پنجابی پاکستان کا سب سے خوش قسمت قوم

پنجابی قوم پاکستان کا سب سے خوش قسمت قوم ہے ۔ جو پاکستان کے موجودہ دگرگوں حالات میں بھی بلا خوف وخطر اپنے صوبے کے کسی بھی کونے میں آ اور جا سکتے ہیں ۔ ان کو حکمران بھی ایسے ملے ہیں جو صرف اور صرف انہی کا سوچتے ہیں ۔ میرے خیال میں پنجاب وہ واحد صوبہ ہے ۔ جہاں پر ایک ریڑھی والے سے لیکر سرمایہ دار اور سیاستدان بھی سکون محسوس کر رہا ہے ۔ اور جو لوگ پنجاب کے حالات کا رونا رو کر نہیں تھکتے ۔ان کے اپنے کچھ سیاسی عزائم ہونگے ۔اس لئے ۔ ورنہ مجھے پنجاب میں سات سال کا عرصہ ہو گیا ۔ جتنا سکون میں یہاں محسوس کر رہا ہوں ۔ مجھے اپنے علاقے میں بھی نہیں محسوس ہورہا ۔ بلا شبہ میرا صوبہ کے پی کے باقی صوبوں کی نسبت زیادہ خوبصورت پر فضا ء ہے ۔ لیکن وہاں کے موجودہ حالات کی وجہ سے میرا وہاں دم گھٹ رہا ہے ۔۔ پنجاب مجھے کیوں پسند ہے ۔اس بارے میں میرے ہموطن ناک بھوں چھڑائیں گے ۔میرے بارے میں طرح طرح کے سیاپے باندھیں گے لیکن جو میرے دل میں ہے وہ میں چپھا کر نہیں رکھ سکتا ۔ پنجابی قوم ایک عظیم قوم ہے ۔ ان کی ایک کمال یہ ہے ۔ کہ یہاں ہر بندہ اپنے کام سے کام رکھتا ہے ۔ کوئی کچھ بھی کرے وہ اس کا اپنا فعل ہوتا ہے ۔ کوئی دوسرا بندہ اس کو طعنہ نہیں دے سکتا ۔ لیکن اس کے برعکس میرے علاقے کا رواج بالکل مختلف ہے ۔ وہاں پر عورت گھر سے بغیر پردے کے نہیں نکل سکتی ۔ عورت صرف گھر کی چاردیواری تک محدود رہتی ہے ۔ باہر بغیر محرم مرد کے اکیلے اپنے گاؤں میں میکے تک بھی نہیں جا سکتی۔ اور اگر گھر میں کوئی مرد نہ ہو ۔ تو کوئی بچہ ہی اس کے ساتھ جا ئے گا ۔ لیکن اکیلے وہ گھر سے باہر قدم نہیں رکھ سکتی ۔ لیکن پنجاب میں عورت پر اس قسم کی کوئی پابندی نہیں ۔ اور میرے خیال میں یہ اس کا ایک حق بھی ہے ۔ لیکن مجھے پھر بھی اپنے رواج پر ناز بھی ہے اور غرور بھی۔ پنجابی قوم ہمیشہ ذات برادر ی کی بنیا د پر سیاست کرتا ہے ۔ اور اس لیے ہمیشہ یہاں پر ایک ہی سیاسی پارٹی بار بار اقتدار میں آتی ہے ۔ اور ان کے قسمتوں کے فیصلے کرتے ہیں ۔ جبکہ ہمارے ہاں کے پی کے میں ہر دفعہ کوئی نیا سرکسی مداری کسی نئی آئٹم کے ساتھ آتاہے اور غریب پختون کے ہاتھ پر اقتدار کے مزے لیکر غریب سے امیر تر بن کر چلا جاتا ہے ۔ لیکن پختون قوم اسی طرح غریب رہ جاتا ہے ۔ آپ ١٩٨٨ کے انتخابات سے لیکر ٢٠١٣ کے انتخابات تک سب پر نظر ڈالیں تو یہاں پر ہر دفعہ پختون قوم نے ایک نیا سیاسی مداری تلاش کرکے مسند اقتدار پر بٹھا یا ہے ۔لیکن اس نے اس قوم کے حالات بدلنے کی بجائے اس قوم کو مزید پستی کی طرف دھکیل دیا ہے ۔ آج کے حالات کو دیکھ لیں ۔ کے پی کے واحد صوبہ ہے جہاں پر ایک ریڑھی والے سے لیکر ایک سیاستدان تک ڈر ڈر کر زندگی گزار رہا ہے ۔ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو پشاور کا ڈبگری گارڈن جہاں پر پشاور کے نامی گرامی ڈاکٹر حضرات شام کو کلینک پر مریض دیکھتے ہیں ۔ کوئی بھی کلینک ایسا ہو ۔جہاں پر ڈاکٹر بیٹھ کر مریض دیکھ رہا ہو ۔ اور اس کے کلینک کے باہر مسلح سیکورٹی موجود نہ ہو ۔ کچھ دن پہلے مجھے ایک رشتہ دار ڈاکٹر کو ایک مریض چیک کرانے پشاور ڈبگری گارڈن جانے کا اتفاق ہو ا ۔ میں جب کلینک پہنچا تو ڈاکٹر کو آنے میں بھی تھوڑی سا دیر تھی ۔ میں اپنے دوست کے گپ شپ میں باہر کھڑا ڈبگری گارڈن کا نظارہ کر رہا تھا ۔ کہ اتنے میں میرا رشتہ دار ڈاکٹر گاڑی میں سے کلینک کے گیٹ کے بالکل قریب اتر کر کلینک میں داخل ہوا ۔ علیک سلیک تو دور سے ہو ہی گیا ۔ لیکن اس ڈاکٹر کے اسکوارڈ میں موجود سیکورٹی نے میرا تلاشی لے کر کلینک میں جانے کو کہا ۔ میں سوچ رہا تھا ۔ کہ یار واقعی پشاور اورکے پی کے میں تبدیلی آچکی ہے ۔ یہ وہ تبدیلی ہے جو آج سے پندرہ سال پہلے میں سروس کے سلسلے میں پشاور میں ہو تا تھا ۔ تو رار کے کسی بھی پہر بلا خوف وخطر آزادانہ گھو م پھر سکتا تھا ۔ جو لو گ پنجاب میں بیٹھ کر کے پی کے کے عوام کو خوش قسمت کہتے ہیں ۔وہ ذرا وہاں جاکر زمینی حقائق تو معلوم کرے ۔ وہاں تو وزیر اعلیٰ جیسا فل پاور اتھارٹی بھی ہر وقت خوف کے سائے میں جی رہا ہے ، آپ اندازہ لگا لیں ۔ کہ جب ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ بمعہ دو تین وزیروں کے پنجاب میں بغیر پروٹوکول کے آزادانہ گھو م سکتا ہے ۔ تو اس سے اور زیادہ خوش قسمتی ہو سکتی ہے ۔ اور اگر یہ لو گ پنجاب پولیس کا طعنہ پنجاب کے حکمرانوں کو دے رہا ہے ۔ کہ اس نےہم سے نزرانہ یا لنگر کا خرچہ طلب کیا ۔ تو یہ کو نسی نئ بات ہے ۔ میں آپ کو مرد مانوں گا کہ آپ بغیر پروٹوکول کے کے پی کے میں اس طرح پولیس ناکے پر جائیں ۔ تو لگ پتہ جائے گا ۔ یہ کے پی کے کے حکمران یہ رٹا لگا کر نہیں تھکتے کہ ہم نے پولیس کو غیر سیاسی کر دیا ہے ۔ ہم نے آن لائن ایف آئ آر سسٹم شروع کیا ہے ۔ تو یہ سب کرنے والی باتیں ہیں ،آپ کسی پولیس اسٹیشن میں جائیں تو سہی ۔ پھر دیکھیں وہاں آپکی کیا درگت ہو تی ہے ۔ بشرط یہ کہ آپ سیاستدان یا وزیر مشیر نہ ہو ں ۔ ایک عام آدمی ہو۔ ایک واقعہ اور قارئین کی نذر کرتا ہے ۔ میں ایک مہینہ پہلے گھر سے یہ کہہ کر نکل رہا تھا ۔کہ صوابی جاکر ڈرائیونگ لائسنس بنا تا ہوں ۔ میرا ایک بتھیجہ جو اس پی ٹی آئ کا ایک شیدائ ورکر ہے ۔نے مجھے ایسے سنہرے خواب دکھائے ۔کہ میں صوابی جاتے ہوئے اپنے ساتھ سوچ رہا تھا ۔ کہ میں جب ٹریفک پولیس صوابی کے لائیسنس برانچ میں جاؤنگا تو ہر بندہ مجھے جھک کے ملے گا ۔ وہ پرانے والا رشوت کا سسٹم ختم ہوا ہوگا ۔ صاف ستھرا اسٹاف میر ا کام فوراِِ کرکے مجھے فارغ کردے گا ۔ اور میں آسانی کے ساتھ اپنا ڈرائیونگ لائیسنس بنا کر آجاؤنگا۔ میں کچہری میں گیا لائیسنس فارم لیا ۔فل کرکے اس اوتھ کمشنر نے صوابی ہسپتال سے میڈیکل کرانے کا کہا ۔ میں صوابی ہسپتال اس خیال کے ساتھ چل پڑا کہ وہاں پر اب میڈیکل ہو گا ۔ میرے نظر کا معائینہ ہو گا ۔ بلڈ ٹیسٹ ہوگا ۔ شوگر ٹیسٹ ہو گا ۔ جو ایک ڈرائیور کے لئے لازم چیزیں ہیں ۔ لیکن میں حسب توقع جب ہسپتال پہنچا ۔ تو ہسپتا ل کے ایم ایس کے دفتر کے سامنے ایک ہٹے کٹے پہلوان نما کلا س فور سے سامنا ہو ا ۔ میں نے معلوما ت کے لئے اس سے پوچھا لالا ۔یہ میڈیکل کہاں ہوتا ہے ۔ اس نے بڑے اعتماد کے ساتھ بولا ،،میں کرتا ہوں ۔ لیکن ایک صد پچاس ١٥٠ روپئ خرچہ ہو گا ۔ میں نے بولا ہاں دے دونگا ۔لیکن وقت کتنا لگے گا ۔ اس نے بولا بس یہ گیا اور یہ آیا ۔ آپ اس کرسی پر بھیٹیں ۔مٰیں ابھی آیا ۔ میں کرسی پر بھیٹا اس کشمکس میں مبتلا ہوں ۔کہ ابھی مجھے اندر بلا ئے گا ۔ ٹیسٹ ہونگے ۔ پوچھ گچھ ہوگی ۔ لیکن وہ پہلوان لا لا ایک دفتر میں گھس گیا اس سے فورانکلا دوسرے میں گھس گیا اس سے بھی فورا نکل کر اپنے دفتر جس کے سامنےمیں اس کی کرسی پر بھیٹا تھا ۔ گھستے ہوئے مجھے اشارے سے بلایا ۔میں بھی اندر گیا تو اس پہلوان نما کلا س فور نے پہلے ایک جیب میں ہاتھ ڈالا۔اس میں سے ایک مہر نکال کر دیکھا ۔وہ پھر جیب میں رکھ کر دوسرے جیب سے ایک مہر نکال کر میرے اس فارم پر لگاکر مجھے تمھایا ۔اور پیسے ١٥٠ روپئ طلب کئے جو میں نے فوراِِ ادا کردئے ۔ میں نے اس پہلوان سے پوچھا ۔ لا لا ہو گیا ۔ ہاں ہو گیا ،، اس نے جواب دیا ۔ میں نے جب اس فارم کو پڑھا تو میرا ہر چیز بالکل ٹھیک ٹھاک تھا حتیٰ کہ نظر بھی ٦ بائ ٦ تھا ۔ میرے منہ سے بے اختیار نکلا ،واقعی تبدیلی آچکی ہے ۔ میں نے فورا اپنے بتھیجے کو فون ملایا ۔ میں نے اس کو بولا محمود ! واقعی تبدیلی آچکی ہے ۔ اس نے بھی بڑے فخر سے جواب دیا دیکھا کاجی میں نے کہا نہیں تھا ۔ یہ اب وہ کے پی کے نہیں ۔یہ خان کا کارنامہ ہے ۔ میں اپنے گاؤں کی گاڑی میں بھیٹ کر ایک آدمی نے کرائے کے موضوع پر بحث چھیڑ دی ۔ تو میں نے بھی اس کے ہاں میں ہاں ملا کر اس سے کے پی کے دفتروں میں عوامی خواری کے بارے میں پوچھا تو اس نے ایک عجیب بات کہی ۔ کہ سابقہ حکومت میں اگر کو ئ رشوت لیتا اور آپ اس کو کہتے کہ میں اوپر آپ کا شکایت لگا دونگا ۔تو وہ ڈر جاتا لیکن اگر اب کسی کو اس قسم کی دھمکی دے ۔تو اس کا سادہ سا جواب ہو تاہے ۔ جاؤ جس کو کہہ سکتے ہو۔ کہو ۔ تو میرے کہنے کا مطلب یہ ہے ۔ کہ جو لوگ پنجاب کو چوری ڈاکے یا اغواء برائے تاوان کی وجہ سے خراب کہہ رہے ہیں ۔ وہ غلطی پر ہیں ۔ اللہ کے بندو تم لو گ اپنے شہر کے بازار میں بلا کسی خوف کے آزادانہ گھوم سکتےہوں ۔ ہمارے پختون تو آزادی کی اس نعمت سے بھی محروم ہیں ۔ پنجابی عوام دو رکعت نفل شکرانہ ادا کریں ۔کہ پنجاب کے حکمران پی ٹی آئ والے نہیں ۔ ورنہ آپ کے قسمتوں کے فیصلے جہانگیر ترین اور شیریں مزاری جیسے لو گوں کے ہاتھوں میں ہوتے ۔ آج آپ لو گوں کے پاس رونے کے سوا کچھ نہ ہوتا ۔
syed abubakar ali shah
About the Author: syed abubakar ali shah Read More Articles by syed abubakar ali shah: 28 Articles with 23072 views 36 years old men .graduate and civil employer .write articles for hamariweb for learning in journalism... View More