ہم بھی عجیب قسم کے لوگ ہیں،
رائی کا پہاڑ بنا لیتے ہیں اور پہاڑ کی رائی…… میں آج بھی اپنی اس بات پر
قائم ہوں کہ وزیر اعظم کو اس موقعہ پربھارت نہیں جانا چاہیے تھا، نریندر
مودی نے اور ہمارے وزیر اعظم نے ابھی پانچ سال حکومت کرنی ہے……ملاقات کے
لیے بہت سارے مواقع دستیاب ہونے ہیں،لیکن بھارت جانے کا معاملہ وزیر اعظم
اور انکے مشیروں کا معاملہ ہے ، وہ بھی اس ملک کے لیے بہتر ہی سوچتے ہوں گے؟
بھارت میں قیام کے دوران پاکستان اور ہمارے وزیر اعظم صاحب کو دلی میں
موجود دیگر وفود سے زیادہ پزیرائی نہیں ملی،یہ میں نہیں کہہ رہا پورا عالمی
میڈیا کی یہی رائے ہے……وہ کہتے ہیں ناں کہ لمحوں کی خطائیں صدیوں کی سزائیں
بن جاتی ہیں، پاکستان کے عوام بلکہ خود وزیر اعظم اور انکے وفد کے ارکان کا
سر فخر سے بلند ہوجاتا اگر بھارتی سکریٹری خارجہ کی جانب سے تھمائے گے پانچ
نکاتی پروگرام کے جواب میں ہمارے مشیر خارجہ یا سکریٹری خارجہ کی جانب سے
بھی بھارتی سکریٹری خارجہ کے نرم و نازک ہاتھوں میں گرما گرم مطالبات کی
فہرست پکڑا دی جاتی……!!
وزیر اعظم نواز شریف اگر نریندر مودی کے گوش گذار کرتے (چاہیے نہایت ادب
احترام کے ساتھ ہاتھ باندھے کھڑے ہوکر ہی سہی) کہ جناب عالی ! کراچی،فاٹا
،سمیت ان کی خفیہ ایجنسیوں نے جو ادھم مچا رکھا ہے وہ ہماری نظروں سے اوجھل
نہیں ہے،بس ہم تو حق ہمسائیگی میں مرے جا رہے ہیں۔ اگر آپ نے بھارت یاترا
کرنی ہی تھی تو پوری تیاری کے ساتھ اور مکمل ہوم ورک کرکے جانا تھا……اگر
ایسا کیا ہوتا تو یہ شرمندگی سی شرمندگی نہ ہوتی-
کشمیر پر ہماری خاموشی پر پوری دنیا ہنس رہی ہے…… ہمارا مذاق اڑا رہی ہے،
اور ہم سے استفسار کر رہی ہے کہ وہ کونسی مجبوری ہے جس کے باعث آپ بھارت
میں کشمیری عوام پر ظلم و زیادتی پر شپ سادھنے پر مجبور ہو گے؟ بلوچستان
،کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں بھارتی دہشت گردوں کی دہشت گردی کی شکایت
کرنے کی آپ کے لبو ں کو حرکت کی اجازت نہ مل سکے…… کیونکر ہم بھارتی وزیر
اعظم نریندر مودی کے علم میں یہ باتیں لاسکے؟ ابھی میں نے اپنے چند روز
پہلے کے کالم میں لکھا ہے کہ ’’ جو ڈر گیا ،وہ مر گیا‘‘
اگر ہم ابھی نریندر مودی کے سامنے بے بسی کی تصویر بن گے تو پانچ سال وہ
ہمیں تگنی کا ناچ نچاتا رہے گا۔ اس امر میں اگر کسی میرے فاضل دوست کو شک و
شبہ ہے تو وہ دور کرلے…… نریندر مودی کی سیاست سے کون واقف نہیں؟ نریندر
مودی نہ تو اٹل بہاری واچپائی ہے اور نہ ہی اس سے ایسی کسی توقع کی امید
وابستہ رکھنی چاہیے۔ وزیر اعظم صاحب کو بھی اس بات کا ادراک ہونا ضروری ہے
کہ نریندر مودی اٹل بہاری واچپائی نہیں ہے……نریندر مودی نریندر مودی ہے۔
کیا ہمارے وزیر اعظم نواز شریف گجرات میں اس مودی کے مسلم دشمنی کردار کو
فراموش کر چکے ہیں۔کیا یہ ہمارے دفتر خارجہ میں براجمان افسر وں کو مودی کی
انتخابی مہم میں ہندووں سے کیے گے وعدے بھول گے ہیں؟
میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بھارتی سکریٹری خارجہ نے کہا کہ’’ پاکستان سارک
ممالک تنظیم کا رکن ہے‘‘ اسکا مطلب کیا ہوا؟ کیا ہمیں اس کا مطلب یہ لینا
چاہیے کہ بھارت اقتدار کے نشے میں مست ہے اور وہ پاکستان کو اتنی ہی اہمیت
دیتا ہے جتنی کہ وہ باقی سارک ممالک کو دیتا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو بھارت
پر واضع کرنا ہوگا کہ پاکستان بھی بھارت کو ویسی ہی اہمیت دے گا جیسی وہ
سارک تنظیم میں شامل دیگر ممالک کو دی جائیگی-
اب ہمیں لکیر کو نہیں پیٹنا چاہیے بلکہ نریندر مودی کے دورہ پاکستان کے لیے
ہوم ورک کی تیاری شروع کردینے ہوگی۔ اور بڑی شدت کے ساتھ نریندرمودی کے
دورہ پاکستان کا انتظار کرنا ہوگا،یہ الگ بات ہے کہ نریندر مودی پاکستان کے
دورہ کی تاریخ کا تعین کرتے کرتے میاں نواز شریف کی مدت اقتدار گذار دیں……
مودی کے مزاج سے شناسائی رکھنے والے میری اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں۔قصہ
مختصر ہمیں بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے یکطرفہ قربانیاں
دینے سے گریز کرنا چاہیے ،اور جسقدر گرم جوشی کا مظاہر ہ بھارتی قیادت
دکھائے اسی قدر ہمیں قدم آگے بڑھانا چاہیے۔
ہمیں ایسے تمام دہشت گردی کے نیٹ ورکس کو بے نقاب کرنا ہوگا ،جس نیٹ ورک
میں بھارتی خفیہ ایجنسیاں ملوث پائی جائیں اور وہ بھی پورے ثبوتوں کے ساتھ
عالمی میڈیا اور عالمی برادری کے سامنے رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔س ورنہ کراچی
،فاٹا اور بلوچستان میں حالات کو خراب کرنے میں بھارتی خفیہ اداروں کے
کردار کی باتوں کو کوئی تسلیم نہیں کریگا۔
وزیر اعظم صاحب! بھارت میں انتخابات ہوئے ہیں اور آپ کی نظروں کے سامنے
ہوئے ہیں،کسی ایک جانب سے بھی دھاندلی کا شور اٹھا ہے……کیا بھارت میں
انتخابات بھی تو لوگ ہارے ہیں۔ دھاندلی کا شور ہمارے ہاں ہی کیوں ممچایا
جاتا ہے ؟آخر میں اپنی ہر دلعزیز وزیر اعظم سے عرض کروں گا کہ وہ مودی کو
آسان نہ لیں اور نہ ہی انہیں آسان ہدف سمجھیں……نریندرمودی بڑی لچھے
دار،گجھل والی شخصیت کانام ہے۔اسی مودی نے بھارت کے وزرائے اعظم کے منصب پر
فائز رہنے والے اٹل بہاری واچپائی سمیت بی جے پی کی دیگر قیادت کو انتخابات
میں شریک کرنے تک کی ضرورت محسوس نہیں کی…… اسی بات سے اندازہ لگایا جا
سکتا ہے۔ |