تحریر:ڈاکٹر محمد اکرام:لاہور
اپنے آپ کودنیا جہان سے زیادہ ذہین یعنی عقل کل سمجھنا،خود کو غیر معمولی
خیال کرناذہنی صحت کے لئے اچھا نہیں ہوتا ۔یہ بات درست ہے کہ ہم بہت سی
خوبیوں کے مالک ہوتے ہیں۔یہ بات بھی اٹل حقیقت ہے کہ ہماری شخصیت میں بہت
سی خامیاں بھی موجود ہوتی ہیں ۔بلا شبہ آپ میں ایسی کئی خوبیاں ہو سکتی ہیں
جو عام نہیں ہوتی ۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ سب کچھ سمجھتے ہیں
۔قارئین پچھلے 66سالوں سے پاکستان میں چند محصوص خاندانوں کی حکومت ہے ۔ان
میں کوئی خاندان بھی غریب نہیں سب کے سب سرمایہ دار ۔جاگیر داراور وڈیرے
ہیں ۔ آج تک جوبھی حکمران آیا چاہے وہ آمر ہو یا جمہوری ہو۔اس نے اپنے آپ
کوہی عقل کل تصور کیا ہے ۔موجودہ حکمرانو ں کی سوچ بھی کچھ ایسی ہی لگتی ہے
۔یہ خود کو بڑا تیس مار خان سمجھتے ہیں ۔اور دل ہی دل میں اپنے بارے میں
سوچتے رہتے ہیں کہ میں ڈاکٹر بھی ہوں اورنجومی بھی،میں عالم بھی ہوں اور
عامل بھی ،میں جو کہتا ہوں وہی سچ ہے ،باقی سب جھوٹ ہے ،جومیں کرتا ہوں وہی
ٹھیک ہے ،باقی سب غلط ہے ،میں جو جانتا ہوں وہی علم ہے،باقی کوئی علم نہیں
۔مجھے جو اچھا لگتا ہے وہی اچھا ہے ،باقی سب برا ہے ۔جو میں کرسکتا ہوں وہ
کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔یہاں مجھے ایک پنجابی فلم کاڈائیلاگ یاد آگیا ’’اک
جگا تے دوجی جگے دی منگ باقی سب چھان بورا ‘‘ اگرپاکستان کے حکمران ایسی
چھوٹی سوچ کے مالک نہ ہوتے توآج حالات کچھ اور پاکستانی قوم بھی چین کی طرح
ترقی یافتہ قوموں میں شمار ہوتی ۔آج ملک کے حالات پریشان کن ہیں لیکن
حکمرانوں کا کہنا ہے کہ ملک کے حالات بہت اچھے ہیں ۔کتنی عجیب بات ہے کہ
پاکستان کے حکمران دن بدن امیر سے امیر ہوتے جارہے ہیں اور پاکستان غریب سے
غریب تر ہوتا جارہا۔ آج اس حقیقت سے پاکستان کا بچہ بچہ واقف ہے کہ پاکستان
کی معاشی واقتصادی حالت دن بدن خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔لیکن
حکمرانوں کا کہنا ہے کہ حالات اتنے بھی خراب نہیں ہیں،جتنے پیش کیے جاتے
ہیں ۔جس طرح ہر تصویر کے دورخ ہوتے ہیں ۔اگر اسی تناظر میں حکمرانوں کے
بیانات کو دیکھا جائے تو ان کا کہنا کہ حالات اتنے بھی خراب نہیں ہیں جتنے
پیش کیے جاتے ہیں ۔دو سوفیصد سچ ہیں ۔کیونکہ حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں
کہ اب حالات کی خرابی کااندازہ لگانا ناممکن ہوچکا ہے تو پھرخرابی حالات کو
پوری طرح پیش اور بیان کیسے کیاجا سکتا ہے ۔اگر صرف پیٹرولیم مصنوعات کو
دیکھا جائے تو حکومت عوام سے روزانہ کرڑوں کما رہی ہے ۔پھر بھی حکومت غریب
ہے ۔لیکن میرے نزدیک سب سے زیادہ فکر کی بات یہ ہے کہ ہم کب تک آئی ایم ایف
سے قرض لیتے رہیں گے ۔ہم اپنی آنے والی نسلوں کوتو پہلے ہی بیچ چکے ہیں ۔
اب کیا ہے ہمارے پاس جسے ہم برائے فروخت کہہ سکیں ؟ اگر ہم ہرسال قرض لیتے
رہے تو اس لعنت سے ہماری جان کبھی نہیں چھوٹے گی ۔ ایک طرف سودی قرض
کاسیلاب اوردوسری طرف دیکھیں تو ابھی ہم پچھلے سال آنے والے سیلاب سے پیدا
شدہ مشکلات سے نہیں نکل سکے اور ہر سال کی طرح اس سال بھی ہم سیلاب آنے کا
انتظار ہی کریں گے ۔آنے والے ممکنہ سیلاب سے بچنے کی کوئی کوشش نہیں کی جا
رہی ۔کوئی ڈیم نہیں بنائے جارہے جن میں سیلابی پانی کو محفوظ کر کے نہ صرف
جانی اور مالی نقصان سے بچاجاسکتا ہے بلکہ اسی پانی سے بجلی کی پیداوار
بڑائی جا سکتی ہے ا ۔ماہرین کا کہنا ہے اس سال پہاڑوں پر زیادہ برفباری
ہونے کی وجہ سے سیلاب بھی زیادہ شدید ہوسکتے ہیں ۔لیکن نہ صرف حکمرانوں
بلکہ ساری قوم کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ ہم کوئی ایسا انتظام کرنے
کی کوشش کریں جس سے نہ صرف آنے والے سیلاب کو آبادیوں میں داخل ہونے سے
روکا جا سکے بلکہ سیلاب کے پانی کو محفوظ کر کے اس سے فوائد حاصل کیے جائیں
۔محترم قارائین مجھے لگتا ہے کہ یہ سخت فیصلے ہمیں بحیثیت قوم خود کرنے
پڑیں گے کیونکہ حکمرانوں کے پاس ایسے فضول کاموں کے لیے فرصت نہیں لگتی ۔ |