ایک جھونپڑے میں جنم لینے والے، گھانچی ذات پات پر یقین
رکھنے والے، گھر گھر آواز لگا کر تیل بیچنے والے اور بھارت کی مسلم دشمن
بدبودار تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ کے سرگرم کارکن نریندر مودی نے بھارت کے
15ویں پردھان منتری کی حٰثیت سے حلف اٹھا لیا ہے، اگرچہ پاکستانیوں بالخصوص
کشمیریوں کو مودی سے خیر سگالی کی کوئی توقعات نہیں ہیں مگر ایک پڑوسی کی
حیثیت سے وزیر اعظم نواز شریف حلف برداری کی تقریب میں شرکت کیلئے ایک اعلیٰ
سطحی وفد کے ہمراہ نئی دہلی گئے ہیں جس کا مشرق و مغرب میں نہ صرف خیر مقدم
کیا جا رہا ہے بلکہ مبصرین اسے ایک بڑا بریک تھرو بھی قرار دے رہے ہیں،
وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے وفدکے ہمراہ بھارتی صدر پرناب مکھر جی اور نئے
بھارتی ہم منصب مودی سے ملاقات ہے جو اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ نئی بھارتی
قیادت حلف برداری کے فوری بعد اپنے اہم ترین پڑوسی پاکستان کے ساتھ تمام
کور ایشوز پر بات چیت کیلئے تیار ہوئی ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان موجود
ٹینشن دور کرنے میں معاون اور ممد ثابت ہو گی۔
وزیر اعظم نواز شریف اس سے قبل جب نئی دہلی ائر پورٹ پر پہنچے تو ان کا
نہایت گرم جوشی سے استقبال کیا گیا، راشٹرپتی بھون میں تمام بھارتی قیادت
نے ان کا پرتپاک استقبال کیا اور جب وزیر اعظم مودی حلف اٹھا چکے تو وزیر
اعظم نواز شریف نے آگے بڑھ کر ان سے مصافحہ کیا ،یہ منظر اتنا جذباتی اور
دیدنی تھا کہ ناظرین اس سے مہبوت ہو کر رہ گئے، اس کے بعد اخبار نویسوں سے
بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں امن کا پیغام لیکر بھارت آیا ہوں ،
مجھے اور نریندر مودی کو قوم نے مشترکہ مسائل کے حل کیلئے بھاری منڈیٹ دیا
ہے، انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان میں بھارتی سرمایہ کاروں کا خیر مقدم کریں
گے، ادھر بھارتی اور کشمیری قیادت نے بھی نواز شریف کے دورہ ہند کا خیر
مقدم کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس دورہ سے دونو ں ملکوں کے درمیان
اعتماد سازی کی فضا مزید مستحکم ہو گی، مودی کے گزشتہ روز کے رویہ سے اہل
پاکستان یہ اندازہ لگانے میں حق بجانب ہیں کہ شاید 67سالوں سے دونوں ملکوں
کے تعلقات پر جو برف جمی ہوئی ہے اب شاید اس کے پگھلنے کا وقت آگیا ہے مگر
یہ برف اس وقت پگھلے گی جب دونوں ملک مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل نکال کر
دونوں اطراف کی قوموں کو ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار کریں گے۔
نئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے مستقبل کو دنا بھر میں ایک نئے
زاویہ سے دیکھا جا رہا ہے، اقوام عالم کا خیال ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے
رہنما مودی کے راشٹر پتی بھون میں آمد دراصل دنیا کی سب سے بڑٰی جمہوریت
کا دعویٰ کرنے والے بھارت سے سیکولرازم کا دیس نکالا ہے، یہ بات یوں بھی
درست معلوم ہوتی ہے کہ گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ان کے ہاتھ بھارت
کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں بلکہ ان کی یہ
تقریر بھی ریکارڈ پر ہے کہ بھارت کا سب سے بڑا مسئلہ مسلمان ہی ہیں، اسی
تناظر میں مودی سرکار کی جانچ کی جائے تو یہ بات دن کے اجالے کی طرح واضح
ہو جاتی ہے کہ ان کے کشمیر جیسے "اٹوٹ انگ" کے بارے میں نکتہ نظر اور
خیالات کیسے ہوں گے، ان کے ذہن میں حریت کانفرنس سمیت آزادی کے متوالوں
اور حق خود اردیت کا مطالبہ کرنے والے "آتنک وادیوں" سے متعلق جذبات کا
عالم کیا ہو گا…؟
اس وقت پاک بھارت سرکاروں کے سامنے کوئی ایک نہیں درجنوں مسائل ایسے ہیں کہ
ان کے حل سے ہی ترقی، خوشحالی اور دوستی کا سفر بڑھاوا دیا جا سکتا ہے،
اگرچہ بی جے پی کے پہلے دور میں بھارتی وزیر اعظم نرسمہا رائو نے دوستی بس
پر امرتسر سے لاہور تک کا سفر کیا تھااور مینار پاکستان پر اعلان لاہور پر
دستخط بھی کئے تھے مگر یہ بیل اس لئے منڈھے نہ چڑھ سکی کہ بھارت کے جنونی
لیڈروں نے ہی نرسمہا رائو جی کو طعنہ دیا کیا کہ وہ پاکستان جا کر بھارت
ماتا کے بٹوارے کو قبول کر آئے ہیں جبکہ ہمارا مقصد تو برصغیر کو مہا
بھارت بنانا ہے،ادھر جونہی نرسمہا رائو جی واہگہ سے پرے ہوئے تو پاکستانیوں
نے مینار پاکستان کو سات بار غسل دے کر نئی دہلی کو یہ سندیس دیا کہ بھارتی
پردھان منتری کے پاپی وجود سے پاک کر دیا گیا ہے، جہاں نفرتوں کی کھیتی سے
اس قسم کی کانٹوں بھری فصل تیار ہو رہی ہو وہاں پریم اور آشتی کی باد نسیم
کا گزر کیسے ہو سکتا ہے…؟
پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ 67سالوں کے دوران نفرتوں کی جو فضا قائم
ہوئی اور جو دو جنگیں لڑی گئیں ان کی تہہ میں تقسیم ہند کے وقت کے آگ اور
خون کے کھیل کا مرکزی کردار رہا ہے، بھارت نے بزور طاقت خطہ جنت نظیر کشمیر
پر قبضہ کر رکھا ہے بلکہ کشمیریوں کی تیسری نسل کو بھی خون کا غسل دیا جا
رہا ہے، ان سات عشروں کے دوران عیدین اور مقدس ایام سمیت کوئی دن ایسا نہیں
گزرتا کہ کشمیر کے کسی نہ کسی گھر سے دلدوز آہیں اور چیخیں نہ بلند ہوتی
ہوں، جہاں ہر روز درجنوں جنازے سوئے شہر خموشاں نہ روانہ ہوتے ہوں، جہاں عف
مآب مائوں ، بہنوں اور بیٹیوں کی عزت تار تار نہ کی جاتی ہو، بھارتی سرکار
کا یہ کیسا اٹوٹ انگ ہے کہ کشمیریوں نے حالیہ انتخابات میں نہ صرف بائیکاٹ
کیا بلکہ بھارت نواز گماشتوں سے بھی اپنی نفرتوں کا اظہار کیا، جہاں بھارتی
فوجیوں کو دیکھ کر ان پر تھوکا اور پتھرائو کیا جاتا ہے، پاکستان میں ایک
ستم ظریف نے یہاں تک کہا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اپنے بھارتی ہم منصب
مودی سے یہ مطالبہ بھی کریں کہ کشمیر پر مزاکرات سری نگر کی ڈھل جیل میں
گجروں کی خوشبوئوں میں بسی نائو میں کئے جانے چاہئیں۔
موجودہ حکومت بھارت کو ایم ایف این کا درجہ دینا چاہتی تھی مگر بھارتی
اقدامات اس کی راہ میں رکاوٹ ہیں اب حکومت یہ سوچ رہی ہے کہ مودی جی کی
آئندہ پالیسیوں سے ہی اس بات کا تعین کیا جائے کہ بھارت پسندیدہ ترین قوم
بننے کیلئے میرٹ پر اتر بھی رہا ہے یا نہیں، دونوں ملکوں میں امن کی آشا
کی خواہش ایک تشنہ تکمیل تمنا تو ہو سکتی ہے مگر جب تک کشمیریوں کا لہو
جہلم اور نیلم کے پانیوں کو لالہ رنگ کرتا رہے گا یہ آشائیں اور تمنائیں
محض ایک سپنہ ہی ہوں گے اور سپنے دیکھنے پر کوئی پابندی لگائی جا سکتی ہے
اور نہ یہ فرمائش پر دیکھے ہی جا سکتے ہیں۔ |