یہ1999کے شروع مہینوں کی بات ہے جب ملک کے اہم اداروں کے
کلیدی مناصب پر فوجی افسران کو تعینات کیا جارہا تھا تو اس وقت کسی نے یہ
بیان دیا تھا کہ پورے اسلام آباد کو فوج کے حوالے کر دیا جائے ۔اور پھر
اکتوبر میں اسلام آباد سمیت پورا ملک فوج کے حوالے ہو گیا ۔آج کی صورتحال
بھی کچھ اسی طرح نظر آرہی ہے کہ دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر بڑے شہروں
میں فوج لگانے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔ویسے بھی کافی عرصے سے یہ بات محسوس
ہو رہی ہے کہ نواز شریف ایک وزیر اعظم کا نام ہے لیکن اس نام کے شاید دو
حصے الگ الگ ہیں اور دونوں کے رویے اور ایکشن ایک دوسرے سے متضاد ہیں یا آج
کی سیاسی زبان میں یہ سمجھ لیں کہ نام کے یہ دونوں حصے ایک صفحے پر نہیں
ہیں نواز صاحب کی ترجمانی اگر چوہدری نثار کر رہے ہیں تو شریف صاحب کی
پرویز رشید یا خواجہ آصف مثلاَ نواز صاحب چاہتے ہیں کہ طالبان سے مزاکرات
ہونے چاہیے لیکن شریف صاحب کہتے ہیں کہ بالکل نہیں ہونے چا ہیے نواز صاحب
اپنے دوست عرفان صدیقی کو اس حوالے سے اختیار دیتے ہیں تو دوسری طرف سے
شریف صاحب ان کے ہاتھ پیر باندھ دیتے ہیں ،نواز صاحب طالبان قیدیوں کی
رہائی کا مطالبہ ماننے کو تیار ہوجاتے ہیں کہ مذاکرات اور قیام امن کا
سلسلہ کچھ آگے بڑھے شریف صاحب کہتے ہیں کہ ہرگز نہیں یہ دہشت گرد اور
فوجیوں کے قاتل ہیں انھیں رہا نہیں کرسکتے اور یہ کہ وہ پہلے ہمارے اغوا
شدہ لوگوں کو رہا کریں پھر ہم کچھ سوچیں گے ۔نواز صاحب چاہتے ہیں کہ عمران
خان صاحب الیکشن میں دھاندلی کی رٹ لگانا چھوڑ دیں اور چار حلقوں میں گنتی
کا مطالبہ بھی نہ کریں شریف صاحب کہتے ہیں کہ سیاست دانوں پر کوئی پابندی
نہیں لگانا چاہیے ،نواز صاحب چاہتے ہیں کہ جیو کو بند نہیں رکھنا چاہیے
شریف صاحب چاہتے ہیں جیو کو بالکل نہیں کھولنا چاہیے ،نواز صاحب کہتے ہیں
پوری پیمرا کو یہ اختیار حاصل کہ وہ کسی چینل کے خلاف کوئی کا رروائی عمل
میں لائے شریف صاحب کا خیال ہے کہ تین پرائیویٹ ممبران بھی کارروائی کر
سکتے ہیں ،نواز صاحب چاہتے ہیں کہ کراچی میں کامیاب آپریشن کے لیے ضروری ہے
کہ گورنر سندھ کو تبدیل کر دیا جائے شریف صاحب چاہتے ہیں کہ گورنر کسی صورت
تبدیل نہیں ہونا چاہیے ،نواز صاحب چاہتے ہیں بر صغیر میں امن کی راہوں کو
کشادہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شریک
ہوجانا چاہیے جب کہ شریف صاحب کی رائے ہے کہ مودی مسلمانوں کا قاتل ہے
امریکا بھی شریک نہیں ہورہا ہے ہمیں بھی نہیں ہونا چاہیے ۔نواز صاحب کہتے
ہیں کہ پورے ملک میں جو چھوٹے چھوٹے جلوس فوج کی حمایت میں نکل رہے ہیں اس
سے بین الاقوامی سطح پر اچھا تاثر نہیں پڑرہا اسے نہیں نکلنا چاہیے شریف
صاحب کہتے ہیں "عوام"کے جذبات کے آگے بند نہیں باندھنا چاہیے ۔2013کے
انتخابات کے بارے میں نواز صاحب کا خیال یہ ہے کہ یہ انتخابات بہ حیثیت
مجموعی میں ٹھیک ہوئے اب اس اشو کو اتنا نہیں اٹھانا چاہیے جب کہ شریف صاحب
کی رائے اس کے بالکل الٹ ہے ۔نواز صاحب کا خیال یہ ہے کہ ہمارا دستور ایک
مقدس دستاویز اور تاریخ کی امانت ہے اسے قائم رہنا چاہیے شریف صاحب کی رائے
ہے کہ یہ ایک فرسودہ کاغذ بن کے رہ گیا ہے اب نئے تقاضوں کے مطابق نئے
دستور کی ضرورت ہے اسی طرح کے اور بہت سے معاملات اور اشوز ہیں جن پر نواز
اور شریف صاحبان میں آرا کا اختلاف پایا جاتا ہے لیکن درج بالا نکات میں جو
احسن بات ہے وہ یہ کہ سردست یہ ایک دوسرے کو ایڈجسٹ کر کے چل رہے ہیں کسی
میں نواز صاحب کی بات مان لی جاتی ہے کسی میں شریف صاحب کی اور کچھ معاملات
ابھی تک معلق ہیں دیکھیے ان معاملات کے حوالے سے آنے والے دنوں میں کیا
فیصلہ ہوتا ہے ۔ |