دہشت گرد کامیاب یا ناکام؟

داتا کی نگری لاہور میں بیک وقت دہشت گردی کے تین واقعات ہوئے۔ پنجاب حکومت اور پنجاب پولیس کو اپنی کارکردگی پر غور کرنا چاہئے۔ شہباز شریف کو ان حملوں کی اطلاع ملی جب وہ اپنے طبی معائنے کے لئے لندن جا رہے تھے۔ وہ نہیں گئے۔ یہ اچھی بات ہے۔ مگر اس بات پر بھی دھیان دیں کہ کیا پاکستان میں کوئی ایسا ڈاکٹر نہیں۔ کلثوم نواز بھی لندن میں زیر علاج ہیں۔ نواز شریف کو لندن میں اور بھی کام ہونگے مگر وہ اپنی اہلیہ کی عیادت کے لئے آتے جاتے رہتے ہیں یہاں بڑے بڑے ڈاکٹر ہیں۔ جن کی فیسیں بھی بہت زیادہ ہے۔ یہاں ڈاکٹر کی اہلیت کا اندازہ اس کی فیس سے ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں تو بچے اس سکول میں نہیں پڑھتے جن کی فیس کم ہو۔ جب کلثوم نواز لاہور میں تحریک جمہوریت چلا رہی تھیں تو ان کے گھٹنے میں درد ہوا ہوگا مگر وہ لندن نہیں گئی تھیں۔ سعودی عرب بھی کئی سال تک رہیں کسی ڈاکٹر سے رجوع کیا ہوگا۔ لوگوں کے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھانے والے یہاں ایسا ہسپتال ہی بنوا دیں جہاں ایسے ڈاکٹر ہوں کہ وہ لندن نہ جایا کریں۔ کئی امیر کبیر ایسے ہیں کہ جنہیں چھینک آ جائے تو وہ لندن بھاگ جاتے ہیں۔ ان کے بھاگ جاگے ہوئے ہیں کہ وہ صحت مند ہونے کے علاوہ بیمار ہونے کے لئے بھی لندن کے چکر لگاتے رہتے ہیں۔ شعیب بن عزیز نے بتایا ہے کہ جلا وطنی کے دوران شہباز شریف کا آپریشن لندن میں ہوا تھا اس لئے انہیں اسی ڈاکٹر سے ہی رجوع کرنا پڑتا ہے۔ شہباز شریف گھر کی ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کے لئے آئے۔ یہاں کے ممبر صوبائی اسمبلی رانا تجمل بھی ان کے ساتھ تھے۔ میں سمجھتا تھا کہ سارے رانا صاحبان ایک جیسے ہوتے ہیں۔ رانا ثناءاللہ میڈیا سے گفتگو میں بھی خیال رکھتے ہیں کہ ان کے چہرے پر حاکمانہ تاثرات قائم و دائم رہیں۔ رانا تجمل تحمل والے اور بہادر آدمی ہیں۔ وہ ہمارے معاملات میں بھارت کی مداخلت کے بہت خلاف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے مفادات کو ٹھیس پہنچی تو ہم بھارت کے ساتھ جنگ کرنے سے بالکل گریز نہیں کریں گے۔ دہشت گردی میں بھارت کی مداخلت کو نظر انداز نہیں کرتے۔ سی سی پی او پرویز راٹھور نے پولیس سنٹر مناواں پر پہلے حملے کے بعد کہا تھا کہ اس میں بھارت کی خفیہ تنظیم ’را‘ ملوث ہے۔ رحمان ملک خفا ہوگئے تھے۔ پھر انہوں نے خود دبے دبے لفظوں میں کہہ دیا کہ بھارت کی مداخلت ہو سکتی ہے۔ اب کمشنر لاہور خسرو پرویز نے کہہ دیا ہے کہ تازہ حملوں میں ”را“ ملوث ہے۔ پرویز نام سے لوگ ہم خیال ہوگئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ میرے دوست پڑھے لکھے باوفا اور ثابت قدم پرویز رشید کا بھی یہی خیال ہوگا۔ سابق ایم این اے پرویز ملک بھی ایک نجی محفل میں یہی کہہ رہے تھے اب تو انہیں مسلم لیگ ن کا ٹکٹ بھی مل گیا ہے۔ کچھ اور لوگوں کا نام بھی پرویز ہے آرمی چیف کے نام میں بھی پرویز آتا ہے۔

نوازشریف نے بیرون ممالک سے آتے ہوئے پہلی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ شہباز شریف اور چودھری نثار کو چھپ کر اندھیرے میں جنرل اشفاق پرویز کیانی سے نہیں ملنا چاہئے تھا۔ جنرل کیانی نے اپنے جرنیلوں سے کہا تھا کہ وہ سیاستدانوں کو نہ ملیں۔ یہ شرط سیاستدانوں کے لئے نہ تھی۔ شہباز شریف نے حادثات کی جگہوں کا معائنہ بھی کیا۔ انہوں نے پولیس سنٹر مناواں پر پہلے حملے کے لئے کہا تھا کہ یہ گورنر راج کی وجہ سے ہوا ہے۔ اب وہاں حملہ کس کے راج میں ہوا ہے۔ مناواں پولیس سنٹر کے انچارج پہلے بھی ایس پی میجر مبشر تھے۔ اب بھی وہی ہیں۔ ان سے نہ پہلے کسی نے کچھ پوچھا تھا نہ آج پوچھا ہے۔ کہا گیا تھا کہ سنٹر کی دیواریں اونچی کریں گے مگر دہشت گرد وہی دیواریں پھلانگ کر اندر داخل ہوئے۔ پیپلز پارٹی پیٹریاٹ (مرحوم) کے زندہ رہنما مناواں اور واہگہ کے درمیان رہنے والے جی دار جیالے ملک جاوید اعوان نے کہا کہ پولیس سنٹر مناواں میں بنانے کا مقصد کیا ہے یہ تو ٹھوکر نیاز بیگ میں ہونا چاہئے۔ جاوید اعوان نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ واہگہ اور وانا کے درمیان خون کی ہولی کھیلی جانے والی ہے۔

بھارتی وزیر داخلہ چدم برم نے برہم ہو کے بیان دیا ہے کہ بہت سی چیزیں درہم برہم ہوتی نظر آتی ہیں۔ پاکستان کی نااہلی سے دہشت گردوں کو شہ مل سکتی ہے اگر ممبئی حملے جیسی دہشت گردی بھارت میں ہوئی تو سخت جوابی کارروائی کریں گے۔ اس بات کی وضاحت اور تشریح رحمان ملک بھی نہیں کریں گے کہ وہ کوئی بھی جوابی کارروائی صرف وزیرستان میں کریں گے۔ وفاقی اور صوبائی حکمرانوں کو معلوم ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی امریکہ اور بھارت کروا رہا ہے مگر وہ بولتے نہیں۔ کیری لوگر بل پر صدر اوباما کے دستخط کے بعد شاید دہشت گردی وقتی طور پر رک جائے۔ اس کا کریڈٹ شاہ محمود قریشی لیں گے۔ اس طرح کی ”نیکنامی“ وزیر خارجہ کو ملتی رہی تو رحمان ملک ان سے وزارت بدل لیں گے۔ وزیرستان میں آپریشن کے بعد رحمان ملک کہیں گے کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ ملک صاحب مطمئین ہیں کہ جی ایچ کیو پر حملے کے بعد وزیرستان میں فوجی کارروائی یقینی ہوگئی ہے مگر انہیں یہ بیان دینے کی کیا ضرورت تھی کہ مجھے جی ایچ کیو کا دورہ کرنے سے نہیں روکا گیا۔ اپنی وزارت کے دفتر ایف آئی اے لاہور میں وہ تشریف لے آئے تو یہاں انہیں نہیں روکا گیا تھا۔ جان دے کر دہشت گردی کو ناکام بنانے والے شہید اہلکاروں اور شہریوں کو سلام....! دہشت گرد٬ سکیورٹی اداروں میں پوری طرح کامیاب تو نہیں ہوئے مگر انہیں پوری طرح ناکام بھی نہیں کہا جا سکتا۔ انہوں نے ایک دن میں بیک وقت تین حملے سکیورٹی اداروں پر کئے۔ انہوں نے سترہ سے زیادہ لوگوں کو مار دیا۔ پوری انتظامیہ کو مفلوج کر دیا۔ ماحول میں خوف و ہراس پھیلا دیا۔ تو اس کے علاوہ وہ کیا کرتے۔ وہ سرکاری دفاتر پر قبضہ کر کے اپنے لئے این آر او جاری کرتے۔ تو کیا پھر ہم انہیں کامیاب کہتے۔ حملے کے بعد ہمارے سکیورٹی اہلکاروں نے بڑی ہمت کی۔ سب سے پہلے پرویز راٹھور پہنچے اور آخر وقت تک رہے۔ مگر یہ بھی ایک سوال ہے کہ پیشگی اطلاع کے باوجود کیوں خبر نہیں ہوئی کہ حملہ ہونے والا ہے۔ جائے واردات پر لوگ اکٹھے ہوئے۔ ایک میلہ سا لگ گیا۔ ہمارے لوگ ڈرنے والے نہیں۔ بالکل وہی منظر تھا جو 65ء کی پاک بھارت جنگ میں جنگی طیاروں کی لڑائی کے وقت نظر آیا تھا۔ جب بچے عورتیں اور بڑے یہ پتنگ بازی دیکھ کر نعرے لگا رہے تھے۔ ہر شخص سمجھتا ہے کہ یہ امریکہ اور بھارت کروا رہا ہے۔ ان دونوں ملکوں کی مداخلت روک دیں تو دہشت گردی ختم ہو جائے گی۔
Dr. Muhammad Ajmal Niazi
About the Author: Dr. Muhammad Ajmal Niazi Read More Articles by Dr. Muhammad Ajmal Niazi: 19 Articles with 19042 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.