مصوری: فطرت کا انوکھا اظہار

فطرت کا تقاضا ہے کہ غور کرو، غور کرو، غور کرنے کا حکم ہے۔۔۔ مشاہدہ کیا جائے۔۔۔سوال کرنے سے منع کیا گیا۔۔۔جب بھی سوال ہو گا، جھگڑا پیدا ہو گا، نفرت پھیلے گی، ’’کیوں‘‘ ہمیشہ تضاد لاتا ہے۔۔۔خیر بات ہو رہی تھی غور کرنے کی، کائنات پر غور کرنے کی، خالق کی کرامات پر غور کرنے کی ۔۔۔ فطرت ہمیشہ خاموشی کی زبان استعمال کرتی ہے۔ کبھی ہم نے غو ر کیا کہ سورج کس خاموشی سے فطری تقاضے پورا کر رہا ہے۔ خاموشی سے روشنی بکھرتا چلا جاتا ہے، روشنی میں کتنی خاموشی ہے، کتنا سکون ہے۔ چاند ستارے اپنے مداروں میں خاموشی سے سفر کر رہے ہیں۔ پس فطرت سکون میں رہتی ہے، اور راز کی تخلیق بھی ہمیشہ سکون میں ہوتی ہے۔ جب بھی رازکو پانا ہو تو خاموش ہونا ضروری ہو جاتا ہے۔ انسان ، چرند پرند سب فطرت کے کرشمے ہیں۔ ان کرشموں کا اظہار خود فطرت بھی کرتی ہے اور انسان کو بھی صلاحیت عطا کی گئی ہے۔

ادیب اور مصور قدرت کے دو ایسے انعامات ہیں جو اظہار کا بہترین ذریعہ ہے ۔ ادیب لکھ کر اظہار کرتا ہے۔ ادیب اپنے خون سے ، جذبات سے لکھتا ہے۔ ظاہر ہے جب خون سے تحریر کیا جائے تو اس میں شدت کا عمل ہونا ایک فطری عمل ہے ۔جب یہ خاموشی طوفان بن کر باہر نکلے تو شور مچے گا۔ اس شور میں ادیب سے سب دور ہوتے چلے جاتے ہیں، اس کے ماں باپ، رشتہ دار آہستہ آہستہ شور میں گم ہوتے چلے جاتے ہیں اور ادیب تنہا کونے میں خاموش تماشائی کی طرح سب کچھ دیکھتا رہتا ہے۔ برداشت کرتا رہتا ہے اور لکھتا رہتا ہے۔ میں خود جن ادیبوں سے ملی ہوں انھیں خاموش طبیعت اور شدت پسند سوچ کا ما لک پایا ہے۔۔۔لیکن دوسری طرف مصور جو رنگوں کے ذریعے فطرت کے اظہار کا ایک اور الگ ذریعہ ہے۔ مصور کی شخصیت ادیب سے بالکل مختلف ہے۔ مصور مختلف رنگوں کی مدد سے، قدرت کا، جذبات کا، معاشرہ کی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔۔۔ مصور کو ہم لوگوں کے ہجوم میں پائیں گے۔ یہ ایک ایسی شخصیت ہے جو لوگوں کی قربت کا سبب بنتی ہیں اور فطرت کے اظہار کا ذریعہ بنتی چلی جاتی ہیں۔

اسلام آباد میں’لوک ورثہ‘ قابل دید اور امن کا گہوارہ محسوس کیا جاتا ہے۔ لفظ ورثہ سے اس قدر خوشبو آتی ہے کہ یہ سانسوں کو مہکاتی ہوئی روح تک چلی جاتی ہے۔ اس لوک ورثہ میں نا جانے ایسی کیا کشش ہے کہ اسلام آبا د کا رخ کرتے ہی مجھے اپنی طرف کھنچے رکھتی ہے۔لوک ورثہ سکون، امن اور سر ساز جیسی مہک سے مہکا رہا ہوتا ہے۔ لوک ورثہ کے ایک طرف چند دوکانیں پائی جاتی ہیں جن میں اکثریت مصوروں کی ہوتی ہے۔ شاہد کشش کا ایک سبب یہ مصوری ہی ہے۔۔۔ مصوری اور بھی جہگوں میں پائی جاتی ہے لیکن لوک ورثہ کے احاطے میں یہ مصوری اک پر لطف پیغام دکھاتی ہے۔ ملکی، غیر ملکی لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ تاریخی لمحوں اور ورثہ کو دیکھتے محفوظ کرتے چلے جاتے ہیں۔

ہم جب بھی جائیں مصوری کے احاطے میں زیادہ وقت گزار ا جاتا ہے۔ ایک عجیب طرز کا سکون ملتا ہے احاطے کی خوشبو اور فضا میں۔۔۔ بانسری کی دھن میں مصور اپنے اپنے ر زرق کے انتظار میں بیٹھے، اپنی مصوری، جذبات اور قدرت کا ظہار کیئے بیٹھے رہتے ہیں۔

ایک دن سب دوستوں کا پروگرام بن گیا، میری رضامندی تبھی ہوئی جب لوک ورثہ میں کچھ وقت گزارا جائے۔ لہذا لوک ورثہ پینچ گے۔ حسب معمول میرا راستہ مصوری کی دنیا میں بنتا چلا گیا، یقین مانیئے مصور کی تخلیق کاری میں غور کرنے سے ایسے انکشافات ہوتے ہیں جن کا اندازہ ہم عام انسان کسی بھی قیمت پر نہیں کر سکتے ۔ہم سب ایک جگہ رکے، ڈھیروں ڈھیر تصاویر دیکھنے کو ملی۔ کوئی نظر سے گزر گی ، کوئی دل سے اتر گئی، اور کوئی کچھ کام نہ آئی۔۔۔ خود مصور ایک کونے میں بیےٹھا کسی تصور پر لائیں کھینچ رہا تھا۔ ایک دو بار اس نے ناراضگی سے ہم پر نگاہ ڈالی۔۔۔ ایسا محسوس ہوا جیسے وہ عورت کے وجود سے انکاری ہو۔ ۔۔وہاں سے نکل کر ایک اور دوکان پر رکے۔۔۔بے شمار کمالات دیکھنے کو ملے۔جو یہاں لکھنا ضروری چاہوں گی۔

تصوریروں پر نظر ڈالنے کے بعد میری نگاہوں نے مصور کو ٹٹولا، درمیانے قد کا آدمی، ما تھے پر بہت گہری دو لکییرین اس کی تلخ زندگی کا تجربہ تھی۔ آنکھوں میں ہلکی ہلکی چمک جو اس کے مزاج میں ٹھہراؤ ظاہر کر رہی تھی۔ سکون سے تصاویر کو ترتیب سے دیتا ہوا اسکا وجود باتیں کرتا ہوا دیکھائی دینے لگا۔ تھوڑی ہی دیر میں کچھ غیر ملکی سیاح بھی وہیں آگے۔ ہم سب لوگوں میں موجود وہ مصور بالکل الگ شخصیت لگ رہا تھا۔ بے شک اس مصور کو بنانے والا اوبر بھی ایک مصور بیٹھا ہے، توکیوں نہ مصوروں کی شخصیت الگ ہو؟

ایک بات کا ہم لوگوں نے اندازہ لگایا کہ تمام تصویریں عورت پر نقش کی گئی تھی۔ یہ بھی ایک الگ فلسفہ ہے ۔خیر ایک تصور میں ریگستان تھا ، ایک طرف دو برہنہ بچے گرمی سے جھلس رہے تھے۔ان کے چہروں سے بھوک اور گرمی کی شدت واضح تھی۔ اسی کی دوسری طرف ایک عورت سر پر دو مٹکے اٹھائے نہایت ہی مشکل سے قدم اٹھا رہی تھی۔، لیکن حیرت اس بات کی کہ عورت کا چہرہ نہیں بلکہ اس کی کمر دیکھائی گئی۔۔۔ مجھے بڑا تجسس ہوا ، یقین جانئے مجھ سے رہا نہیں گیا، اور مصور سے پوچھے بغیر رہ نہ سکی وہ غیر ملکیوں کو کچھ تصاویر دیکھا رہا تھا، تھوڑی دیر بعد متوجہ ہوا ہم انے اس سے اس تصویر کا پوچھا۔۔۔اس نے بتا یا کہ ریگستان کی عورت اپنا چہرہ چھپاتی ہے۔۔۔، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ڈھانپ کر سب مشکلات پر قابو پاتی ہے۔ ایک عجیب بات اور عجیب تصویر۔۔مجھ سے رہ نہیں گیا، میں نے کہ ہی ڈالا اتنی تکلیف سے آپ نے اس عورت کی ٗاس طرف بھیجا ہے، تھوڑی سے آسانی کے کر آپ اس طرف تو بھی لا سکتے تھے نا۔۔۔مصور کی ہنسی نکل گئی، کہنے لگا محترمہ عورت کو بھجنے میں جوکشش ہے وہ لانے میں نہیں ہے۔۔۔ اگر اس تصویر میں وہ اس طرف آرہی ہوتی تو آپ کی نگاہ کبھی بھی نہ رکتی، وہ تصویر میں جارہی ہے، تبھی آپ نے پوچھا۔۔۔، مصوری ہمیشہ اکساتی ہے۔۔۔، جو اکسائے نہ مصوری ہو ہی نہیں سکتی۔۔۔ بات تو پتے کی کی اس نے ، خیرایک اور تصور میں ایک عورت ایک اور انداز میں۔۔۔ فضا میں سات رنگوں کی قوس قزا بنائی گئی۔ ایک لڑکی سفید اور پیلا رنگ کا چوغا پہنے کھڑی سات رنگوں میں سے سرخ رنگ کو چھو رہی تھی۔ لڑکی بے خد حوبصورت ، چوغے میں لپٹنے کے با وجود اتار چڑھاؤ ڈھانپنے سے قاصر، چہرے پر اس قدر تازگی جیسے شبنم سے سیر ہو کر آئی ہو۔۔۔ بہت ہی حوبصورت تصویر اور حوبصورت تھیم۔ اچھا لگ رہا تھا۔، کافی دیر تک میں باکمال مصوری اور اس میں چھپے مطلب کو دیکھتی رہی۔ غیر ملکی بھی دیکھنے لگے، مختصر تعارف کے بعد ہم تصویر کو چانچنے لگے۔ مصور ہماری ڈیسکشن سن کے ایسے خوش ہو رہا تھا جیسے والدین اپنے بچے کی پیلی پوزیشن پر خوش ہوتے ہیں ۔پس ان کی رائے تھی کہ اس مصوری کا تھیم ’امن‘ ہے ان کا کہنا تھا۔Girl is wearing white dress whcih shows her intention for peace and her waving hands are showing her desire for freedom.میرا نظریہ تھوڑا سا الگ تھا، میں نے کہا:it might be so according to your view, but actual thing is that girl, seems to be unmarried, her hand is touching the red colour, which shows that she wants to be married, the freshness on her face shows a positive change towards coming new life...Red colour is symbol of bride in Pakistani cultue.

اسی گفت وشنید میں دو چار تصویرں پر خاصا بحث کی۔ ہمیں ان کے خیالات بے حد پسند آئے۔ معلوم ہوا آج کے مصروف دور میں بھی ایسے لوگ ہیں جو مصوری کی دنیا میں کھو جاتے ہیں اور قدرت کو جانتے رہتے ہیں۔

چلتے چلتے ایک اور تصویر پر نظر پڑی، ایک بوڑھی عورت قریبا ۷۰ سال کے لگ بھگ ہو گئی۔ قرآن پڑھ رہی تھی۔،مصور کا کمال یہ تھا کہ اس انداز سے تصور کشی کی گئی کہ ابھی یہ بوڑ ھیا نظر اوپر اٹھائے گی۔۔۔ہاتھ اور گردن پر پڑی، جھریاں اسکی عمر صاف بتا رہی تھی، اسکے ساتھ قرآن پاک کی عمر بھی خاصی طویل محسوس ہوئی۔ دائیں ہاتھ سے وہ اگلا صفہ پلٹ رہی اور صفحہ رضا مندی سے اٹھ نہیں رہا تھا۔ تھوڑی غور کرنے کے بعد دیکھا کہ بوڑ ھیانے کان میں بالیاں بھی پہن رکھی تھیں۔ تھوڑا تضاد لگا۔ عمر کا تقاضا تھا کہ سارے وجود میں جھڑیاں ہونے کے باوجود کان کی لو میں کھنچاؤ ہونا ضروری تھا۔۔۔لیکن مصور نے بالی بالکل لو کی نصف میں کشیدہ کی ہوئی تھی جیسا کہ ۱۵ سال کی لڑکی نے کچھ ہی عرصہ پہلے چھید کرویا ہو۔۔۔ کافی تذبذب کے بعدہم مصور کو بتانے لگی کہ تصویر تو آم کی طرح میٹھی لگی مگر اس کا ذائقہ لیمو کے رس کے جیسا ہے۔۔۔

خیر قدرت کا حسن غور کرنے سے ہی سامنے آتا ہے۔ جہاں خود قدرت ، قدرتی مناظر پیش کرتی ہے وہیں، مصوری، خطاطی پتھر سا زی، اور لکھاری الگ الگ دیوتاؤں کو تخلیق کرتے رہتے ہیں اور ہم عام لوگ خاموشی کی زبان میں حیرت میں مبتلا ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ مصور اپنی فنکاری کی داد وصول کرنے کے لیے بے چین ہوا جا رہا تھا، اس میں کائی شک نہین کہ اسکی تراش خراش، سج دھج، دم خم، حرکات ،سکنات اسکی مصوری اور فنکاری سے ظاہر ہو رہی تھی۔ لہذا اس فن کو بقا چاہہے تھی، اور یہ بقا تعریف کی طالب ہوتی ہے۔ انسان اس وقت کم ظرف ہو جاتا ہے جہاں وہ اپنی تعریف خود کرے اور جہاں تعریف کرنے ہو مگر ریا کاری سے کام لے۔ خیر اس مصوری کی دنیا میں فطرت، قدرت، حسن، بہت ابل رہا تھا، ہم بھی اس خوشبو سے سرشار ہوئیں، مصور نے اپنی داد وصول کی اور رنگوں میں رنگنے لگا۔۔۔

lubna azam
About the Author: lubna azam Read More Articles by lubna azam : 43 Articles with 41371 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.