یہ غلط ہے بھائی

چند دن پہلے ہم نے ٹی وی آن کیا تو بریکنگ نیوز چل رہی تھی۔خیر اب یہ کوئی ایسی انہونی بھی نہیں پاکستان میں ہر نیوز ہی بریکنگ نیوز ہوتی ہے کہ ہم خبر تو سننا ہی نہیں چاہتے سنسی خیزی کی ہمیں عادت جو پڑ گئی ہے۔دوکاندار نے وہی چیز بیچنی ہے جس کی گاہک ڈیمانڈ کرتا ہے۔سندھ سے آئے واہگورو کے خالصے پارلیمنٹ کا گیٹ توڑ کے اندگھسے چلے جا رہے تھے۔پولیس خاموش تماشائی تھی۔ہاں ٹریفک پولیس کا ایک ایس پی دبنگ خان کا کردار ادا کر رہا تھا حالانکہ اس کا اس معاملے سے کچھ لینا دینا ہی نہیں تھا۔یہی مظاہرین مسلمان ہوتے تو پولیس مار مار کے ان کا بھرکس نکال دیتی ۔یہ چونکہ سکھ تھے اور پھر سندھ سے آئے تھے اس لئے ان کی غیر قانونی حرکت کو بھی برداشت کیا جا رہا تھا۔ مذہبی آزادی اقلیتوں کا تحفظ اور انسانی حقوق کا ڈنڈہ جو تھا۔ دوسری طرف رضا ربانی اور اعتزاز احسن جیسے بڑے لیڈر ان سکھوں کو دیکھ کے اپنی پریس کانفرنس ادھوری چھوڑ کے بھاگ رہے تھے۔کسی اخباری نمائندے نے ایک سکھ سے پوچھا کہ آپ کا مسئلہ کیا ہے تو اس نے بتایا کہ ہماری مقدس کتاب کی بے حرمتی ہوئی ہے۔اس نے پوچھا کہاں یہ واقعہ ہوا تو جواب آیا سندھ میں۔اس نے پھر پوچھا کہ کب یہ دل خراش واقعہ ہوا تو اس بھولے سکھ نے جواب دیا۔۲۰۰۹ ء میں۔پانچ سال بعد احتجاج اور وہ بھی اسلام آباد میں۔کہا کہ ہماری سندھ میں شنوائی نہیں ہوئی اس لئے ہم نے سوچا کہ جا کے اسلام آباد میں احتجاج کرتے ہیں۔

اس واقعہ کو اور اس کی تفصیلات کو توجہ سے دیکھیں تو پاکستان میں لا قانونیت ،انسانی حقوق کی پامالی،اقلیتوں کے ساتھ سلوک ،آئین شکنی، بد امنی غرضیکہ پاکستان کے تمام مسائل کی وجہ معلوم ہو جاتی ہے۔پاکستان "پراکسیز" کا ملک ہے۔ امریکہ کی پراکسی،بھارت کی پراکسی،افغانستان کی پراکسی ایران کی پراکسی حتی کہ یو ٹیوب کی بھی پراکسی۔"پراکسی "کہتے ہیں متبادل بندو بست کو۔ آپ کسی کے دانت توڑنا چاہتے ہیں۔ آپ سامنے نہیں آنا چاہتے۔ آپ کسی باکسر کو بلاتے ہیں جو اپنے علاقے میں کن ٹٹا بھی مشہور ہے۔ اس کی خاطر تواضح کرتے ہیں اور اسے ہدف بتا دیتے ہیں ۔باقی کا کام پھر باکسر کرتا ہے۔آپ یو ٹیوب بند کرتے ہیں ۔یو ٹیوب والے پاکستان کے لئے پراکسی دے دیتے ہیں اب جن لوگوں کو آئی ٹی کی ہلکی سی شدبد ہے وہ پراکسی استعمال کرتے اور یو ٹیوب کے مزے لیتے ہیں۔ حکومت کی رٹ بھی قائم ہے اور یو ٹیوب بھی چل رہی ہے۔ سب جانتے بلکہ خود بھی پراکسی کے ذریعے اسے انجوائے کرتے ہیں لیکن کھوتی ریڑھی والے کو بے وقوف بنایا ہوا ہے کہ ہم نے گستاخانہ خاکوں پہ یو ٹیوب کو پاکستان میں بند کر رکھا ہے۔ منافقت کی انتہاء ہے لیکن یہی ہمارے ملک کا چلن ہے اور انتہائی کامیابی کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں اس کی نمائش جاری ہے۔

پچھلے دنوں حامد میر پہ حملہ ہوا۔ حامد میر ایک صحافی ہے۔اس کی اپنی ایک سوچ ہے جس سے اتفاق ضروری نہیں۔ملک میں رائج مادر پدر آزادی کا جس طرح باقی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں وہ بھی اٹھاتا ہے۔ وہ ملک کے خلاف ،ریاستی اداروں کے خلاف محاذ کھولتا ہے۔وہ سر عام فوج کو گالی دیتا ہے لیکن اسے آپ کا ملکی قانون یہ سب کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اسے گولی مار دی جاتی ہے۔ اس کا چینل متواتر آٹھ گھنٹے ایک ریاستی ادارے کے سربراہ کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا ہے۔اسے کسی قانونی کاروائی کا خوف نہیں۔ اس لئے کہ اس کے مالک کو اپنے مسلز کا اندازہ ہے کہ وہ کیونکر ملکی قانون کو موم کی ناک بنا سکتا ہے۔اس بکواس کو سن کے میڈیا کے بڑے بھی کانوں کو ہاتھ لگا لیتے ہیں اور دہائی دیتے ہیں کہ یہ کسی طور بھی جائز نہیں۔ قانون ہے لیکن حرکت میں نہیں آتا۔ جب قانون حرکت میں نہیں آتا تو پراکسیز حرکت میں آتی ہیں۔ حبِ علی ختم اور بغض ِمعاویہ شروع۔ شہر شہر قصبے قصبے جلوس نکلتے ہیں۔ وکیل سڑکوں پہ ،مولوی سڑکوں پہ اور پھر اچانک عمران خان کو بھی خیال آجاتا ہے کہ جیو بھی اس کے خلاف ہونے والی دھاندلی میں شریک ہے۔

اس کے بعد جیو جو ہر روز توہین مذہب کرتا ہے اور کوئی اس کا نوٹس نہیں لیتا۔اس کے ایک پروگرام میں توہین مذہب بھی ہو جاتی ہے اور پھر تو اﷲ دے اور بندہ لے۔جیو نے ایک مذموم حرکت کی۔اس کے لئے قانون موجود ہے۔وزیر دفاع اپنے دستخطوں سے اس کی شکایت کرتا ہے تو اسی حکومت کا وزیر ابلاغیات خم ٹھونک کے سامنے آ جاتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ ہم غلیل کے ساتھ نہیں دلیل کے ساتھ ہیں۔ یہ کیسی دلیل ہے یار۔ جب اس طرح کی دلیلیں ہوں گی تو غلیل کے پاس بھی باکسر ہیں۔ اب گلی گلی محلے محلے حکومت کے دانت ٹوٹ رہے ہیں اور دنیا تماشہ دیکھ رہی ہے۔سکھوں کو اچانک پانچ سال بعد اپنی کتاب کی بے حرمتی یاد آ گئی ہے۔ عمران خان کو اچانک الہام ہو گیا ہے کہ میر شکیل فرعون ہے۔جیو نے اچانک ہی توہینِ اہل بیت بھی کر دی ہے۔کیبل آپریٹرز پہ بھی اچانک یہ عقدہ وا ہوا ہے کہ جیو والے غدار ہیں۔قانون موجود ہے لیکن اس کی عمل داری کہیں نہیں۔جب یہ ہوتا ہے تو پھریہ بھی ہوتا ہے۔

سب مانتے ہیں کہ یہ غلط ہے لیکن مانتا کوئی نہیں۔اس لئے کہ سب کا اپنا اپنا ایجنڈا ہے۔سب ایک دوسرے کی کلائی مروڑنے کے چکر میں ہیں۔ سزا ملک کو مل رہی ہے یا عوام کو۔حکومت تو منی ہے اس نے تو بد نام ہونا ہی ہوتا ہے لیکن لوگ اب اتنے بھولے بھی نہیں رہے ۔یہ پبلک ہے جو سب جانتی ہے۔ادارے بد نام ہو رہے ہیں ۔لوگ سر گوشیوں میں باتیں کرنے لگے ہیں۔ یہ باتیں کل اونچی آواز میں کی جائیں گی۔ پراکسیز کے ذریعے نہیں قانون کی عمل داری کے ذریعے بد معاشوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔قانون اور آئین کی عمل داری پہ زور دیں عوام بھی اور ادارے بھی۔اگر سکھوں کی پانچ سال پہلے سن لی جاتی تو کیا آج کوئی انہیں استعمال کر سکتا۔ اگر جیو کو قانون کے مطابق پہلے ہی دن روک لیا جاتا یا سزا دی جاتی تو کیا اتنا سیاپا پڑتا۔ امریکہ ،بھارت افغانستان اور ایران اگر پاکستان میں اپنی پراکسیز کو استعمال کریں تو غلط اور یہی کام ہم کریں تو صحیح ۔نہیں یار اب ایسے نہیں چلے گا۔ کہتے ہیں ہمارے ملک میں عدلیہ آزاد ہے۔اگر واقعی ایسا ہے تو وہ قانو ن کی عمل داری کو یقینی کیوں نہیں بناتی۔جب لوگ رشتہ داری نبھائیں گے تو پھر فرزندانِ اسلام دارالخلافے کی سڑکوں پہ بینر نہ لگائیں تو کیا کریں۔ہمارے ہاں جب بھی کوئی بڑی مچھلی شکنجے میں آنے لگتی ہے تو اس کی کسی بڑے سے رشتہ داری نکل آتی ہے جیسے ارسلان افتخار کی افتخار چو ہدری سے نکل آئی تھی اور بعد میں کرپشن کا وہ میگا سکینڈل دو اشخاص کے درمیاں معاملہ کہہ کے نپٹا دیا گیا تھا۔پاکستان ،پیارا پاکستان،پراکسیز کا پاکستان۔پاکستان پائندہ باد

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268646 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More