قوم امریکی وضاحتوں کے بعد اپنی حکومت سے
بھی کیری لوگر بل کی نئی اور مکمل وضاحت چاہتی ہے
پاکستان میں حالیہ ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے امریکا، بھارت اور اسرائیل
کا ہاتھ ہے؟
ڈِفنیٹلی بات یقیناً صرف اتنی سی تو ہے کہ امریکیوں نے اپنے مفادات کی خاطر
پاکستانیوں کو بے وقوف بنا لیا ہے اور اِنہوں نے اَب کان یوں پکڑنے کے
بجائے یوں پکڑ لیا ہے اور ایسا پکڑا ہے ۔کہ اَب ہم پاکستانیوں کو اِن سے
کان چھوڑانا بہت ہی مشکل ہوگیا ہے اور ہمیں کیری لوگر بل کی پہلی قسط اپنے
میڈین پاکستان کے کشکول میں ڈالنے کے بعد تو اِن سے کان تو کان اپنا پورا
وجود بھی چھوڑانا ناممکن ہوجائے گا۔
کیوں کہ اِس مرتبہ امریکیوں نے کیری لوگر بل پر پاکستانیوں کے تحفظات کو
جیسے تیسے دور کرنے والی 5صفحات پر مشتمل اپنے مطلب کی وضاحتوں کے بعد
پاکستانیوں کو بے وقوف بنانے کا جو طریقہ ڈھونڈھ نکالا ہے۔ آج اِس امریکی
وضاحت پر ماسوائے حکمران جماعت پی پی پی کے پوری پاکستانی قوم پر حیرانگی
کے تمام پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں اور پاکستانی قوم یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ
شاطر امریکیوں اور اِن کے تھینک ٹینک نے پاکستانی حکمرانوں، سیاستدانوں اور
عوام کو کس طرح سے بے وقوف بناتے ہوئے اپنا الو کیسے سیدھا کر لیا ہے کہ
اِس کے بعد اَب کوئی بھی پاکستانی کیری لوگر بل پر اگر چوں و چرا کرے بھی
تو لاحاصل ہوگا۔
اور اِس پر امریکی کانگریس کی جانب سے پاکستانی عوام کو اِس وضاحت اور یقین
دہانی کے بعد کہ کیری لوگر بل صرف پاکستان کی مدد کرنے کے لئے ہے نہ کہ اِس
کی مائیکرو منیجمنٹ میں مداخلت کرنے کے لئے ہے۔ اِس پر وائٹ ہاوس میں
امریکی تاریخ کے پہلے سیاہ فام امریکی صدر مسٹر بارک اوباما نے ایک لمحہ
بھی ضائع کئے بغیر یعنی فوراً ہی امریکی وقت کے مطابق صبح 9 بجکر 15 منٹ
اور 36 سیکنڈ پر پاکستان کے ساتھ اِسے خریدنے والے کیری لوگر بل ( ایک وسیع
شراکت داری مجریہ 2009 ) دستخط کر دیئے۔ یہاں ایک اور حیرت انگیز بات تو یہ
بھی ہے کہ پاکستان کے آئینی ماہرین کے نزدیک کیری لوگو بل کے ساتھ نتھی کئے
گئے امریکی وضاحتی بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ اِس کے باوجود بھی
ہمارے حکمران کیری لوگر بل اور امریکی وضاحت کو اپنی ایک بڑی کامیابی مان
رہے ہیں اور اسی طرح پہلے سیاہ فام امریکی صدر مسٹر بارک اوباما نے بھی
اپنی اِس کامیابی پر اپنا سینہ ٹھونکتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کیری لوگر بل
دراصل امریکا کے لئے مستقبل قریب میں امریکا کے ساتھ پاکستان کی وسیع حمایت
کا بے مثل اور ٹھوس ثبوت کا اظہار ہے اور امریکی صدر کا اِس موقع پر یہ بھی
کہنا تھا کہ امریکا یہ چاہتا ہے کہ پاکستان میں جمہوری اداروں اور عوام کی
ہر صورت میں مدد کر کے پاکستان کو اِن گھمبیر مسائل نجات دلائی جائے۔ جن
میں پاکستان گھرا ہوا ہے اور امریکا یہ بھی چاہتا ہے کہ پاکستان کو
اسٹریٹجک پاٹنر شپ کے تحت دنیا کے مصروف ترین ممالک کی فہرست میں شامل کیا
جائے۔ انہوں نے کیری لوگر بل کو پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے ایک انتہائی
تاریخ ساز دستاویز قرار دیتے ہوئے کہا کہ اِس بل سے پورے امریکا کو یہ
اُمید بھی ہے کہ یہ بل پاکستانی عوام کی معاشی، اقتصادی، سیاسی، سماجی اور
دیگر حالت زار کو بہتر بنانے کے لئے معاون اور مددگار بھی ثابت ہوگا اور
اِس کے ساتھ ہی اِن کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکا کی ہر ممکن کوشش یہ بھی
ہوگی کہ امریکا پاکستان کے ساتھ مل کر ہر حالت میں پاکستان میں جمہوریت کی
مضبوطی اور قانون کی حاکمیت اور اِس کی بالادستی کے لئے بھی کوشاں رہے۔ جو
اِس کیری لوگر بل کی اصل روح بھی ہے۔
اگرچہ امریکیوں کی اِن تمام گول گھومایوں کے بعد اَب اگر آپ انگریزی میں
اِسے ڈفنیٹلی کہہ لیں یا اردو میں یقیناً...یہ تو آپ کی مرضی ہے کہ اِن
دونوں لفظوں میں سے جو بھی مناسب لگے۔ آپ وہ استعمال کرسکتے ہیں۔ مگر اِس
سارے معاملے میں اتنا ضرور ذہن میں رہے کہ امریکیوں نے کوئی یوں ہی پاکستان
پر اپنی مہربانیوں کی بارش نہیں کردی ہے۔ اِس کے عوض امریکی پاکستان سے کیا....؟کیا....؟
مانگیں گے۔ اِس کے بارے میں بھی پاکستانی حکمرانوں اور پوری قوم کو پہلے سے
ہی تیار رہنا پڑے گا۔ ورنہ اگر ہم نے اِن کے کہے ہوئے پر عمل نہیں کیا تو
یہ بھی یاد رہے کہ یہ ہی امریکی ہوں گے جو ایک ہی جھٹکے میں اپنی یہ امداد
روک کر ہماری کشتی بیچ منجدھار میں ڈوبنے کے لئے چھوڑ کر خود کنارے نکل
کھڑے ہوں گے اور ہم ڈوب جائیں گے۔
بہرکیف !یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان کو سالانہ ڈیڑہ ارب روپے کی امداد کی مد میں
دی جانے والے کیری لوگر بل سے متعلق امریکی سینٹ اور ایوان نمائندگان نے
پاکستان کی جانب سے اِ س بل سے متعلق اٹھائے گئے تحفظات پرامریکیوں نے 5
صفحات پر مشتمل وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ پاکستانی خودمختاری کے خلاف کوئی
بات شامل نہیں ہے اور یہ ساڑھے سات ارب ڈالر کی غیر فوجی امداد غیر مشروط
فراہم کی جائے گی۔ اِس امداد کا اصل مقصد صرف یہ ہے کہ امریکا چاہتا ہے کہ
اِس امداد سے موجودہ اور آئندہ حکومت اور سویلین اداروں میں استحکام پیدا
کیا جائے گا اور پاکستان میں زیادہ سے زیادہ جمہوریت کو پروان چڑھانے میں
سویلین حکومتوں کی مدد کی جائے۔
مگر میرے خیال سے اِن امریکی وضاحتوں کے بعد بھی آئندہ کے لئے کیا ضمانت ہے
کہ امریکا پاکستانی خودمختاری کے خلاف کوئی بات نہیں کرے گا۔؟ جیسا کہ یہ
گزشتہ کئی سالوں اور مہینوں سے متواتر پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری سے
متعلق کیے جارہا ہے اور ایسے احکامات اور اقدامات کرنے پر تلا ہوا ہے کہ جس
سے پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کو شدید خطرات لاحق ہونے کے خدشات عظیم
پیداہوگئے ہیں اور یہ بھی کہ امریکا آئندہ پاکستان کو کسی بھی حوالے سے
بلیک میل نہیں کرے گا۔؟ اور پاکستان پر بھارت اور اسرائیل کی جانب سے
ڈکٹیشن کے بعد ایسا کچھ کرنے کے لئے ہرگز دباؤ نہیں ڈالے گا اور بڑھائے گا
کہ جس کے کرنے سے پاکستان کی عوام اور سیاسی حلقوں کو یہ تشویش لاحق ہو کہ
یہ سب کچھ کیا دھرا اِسی کیری لوگر بل کا ہے جو امریکا نے گورکھ دھندا کر
کے اَب پاکستانیوں کے سر دے مار کر اپنے سارے کام اِن سے زبردستی کروا رہا
ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ آج پاکستان کے معتبر سیاسی حلقے کیری لوگر بل پر
امریکیوں کی 5 صفحات پر مشتمل وضاحتوں کی وجہ سے پہلے سے کہیں زیادہ تشویش
کا اظہار کر رہے ہیں کہ کیری لوگر بل 5 صفحات کی وضاحتوں کے باعث اور زیادہ
ضغیم دستاویز کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ جس میں امریکیوں اور اِن کے شاطرانہ
ذہن رکھنے والے تھینک ٹینک نے پاکستانیوں کو کچھ اِس طرح سے جکڑا لیا ہے کہ
پاکستانیوں کو اپنے جکڑے جانے کا پتہ بھی نہیں ہے۔
ویسے یہاں پاکستانی حکمرانوں اور سیاستدانوں کو انتہائی باریک بینی سے اُس
امریکی مبصر کی یہ بات سمجھنی چاہئے کہ جس نے کیری لوگر بل پر تبصرہ کرتے
ہوئے یہ کہا ہے کہ کیری لوگر بل پر امریکی کانگریس کا وضاحتی بیان صرف
پاکستانی عوامی دباؤ کو ختم کرنے کی ضرورت ہی پوری کرتا ہے اور بس......اِس
سے آگے کا واضح مفہوم اَب پاکستانی عوام، حکمران اور سیاست دان خود ہی سمجھ
جائیں کہ پانچ صفحات پر مشتمل امریکی وضاحت میں اور کیا کیا راز پوشیدہ ہے۔
بہرحال! یہاں ایک حوصلہ افزا امر تو یہ ہے کہ کیری لوگر بل پر امریکیوں کی
وضاحتوں کے بعد بھی پاکستان سے اگر کسی سیاستدان نے مسترد کیا ہے تو وہ بھی
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف اور اِن کی پارٹی کے
اراکین ہیں جنہوں نے کیری لوگر بل پر پیش کی گئی امریکیوں کی وضاحتوں کو
بھی یکسر رد اور مسترد کر دیا ہے۔ خبر یہ ہے کہ گزشتہ دنوں پاکستان مسلم
لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے اپنی پارٹی کے مشاورتی اجلاس کے
بعد ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے اپنے خطاب میں برملا کیری لوگر بل اور
امریکیوں کی جانب سے اِس پر دی گئی پانچ صفحات پر مشتمل وضاحتوں پر اپنے
تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیری لوگر بل کی قومی مفاد کے منافی
شقوں کو ہرگز قبول نہیں کریں گے اَس کے ساتھ ہی اِن کا یہ بھی کہنا تھا کہ
کیری لوگربل میں امریکی مفاد مدنظر رکھا گیا ہے۔ اِس موقع پر انہوں نے اپنے
مخصوص انداز سے انتہائی فہم وفراست کے ساتھ کہا کہ بھیک مانگنے کے بجائے
ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہئے اور حکومت پاکستان کو بھی خاص طور پر بل
کی تیاری کے دوران نوٹس لینا چاہئے تھا۔ اہم فیصلوں پر قوم اور پارلیمنٹ کو
اعتماد میں لئے جانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ یہ وہ عظیم خیالات ہیں جو ایک
محب وطن سیاستدان کی دل کی آواز ہے۔
اور اِس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکیوں نے کیری لوگر بل پر اپنے
صدر سے دستخط کرانے سے قبل ہی پاکستانیوں کو اپنے زرخرید ایجنٹوں کے ذریعے
خون میں نہلانے کا جو نیا سلسلہ ابھی اپنی پوری شدت سے شروع کر رکھا ہے اور
اِس کا کھلا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران امریکی، بھارتی اور
اسرائیلی دہشت گردوں اور ایجنٹوں نے پاکستان میں سیکورٹی کے اہم مراکز اور
عام پبلک مقامات پر جس منظم اور مربوط انداز سے حملوں اور خودکش بم دھماکوں
کی کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔ اِن شدت پسندانہ کارروائیوں کے پسِ پردہ
بھی کیری لوگر بل میں پوشیدہ وہ امریکی عزائم شامل ہیں جو صرف امریکی چاہتے
ہیں اور امریکی صرف یہ چاہتے ہیں کہ ایک طرف تو پاکستان کی استحکامیت کے
دعوے کئے جائیں۔ تو دوسری طرف اندر ہی اندر پاکستان کو غیر مستحکم کیا جائے
اور پاکستان کو ایک دہشت گردی اور ناکام ریاست تسلیم کرانے کا عمل بھی جاری
رکھا جائے۔
آج اِس میں کوئی شک نہیں کہ امریکیوں نے اپنے مفادات کے خاطر جو وضاحتی
بیان کیری لوگر بل پر دیا بھی ہے تو اِ س میں کہیں بھی پاکستان کی سالمیت
اور خود مختاری پر کوئی آنچ نہ آنے کی کوئی ضمانت نہیں دی گی اور ہم
پاکستانی اِن امریکیوں کی کسی بات پر اعتبار بھی بھلا کیسے کریں۔ جن کا
زیادہ تر جھکاؤ بھارت کی جانب ہے۔ اِس سے بھی ایک اور بات بڑھ کر یہ ہے کہ
یہ وہی امریکی تو ہیں۔ جنہوں نے پاک بھارت جنگ کے دوران پاکستان کی مدد کے
لئے اپنا بحری بیڑا پاکستان بھیجنے کا وعدہ کیا تھا۔ جو آج تک پاکستان کی
مدد کو نہ پہنچ سکا۔ تو اَب ہم پاکستانی اِن امریکیوں کی کسی بات پر کیسے
یہ یقین کرلیں کہ یہ ہمارے ساتھ مخلص ہیں۔ |