کرے کہ اس کے سبب قائم ہونے والی فضا قائم و دائم رہے۔ یہ ایک خوش
آئند بات ہے کہ مسلمان مودی کے اقتدار میں آنے سے پیدا ہونے والیکیفیت سے
بہت جلد نکل گئے ۔ اس لئے نریندر مودی کے ساتھ وہ بھی مبارکباد کے مستحق
ہیں ۔ ہندی مسلمانوں کی قلبی کیفیت کا اظہار اس شعر میں کیا خوب پایا جاتا
ہے کہ ؎
یہ بات نرالی دل خود دار کرے ہے
تڑپے ہے مگر دردسے انکار کرے ہے
|