فن پاروں کی چوری

دنیا بھر میں فن پارے، مصوری کے شاہکار، نوادرات، قدیم مخطوطے،تصاویر کی چوری، فروخت، اسمگلنگ ایک کاروبار بن گیا ہے۔ اب یہ فن پارے چوری ہوتے ہیں، اسمگلنگ ہوتے ہیں اور خفیہ طور پر بیچ دیئے جاتے ہیں، اور کبھی کبھی پکڑے بھی جاتے ہیں۔ یہ چوری انفرادی طور پر بھی ہوتی ہے اور حکومتیں بھی اس میں شامل ہوتی ہیں، جو مفتوح قوم کے ثقافتہ ورثہ کو بھی لوٹ کر لے جاتی ہیں، یورپ، امریکہ ، برطانیہ فرانس کے عجائب گھر برصغیر سے لوٹے جانے والے ہیرے جوہرات،اور تاریضی نوردارات سے بھرے پڑے ہیں۔ امریکہ نے افغانستان، عراق، شام کے قدیم عجائب گھروں کو خوب لوٹا ہے۔

حال ہی میں نازیوں کے چوری کردہ مصوری کے فن پاروں کو فرانسیسی حکومت نے ان کے حقیقی مالکان کو واپس کردیا ہے۔وزیر ثقافت اوریلی فلپیٹی کا کہنا تھا کہ فن پاروں کی واپسی ان کی ’’اخلاقی ذمہ داری‘‘ تھی۔ ان کا یہ بیان نازیوں کی عالمی جنگ دوئم میں زیادتیوں کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔نازیوں نے یہودی اور غیر یہودی خاندانوں سے مصوری کے فن پارے قبضے میں لے لیے تھے۔سینکٹروں کی تعداد میں چوری شدہ تصاویر فرانس کے عجائب گھر میں نمائش کے لیے آویزاں تھیں اور امید کی جارہی تھی کہ ان کے مالکان کو یہ واپس کر دی جائیں گی۔رانس کے دارالحکومت پیرس کے عجائب گھر سے ایک چور نے پچاس کروڑ یورو مالیت کی پینٹنگز چْرا لی ہیں جن میں ہنری متسے اور پابلو پکاسو کے شاہکار فن پارے بھی شامل تھے۔ پیرس میں ایفل ٹاور کے قریب واقع عجائب گھر''میوسے ڈی آرٹ موڈرن''سے فن پاروں کی چوری کا انکشاف اس وقت ہواجب اسے کھولا جا رہا تھا جس کے بعد اسے سیل کر دیا گیا اور پولیس نے اس دیدہ دلیر ڈکیت کی تلاش شروع کر دی ہے جس نے بیش قیمت فن پارے چرائے ہیں۔ تحقیقات کاروں کو عجائب گھر کی ایک کھڑکی ٹوٹی ہوئی ملی ہے اور نگرانی والے کیمروں کی فوٹیج میں صرف ایک چور کو کھڑکی کے ذریعے اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔عجائب گھر سے میتسے اور پکاسو کے علاوہ جارجیس براق ،فرڈیننڈ لیگر اور آمیڈاو موڈیگلیانی کے فن پارے بھی چْرا لیے گئے ہیں۔چْرائے گئے تمام فن پاروں کی مالیت کا تخمینہ پچاس کروڑ یورو لگایا گیا ہے۔پیرس کے اس میوزیم میں لوگوں کا بہت آنا جانا رہتا ہے اور چوری کی اس واردات کے بعد اس کی سکیورٹی اور تحفظ کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔جو فن پارے چْرائے گئے تھے۔ ان میں ہسپانوی مصور پابلو پکاسو کی 1912ء کی بنی ''ڈوّ ود گرین پیاس'' کے عنوان سے پینٹنگ اور ان کے فرانسیسی ہم عصر میتسے کی ''پاسٹورل''کے عنوان سے پینٹنگ شامل تھی۔ پیرس کے مئیر برٹرینڈ ڈیلانیونے فن پاروں کی چوری پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے اور اسے پیرس میں عالمی ثقافتی ورثے پر ایک ناقابل قبول حملہ قرار دیا ہے۔ فرانس میں عجائب گھروں سے فن پاروں کی چوری کی وارداتوں میں اضافہ ہونے سے ان فن پاوں کے قدر دانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ایک اور چوری کے واقعے میں کوٹ ڈی آزور میں واقع ایک نجی ولا سے پکاسو اور ہنری ڈاونیر روسو کی پینٹنگز سمیت کوئی تیس فن پارے چرالیے گئے تھے۔ان کی مالیت دس لاکھ یورو بتائی گئی تھی۔ اس طرح پیرس میں واقع پکاسو میوزیم سے دن دہاڑے بیسویں صدی کے نامور مصور کی ڈرائینگز کی ایک کتاب چْرالی گئی تھی۔اس کی مالیت تیس لاکھ یوروبتائی گئی تھی۔اس کے علاوہ بھی فرانس کے عجائب گھروں سے مصوری کے نمونے چرانے کی متعدد وارداتیں ہو چکی ہیں۔سوئیٹزرلینڈ میں ایک میوزیم سے نامعلوم چوروں نے معروف آرٹسٹ یابلو پکاسوکے دونایاب فن پارے چوری کرلئے تھے۔ پولیس ذرائع ابلاغ کے مطابق دونوں فن پاروں کی مالیت 4.5 ملین ڈالر تھی۔ پولیس کے مطابق چند روز قبل نامعلوم چوروں نے ملک کے مشرقی شہر پیسی کون کے ایک میوزیم سے پکاسوکے دو نایاب فن پارے چوری کرلئے۔ یہ فن پارے 1944 اور 1962 میں تخلیق کئے گئے تھے۔ برطانیہ میں پولیس کو ایک شخص نے ٹاور آف لندن میں داخل ہو کر اس کی چابیاں چرا کر حیران کردیا ۔برطانیہ میں تاریخی شاہی مقامات کے منتظم ادارے کے ترجمان کے مطابق چور کے عمارت میں داخل ہونے کا یہ واقعہ حیرت ناک تھا۔ جو چابیاں چرائی گئی تھی۔ وہ عمارت میں موجود ریستوران، کانفرنس روم، اور بوقت ضرورت اٹھائے جانے والے پل کے اندورنی قفل کی تھیں۔ تاہم چابیوں کی چوری کے بعد تمام تالے بدل دیے گئے ہیں۔ترجمان کے مطابق کراؤن جیولز کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور کسی بھی لمحے ٹاور کی سیکیورٹی کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ یونان میں پولیس نے مختلف چھاپوں کے دوران ایسے پینتیس افراد کو گرفتار کیا تھا ۔ جو زمانہ قدیم کے سکّوں اور فن پاروں کی چوری میں ملوث رہے ہیں۔پولیس نے ان افراد کے قبضے سے ہزاروں سکے اور فن پارے بھی برآمد کیے ۔ ایک شخص کے پاس سے چار ہزار سے زائد سکے ملے ہیں۔پولیس نے میٹل ڈیٹیکرز یعنی دھاتی اشیا کی موجودگی کی نشاندہی کرنے والے آلے بھی برآمد کیے۔یونان میں نوادرات کی غیر قانونی تجارت کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ ایک اور واقعے میں چوروں نے اولمپک کھیلوں کے ایک عجائب گھر پر حملہ کرکے ایک خاتون محافظ پر قابو پانے کے بعد وہاں سے ستّر کے قریب نوادرات چوری کر لیے تھے۔ یہ عجائب گھر قدیم المپکس کھیلوں کی تاریخ سے متعلق تھی۔ شہر کے میئر کا کہنا ہے کہ ان چیزوں کی قیمت، جن میں سے اکثر کانسی اور مٹی کے مجسمے ہیں، ناقابلِ شمار ہے۔جمہوریہ آئرلینڈ کے دارالحکومت ڈبلن میں تو چوروں نے کے ایک گرجا گھر سے ڈبلن کے پیٹرن سینٹ کا محفوظ کیا ہوا دل چرا لیا تھا۔ یہ دل بارہویں صدی کے سینٹ لارنس او ٹول کا تھا جسے سنبھال کر رکھا گیا تھا اور اسے دیکھنے قرونِ وسطیٰ کے زمانے سے لوگ یہاں آتے تھے۔اسے ایک دل کی شکل کے ڈبے میں رکھا گیا تھا جس کے گرد مضبوط سلاخوں کا جال تھا۔چوروں نے گرجے میں کوئی دروازہ نہیں توڑا گیا اس لیے یہ سمجھا جا رہاتھا کہ یہ ممکن ہے کہ چور رات کو عمارت کے اندر ہی رہے ہوں اور جب صبح اسے کھولا گیا تو چپکے سے نکل گئے ہوں۔گرجے کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ چوری ایک عجیب چوری ہے جس میں چور دوسری قیمتی اشیا چھوڑ کر سینٹ کا دل اٹھا کر چلے گئے۔ نواردات کی چوری اور بازیابی کا یک اور محیر العقول واقعہ عراقی وزیرِ اعظم نوری المالکی کے دفتر کے کچن میں گتے کے ڈبوں سے ملنے والے زمانہ قدیم کے چھ سو سے زیادہ آثار، کی عراق کے قومی عجائب گھر کو واپسی تھا۔انسانی ہنر اور صناعی کے یہ گمشدہ نمونے جن میں سے کچھ ہزاروں سال پرانے ہیں، مختلف اوقات میں عراق سے باہر سمگل کر دیے گئے تھے اور بالآخر امریکہ سے ملے۔انھیں سنہ دو ہزار نو میں عراق کو واپس کر دیا گیا تھا لیکن یہ نوادارات ایک مرتبہ پھر کھو گئے تھے۔آثارِ قدیمہ کے محکے کے وزیر قحطان الجباری نے الزام عائد کیا کہ ان اشیا کی گمشدگی کی وجہ غیر مناسب طریقے سے ان کا عراق کو لوٹایا جانا تھا۔یہ پتہ نہیں چلا سکا کہ یہ اشیاکھوئیں کیسے مگر بعد میں وزیرِ اعظم کے دفتر کے کچن کا سامان رکھنے والے خانوں سے چھ سو اڑتیس نمونے گتے کے ڈبوں میں بند مل گئے۔ان میں سونے کے زیورات اور مٹی کی تختیاں بھی ہیں اور کانسی کی بنی ہوئی مورتیاں بھی۔عراق کے قومی عجائب گھر کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ یہ بہت اہم نوادارات ہیں۔’ان میں سے کچھ اسلام کے ابتدائی دنوں سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ کچھ اتنے قدیم ہیں جتنی بابل کی ابتدائی تہذیب کا غیر سامی دور۔عراق میں سنہ دو ہزار تین میں امریکی سالاری میں ہونے والے حملے کے بعد افراتفری کے دوران لاکھوں کی تعداد میں آثارِ قدیمہ کی اشیا لوٹ لی گئی تھیں جن میں سے کچھ کا تعلق لگ بھگ سات ہزار سال قبل کی تہذیبوں سے ہے۔عالمی کوششوں کے باوجود ابھی تک لوٹے جانے والے آثارِ قدیمہ میں سے صرف نصف کا ہی پتہ چل سکا۔ ایف بی آئی نے نوارادات کی چوری کرنے والے ایک گروہ کو پکڑا بھی، ان کہنا تھا کہ 1990میں بوسٹن کے ’’ازابیلااسٹیوورٹ گارڈنز میوزیم‘‘ سے ایک ارب ڈالر مالیت کے مصوری کے فن پاروں کی چوری میں یہ گروہ ملوث تھا۔ فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کے اسپیشل ایجنٹ رچرڈ دلاریئر نے بتایا ہے کہ مشتبہ افراد کا تعلق برطانیہ اور وسطی اٹلانٹک ممالک کی ایک جرائم پیشہ تنظیم سے ہے۔ انہوں نے مشتبہ افراد کی شناخت کے بارے میں تفصیلات نہیں بتائیں۔ فن مصوری کے ان 13نادر نمونوں کو تلاش کرنیوالے کیلئے 50لاکھ ڈالر انعام کا اعلان کیا گیا تھا۔ اِن فن پاروں میں ریمبرانت، ورمیر، دیگاز اور منات کے مصوری کے معرکۃ الآرا شہ پارے شامل تھے۔ امریکی فن پاروں کی تاریخ کی یہ مہنگی ترین چوری شمار ہوتی ہے۔ایجنسی کے فیڈرل ایجنٹوں کا کہنا ہے کہ23برس قبل چوری ہونے والے اِن فن پاروں کو چوری کے کچھ ہی دنوں بعد فلاڈیلفیا اور کنیٹی کٹ کی طرف لے جایا گیا تھا، اور ایک عشرہ قبل انھیں فروخت کرنے کی کوشش بھی ہوئی تھی۔اس کیس کی تہہ تک پہنچنے میں مدد دینے کی غرض سے ایف بی آئی نے ایک ویب سائٹ قائم کر رکھی ہے۔عالمی مصوری کی تاریخ پانچ بڑے ادوار میں تقسیم ہے، جس میں پہلا دور قبل از مسیح کا ہے۔ اس کے بعد کے ادوار میں قدیم مصوری، مغربی مصوری، مشرقی مصوری اور اسلامی مصوری کے دور شامل ہیں۔ قدیم مصوری کے حوالے سے قبل از مسیح مصوری کے تین دور دکھائی دیتے ہیں، انھیں برسوں کی ترتیب، مصوری اور مجسمہ سازی میں خام مال کے استعمال کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا۔ ان تینوں ادوار میں غاروں اور پہاڑی سلسلوں پر مصوروں نے اپنے فن کا اظہار کیا، ان کے علاوہ دیگر دھاتوں پر بھی آرٹ کے نمونے تخلیق کیے گئے، وہ نمونے آج بھی موجود ہیں۔ یہ زمانہ ہاتھ سے چیزیں بنانے کا تھا۔ اہرام مصر ہوں یا کوئی پینٹنگ، اس میں انسانی طاقت اور ہاتھ ہی استعمال ہوتے تھے۔ قدیم مصوری کے دور میں کئی طرز کا آرٹ تخلیق ہوا، جس کے ذریعے ثقافت اور تہذیبوں کا بول بالا ہوا۔ فن مصوری اور مجسمہ سازی کے حوالے سے قدیم زمانے میں تقریباً پندرہ تہذیبوں نے اپنے فنون میں مقبولیت حاصل کی، لیکن جن کو بام عروج ملا، ان میں چین، ہندوستان، عراق، ایران، مصر، یونان اور روم کی تہذیبیں شامل تھیں۔

مغربی مصوری، جس میں یورپی ممالک کے آرٹسٹو ں کا کام سامنے رکھا جاتا ہے۔ اس خطے میں بھی آرٹ کی تخلیق کا زمانہ بہت پیچھے سے شروع ہوتا ہے۔ عہد حاضر تک اس خطے سے ایک سے بڑھ کر ایک آرٹسٹ سامنے آیا، جن کی صلاحیتیں دیکھ کر انگلیاں دانتوں تلے دبے رہ جاتی ہیں۔ یورپ کے آرٹ کی تاریخ ، نو ادوار پر مشتمل ہے، انھیں ہم تحریکوں کے زمانے بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان نو ادوار کے ذریعے، اس فن کے چاہنے والوں پر آرٹ کے کئی حیرت انگیز پہلو منکشف ہوئے۔یہ ادوار مندرجہ ذیل ترتیب سے یاد رکھے جاتے ہیں۔ پہلا دور قرون وسطیٰ کا فنی دور کہلاتا ہے۔ دوسرا دور فنی نشاط ثانیہ تھا۔ تیسرے دور کو آداب پرستی کے عنوان سے یاد رکھا جاتا ہے۔ چوتھا دور یورپ کے خاص عہد کا طرزِ تعمیر، جسے سترہویں صدی کے فرانسیسی حکمرانوں سے منسوب کیا گیا۔ پانچویں دور میں نوکلاسیکیت اپنے عروج پر تھی۔ چھٹا دور رومان پرستی کا دور تھا۔ ساتویں دور کو حقیقت پسندی کا نام دیا تھا۔ آٹھواں دور جدید آرٹ کا زمانہ کہلایا اور نویں دور کو عہد ِ حاضر کہا جاتا ہے، جس میں ہم جی رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی چھوٹی موٹی تحریکوں نے جنم لیا، مگر بنیادی طور پر یہ نو ادوار ایسے ہیں، جن کے ستونوں پر مغربی آرٹ کی تاریخ کھڑی ہے۔

مشرقی مصوری کا کینوس بہت وسیع ہے۔ اس خطے میں فن مصوری نے مختلف ثقافتوں اور مذاہب سے اثرات لیے اور فن کی دنیا میں ایسے قدم جمائے کہ مشرقی آرٹ پورے قد و قامت سے مغربی آرٹ کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ مشرقی خطے میں جن تہذیبوں نے مصوری پر گہرے اثرات مرتب کیے اور اپنے جداگانہ فنی اسلوب میں کامیابیاں سمیٹیں۔ مختلف پس منظر رکھنے والی ان تہذیبوں نے ایک دوسرے کے کئی رجحانات کو بھی اپنایا، ان میں چینی، جاپانی، کورین، ہندوستانی، ایرانی اور دیگر تہذیبو ں کے پس منظر والے ملک شامل تھے۔ ان کے علاوہ بحرالکاہل اور نزدیک کے سمندری جزیروں والے ممالک نے بھی اپنے حصے کا فن تخلیق کیا، جس کو مشرقی آرٹ کا حصہ ہی سمجھا جاتا ہے۔اسلامی آرٹ کے کئی پہلو ہیں، یہاں فن صرف کسی ایک مخصوص میڈیم تک محدود نہیں ہے۔

ان پہلوؤں میں کیلی گرافی، پینٹنگ، ظروف، قالین، عمارتوں اور دیگر اشیا پر بنائے ہوئے مصوری کے فن پارے ہیں۔ ان میں سے کچھ کام تو ایسا ہے، جس کو دنیا بھر میں مقبولیت حاصل ہے اور اس کا اپنا ایک جداگانہ مقام ہے۔ برصغیر کا مغل دور میں تخلیق کیا گیا کام عالمی سطح پر کسی بڑے فن سے پیچھے نہیں ہے۔ تہذیب کا جمالیاتی رنگ لیے ہوئے اس تہذیب کے آرٹ کی دلدادہ پوری دنیا ہے اور اس مصوری کے ماہر مصوروں کو عالمی شہرت حاصل ہے۔آرٹ کے تاریخی سفر میں آرٹ میوزیم کی اہمیت بھی کلیدی ہے۔ مصوروں نے اپنے فن کا اظہار کینوس پر کیا، جب کہ فن سے محبت کرنیوالوں نے ان آرٹ گھرو ں میں اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ آرٹ میوزیم جیسی جگہ مصوری کے نادر فن پاروں سے سجائی جاتی ہے، تا کہ آرٹ کے مداح وہاں آ کر ان فن پاروں سے روشناس ہو سکیں۔ ان کی رسائی فنی تخلیق تک ممکن ہو، وہ اپنے خیالات کا عکس کینوس پر بکھرے ہوئے رنگوں میں دیکھ سکیں۔

پینٹنگز کی نمائشیں اس فن کے فروغ میں ہمیشہ مددگار رہی ہیں۔آرٹ کے کئی فن پارے مقبول ہونے کے ساتھ ساتھ متنازعہ بھی بنے۔ کسی فن پارے کو بہت پسند کیا گیا، کسی کے بارے میں شدید ناراضگی کا اظہار ہوا۔ کئی قیمتی فن پارے چوری بھی ہوئے۔ اصلی فن پاروں کی نقول بنا کر مداحین کو دھوکہ بھی دیا گیا اور چاہنے والوں نے ماسٹرز کی اصلی پینٹنگز منہ مانگے دام دے کر خریدیں۔پینٹ بنانیوالے اور انھیں پسند کرنے والے دونوں کی دلی ترجمانی کا عکس ان تصاویر میں جھلکتا ہے۔ آرٹسٹوں کی زندگی میں جھانک کر دیکھا جائے، تو دنیا کے کئی ایک نامور آرٹسٹ ہیں، جنھوں نے تکلیف دہ زندگی گزاری، مگر شہرت کی دیوی ان پر مہربان رہی۔ اسی طرح کئی پینٹنگز بھی ایسی ہیں، جن کو بے پناہ پسند کیا گیا، ناقدین کی طرف سے تنقید بھی بے شمار ہوئی، مگر شہرت کے دروازے ان پر کھلے رہے۔

مصر نے کہا ہے کہ ایسے ممالک جن کا دعوی ہے کہ اْن کے نوادرات چوری ہونے کے بعد دوسرے ممالک میں نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ ان کی بازیابی کے لیے متحد ہو جائیں۔مصر کے آثارِ قدیمہ کی سپریم کونسل کے سربراہ ضاہی حواس نے دنیا بھر کے ثقافتی حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ اِن نوادرات کی فہرست مرتب کریں۔مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں نوادرات کی بازیابی سے متعلق منعقد ہونے والی دو روزہ کانفرنس میں بیس ممالک کے مندوبین نے شرکت کی۔ضاہی حواس نے لیبیا، یونان، اٹلی، چین اور پیرو کے مندوبین کو بتایا کہ ’نوادرات چوری ہونے کا سب سے بڑا ذریعہ عجائب گھر ہیں۔‘حواس کے مطابق اگر اْن کے ممالک چوری شدہ نوادرات کو خریدنے سے انکار کر دیں تو اس صورت میں نوادرات کی چوری کم ہو سکتی ہے۔حواس نے مندوبین کو بتایا کہ اْن کے ممالک کو نوادرات کی بازیابی کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا۔اْن کا کہنا تھا ’ہر ملک نوادرات کی چوری کے خلاف اکیلا لڑ رہا ہے، اور اکیلا متاثر ہو رہا ہے اس لیے ہمیں متحدہو کر لڑنا ہو گا۔‘کانفرنس کے مندوبین نے اس بات پر غور کیا کہ وہ اقوامِ متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو سے اپیل کریں کہ وہ سنہ انیس سو ستر کے بعد چوری ہونے والے نوادرات کی بازیابی کے لیے اقدامات کریں۔ مصری حکام نے چوری شدہ نوادرات کی بازیابی کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں۔
سب سے زیادہ نوادر مصراور عراق سے چوری کیئے گئے۔ مصر کے آثار قدیمہ کے وزیر نے ایک فرعون کے مجسمے کی چوری کا بھی انکشاف کیا تھا۔ یہ چوری تحریر سکوائر کے قریب واقع مشہور عجائب گھر سے ہوئی تھی۔ آثار قدیمہ کے وزیر زاہی ہواس کا کہنا تھاکہ چوری ہونے والے نوادارت میں فرعون ٹوٹن کامون کا لکڑی کا بنا ہوا ایک مجسمہ بھی شامل تھا۔وزیر کے مطابق ان اہم اور قیمتی نوادرات کو تحریر سکوائر پر حسنی مبارک کے خلاف ہونے والے عوامی احتجاج کے دوران لوٹا گیا۔مسٹر ہواس کا کہنا ہے کہ عجائب گھر میں موجود اشیاء کی فہرست کے مطابق اٹھارہ نوادرات غائب تھیں۔ مصر میں عوامی احتجاج شروع ہونے کے بعد لوگ چھت کے ذریعے عجائب گھر میں داخل ہو گئے تھے اور اس دوران ستر کے قریب نوادرات کو نقصان پہنچا تھا۔قائرہ کے تحریر سکوائر کے سامنے واقع مصر کا عجائب گھر دنیا بھر میں مشہور ہے جہاں دسیوں ہزار انتہائی قیمتی قدیم نوادرات رکھے ہوئے ہیں جن میں مشہور فرعون ٹوٹن کامون کے مقبرے سے ملنے والے اشیاء کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔

ہرم خوفو (Pyramid of Khufu) جسے گیزہ کا عظیم ہرم بھی کہا جاتا ہے گیزہ میں تین اہراموں میں سب سے قدیم اور سب سے بڑا ہے۔ذرائع ابلاغ کی رپورٹیں اٹھاکر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ مصر میں آنے والے انقلاب نے جہاں ملک کو سیاسی اتھل پتھل کا شکار کر دیا ہے وہیں کفن چوروں پر مشتمل ایسے گروہوں کو بھی پیدا کردیا ہے ہے جو غیر قانونی طور پر مدفون خزانے تلاش کرکے چاندی کاٹ رہے ہیں۔غزہ کے علاقے میں واقع اہرام کے نزدیک مقیم افراد کا کہنا ہے کہ وہاں زمین میں نمودار ہونے والے گڑھوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور یہ دعوے غلط نہیں۔ایک صحرائی راستے کے قریب اور اہرام سے ذرا دور ہمیں ایک ڈیڑھ میٹر قطر کا گڑھا ملا جس کی گہرائی کا اندازہ لگانے کیلئے اس میں پتھر پھینک کر تہہ سے ٹکرانے کی آواز سنی گئی۔اس گڑھے سے کچھ فاصلے پر ایک اور سرنگ تھی اور گڑھے کے برعکس اس میں داخلہ نسبتاً آسان تھا۔معائنہ کار جیسے جیسے اندر جاتے گئے، ہمیں پتھروں پر اوزاروں کے نشانات اور کھدائی کے آثار دکھائی دینے لگے۔اس علاقے میں آثارِ قدیمہ کے انچارج ڈاکٹر اسامہ الشمی کا کہنا ہے کہ یہ واضح ہے کہ لوگ مدفون خزانوں کی تلاش میں کھدائی کر رہے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ جب وہ کھدائی کریں گے تو انہیں سونا ملے گا جس سے وہ راتوں رات امیر ہو جائیں گے۔‘ڈاکٹر اسامہ کے مطابق اس قسم کے افراد کو روکنا یا انھیں اس عمل سے باز رکھنا خطرناک ہے کیونکہ ان میں سے اکثر مسلح ہوتے ہیں۔غیر قانونی کھدائیوں کا یہ عمل صرف غزہ ہی میں ہو رہا۔ قاہرہ سے ایک گھنٹے کی مسافت پر دہشور کے مقام پر زمین کھدائی کی وجہ سے چاند کی سطح کا سا منظر پیش کرنے لگی ہے۔یہی نہیں بلکہ سقارہ اور ابوصر میں مسلح افراد نے ایسے گوداموں پر حملے کر کے لوٹ مار کی ہے جہاں حکومت کی سرپرستی میں ہونے والی کھدائی میں دریافت ہونے والے آثارِ قدیمہ رکھے گئے تھے۔اس مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش میں ہم جنوبی مصر میں الاقصر جا پہنچے جہاں ایک زمانے میں قدیم شہر تھیبز آباد تھا۔ یہاں بادشاہوں کی وادی کے قریب زمین آثارِ قدیمہ کے خزانوں سے مالامال ہے تاہم گذشتہ دو برس میں پولیس کو ان آثارِ قدیمہ کی تلاش میں غیرقانونی کھدائی کی درجنوں شکایات موصول ہوئی ہیں۔

سکیورٹی فورسز نے معائنہ کاروں کو ایک ناقابلِ یقین ویڈیو فوٹیج دکھائی جو سرنگوں کے ایک پرپیچ اور طویل سلسلہ کے بارے میں تھی جسے حال ہی میں دریافت کیا گیا ہے۔الاقصر میں اکثر غیرقانونی کھدائی کا سلسلہ ان آثارِ قدیمہ کے قریب واقع کسی گھر کے دالان میں شروع ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کی نشاندہی اور بھی مشکل ہو جاتی ہے۔ قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی میں مصریات کے استاد پروفیسر کینٹ ویکس کے بقول صورتحال سنگین ہوتی جا رہی ہے۔الاقصر میں سیاحت اور آثارِ قدیمہ کی پولیس کے سربراہ بریگیڈیئر حسنی حسین کے مطابق ’غیرقانونی کھدائی ہمیشہ سے ہوتی رہی ہے لیکن انقلاب کے بعد اس میں اضافہ ہوا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ یہاں کوئی سیکورٹی ہی نہیں ہے۔‘وہ اس امکان کو رد کرتے ہیں کہ مصر میں اب بھی زمین میں نمودار ہونے والے ایسے گڑھے موجود ہیں ہیں جن کے بارے میں پولیس کو معلوم نہیں ہے جبکہ اب تک جو بھی خزانہ چوری ہوا ہے اسے برآمد کرلیا گیا ہے۔

بریگیڈیئر حسین کے بقول ’ہمیں اس بات کا علم ہے کہ یہاں کیا ہورہا ہے، لیکن مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ ہماری محنت کی وجہ سے اس ملک میں کہیں سے بھی کچھ چوری نہیں ہوا ہے۔‘بدقسمتی سے یہ حقیقت نہیں ہے اور اس کو ثابت کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔مصر میں غیر مدفون خزانوں کی تلاش کے کھدائی اور قدیم فن پاروں کی تجارت غیر قانونی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے قاہرہ میں قدیم ساز و سامان فروخت کرنے کی بڑی بلیک مارکیٹ وجود میں آ گئی ہے۔معائنہ کاروں کا ایک مقامی ساتھی ایسے ہی ایک تاجر سے یہ کہہ کر ملنے گیا کہ وہ ایک برطانوی تاجر کی جانب سے آیا ہے جو مصریات کے ماہر ہیں۔اس تاجر نے معائنہ کارکے دوست پر یقین کیا اور اسے قدیم فن پارے دکھائے جو ان کے بقول 3ہزار سال پرانے تھے۔اس تاجر نے اپنا چہرہ نہ دکھانے کی شرط پر ان مجسموں کی منظر کشی کی اجازت دی اور ان فن پاروں کی ابتدائی قیمت5 ہزار ڈالر بتائی۔پرفیسر کینٹ ویکس کا کہنا ہے کہ فن پاروں کی چوری قدیم زمانے سے ہو رہی ہے لیکن گذشتہ دو برسوں اس میں بے حد اضافہ ہوا ہے جبکہ اس طرح کے واقعات کی اہم وجہ معاشی حالات ہیں۔پروفیسر کینٹ ویکس کا خیال ہے کہ گذشتہ کچھ عرصوں مصر کے لوگوں کو ان قدیم ساز و سامان کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوگیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’شاید کئی ہزار قدیم اثاثے چوری ہوچکے ہیں۔ ہمیں تو اس بارے میں علم ہی نہیں ہے۔‘غزہ میں رہنے والے مقامی افراد نے بتایا کہ گڑھوں کا نمودار ہونا عام بات ہے جبکہ بعض مرتبہ انہوں نے صحرا میں ان گڑھوں کے قریب ٹرک کھڑے دیکھے ہیں۔۔

Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 424043 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More