کرپشن اسکینڈلز ....اہم شخصیات کے گرد گھیرا تنگ

اسپیشل اینٹی کرپشن کورٹ نے ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان (ٹی ڈی اے پی) میں اربوں روپے کی کرپشن کیس میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور رکن قومی اسمبلی امین فہیم سمیت 7 ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں ۔ ایف آئی اے نے گرفتاری کے لیے ٹیمیں تشکیل دی جاچکی ہیں، جن میں ایک ٹیم ملتان، جبکہ دوسری ٹیم اندرون سندھ جائے گی اور ملزمان کو 17 جون تک گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جمعرات کے روز اینٹی کرپشن کورٹ کے جج محمد عظیم نے ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کیس کی سماعت کی، ایف آئی اے نے دونوں اعلیٰ سیاسی شخصیات کے خلاف چالان جمع کرایا جس میں دونوں کے 25 مقدمات میں ملوث ہونے کے واضح ثبوت بھی پیش کیے گئے ہیں اور دونوں اعلیٰ شخصیات کو 25 مقدمات میں ملزمان بنا کر پیش کردیا۔ تحقیقات کے بعد ملزمان کے خلاف ایف آئی اے کی جانب سے عدالت میں جمع کروائے گئے حتمی چالان میں یوسف رضا گیلانی اور ان کے فرنٹ مین فیصل صدیق، امین فہیم اور ان کے فرنٹ میں فرحان احمد جونیجو، محمد زبیر، میاں طارق، مہر رشید رئیسانی، انیس الحسنین اور عمران صابر کو مفرور قرار دیا ہے۔ذرائع کے مطابق ایف آئی اے نے یوسف رضا گیلانی اور امین فہیم پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے فرنٹ سبسڈی کی مد میں اربوں کی کرپشن کے الزامات عاید کیے، چالان کے مطابق فریٹ سبسڈی کی مد میں گزشتہ دور میں جاری کیے جانے والے اربوں کے فنڈز کاغذی ایکسپورٹ کمپنیوں کو جاری کیے گئے، بعد ازاں 80 فیصد رقم مختلف اکاﺅنٹس کے ذریعے کیش کراکے اعلیٰ افسران، سابق وزیراعظم اور سابق وفاقی وزیر کے منظور نظر افراد اور ان کی کمپنی کے اکاﺅنٹس میں منتقل کی گئی، عدالت کو بتایا گیا کہ فیصل صدیق شخص نے 2008 میں وزیراعظم جا کر 50لاکھ روپے کا چیک دیا جو محمد زبیر نے وصول کیا، اس طرح جعلی کمپنیوں کے نام پر ایکسپورٹ سبسڈی کی مد میں کروڑوں روپے وصول کیے گئے اور باقاعدہ کمیشن سابق وزیراعظم کے اکاﺅنٹ میں منتقل کیا گیا، امین فہیم نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے معطل سرکاری افسر فرحان جونیجو کو ٹداپ میں تعینات کرنے کے لیے حکومت سندھ کو حکم دیا اور نو ستمبر کو ڈائریکٹر مقرر کردیا، ملزم نے جعلی کمپنیوں کے مہرہارون رشید رئیسانی، میاں محمد طارق، انیس الحسنین و دیگر کے ساتھ سازباز کر کے سبسڈی کی مد میں کرورڑوں روپے حاصل کیے اور 5 کروڑ 87 لاکھ 52 ہزار 848 روپے کمیشن وفاقی وزیر کے منظور نظر افراد کے اکائنٹس میں منتقل کیے، سابق سی ای او ٹڈاپ جاوید اکبر نے 48 کمپنیوں کے لیے سبسڈی کلیم کی، جن میں 22 جعلی کمپنیاں تھیں، جبکہ جو رجسٹرڈ تھیں وہ بھی قواعد و ضوابط کے مطابق نہیں تھیں، اربوں روپے جعلی دستاویزات کے ذریعے خورد برد کیے۔

سابق وزیر اعظم گیلانی نے کہا ہے کہ حکومت اتنا ہی کرے جتنا وہ خود برداشت کرسکتی ہے۔ پاکستان میں کوئی بھی مقدمہ ان کے نام شامل کیے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتا۔ این آر او عملدرآمد کیس میں آٹھ ہزار سے زاید لوگ نامزد تھے، حالانکہ میں اِس (این آر او) سے مستفید ہونے والوں میں سے بھی نہیں تھا، پھر بھی میرا نام اس میں شامل کیا گیا۔ دوسری جانب قومی احتساب بیورو(نیب) راولپنڈی اسلام آبادمیںرینٹل پاورسمیت7میگاکرپشن مقدمات کی تحقیقات آخری مراحل میں داخل ہوگئی ہے۔اطلاعات کے مطابق گدو رینٹل منصوبے کا ریفرنس بھی تیار ہو چکا ہے اور سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف چوتھے ریفرنس میں بھی ملزم نامزد ہیں۔ نیب ذرائع کے مطابق نیب راولپنڈی اسلام آباد میں 77 شکایات کی تحقیقات کی جا ر ہی ہیں، 147 انکوائریاں آخری مراحل میں ہیں اور 49 انویسٹی گیشن کیسوں میں نیب افسران رپورٹ مرتب کر رہے ہیں۔ 125 تفتیشی افسران 267 مختلف شکایات، انکوائریاں اور انویسٹی گیشنز کو نمٹانے میں مصروف ہیں۔ نیب ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ کارکے کے ذمہ مارک اپ سمیت 128 ملین ڈالرز کی رقم واجب الادا ہے۔ انفرا سٹرکچر کی مد میں نقصان پہنچانے والے ذمہ داران سے 79.27 ملین کی ریکوری باقی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں کرپشن کرنا عام سی بات ہے۔ گزشتہ دنوں دنیا بھر میں حکومتوں کی کارکردگی میں شفافیت اور کرپشن کا جائزہ لینے والی عالمی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل (ٹی آئی) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ جنوبی ایشیا کا خطہ سب سے زیادہ بدعنوانی کا شکار ہے، جس میں حکومتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ کرپشن اور بدعنوانی کو روکنے والے اپنے اداروں کو مضبوط کریں اور ان اداروں کی کارکردگی میں سیاسی مداخلت کی دخل اندازی کو سختی سے روکنے کی کوشش کریں، رپورٹ میں سرفہرست چھ بدعنوان ملکوں میں پاکستان کو شامل کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان ممالک میں انسداد بدعنوانی کی کوششوں کی راہ میں بڑی سنگین رکاوٹیں حائل ہیں۔ یہاں اگرچہ انسداد کرپشن کے لیے باقاعدہ سرکاری ادارے قائم ہیں، مگر ان اداروں کے اندر بھی کرپشن داخل ہو چکی ہے، جس کی بڑی وجہ ان اداروں میں سیاسی مداخلت ہے، بااثر افراد بھی اپنی بدعنوانی کی بنا پر گرفت میں نہیں آتے۔ انسداد بدعنوانی کے افسروں کو بھی اپنی کارکردگی دکھانے کی پوری طرح آزادی حاصل نہیں ہے، ان اداروں میں تقرریاں سیاسی بنیادوں پر ہونے کے باعث بدعنوانی پر پوری طرح گرفت نہیں کی جا سکتی۔ حکومتوں میں اس عزم اور ہمت کا بھی فقدان ہے جو کرپشن پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرپشن کے انسداد کے لیے جو نیم دلی سے کوششیں کی جاتی ہیں، وہ موثر ثابت نہیں ہوتیں۔ گزشتہ سال بھی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے دعویٰ کیا تھا کہ دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان کے اداروں میں ساٹھ فیصد زیادہ کرپشن ہے، لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہاں بڑے لوگ کرپشن بچ نکلتے ہیں،اینٹی کرپشن ادارے تو قائم ہیں، لیکن کرپشن پر قابو نہیں پایا جاتا۔ حالانکہ بانی پاکستان محمد علی جناح نے تو 11 اگست 1947ءکی تقریر میں بڑے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ ”ہمارا سب سے بڑا مسئلہ رشوت اور کرپشن ہے، اسمبلی کو اس زہر کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات کرنے ہیں۔“

کرپشن ختم کرنے کے لیے ہمیں ان ملکوں کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے، جہاں کرپشن کے خلاف سخت نظام رائج ہے۔ بہت سے ملکوں میں جب کسی طاقتور اور اعلیٰ شخصیت کا بدعنوان ہونا ثابت ہو جاتا ہے تو اسے قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کرنے میں ایک لحظہ کی تاخیر بھی روا نہیں رکھی جاتی۔ دو ہفتے قبل ہی اسرائیلی عدالت نے سابق وزیراعظم ایہود اولمرٹ کو کرپشن کے الزام میں چھ سال قید کی سزا سنا ئی ہے۔ تل ابیب کی ڈسٹرکٹ عدالت کے جج ڈیوڈ روزن کا کہنا تھا کہ پبلک سرونٹ کا رشوت قبول کرنا غداری کے مترادف ہے۔ اسی طرح گزشتے ہفتے مصر میں لگ بھگ تیس سال تک مطلق العنان حکمران کے طور پر برسر اقتدار رہنے والے حسنی مبارک کو مصر کی عدالت نے کرپشن کے مقدمے میں تین سال قید کی سزا سنائی ہے۔ اسی مقدمے میں ان کے شریک مجرم بیٹوں جمال مبارک اور علا مبارک کو چار چار سال قید کی سزا سنائی گئی اور صرف ایک ہفتہ قبل ہی ایران میں کرپشن ثابت ہونے پر ایران میں ایک ارب پتی تاجر مہا فرید امیر خسروی اور اس کے 3 ساتھیوں کو سزائے موت سنائی گئی ہے، اگرچہ ملزمان نے حکومت سے رحم کی اپیل کی تھی، لیکن ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی جانب سے سزا کی توثیق کے بعد مہافرید کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ ایران دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے، جہاں کرپشن کی سزا موت ہے۔ دوست ملک چین میں تو کرپشن کی کوئی گنجائش نہیں ہے، چینی قانون کے مطابق ایک لاکھ سے زاید کی کرپشن کرنے والے کو سزائے موت دی جاتی ہے۔ وہاں تو کرپشن کے خاتمے کے لیے باقاعدہ حراستی نظام قائم ہے، 1990ءمیں متعارف کرایا جانے والے”شوآنگ گوئی“ نامی حراستی نظام کا مقصد ہی بدعنوان سرکاری اہلکاروں کو سزا دینا تھا، تاکہ رشوت ستانی اور کرپشن کے رحجان کو ختم کیا جا سکے، اس نظام کے تحت کسی بھی مشتبہ فرد یا ملزم کی حراست غیر معینہ عرصے تک جاری رہ سکتی ہے۔ چین میں بیجنگ کی عدالت سابق وزیر ریلوے Liu Zhijun کو اختیارات کے ناجائز استعمال اور کرپشن کا جرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنا چکی ہے اور کرپشن کے الزام میں دو سابق ڈپٹی میئرز کو بھی سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 638456 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.