آمریت کو ایک اور شہ مات

ایک اور تاج شاہی دھول میں اٹے پیروں کی زد میں آگیا۔ایک اور کج کلاہ کو تاریخ کے کوڑے دان کا راستہ دکھا دیا گیا اور ایک اور امریکی استعمار کا نمائندہ خاک بسر ہوا ۔اس بار غلاموں کی بغاوت کا مرکز نیپال بنا جہاں الم نصیبوںنے سطوت شاہی کو دھول چاٹنے پر مجبور کردیا۔مطلق العنانیت اور جمہوریت کے درمیان جاری دہائیوں پر محیط جنگ کے فاتح نے فتح کے بعدپہلا فرمان جاری کیا ہے کہ ’’ نیپال کی سرزمین بادشاہ کو قبول کرنے سے انکار کرچکی ہے۔ہم اسے محفوظ راستہ دینے کو تیار ہیں۔وہ ایک ماہ کے اندر شاہی محل کو خالی کردے ورنہ اپنے انجام کیلئے تیار رہے‘‘۔یہ فرمان جاری کرنے والا 54سالہ سابق سکول ٹیچر پشپا کمل داہل پراچندا ہے جو ماؤ نواز کیمونسٹ پارٹی آف نیپال کا سربراہ ہے اور جو کل تک ایک خطرناک دہشت گرد کے طور پر بادشاہ اور حکومت کو مطلوب تھا۔

نیپالی انتخابات میں فیصلہ کن کامیابی حاصل کرنے والی جماعت ماؤ نواز کمیونسٹ پارٹی آف نیپال کو عوام نے ملک کے تمام تر ڈھانچے کو ازسر نو استوار کرنے کا مینڈیٹ دیا ہے۔اس کی کامیابی اس کے اس ایجنڈے کی مرہون منت ہے جس میں ملک کو سیکولر تشخص کا حامل آئین دینے۔جاگیر داری کا خاتمہ کرنے۔ ملک کے برائے نام صنعتی و تجارتی ڈھانچے میں بہتری لانے اور اسے غیر ملکی دباؤ سے آزاد کرنے، مذہبی اقلیتوں خصوصاً دلتوں کی سماجی حالت بہتر بنانے،عورتوں کے حقوق کی پاسداری کرنے اور بچوں کی شادی جیسی جاہلانہ رسموں کا خاتمہ کرنے جیسے بنیادی معاملات شامل ہیں۔

نیپال کے حالیہ انتخابات کو پاکستان میں ہونے والے اٹھارہ فروری کے انتخابات کا عکس قرار دیا جاسکتا ہے۔پاکستانی عوام کی طرح صدیوں سے نیم انسانی زندگی گزارنے والے نیپالیوں کو بھی ایک اٹل فیصلہ کرنا تھا کہ انہیں آزاد انسانوں کی طرح زندہ رہنا ہے یا نہیں۔ غلاموں پر ایک وقت آتا ہے جب انہیں خوف کی زنجیریں توڑ کر اپنے آقاؤں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا پڑتی ہیں اور جب وہ وقت آتا ہے تو دمادم مست قلندر ہوتا اور تاج شاہی گلیوں میں بچوں کے کھیلنے کی چیز بن جاتا ہے۔یہ دس اپریل کا دن تھا جب نیپالی عوام ’’اٹھارہ فروری‘‘ کے موڈ میں آگئے اور انہوں نے نہایت واشگاف انداز میں فیصلہ کرلیا کہ استعمار کا پروردہ دور شاہی تمام ہوا اب اگر راج کرے گی تو صرف خلق خدا۔

نیپال کے عام انتخابات میں ماؤ نواز کمیونسٹ پارٹی آف نیپال کو دستور ساز اسمبلی میں حاصل ہونے والی فیصلہ کن برتری دراصل بارہ برس پر محیط کسانوں کی اس طویل بغاوت کا منطقی انجام ہے جسے کچلنے کیلئے بادشاہ ،فوج اور اسٹیبلشمنٹ نے بربریت کی ہر انتہا کو چھو لیا تھا۔نیپال کو 240 سالہ بادشاہت نے شدید طبقاتی تضادات اور سماجی بحرانوں کی آماجگاہ بنا رکھا تھا۔بادشاہ کی طاقت کا مرکز جاگیر دار اور ہندو برہمن طبقہ تھا۔فوج اور افسر شاہی پر مشتمل اسٹیبلشمنٹ پر بھی انہی طبقوں کا غلبہ تھا۔ابھی کل تک سیاست کی چرا گاہ میں بھی انہی بالادستوں کے گھوڑے چرا کرتے تھے۔دولت مند ہندو بنئے کی سانجھے داری میںنیپال کے نوے فیصد وسائل پراسی ٹولے کا قبضہ ہے۔ان سے کہیں دور پرے عوام کا نیپال ہے جوبدترین غربت کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔حکمران ٹولے کے جاری کردہ اعدادوشمار کتنے معتبر ہوتے ہیں ،ہم سے زیادہ کون جان سکتا ہے۔سو ان کے مطابق نیپال میں 35 فیصد لوگ خط غربت کے نیچے بسر کررہے ہیں۔ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں جن کی آمدنی کا 75 فیصد حصہ صرف دال روٹی پورا کرنے پر خرچ ہوجاتا ہے۔نیپال میں شاہی لوٹ مار اور عوام کے مسائل سے لاتعلقی کا اندازہ لگانا ہو توکھٹمنڈو کی تنگ و تاریک گلیوں کا ایک چکر لگانا کافی ہے۔کٹھمنڈو جودارالحکومت ہی نہیں نیپال کا واحد باقاعدہ شہر بھی ہے اور جہاں ملک کی تمام تر خوشحالی جلوہ گر ہے لیکن اس خوشحالی کی صورت یوں ہے جیسے کوڑے کے ڈھیر پر چاندی کے ورق چڑھا دئیے گئے ہوں۔باقی کا تمام تر ملک دیہی معاشرے پر مشتمل ہے۔بدترین جاگیر داری اور بنیا شاہی نے نیپال کی دیہی آبادی کو زندہ در گور کررکھا ہے۔گوتم سدھارتھ نے نیپال کی ترائیوں میں واقع کپل وستو میں جنم لیا تھا۔یہ وہی تھا جس نے آریا ورت کی بدترین ذات پات کیخلاف بغاوت کی تھی لیکن یہ مکروہ نظام اپنی بدترین صورت میں اگر کہیں موجود ہے تو وہ نیپال کے دیہات ہیں۔جہاں زرعی معیشت میں ایک عام کسان کی یہ حالت ہوکہ اس کیلئے خوشحالی اور انسانی ترقی تصور سے باہر کی چیز ہو وہاں نیپال کے دلتوں کی کیا حالت ہوگی اس کا انازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔واضح رہے کہ دلت پورے ملک کی آبادی کا بیس فیصد سے زیادہ بنتے ہیں۔ان دلتوں کیلئے وہی کڑے ضابطے ہیں جو منو شاستر میں تحریر کئے گئے ہیں اور جن پر عمل کرنا ایک سچے برہمن کا دھرم ہے۔پارلیمنٹ میں سیاسی نمائندگی تو خیر بڑی بات ہے اگر انہیں پینے کیلئے پانی، تعلیم کیلئے سکول اور عبادت کیلئے مندر ہی میسر آجائیں توان کیلئے بہت ہے۔

جوالا مکھی کبھی تو پھوٹنا تھا سو پہلی بار 1990 میں پھوٹا جب شاہ اور شاہی کارندوں کے خلاف کسانوں کی بغاوتوں نے تخت شاہی کو ہلا کر رکھ دیا۔ان بغاوتوں کی قیادت ماؤ نوازوں کے ہاتھ رہی۔ان کے نتیجے میں پہلی بار شاہ بریندرا مجبور ہوا کہ وہ پارلیمنٹ کو محدود اختیار سونپ دے لیکن یہ’’ گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے ‘‘کے مترادف تھا جو عوامی مزاحمت کی راہ نہ روک سکا۔ نوے کی دھائی میں کئی بار کھٹمنڈو کی سڑکیں احتجاجی عوام کے جوش غضب سے دھک اٹھیں۔ شاہ پرست فوج کے جانب سے طاقت کے استعمال کے بعد ماؤ نواز کمیونسٹ پارٹی کو مسلح جوجہد کرنا پڑی ۔نیپال کے حکمران ٹولے کو نیپالی کانگریس جیسے موقع پرست اور اونچی جاتی کے ہندوؤں کی نمائندہ جماعت کا تعاون تو خیر حاصل تھا لیکن اس کی طاقت کے اصل سرچشمے نئی دہلی اور واشنگٹن سے پھوٹتے تھے۔بھارت نے ہمشہ نیپال کو اپنی کالونی سمجھا۔اس نے نیپالی ا سٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر 1950 میں ایک بدنام تجارتی معاہدے کے ذریعے نیپال کو ایک باجگذار ریاست میں تبدیل کررکھا تھا جبکہ امریکہ کیلئے نیپال بھی پاکستان کی طرح سٹریٹیجک اہمیت کا حامل ملک تھا۔وہ اس کے ذریعے چین کو گھیرے میں لینے کی پالیسی کے علاوہ نیپال کے ہمسائے میں قدرتی وسائل سے مالا مال سینٹرل ایشیا پر بھی اپنی گرفت قائم رکھ سکتا تھا۔انہی وجوہات کی بنا پر نیپال کے حکمران ٹولے پر امریکہ کادست شفقت ہمیشہ سے دراز رہا ہے۔ بش انتظامیہ کی ماؤ نوازوں سے نفرت کا یہ عالم ہے کہ اس نے ماؤ نواز کمیونسٹ پارٹی کو دہشت گردقرار دیا تو وہ آج تک اس فہرست سے خارج نہیں کی گئی۔نیپال میں دس اپریل کو برپا ہونے والے ’’اٹھارہ فروری‘‘ نے جہاں بھارتی حکومت کے ہوش اڑائے ہیں وہیں امریکہ کی پریشانی بھی چھپائے نہیں چھپ رہی۔وال سٹریٹ جنرل نے اپنی تازہ اشاعت میں ان انتخابات کی قانونی حیثیت کو مشتبہ کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ وائٹ ہاؤس کا صدارتی ترجمان منقار زیر پر ہے۔

استبداد اور استعمار کے جبر تلے کچلے ہوئے معاشروں میں تبدیلی کا عمل کبھی بھی آسان ثابت نہیں ہوتا۔نیپال میں بھی جہاں عوام کے چہروں پر مسرت کی تمتما ہٹ ہے وہیں یہ خوف بھی ہے کہ بھارت اور امریکہ کی پشت پناہی سے شکست خوردہ بادشاہ گیانیندرا آخری دم تک مزاہمت کرے گا۔یہ درست کہ نیپال میں عوام نے ’’اٹھارہ فروری‘‘برپا کردیا لیکن’’اٹھاون ٹو بی‘‘ تو بہر حال اس کے پاس ہے۔اب دیکھنا یہ باقی ہے کہ نیپال میں ’’فتح مندی‘‘ انتخابی انقلاب کا مقدر بنتی ہے یا تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکے جانے والا بادشاہ سورج کے چہرے پر کالک پھیرنے میں کامیاب ہوتا ہے
sadaf sagar
About the Author: sadaf sagar Read More Articles by sadaf sagar: 10 Articles with 22881 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.