مودی شریف ملاقات اور میڈیا کے حالات

شیخ شرف الدین سعدی شیرازیؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ کسی گاؤں میں ایک مولوی نے کسی بنیے سے رقم ادھار لے لی مولوی ادھار کی رقم اپنے وعدے کے مطابق ادا نہ کر سکا بنیا روزانہ اس کے گھر آ پہنچتا اور رقم مانگتا سو سو باتیں کرتا مگر مولوی بے بس تھا وہ سوائے خاموش رہنے کے کچھ نہ کر سکتا تھا ایک درویش کو اس معاملے کی خبر ہوئی تو مولوی سے کہنے لگا کہ جس طرح تم بنیے کی باتیں سنتے ہو اور حیلے بہانے سے ٹال جاتے ہو کاش کہ تم اپنی خواہشات کو بھی ٹال سکتے تو آج یہ ذلت برداشت نہ کرتے ۔

قارئین! یہ ضرب المثل یا محاورہ عام ہے کہ مقروض کی عزت نہیں ہوتی اور قرض دینے والا کسی بھی وقت مقروض کی بظاہر سر پر موجود پگڑی کو اچھال سکتا ہے عام حالات میں اگر معاشرے کے اندر ایک عام انسان کی یہ حالت ہو سکتی ہے تو تھوڑا بڑے کینوس پر جا کر اگر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ اقوام عالم میں بھی وہی قومیں عزت کی حقدار ٹھہرتی ہیں جو بھوکا رہنا تو گوارا کر لیتی ہیں لیکن قرض کے نام پر بھیک مانگ کر اپنے چند دن یا چند ماہ و سال چراغاں نہیں کرتیں بدقسمتی سے ہم اس ملک کے باشندے ہیں کہ جس کی قیادت نے آج تک اس وطن کی کرامت پر مبنی مختلف حقیقتوں کو آج تک نہ تو سمجھا اور نہ ہی سمجھنے کی کوشش کی اور بیسویں صدی کے اﷲ تعالیٰ کے مسلمانوں کو عطا کردہ ایک بہت بڑے تحفے کی ناقدری کرتے ہوئے اس کی عزت کروانے کی بجائے اس کی بے عزتی کا موجب بنے ہم اپنے ایمان کی روشنی میں یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان ایک بہت بڑے مقصد کے حصول کے لیے دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوا ہے چاہے وہ مقصد آپ بین الا تہذیبی تصادم کے بعد نشاۃ ثانیہ کی منزل ہو اور چاہے تنزلی کے تخریبی عمل سے گزرنے والے مسلمانوں کو دوبارہ عروج تک پہنچانے کا مقام ہو دنیا کے تمام ممالک میں پاکستان نے اہم ترین کردار ادا کرنا ہے بظاہر یہ بات پڑھ اور سن کر ہنسی آتی ہے کہ دنیا کی تمام قوموں اور ممالک میں جہالت کی گہرائیوں میں دفن پاکستان جسے عالمی رینکنگ میں تعلیم میں سیکنڈ لاسٹ نمبر ملا ہے بھلا کس طرح ایسا کردار ادا کر پائے گا جو ہم خوش امیدی کی شکل میں آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں تو اس خوش امیدی کی ایک وجہ ہم آپ کو بتاتے جائیں یہ بھی ہے کہ ہم راسخ العقیدہ مسلمان بے شک نہ سہی لیکن اﷲ اور اس کے بندوں سے دلی محبت اور عقیدت رکھتے ہیں اور ایسی درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں روحانی پیش گوئیاں موجود ہیں جو پاکستان کے مستقبل اور آنے والے دور میں پاکستان کے کردار اور انقلاب زمانہ کی بات کرتے ہیں اس حوالے سے حکیم الامت علامہ محمداقبالؒ اور دیگر معتبر لوگوں کی تحریریں ایک ریفرنس کی حیثیت رکھتی ہیں۔

قارئین! یہ سب باتیں اپنی جگہ لیکن چلیے سب سے پہلے بات کرتے ہیں دنیا کی سب سے بڑی آبادی رکھنے والی جمہوریت یا بظاہر جمہوریت بھارت کے نومنتخب وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف کی شرکت اور ان دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے بارے میں ۔مسٹر مودی وہی شخصیت ہیں جنہوں نے آر ایس ایس سے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کرتے ہوئے 2002ء میں بھارتی گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام کا پی سی ون تیار کیا اور منصوبے کے مطابق اس قتل عام کے بعد مختلف سیاسی انعامات حاصل کیے حالیہ 2014ء کے انتخابات میں اپنی انتخابی مہم کے دوران مسٹر مودی انتخابی جلسوں اور مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں اپنی انتہا پسند ذہنیت کا اظہار کرتے رہے اور یہ جملہ بھی آن ایئر کہہ بیٹھے ’’پاکستان سے اسی زبان میں بات کیجیے جو زبان وہ سمجھتا ہے لو لیٹر لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘ ان حالات میں میاں محمد نواز شریف اپنے ہم منصب کی تقریب حلف برداری میں بھی شریک ہوئے اور مسٹر مودی سے اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ پچاس منٹ کی ایک ملاقات بھی کی جو منصوبے کے تحت صرف 35 منٹ ہونا تھی اس پر بھی یار لوگوں نے بے پناہ بغلیں بجا کر خوشی کا اظہار کیا کہ مسٹر مودی نے میاں نواز شریف کو پندرہ منٹ زائد وقت دے کر پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے ہمیں شرم آتی ہے یہ سب کچھ دیکھ کر اور اس سب ڈرامے بازی پر۔ زندہ قومیں ملاقات میں دیئے گئے پندرہ منٹ اضافی وقت پر جشن نہیں منایا کرتیں بلکہ اس پیغام کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں جو باڈی لینگوئج اور مختلف اشاروں کے ذریعے بھارت جیسے مکار ہمسائے کے ہزاروں مسلمانوں کے قاتل نومنتخب وزیراعظم مسٹر مودی نے الیکشن مہم کے دوران بھی پاکستان کو دیئے اور باڈی لینگوئج کے ذریعے اس ملاقات میں بھی فرنٹ ڈور پر ہاتھ ملانے کے دوران پاکستانی قوم کو دیا ہے یہ اشارہ بالکل ایسا ہی دکھائی دیتا ہے جیسا کوئی طاقتور ہمسایہ اپنے کسی کمزور ہمسائے کو تسلی کے پردے میں دھمکی دیتے ہوئے دیتا ہے کاش ہمارے پالیسی ساز اور لیڈر شپ امن کی آشا کے نغمے گانے کیساتھ ساتھ ان اشاروں کی جانب بھی کچھ توجہ دیں میاں محمدنواز شریف اور پاکستانی لیڈر شپ کی طرف سے خیر سگالی کے پیغامات اچھی بات ہے لیکن یہ بھی سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ کسی بھی سرپرائز کی صورت میں پاکستان کا ردعمل کیا ہونا چاہیے اس ملاقات میں پاک بھارت تنازعہ کی سب سے بڑی وجہ مسئلہ کشمیر پر بھی بات چیت نہ ہونا ایک سوالیہ نشان ہے ہم نے اس حوالے سے آزاد کشمیر کے سب سے پہلے لائیو ویب ٹی وی چینل کشمیر نیوز ڈاٹ ٹی وی پر گفتگو کے لیے کشمیر کونسل یورپ کے چیئرمین علی رضا سید کو زحمت دی کہ وہ اس پر بات کریں۔ گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین کشمیر کونسل ای یو علی رضا سید نے کہا کہ کشمیریوں کے تمام گروپس کو ایک منزل اور مقصد کی طرف فوکس کرنا ہو گا اور وہ منزل کشمیر کی آزادی کے لیے رائے شماری کے اصولی مقصد کا حصول ہے بھارت میں بی جے پی کی شکل میں ایک تبدیلی آئی ہے اور نریندر سنگھ مودی کی صورت میں ایک نیا وزیراعظم برسراقتدار آنے کے بعد بظاہر یہ دکھائی دے رہا ہے کہ پاکستان کے لیے مشکلات میں اضافہ ہو گا لیکن پاکستانی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی طرف سے بھارتی وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں شرکت پوری دنیا کو پاکستان کی طرف سے جانیوالا ایک انتہائی مثبت پیغام ہے نریندر مودی کو بھی اب یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ اپنے ملک اور خطے کے عوام کی خوشحالی کی خاطر نفرتیں بڑھانے والی پالیسیاں اپنانے کی بجائے تمام تصفیہ طلب معاملات بالخصوص مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرینگے یہ ہماری ان سے توقعات اور خوش امیدی ہے کہ وہ کشمیری عوام کو رائے شماری کا حق دے کر اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا موقع دینگے اسی میں بھارت پاکستان سمیت پورے ایشیاء اور پوری دنیا میں نفرتیں ختم کر کے انسان کی فلاح کی منزل حاصل کی جا سکتی ہے ۔ علی رضا سید نے کہا کہ ہم نے یورپ میں اپنی مدد آپ کے تحت ون ملین دستخطی مہم میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کی ہے اور یورپ کے مختلف ممالک میں پانچ لاکھ سے زائد یورپی باشندے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروا چکے ہیں بدقسمتی سے تحریک آزادی کے بیس کیمپ آزاد کشمیر میں شروع سے لے کر اب تک ایک بھی ایسی نظریاتی حکومت نہیں آسکی کہ جو مشنری بنیادوں پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کوئی پلاننگ کرتی اس میں قصور صرف سیاستدانوں کا نہیں بلکہ تمام سٹیک ہولڈرز جن میں عوام بھی شامل ہیں کو اپنی اصلاح کی ضرورت ہے مجھ سمیت ہر کشمیری کو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کی چکی میں پسنے والے بہن بھائیوں کی مشکلات کو سمجھتے ہوئے اپنا اپنا مشنری کردار ادا کرنا ہو گا برطانیہ سمیت یورپ کے تمام ممالک اور پوری دنیا میں موجود کشمیری لیڈر شپ اور مختلف تنظیموں کو ایک چھتری کے نیچے اگر جدوجہد کرنا ممکن نہیں ہے تو کم از کم آزادی کے مقصد کے ون پوائنٹ ایجنڈا پر اتفاق کرتے ہوئے کام جاری رکھا جائے۔

قارئین!علی رضا سید، لارڈ نذیر احمد، سجاد حیدر کریم، عبدالمجید ترمبو سمیت تارکین وطن کشمیریوں یا دوہری شہریت رکھنے والے کشمیریوں کی کوششیں اپنی جگہ جب تک تحریک آزادی کے بیس کیمپ آزاد کشمیر اور کشمیریوں کی وکالت کا فریضہ انجام دینے والے پاکستان کے حالات درست نہیں ہونگے تب تک ہم بین الاقوامی برادری سے گزارشات اور اپیلیں ہی کرتے رہیں گے کہ کشمیر کو آزاد کروانے کے لیے وہ اپنا کردار ادا کریں بقول غالب یہاں کہتے چلیں
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
شرع وآئین پر مدار سہی
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی
کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی

قارئین! اب تھوڑی سی بات ہو جائے آزاد کشمیر کے میڈیا کے حالات کے متعلق۔ پاکستان کی طرح آزاد کشمیر میں بھی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا مشکل حالات میں کام کر رہا ہے اس حوالے سے ہم نے مختلف شخصیات کو ریڈیو آزاد کشمیر ایف ایم 93 میرپور کے مقبول ترین پروگرام لائیو ٹاک ود جنید انصاری میں گفتگو کی دعوت دی۔

وزیر سماجی بہبود وترقی نسواں محترمہ فرزانہ یعقوب نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دور میڈیا کا دور ہے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کے اس دور میں میڈیا کی اہمیت مزید بڑھتی جا رہی ہے آزاد کشمیر کے تمام اضلاع میں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ صحافیوں کو تحریک آزادی کشمیر کے تناظر میں اپنی صحافتی سرگرمیوں کو نظریاتی رخ دینا چاہیے صحافیوں کی تربیت کے لیے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ورکشاپس میں شرکت کے لیے آزاد کشمیر کے صحافیوں کو بھی مواقع ملنے چاہئیں ایک وقت تھا کہ میڈیا کو ایک پیشے کے طور پر اختیار کرتے ہوئے نوجوان شش و پنج میں پڑ جاتے تھے لیکن اب دیکھا گیا ہے کہ اس شعبے میں اتنی تیزی سے تبدیلیاں آئی ہیں کہ پڑھے لکھے نوجوان اس شعبے کی طرف مائل ہو رہے ہیں قلم کی حرمت اور ذمہ داری کے ساتھ سچ کا تحفظ میڈیا کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ پروگرام میں وزیر حکومت عبدالماجد خان اور آزاد کشمیر نیوز پیپرز ایڈیٹرز ایسوسی ایشن کے رہنما شہزاد راٹھور نے بھی گفتگو کی ایکسپرٹ کے فرائض سینئر صحافی راجہ حبیب اﷲ خان نے انجام دیے ۔ محترمہ فرزانہ یعقوب نے کہا کہ معاشی لحاظ سے میڈیا کے لوگوں کو تحفظ دینے کے لیے ریاست اور میڈیا ہاؤسز کو مل کر کام کرنا ہو گا معاشی عدم استحکام کے ماحول میں ایک صحافی کے لیے پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ادا کرنا مشکل ہو جاتا ہے وزیر حکومت عبدالماجد خان نے کہا کہ آج کے متمدن ماحول میں میڈیا جس طریقے سے معاشرتی اصلاح اور مظلوم کا ساتھ دینے کی کوشش کر رہا ہے وہ قابل ستائش ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا کو تحفظ بھی فراہم کیا جائے اور ان کی پیشہ وارانہ تربیت کے لئے ترقی یافتہ ممالک کے لیے جو ماحول فراہم کیا جاتا ہے وہی ماحول آزاد کشمیر کے صحافیوں کو بھی مہیا کیا جائے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے آزاد کشمیر نیوز پیپرز ایڈیٹرز ایسوسی ایشن کے رہنما شہزاد احمد راٹھور نے کہا کہ آزاد کشمیر میں تمام ضلعی صدر مقامات اور چھوٹے بڑے شہروں و قصبات میں صحافیوں کی اکثریت بغیر کسی معاوضے کے رضا کارانہ طور پر یا اپنے شوق کے حصول کے لیے میڈیا کے ساتھ وابستہ ہے صحافیوں کی تربیت کے حوالے سے آزادکشمیر کی کسی بھی حکومت نے خاطر خواہ کام نہیں کیا اس سب کے باوجود میڈیا حتی الامکان اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن ادا کر رہا ہے تدریجی مراحل سے گزرتے ہوئے امید کی جا سکتی ہے کہ آزاد کشمیر کا میڈیا اور صحافی برادری اس پیشے کے لیے ضروری تمام لوازمات کو حاصل کر لیں گے۔

قارئین! اگر آپ ہم سے سچ پوچھیں تو اظہار کرتے ہوئے دکھ ہوتا ہے کہ میڈیا کے نام پر آزاد کشمیر اور پاکستان میں جو کچھ بھی کیا جا رہا ہے وہ اس مقدس پیشے کی توہین کے مترادف ہے سچ کا ساتھ دینے والے لوگوں کو نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے اور بلیک میلنگ مافیا میڈیا کی آزادی اور صحافت کی آزادی اظہار کے نام پر اپنے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کام کر رہا ہے اپنے اپنے حصے کی ہڈی وصول کر کے جو لوگ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا رہے ہیں ہم پختہ ایمان رکھتے ہیں کہ ایسے لوگ ظالم کے ساتھی ہیں اور نہ صرف اس دنیا میں مکافات عمل کا شکار ہو کر نشان عبرت بنیں گے بلکہ خالق حقیقی کے حضور بھی انسانوں کے ساتھ زیادتی کرنیوالے ایسے لوگ شرمسار ہونگے اﷲ تعالیٰ ہر کسی کو میڈیا جیسے مقدس پیشے میں سچ کہنے اورقائم رہنے کی توفیق دے اور جھوٹ سے محفوظ رکھے۔ آمین

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
تیز رفتار گاڑی چلاتے ہوئے شدید گرمی کے موسم میں ایک خاتون نے چوک کے وسط میں کھڑے ٹریفک اہلکار کو ٹکر مار دی جب لوگ اکٹھے ہوئے تو خاتون کے منہ سے تاریخی جملہ نکلا
’’ اب مزہ آیا سڑک کے درمیان کھڑا ہونے کا ‘‘

قارئین ہمیں یوں لگتا ہے مختلف شعبوں کی طرح پاکستان اور آزاد کشمیر میں میڈیا بھی بعض اوقات چوک کے وسط میں جا کر کھڑا ہو جاتا ہے اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی کوششوں کے دوران مختلف ٹکریں پڑتی ہیں اور اس کے بعد آوازیں بھی لگتی ہیں
’’ اب مزہ آیا سڑک کے درمیان کھڑا ہونے کا ‘‘
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 373989 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More