اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ سرکاری و نیم سرکاری
اداروں کی تباہی کی وجہ بھاری تنخواہوں اور لامحدود مراعات والے افسران ہی
تھے لیکن مسلم لیگ ن کی حکومت نے ان افسروں کو تو کچھ نہیں کہالیکن کنٹریکٹ
پر ملازم ہونے والے چھوٹے ملازمین کوبے روزگار کیاجارہا ہے موجودہ حکومت کا
یہ اقدام قابل مذمت ہے ہونا تو یہ چاہیئے کہ کاشغر سے گوادر اور کراچی سے
لاہور موٹروے ٗ بلٹ ٹرین ٗ اور موٹروے کے ساتھ ساتھ صنعتی زونوں قائم کرنے
کے جو کثیر الامقاصد منصوبے شروع کیے جارہے ہیں ایسے فالتو چھوٹے ملازمین
کو بے روزگار کرنے کی بجائے انہیں نئے اداروں میں کھپا لیاجائے تاکہ بے
روزگاری کا سیلاب ٗ شدید طوفان کی شکل اختیار نہ کرپائے ۔ یہ بات ہر شخص
جانتا ہے کہ بھوکے پیٹ انسان کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتا ہے ۔ اس طرح
پاکستانی نوجوانوں کو دہشت گردوں کا ایندھن بنانے سے بچایا جاسکتا ہے بلکہ
جن گھروں میں خوشحالی آئے گی اس سے مسلم لیگی ووٹروں میں مزید اضافہ ہو
گا۔شنید ہے حکومت پنجاب 48 ہزار نرسوں اور لیڈی ہیلتھ وزیٹروں کی ملازمتوں
کو مستقل کرنے کے لیے قانون سازی کررہی ہے ۔میں سمجھتا ہوں یہ اچھا اقدام
ہے لیکن یہ اقدام ہماری بہنوں اور ماؤں جیسی نوجوان اور عمر رسیدہ ترسوں کے
کئی ہفتوں پر مشتمل احتجاج کے بعد اٹھایا گیا جس کی وجہ سے نہ صرف نرسوں کو
انتہائی تکلیف دہ حالات کا سامناکرنا پڑا بلکہ حکومت پنجاب کی بدنامی بھی
ہوئی ۔ گزشتہ سال میاں شہباز شریف نے یہ اعلان کیا تھا کہ پنجاب میں کام
کرنے والے تمام سرکاری اداروں کے کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کردیا گیا ہے اس
وقت نرسوں اور لیڈی ہیلتھ وزیٹروں کو مستقل کیوں نہیں کیا گیا ۔یہ خبر اور
بھی تکلیف دہ ہے کہ اب بھی حکومت پنجاب کے ماتحت کئی اداروں میں ( جن میں
ہارٹیکلچر اتھارٹی ٗ محکمہ انہار وغیرہ شامل ہیں ) سالہا سال ملازمت کے
باوجود بیشمار ملازمین کو مستقل نہیں کیا گیا کنٹریکٹ پر رکھے جانے والے ان
ملازمین اور ان کے اہل خانہ کو کیوں اذیت میں مبتلا کیا جارہا ہے ۔جن افراد
کو کنٹریکٹ پر ملازم رکھاجاتا ہے ان پر ملازمت ختم ہونے کا خوف ہمیشہ طاری
رہتا ہے پھر افسر مجاز جائز و ناجائز طریقے سے ایسے ملازمین کو پریشان کرتے
رہتے ہیں صرف انہی ملازمین کے کنٹریکٹ کی تجدید ہوتی ہے جو یا تو سیاسی
اثرو رسوخ رکھتے ہیں یا رشوت دینے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں ۔میاں شہباز شریف
اور میاں نواز شریف اگر خود کو عوام کا خادم کہتے ہیں تو انہیں کنٹریکٹ
ملازمین پر لٹکتی ہوئی یہ تلوار کیوں دکھائی نہیں دیتی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا
ہے کہ کنٹریکٹ پر ملازم رکھا ہی کیوں جاتا ہے اگر کسی محکمے میں کوئی آسامی
خالی ہے تو وہاں میرٹ پر پورا اترنے والوں کو مستقل ملازم رکھاجانا چاہیئے
پھر سرکاری اور نیم سرکاری اداروں اور سرکاری سکولوں کے ماتحت عملے کو
حکومت کی مقرر کردہ تنخواہ نہ دینا بھی معاشی قتل ہے ۔ٹیچروں ٗ مالیوں اور
خاکروبوں کی تنخواہ سے بھتہ خوری کرنے والے افسران کو کیوں لگام نہیں ڈالی
جاتی ۔پھر کئی اداروں میں کنٹریکٹ ملازمین کی تنخواہ سے ہفتہ وار چھٹیوں کے
پیسے کاٹنے لیے جاتے ہیں۔ شدید ترین مہنگائی کے اس دور چالیس پچاس ہزار
روپے تنخواہ لینے والے افراد بھی خیراتی ہسپتالوں میں علاج کروانے پر مجبور
ہیں کم تنخواہ اور بے روزگاروں کی بے بسی کا عالم کیا ہوگا اس کا ذکر الفاظ
میں نہیں کیاجاسکتا ۔بھوکے پیٹ مرنے والے غریب لوگ چوری اور ڈاکہ زنی نہیں
کریں گے تو اور کیا کریں گے ۔اس وقت مرکز اور صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی
حکومت ہے نواز شریف اور شہباز شریف دونوں خود کو عوام کا خادم قرار دیتے
ہیں لیکن جب تک روزگار کے نئے مواقع پیدانہیں کیے جاتے جب تک کنٹریکٹ
ملازمین کے سروں پر بے روزگاری کی لٹکتی ہوئی تلوار ہٹائی نہیں جاتی جب تک
غریبوں کو پیٹ بھر کے روٹی کھانے کو نہیں ملتی جب تک بجلی کی لوڈشیڈنگ اور
ماہانہ بلوں کو پچاس فیصد کم نہیں کیا جاتا جب تک پٹرول پر 45 روپے فی لیٹر
عائد ٹیکس ختم نہیں کیا جاتا اس وقت تک اس ملک سے نہ تو دہشت گردی ختم
ہوسکتی ہے اور نہ ہی ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے ۔پیپلز پارٹی کے دور حکومت
میں کرپشن ٗ اقربا پروری اور رشوت خوری کے عالمی ریکارڈ قائم کیے گئے اس کے
باوجود کہ شریف برادرن پر ایسے الزامات ابھی تک نہیں لگے لیکن پانچ سو ار ب
کی رینٹل بجلی گھروں کو یکمشت ادائیگی اور وفاقی وزیروں کے ملوث ہونے کی
خبریں موجودہ حکومت کی بدنامی کاباعث بن رہی ہیں ۔دنیا میں شاید یہ پہلی
مثال ہے کہ پانچ سو ارب کسی تصدیق کے بغیر آنکھیں بند کرکے ادا کردیئے گئے
۔اب اسحاق ڈار ڈالر کو 98 روپے پر لانے کا کریڈٹ تو لے رہے ہیں لیکن جب
پٹرول کی قیمتکم کرنے کا وقت آیا تو صرف ڈیڑھ روپے فی لیٹر کم کیاگیا جو
سراسر زیادتی کے مترادف ہے۔ اگر شریف برادران عوام کو ریلیف دینا چاہتے ہیں
تو انہیں پٹرول کو 80 روپے فی لیٹر لانا چاہیئے تھا جبکہ نواز شریف نے یہ
کہتے ہوئے غریب پاکستانی عوام کے زخموں پر نمک چھڑکا ہے کہ ڈالر کو مزید
نیچے اس لیے نہیں آنے دیاجائے گا کہ برآمد کنندگان کو نقصان ہوگا۔ گویا
نواز شریف کو چند سو برآمد کنندگان کا احساس تو ہے لیکن غربت ٗ بے وسائلی
اور شدید ترین مہنگائی کے ہاتھوں خودکشیاں کرنے والی پاکستانی عوام کا
احساس نہیں ہے ۔ ہرالیکشن میں مسلم لیگ ن کو ووٹ غریب لوگ ہی دیتے ہیں
برآمد کنندگان تو اپنے بنگلوں سے بھی باہر نہیں نکلتے ۔ کاش نواز شریف کو
غریب پاکستانی عوام کے مسائل کا ادراک ہوتا ۔ جن کو معاشی بدحالی ٗ بے
روزگاری ٗ غربت ٗ جہالت ٗ تنگدستی ٗ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ اور بھاری
بھرکم بلوں کی ادائیگی کی وجہ سے نہ رات کو نیند آتی ہے اور نہ ہی راحت کا
کوئی لمحہ دن میں گزر تا ۔ اس لمحے وزیر بجلی خواجہ آصف فرماتے ہیں کہ مئی
میں 1700 میگا واٹ بجلی نیشنل گریڈ میں شامل ہوجائے گی اگر یہ سچ ہے تو
بجلی کی پندرہ پندرہ گھنٹے لوڈشیڈنگ نے ابھی سے عذاب کی شکل کیوں اختیار
کرلی ہے ۔ کنٹریکٹ کی بات ہو یا ڈالر کے ریٹ کم کرنے کا ذکر ٗ پٹرول کی
قیمت کم ترین سطح پر لانے کا معاملہ ہو یا بجلی کی لوڈشیڈنگ سے نجات اور
یکساں نفاذ ۔ یہ اہم ترین معاملات ٗ شریف برادران اور چیف جسٹس آف پاکستان
کی ذاتی توجہ کے محتاج ہیں۔جنہیں جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے کنٹریکٹ پر
ملازم رکھنے پر عدالتی حکم کے تحت پابندی لگا دینی چاہیئے ۔اب بھی وفاقی
صوبائی اور بنکوں میں کنٹریکٹ پر جو ملازمین کام کررہے ہیں ۔فوری طور مستقل
کرتے ہوئے انہیں ہر وہ سہولت فراہم کرنی چاہئے جو مستقل ملازمین کو حاصل ہے
۔گرایجویٹی ٗ پنشن اور مفت طبی سہولتوں کا نفاذ تمام سرکاری و غیرسرکاری
ملازمین پر لازمی قرار دیا جانا ضروری ہے۔ |