حامد میر پر حملے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پورا
میڈیا یک زبان ہو کے اس بزدلانہ حملے کی مذمت اوراس مرتکب ملزمان کی
گرفتاری کا مطالبہ کرتاصحافت کے نام نہاد چوہدری جو نجانے کس زعم میں مبتلا
تھے کہ کل تک کا انتظار کیے بنا اسی روز ہی: روواں یاراں نو لے لے ناں
بھرانواں دا :کے مصداق یک دم اپنی توپووں کے رخ جیو چینل کے خلاف کر لیے،
یہ لوگ جو اپنی ہر کوشش اور نرالی منطق کے باوجود نہ جیو کی ریٹنگ کم کر
سکے نہ اس کے کسی ایک بھی پروگرام کا مقابلہ کر سکے اس جیسی انٹر ٹینمنٹ
اپنے ناظرین کو فراہم کر سکے نہ اس جیسی جرات و بہادری کا مظاہرہ کر سکے یہ
وہ لوگ ہیں جو نجانے کب سے ادھار کھائے بیٹھے تھے اور ان کو اپنی خباثت اور
کمینگی ظاہر کرنے کا کوئی موقع نہیں مل رہا تھااس موقع کوغنیمت جانتے ہوئے
میدان جہالت میں اتر آئے یہ سوچے بنا کہ دیکھنے والے ان کی شکلیں دیکھ دیکھ
کہ کیا محسوس کر رہے ہیں اور حیرت تو اس بات پہ ہوئی کہ اس میدان بھاشن میں
وہ لوگ بھی ڈنڈ بیٹھکیں نکالنے لگے جو کل تک اپنے آقاؤں کے سودے بازی اور
ساز باز کرتے پوری قوم نے دیکھے،مگر ڈھٹائی کا عالم دیکھیے کہ بجائے کسی
بھی پشیمانی اور شرمندگی کے ایک نئے چینل پہ جا کے تبلیغ کرنے جا بیٹھے،ان
کا تو غیرت و حمیت سے دور پرے کا واسطہ نہیں ،حیا ان کو اپنے چینل پہ
بٹھانے والوں کو بھی نہ آئی ،کوئی پوچھے بھلا کہ جناب نو سو چوہے کھا کہ آپ
کو تو حج پہ جانا چاہیے تھا مگر آپ دبئی والے سونے کے تاجروں کے چرنوں میں
بیٹھ گئے،میں جیو کا وکیل ہوں نہ بے جا حمایتی مگر بات اصول اور اور دلیل
سے ہونی چاہیے،مانا کہ جیونے جذباتی ٹرانسمیشن پیش کی اور کسی کی بھی تصویر
لگا کہ بریکنگ نیوز نہیں چلانی چاہیے مگر اس سے حامد میر پہ حملے کی سنگینی
کیسے ختم ہو گئی،مانا کہ بڑے ادارے کے اہل خانہ کو پریشانی کا سامنا کرنا
پڑا تو میرا سوال صرف اتنا ہے کہ کیا حامد میر کے گھر والوں کے دل کا بھی
کسی نے خیال کیا اس کے معصوم بچوں اور اہلیہ پہ کیا گذری کسی نے سوچنے کی
زحمت گوارا کی،اور کسی کو بھی اسے انا کا مسئلہ بنانے کی بجائے صرف اتنی
مہربانی کرنا چاہیے تھی کہ بے پناہ وسائل میں سے صرف تھوڑے سے صرف کر کے
حامد میر پہ حملہ کرنے والوں کو سامنے لے آیا جاتا اوعر جیو کو کہا جاتا کہ
اصل مجرم یہ ہیں پھر جیومعافی نہ مانگتا تو ضرور قابل تعزیر ٹھرایا جاتا
مگر یہ کیا اصل ایشو نجانے کدھر گیا اور بھانت بھانت کی بولیاں بولتے
زرخرید پارساؤں کی فوج ظفر موج نے اسکرینوں کا محاظ سنبھال کے جیو کو
سنگینوں کی نوک پہ رکھ لیا،میں لال ٹوپی والے مسخرے ،ایک پراپرٹی ڈیلر کے
ملازم اور ایک بے وقوف کان کی بات نہیں کروں گا کہ قوم بڑی اچھی جج اور
منصف ہے میں ان دیگر دوستوں کے رویے پہ حیران ہوں جو اپنی تحریروں اور
تقریروں میں دوسروں کو تحمل اور برداشت کا سبق دیتے ہیں مگر موقع ملتے ہی
نجانے وہ ساری وضع داری واعظ و نصیحت کے انبار کدھر گئے،اب آئے دوسری طرف
کہ ایک مارننگ شو میں کیا ہوا،تو اس کے لیے اتنی گذارش ہے جناب جو ہوا بہت
ہی غلط ہو ا بالکل نہیں ہونا چاہیے تھا،نہ ایسے کسی پروگرام کی اجازت دی جا
سکتی ہے،مگر ایک غلط دوسرے کے لیے صحیح کیسے ہو سکتا ہے،وہی قصیدہ دیگر
متعدد چینلز پر تقریباًاسی اندازمیں پیش کیا گیا مگر کسی نے ایک لفظ تک
نہیں کہا،جس نے یہ لکھا جس نے گایا اس کے بارے میں ایک لفظ تک نہیں کہا گیا
،ہر گھر میں ہر شادی پہ گایا جا رہا ہے مگر کسی کو اعتراض نہیں اعتراض اٹھا
تو جیو پہ ،میں ہر گزہر گز اس شو کی حمایت نہیں کر رہا میری گذارش ہے کہ
مقدس ہستیوں جن کا تعلق ہمارے ایمان سے ہے خدارا ان کو اس میڈیا اور اس قسم
کے شوز سے دور ہی رکھا جائے،یہ غلط ہے جیو سمیت جس بھی چینل سے پیش کیا جئے
جرم بھی ایک جیسا اور سزا بھی ایک جیسی ہونی چاہیے،اگر سکی کو مو قع ملے تو
دو دن قبل کی قومی اسمبلی کی کاروائی کی وڈیونکلوا کے دیکھ لے جب اسپیکر
صاحب ایک مقرر کو بار بار یاد دلا رہے ہیں کہ جناب خاموش ہو جائیے اذان ہو
رہی ہے نماز کا وقت ہو رہا ہے نماز کے بعد آپ کا واعظ سن لیتے ہیں مگر مقرر
جن کا نام فاروق ستار ہے اور تعلق ایم کیو ایم سے ہے جی ہاں ایم کیو ایم جن
کا نام سن کے ہی جیب میں فتوے ڈالے پھرنے والوں کی سٹی گم ہو جاتی ہے،ایک
لفظ تک نہیں بولے،یہ ساری کاروائی اذان کی آواز فاروق ستار کا بار بار
بولنے کی کوشش اور اسپیکر کا بار بار روکنا ٹوکنا سارا کچھ سوشل میڈیا پر
موجود ہے کسی کو ضرورت ہو تو مہیا کیا جس سکتا ہے مگر حیرت ہے کہ اس پہ بھی
کوئی ایک لفظ تک نہیں بولا میں آج تک اس انتظار میں ہوں کہ کہیں سے شاید اس
کی مذمت آجائے ،اور آپ یقین کریں یہ حرکت اگر جیو یا اس کے کسی اینکر سے
سرزد ہوتی تو وہ طوفان اٹھتا کہ الامان والحفیظ،مگر یہ دو رنگی کیوں کیا یہ
کھلی منافقت نہیں ،کوئی خان ہو یا کمانڈو جیکٹ اور سر پہ لال ٹوپی والا
بہروپیا،منافقت ایک دن بے نقاب ہو کے رہتی ہے، کسی نے فنڈز اکٹھے کرنے ہوں
گھنٹوں ذاتی پروجیکشن چاہیے ہو تو جیو محب وطن اور روزنامہ جنگ بھی قبول
اور ان کیصحافی مجاہد ،مگر انہی مجاہدوں کی طرف کوئی ایسی حق بات آجائے جو
جناب کے مفادات سے ٹکرائے تو غدار غدار کاواویلا واہ جی کیا دیانتداری
ہے،یقین آج اپنے ملک کی جو حالت ہے وہ اسی منافقت اور دورنگی کی وجہ سے ہے،
اگر کسی نے غلطی کی ہے تو اسے سزا ملے نہ کہ ایک شہر میں اگر کوئی غلط کام
کرے تو پوری بستی کو جلا کے راکھ کر دیا جائے یہ ہر گز قرین انصاف نہیں ،ہر
گلی مین درج ہوتی ایف آئی آر زکیا مذاق نہیں بن گئیں،کیا مقصد ہے جب ایک
ایف آئی درج ہو گئی تو اسی کو آگے بڑھنے دیں معاملہ عدالت میں جائے گا دودھ
کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا ،جس کا جی چاہتا ہے لیکسن ٹوبیکو اور
کیش اینڈ کیری والے کیمرہ مینوں کو ساتھ لے کر ایف آئی آر درج کروانے پہنچ
جاتا ہے،یہ تو ریاست کاکام تھا عدالت کا کام تھا جو کم سنوں نے اپنے ناتواں
کندھوں پہ اٹھا لیا،اس سارے معاملے میں حامد میر حملہ کیس نجانے کہاں دب
گیا مگر فکر نہ کریں ہم کسی بھی صورت کسی ایسی بندش کو قبول نہیں کریں گے
جس سے ذاتیات کی بو آ تی ہو،ہم کل بھی حامد میرت کے ساتھ تھے اور آج بھی اس
کے ساتھ کھڑے ہیں،رہی بات جنگ اور جیو کی تو اس کی خدمات کسی سے بھی ڈھکی
چھپی نہیں،جیو ہی ہے جس نے صحافت کو ایک نیا رنگ ڈھنگ اور انداز دیا یہ جیو
ہی ہے جس نے ہر سرد گرم موسم میں سب سے پہلے عوام کو باخبر رکھا بعد میں
آنیوالوں کی خدمات کا بھی اعتراف ہے بحرحال پراکٹر جیو ہی ہے،جو بعد میں
آئے ہیں وہ اس مقام تک پہنچنے کے لیے حسد کی بجائے محنت کریں کامیابی
انشااﷲ ان کا بھی مقدر ہو گی مگر یہ چلن بالکل بھی درست نہیں کہ کسی کو
خوشحال پھلتا پھولتا اور آگے بڑھتا دیکھ کر یہ دعا کرنے کی بجائے یہ کہ ا ﷲ
رب العزت مجھے بھی اس جیسا بنا دے یہ دعا ہر گز مناسب نہیں کہ اﷲ اسے بھی
آپ جیسا کر دے- |