اسلام کی قابل فخر خاتون حضرت سیدہ تماضر عمرو (الخنساء ) رضی اﷲ عنہا

نام و نسب:ان کا اسم گرامی تما ضر تھا اور یہ نام آپ کے رنگ کے نہایت گورا ہونے کی وجہ سے پڑا تھا ۔ ان کی نسبت قبیلہ مُضر کی طرف تھی ۔جسے جناب نبی اکرم ﷺ نے قبائل عرب کا قلعہ تصور فرمایا تھا۔ ان کے والد کا نام عمر و بن الحارث اور ان کے دو بھائیوں کے نام زمانہ جاہلیت میں سخر اور معاویہ تھے ۔ یہ ان سے نہایت ہی محبت رکھتی تھیں ۔جب یہ کسی جنگ میں مارے گئے تو یہ ان کیلئے نہایت درد کے ساتھ رویا کرتی تھیں اور گرم جوشی کے ساتھ آنسو بہایا کرتی تھیں اور ان کے مرثیے کہا کرتی تھیں ۔یہاں تک کہ ان کے مرثیوں سے ان کا ایک دیوان مرتب ہو گیا اور انہیں شعر کہنے کا ملکہ پیدا ہو گیا اور یہ شاعری میں صاحب ثروت ہو گئیں اور شاعری میں شاعری اور الفاظِ عربیہ پرانہیں کافی دسترس حاصل ہو گئی ۔
ان کا لقب (الخنسا ):آپ خنسا کے لقب سے مشہور ہو ئیں ۔ چونکہ ان کی ناک پست یا چھوٹی تھی۔ اس لیے یہ خنسا کے نام سے مشہور ہو گئیں ۔جناب رسول اﷲ ﷺ انہیں خنس کہہ کر بلایا کرتے تھے ۔ لیکن ان کا لقب (الخنسا) ان کے نام پر غالب آچکا تھا۔ جس طرح سے دوسرے کئی لوگ اپنے لقب سے زیادہ مشہور ہوئے ۔
سیدہ تماضر کا نکاح:ان کے شوہر رواحہ بنت عبد العزیز السلمی کے نام سے پکارے جاتے تھے ان کے چار شیر جوان بیٹے تولد ہوئے جو تمام کے تمام ایرانیوں کے ساتھ جنگ قادسیہ میں شریک ہوئے اور اسی میں چاروں نے شہادت پائی ۔سیدہ خنس کو مروت ، انسانیت، جرأت ،فصاحت و بلاغت ، وفاداری اور اخلاص اور مسحور کن حسن و جمال اور کمال کی ذہانت حاصل تھی۔ یہ اپنی قوم کے بڑے لوگوں کی منظور نظر تھیں لیکن انہوں نے نکاح کا پیغام دینے والوں میں حضرت رواحہ کو پسند فرمایا۔ ان کے چاروں بیٹے زمانہ جاہلیت میں سر کردہ اور ممتاز تھے اور یہ چاروں کے چاروں حلقۂ بگوش اسلام ہوئے اور مسلمانوں اور عرب کیلئے قابل فخر بن گئے ۔

سیدہ الخنساء کا قبول اسلام:سیدہ الخنساء کا بھائیوں کی جدائی اور غم میں رونا ایک فطری بات تھی جو ہر انسان میں ہوتی ہے اور پھر اسی معاشرے میں پلی بڑھی تھیں لیکن جب دین اسلام کا سورج طلوع ہوا اورگھر گھر اس کی روشنی پھیل گئی اس نے خنسا ء کے دل کو دھوکر پاک اور معطر کردیا اور اس سے زمانہ جاہلیت کی تمام میل دھو ڈالی اور خلق عظیم کے نئے سانچے میں ڈھل گئیں ۔ سیدہ تماضر (الخنساء)اسلام سے بہت محبت کرتیں اسے عزت و احترام دیتیں اور اس پر فخر کرتیں لیکن یہ خاتون مسلمان کیسے ہوئیں اور ان کی شخصیت کیسے بدل گئی۔تو اس کا واقعہ یوں ہے کہ سیدہ الخنساء اپنے بیٹوں کے ساتھ بنی سلیم کے ایک وفد میں جناب رسول اﷲ ﷺ سے ملنے آئیں اور ان سب لوگوں نے بارگاہ رسالت میں اپنے اسلام کا اعلان کیا اور اﷲ واحدہ لا شریک اور رسول خیر الانام ﷺکے ساتھ اپنی دوستی اور محبت کا اظہار کیا ۔جب نبی کریم ﷺ نے سیدہ الخنساء کے اشعار سماعت فرمائے تو مزید سنانے کیلئے حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ سناتیں تو حضور اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:’’ھیہ یا خنسا‘‘اری خنسا اور سناؤ اور آپ اپنے ہاتھ مبارک کے اشارے سے فرماتے اور سناؤ اور سناؤاور جناب رسول اﷲ ﷺ کے پاس جب بنی طے کے لوگ آئے تاکہ وہ دائرہ اسلام میں اپنی خوشی سے شامل ہو جائیں تو اس میں مشہور سخی شخص حضرت حاتم طائی کے بیٹے عدی اور بیٹی سفانہ بھی اس وفد میں شامل ہو کر آئے تھے ۔اور یہ سب لوگ اپنے شوق اور رغبت سے مسلمان ہوئے تھے ۔اس موقعہ پر حاتم طائی کے بیٹے عدی نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ ہمارے اندر ایک بہت بڑا شاعر شخص اور ایک بڑا سخی شخص اور بڑا شاہسوار شخص موجود ہے ۔تو جناب نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، ذرا ان کے نام تو لیجئیے۔ تو عدی نے عرض کیا ہمارے اندر بڑا شاعت تو امراء القیس بن حجر اور بڑے سخیوں میں حاتم بن سعد الطائی یعنی اس کے والد اور بڑے شاہسوار عمرو بن معد یکرب ہیں۔تو جناب رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ارے عدی جیسا کہ تم نے کہا ہے ایسا نہیں ہے شاعروں میں سب سے بڑی شاعرہ الخنساء بنت عمرو ہیں اور سخیوں میں سب سے بڑے سخی وہ محمد ﷺ ہیں۔ یعنی حضور اکرم ﷺ نے اپنی ذات کی طرف اشارہ فرمایا ۔ شاہ سواری میں سب سے بڑے شاہ سوار حضرت علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ ہیں۔ جناب رسول اکرم ﷺ کی یہ شہادت سیدہ الخنساء کیلئے سب سے بڑی شہادت ہے سب سے عظیم گواہی ہے جو سید البشر خاتم الانبیاء ﷺ نے ان کیلئے دی ۔‘‘

صبر کرنے والی بہادرماں:جنگ قادسیہ کا موقعہ آتا ہے تو سیدہ الخنساء رضی اﷲ عنہا کے ایمان کا امتحان ہوتا ہے اور یہ نہایت کڑا امتحان تھا اور اس کا نتیجہ کیا ہوا کہ وہ اس امتحان میں ناکام ہوئیں یا امتیازی درجے میں کامیاب ہوئیں اور میرا خیال ہے کہ ان کی اس امتحان میں کامیابی کی کوئی نظیر نہیں ہے ۔جب سیدہ الخنساء اور ان کے چاروں بیٹوں نے قادسیہ کی طرف جہاد میں نکلنے کا اعلان سنا تو یہ چاروں شیر نوجوان اپنے کچھارسے نکل آئے اور اپنے جنگی ہتھیار پہن لئے اور اپنی شیرنی بڑھیا ماں کے سامنے جا کھڑے ہوئے کہ وہ انہیں اپنے ہاتھوں سے راہِ خدا میں قربان ہونے کیلئے رخصت کرے۔ ماں کی آنکھیں بھر آئیں شاید کہ وہ انہیں آخری بار رخصت کر رہی تھیں ۔پھر سیدہ الخنساء نے فرمایا میرے بیٹو! تم اپنی خوشی سے مسلمان ہوئے ہو اور تم نے اپنی پسند سے اسلام کیلئے ہجرت کی ہے اور اس اﷲ کی قسم جس کے سواکوئی معبود نہیں کہ تم ایک مرد کی اولاد ہو اور ایک عورت کی اولاد سو میں نے تمہارے باپ سے خیانت نہیں کی تمہارے ماموں کو رسوا نہیں کیا ۔تمہاری شرافت کو دھبہ نہیں لگایا تمہارے نسب کو تبدیل نہیں کیا ۔اور تم جانتے ہو کہ اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کافروں سے جنگ کر کے ثواب عظیم حاصل کرنے کیلئے پیدا فرمایا ہے اور یہ اچھی طرح سے سمجھ لو کہ یہ ہمیشہ اپنے رہنے والے گھر اس دار فانی سے بہتر ہے ۔ چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے :’’اے ایمان والو! صبر کرو ۔صبر پر قائم رہو اور دل کو مضبوط رکھو اور اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ ۔‘‘(العمران )

انشاء اﷲ جب صبح ہو گی تو صحیح سلامت تم جہاد کی طرف جاؤ گے اور نہایت بصیرت اور سمجھداری کے ساتھ اپنے دشمن سے مقابلہ کرو گے ۔ جب تم دیکھو کہ لڑائی شروع ہو گئی ہے اور لڑائی کی آگ بھڑک اٹھی ہے تو تم بھی لڑائی کی آگ میں بے دھڑک کود جاؤ اور بڑے بڑے جنگجوؤں اور سرداروں سے مقابلہ کرو اور تلوار کے جوہر دکھاؤ ۔ اگر فتح پاؤ تو مال غنیمت اور عزت حاصل کرو ورنہ اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جان دے کر ہمیشہ کیلئے زندگی پا جاؤ ۔تو اس طرح سے وہ اپنے مومن بیٹوں کے دلوں میں ایمان اور بہادری کے جذبات پیدا فرما رہی تھیں اور اپنے نیک بیٹوں کو نیک ہدایات فرما رہی تھیں اور معرکہ جہاد کیلئے اپنی نصیحتوں اور دعاؤں کا زادِ راہ انہیں دے رہی تھیں اور ایسا نور ان کے دلوں میں روشن کر رہی تھیں جس سے وہ کفر کے اندھیروں سے ایمان کا راستہ پا جائیں اور اپنے دشمن سے مقابلہ کر کے ایمانی جرأت کے جوہر دکھائیں۔پھر وہ نوجوان لڑائی کیلئے تیار ہو گئے اور ان کی والدہ محترمہ نے جنگ میں ثابت قدمی اور جرأت کے وعدے لیے یا تو وہ فتح پا کر آئیں یا راہِ خدا میں قربان جائیں ۔وہ چلے جا رہے تھے اور ماں کی دعائیں اور نصیحتیں ان کے کانوں میں گونج رہی تھیں اور انہیں حوصلہ مل رہا تھا اب انہیں کوئی خوف خطر نہیں تھا اور بزدلی کا نام و نشان نہیں تھا ۔ اب وہ ایسے نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے تھے اور ایمان ان کی ہدایت میں اضافہ کر رہا تھا اور وہ ماں کی نصیحتوں پر سچے دل سے عمل کرنے کا عہد کر چکے تھے ۔دشمنوں پر اپنی ایمانی طاقت کے ساتھ مسلح ہو کر ٹوٹ پڑنے کے ارادے سے جا رہے تھے ۔ جب جنگ کا آغاز ہوا تو پہلا شیر جوان جنگی ترانہ گاتا ہوا آگے بڑھا۔

مسلمان بہادر مجاہدین فتح یاب ہو کر قادسیہ سے واپس لوٹتے ہیں لیکن سیدہ خنساء کے چاروں شیر جوان ان میں شامل نہیں ہیں ان کی ماں معرکہ سے آنے والے مجاہدین کی طرف جا رہی ہے اور اپنے بیٹوں کے بارے معلوم کرنا چاہتی ہیں ایک شخص جوان کی کیفیت جانتا تھا ۔سیدہ الخنساء کے قریب آیا اور کہنے لگا بڑی اماں تمہارے بیٹے شہید ہو گئے ہیں اور وہ میدان جنگ میں آگے بڑھتے ہوئے شہید ہوئے ہیں ۔ واپس بھاگتے ہوئے مارے نہیں گئے ہیں وہ زندہ ہیں اپنے رب کے ہاں رزق پا رہے ہیں۔

تو اس موقعہ پر سیدہ الخنساء کا ایمان نہایت اعلیٰ صورت میں نمایاں ہوا انہوں نے اپنا چہرہ نہیں پیٹا ، اپنے کپڑے نہیں پھاڑے اپنے سر کے بالوں پر راکھ نہیں ڈالی کیوں کہ اب ان کا تعلق زمانہ جاہلیت سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کٹ چکا تھا ۔ اب انہوں نے دین اسلام کا دامن اپنی خوشی سے تھاما تھا وہ کسی صورت ہاتھ سے نہیں چھوڑ سکتی تھیں وہ اپنے مومن ہونٹو کے ساتھ سچائی سے فرما رہی تھیں’’اس اﷲ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے مجھے ان تمام کی شہادت سے شرف بخشا مجھے امید ہے کہ میرا پر وردگار اپنی رحمت کے ساتھ جنت الفردوس میں مجھے ان کے ساتھ اکٹھا کرے گا‘‘ اور یہ ایمان کا عہد تھا جسے وہ کبھی توڑ نہیں سکتی تھیں۔ وہ زندگی بھر اپنے ایمان کی حفاظت کرتی رہیں ، اﷲ اور اس کے رسول پر راضی رہیں یہاں تک کہ24ہجری کو وہ اﷲ کریم سے جا ملیں اور اپنے شہید بیٹوں کے ساتھ جنت الفردوس کی باسی بن گئیں ۔سیدہ الخنساء رضی اﷲ عنہا ایمان کے ہر امتحان میں کامیاب رہیں اﷲ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے ۔ آمین ۔

Peer Owaisi Tabasum
About the Author: Peer Owaisi Tabasum Read More Articles by Peer Owaisi Tabasum: 85 Articles with 182710 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.