کہتے ہیں کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ چل جاتا ہے جو طاقت
ور یا جس سے مفاد وابستہ ہوتا ہے سب اسکے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہر دور
میں طاقت کا توازن کبھی ایک پلڑے میں رہا تو کبھی دوسرے پلڑے میں پاکستان
بھی ایک ایسا ہی ملک ہے جہاں کاغذو ں اور لفظوں میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہے
مگر عوام کے نام پر بیوقوف بنا کر طاقت ور کوئی اور بن جاتا ہے اور پھر جو
اپنے آپ کو طاقتور بنا لیتا ہے وہ پاکستان اور پاکستانیوں کا بلا شرکت غیرے
نتھوخیرے مالک بن جاتا ہے جہاں پر احتساب کا نظام نہ ہو چور اور ڈاکو ملک
کے حکمران بن جائیں سرکاری اداروں میں ایک نہ رکنے ولا لوٹ مار کا سلسلہ ہو
اور اپنوں کو نوازنے کے لیے ہر پالیسی اور میرٹ کو پاؤں تلے روند دیا جائے
ایک غریب اور محنت کش کے بچے کو کانسٹیبل بھی بھرتی نہ کیا جائے جہاں ملک
کی جیلیں جرائم کی یونیورسٹیاں بن جائیں اور سیاستدان پاکستان کی رگوں سے
خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ نے کے درپر ہو جہاں حصول انصاف کے لیے پورا
خاندان قربانی دینے کے لیے تیار ہواور غریب سارا دن محنت مزدوری کرکے ایک
دن کا راشن بھی پورا نہ کرسکے تو پھر وہاں پر لڑائیاں قانون اور انصاف کے
لیے نہیں لڑی جاتی بلکہ اپنی طاقت بڑھانے اور اپنا آپ دکھانے کے لیے لڑی
جاتی ہیں جہاں ریمنڈ ڈیوس جیسے ملک دشمن کو جیل میں وی آئی پی پروٹوکول دیا
جائے جیل کے اندر ہی عدالت لگا کر اسے پھر رات کی تاریکی میں بھگا دیا جائے
وہاں طاقت عوام کی نہیں ہوتی بلکہ عوام کے نام پر کھیل کھیلنے والوں کی
ہوتی ہے اور یہ ایسی طاقتیں ہیں جن کے پیسوں سے دوسروں کے بنک بھرے پڑے ہیں
اور رہی بات پاکستان کی غریب عوام کی اس کو تو کبھی سستی روٹی کے چکر میں
الجھا دیا جاتا ہے تو کبھی سخت گرمیوں کی لوڈ شیڈنگ میں اپنے پسینے میں
نہانے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے ابھی ملک میں جنگ اور جیو کا معاملہ بڑی شدت
سے چل رہا ہے یہاں پر بھی طاقت کی جنگ جاری ہے کبھی ان کا پلڑا بھاری تھا
تو اب کسی اور کا پلڑا بھاری ہے مگرمخالف کو دبایا وہی پر جاتا ہے جہاں پر
قانون کی حکمرانی ہو ایسی جنگ میں نہ کسی کی ہار ہوتی ہے نہ جیت مگر دونوں
طرف والوں کو اپنی اپنی طاقت کا اندازہ ہو جاتاہے اور پھر مستقبل کے لیے
نئے سرے سے تانے بانے بنائے جاتے ہیں اگر پاکستان کے ساتھ کوئی طاقت مخلص
ہے تو وہ ان سب شعبدہ بازیوں سے باہر نکل کر عوام کو مضبوط کرے انہیں انکی
گلیوں کی نالیوں کی سیاست سے باہر نکالے جب سے پاکستان بنا ہے اسی وقت سے
ہمارے حکمران خواہ کسی بھی شکل میں ہوں ہماری گلی محلوں کی نالیوں اور
سڑکوں کے نام پر اربوں روپے کھا چکے ہیں مگر ابھی تک نہ وہ گلیاں بن سکی
اورنہ ہی کسی جگہ کوئی سیوریج کا پائیدار نظام موجود ہے اور سب سے بڑھ کر
حیرت انگیز اور فکر مندی کی جو بات ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے ان حکمرانوں نے
خود بڑی بڑی چوریاں کی اور سزا جزا سے بچ گئے وہی پر ہماری بدقسمتی بھی
ملاحظہ فرمائیں کہ ہماری مساجد میں سے جوتیاں غائب ہوجاتی ہیں لوگ پنکھے
اتار کر لیے جاتے ہیں اور سڑک کنارے رکھے ہوئے ٹھنڈے کولر سے پانی پینے کے
لیے رکھا ہوا گلاس چوری کے ڈر سے زنجیر سے بندھا پڑا ہوتا ہے جہاں کرپشن
اور لوٹ مار اس حد تک اور اتنی نچلی سطح تک پہنچ چکی ہو تو وہاں پر آپس کی
لڑائیاں قانون اور انصاف کے حصول کے لیے نہیں ہوتی بلکہ ایک دوسرے کو نیچا
دکھانے کے لیے ہوتی ہیں ہماری عدالتوں کے باہر کچہریوں میں ہر طرح کے کام
کے لیے ٹاؤٹ موجودہیں جو پیسے لیکر ضمانتوں سے لیکر مچلکوں تک سب کام کرتے
ہیں اور کیا یہ بات ہر کسی کو معلوم نہیں ہے کہ جب ایک شخص صبح گھر سے
عدالت میں پیشی بھگتے کے لیے نکلتا ہے تو وہ اپنے خرچہ کے ساتھ ساتھ وہاں
پر منہ کھولے بھیڑیوں کے لیے الگ سے پیسے اپنی جیب میں رکھتا ہے یہاں پر
یونین کونسل میں بیٹھا ہوا سیکریٹری ،علاقے کا پٹواری اور تھانے کی ماں سے
لیکر اپنے آپ کو قوم کا نجات دہندہ اور فخر پاکستان تک کے القابات سے
نوازنے والے تک سبھی اس ملک و قوم کے دشمن بنے بیٹھے ہوئے ہیں اگر آج تک
کوئی حکمران پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت کرنے والا ہوتا تو وہ کبھی بھی
ٹھنڈے کمروں اور ٹھنڈی گاڑیوں میں بیٹھ کر سرے پائے اور نہاری نہ کھاتا
بلکہ اس وقت تک اسکی بھوک ہی ختم ہوجاتی جب تک پاکستانی قوم بھوک سے نہ نکل
آتی یہاں پر تو سیاستدان اپنے جلسوں کو عوامی رنگ دینے کے لیے کھانے کا
اعلان کردیتے ہیں اور فارغ قوم کھانے کی آس میں جلسوں میں گھنٹو ں بیٹھی
رہتی ہیں اور بعض اوقات تو ابھی جلسہ شروع ہی ہوتا ہے کہ لوگ کھانے کی
میزیں تک الٹا دیتے ہیں جس ملک میں عوام کو کھانے کی فکر رہتی ہو وہاں پر
بڑی طاقت بھی چھوٹی طاقت کو ہضم کرنے کے چکر میں ہوتی ہے اب ہمیں اگر ایک
قوم اور ایک ملک بن کر دنیا کے سامنے طاقت ور کے روپ میں ابھرنا ہے تو سب
اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کریں یہ زندگی اور یہ نوکری بہت
مختصر ہے کہیں آنے والے وقتوں میں ہماری وجہ سے ملک اور قوم خطرے کی لکیر
کو کراس نہ کر جائے بچے جنہیں من کے سچے بھی کہا جاتا ہے اکثر لڑنے کے بعد
یہ کہتے ہوئے ’’ لڑائی لڑائی معاف کرو اﷲ کا گھر صاف کر و‘‘ آپس میں صلح
کرلیتے ہیں اس لیے پاکستان میں وہ تمام قوتیں جو اپنا آپ منوانے کیلیے ایک
دوسرے سے دست وگریبان ہیں بچوں کی طرح اپنے من صاف کرکے صلح کریں اور ملک
کو اندھیروں سے نکالیں تاکہ آنے والے وقت میں کوئی شخص مسجد سے جوتی نہ
چرائے اور نہ ہی پانی کے گلاس کو زنجیر ڈالنا پڑے ۔
|