دن دو بجے بچوں کو سکول سے چھٹی
ہوئی جس کی وجہ سے سڑک پر کافی رش اور باراز میں رونق تھی دھوپ تیز ہونے کی
وجہ سے بچے اپنے اپنے ہاتھوں میں آئس کریم کے کپ پکڑے اور کھاتے گھروں کی
طرف جا رہے تھے میں بھی اپنے اسٹاپ پر کھڑا گاڑی کا انتظار کر رہا تھا ،میرے
ساتھ کچھ دوست بھی اپنے اپنے گھروں کو جانے کے لئے سٹاپ پر گاڑی کا انتظار
کر رہے تھے ،ہم آپس میں ادھر ادھر کی باتوں میں مصروف تھے کہ ایک سفید رنگ
کی پوٹھوار جیب بجلی کی تیزی سے ہمارے پاس سے گزری اس کو ایک نوعمر لڑکا
چلا رہا تھا سڑک ،جگہ،اور وقت کو دیکھتے ہوئے یہ آسانی سے اندازہ لگایا جا
سکتا تھا کہ یہ نو عمر لڑکا جو برق رفتار سے گاڑی چلارہا ہے کسی بھی طرح سے
عقل مندی نہیں کر رہا کیونکہ سڑکوں کے دونوں اطراف سے بچوں کی ٹولیاں گھروں
کو جا رہی تھیں سڑک بھی سنگل اور زگ زیگ تھی،اس گاڑی کے گزرتے ہی ایک شخص
نے روائتی انداز میں کہا کہ یہ پاکل کسی کو مارے گا،اتنی دیر میں روز سے
آواز آئی ہم بھاگے چیخ و پکار شروع ہو گئی ،کیا ہوا وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔گاڑی
اورر سپیڈ کی وجہ سے کنٹرول سے باہر ہو گئی پہلے وہ سڑک کی نالی والی سائڈ
سے ٹکرائی پھر وہاں سے کلابازیاں کھاتی ہوئی سکول کی تیں بچیوں اور ان کے
ساتھ چلنے والے ان کے چچا جو اپنے گھر کو جا رہے تھے کو روندتی ہوئی گہری
کھائی میں فٹ بال کی طرح اچھلتی،درختوں سے ٹکراتی،نیچے جا لگی،ہم وہاں
پہنچے بچیاں زخمی خون سے لت پت جھاڑیوں میں پھنسی کوئی چیخ رہی تھیں کوئی
بے ہوش تھیں ان کو اٹھایا ،ان کا چچا جس کے بچنے کے چانس وہاں پر ہی کم تھے
ان کو بھی اٹھا کر سڑک تک پہنچایا ایمبولینس کوکال کی ان کو باغ
پہنچایا،اسی دوران لوگوں نے زخمی ڈرائیور کو بھی نکالا اور اسے باغ
پہنچایاجو کہ اب ٹھیک ہے مگر افسوس کے ایک بچی جو سیریس اس وقت اسلام آباد
پیمز میں ہے ان کا چچا جس کا نام ابراہم تھا زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے باغ
پہنچ کر جان بحق ہو گیا تھا،اﷲ ان کے ورثا کو صبر و جمیل عطا فرمائے اور اس
کی مغفرت فرمائے آمین ،یہ حادثہ 28مئی بدھ دن دو بجے ضلع باغ کے نواحی گاؤں
بیرپانی میں پیش آیا۔
آئے روز ہم کسی نہ کسی حادثے اور اس میں ضیاں ہونے والے جان و مال کی خبریں
سنتے اور پڑھتے ہیں اور آخر میں یہ کہہ کر کہ یہ لکھا تھا، یہ تقدیر ہے،
ایسا ہونا تھا ،یہ بہانہ بننا تھا،وغیرہ وغیرہ ، ہم تسلی کر لیتے ہیں کہ یہ
ہونا تھا بس ہو گیا اس کو کوئی نہیں روک سکتا تھا ۔یہ ہم لوگوں کی وہ باتیں
ہیں جس سے ہم اپنی نا لائقی،کمزوریاں،لا پروائیاں،غفلتیں،اور بہت کچھ
چھپاتے ہیں،ہم کسی حادثے یا نقصان کی زمہ داری قبول نہیں کرتے بلکہ ایسا
ہونا تھا کہہ کر ہم بری الزمہ ہو جاتے ہیں ،مگرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر
یہ سب کچھ ہونا ہی تھا تو پھر انسان کو حفاظتی تدابیر کرنے کی ضرورت کیا ہے
،پھر یہ سزا ،یہ جزا سب کچھ کیوں ہے، پھر غلطی کو غلطی اور لا پراوئی کو
لاپرائی کیوں کہتے ہیں ،اصل میں ہم خود کوئی بات ماننے کو تیار نہیں ہوتے
اور الزام سارہ تقدیر پر لگا کے پھر سے سو جاتے ہیں ،چند منٹ پہلے وہ بچیاں
آئس کریم کھاتی ہوئی اپنے چچا کے ساتھ اپنے گھر جا رہی تھیں کہ ان پر قیامت
ٹوٹ پڑی یہ لاپرائی نہیں تو اور کیا ہے یہ غفلت ،مستی ، کم عقلی نہیں تو
اور کیا ہے ، کہ سب کچھ سامنے نظر آرہا ہے۔ اپنی کم عمری ، مہارت ،بھی سڑک
بھی،راستہ بھی اور پھر اس تیز رفتاری سے گاڑی آبادی اور بازار میں چلانا اس
کو کیا نام دیا جائے گا۔حادثے ہوتے ہی سبق سیکھنے یا سیکھانے کے لئے ہیں جو
لوگ ،جو معاشرے،جو قومیں،حادثوں کے بعد کوئی لا عمل ،کوئی پالیسی،کوئی
قانون نہیں بناتی تو وہ ایسے نا گہانی صورت حال سے گزرتی ہیں،ہم
گاؤں،دیہاتوں کے لوگ ہیں ہم سب کا تعلق ایک ہی سوسائٹی سے ہے ہمارا نفع
نقصان،خوشی غمی،ایک ہے سب ایک دوسرے کے دوکھ درد میں شامل ہوتے ہیں،ایسے
حادثوں کی روک تھام کے لئے ہمیں اپنے طور پر کچھ اصول ،کچھ قائدے قانون بلا
کسی تفریق کے بنانے چاہیے،اور بنانے بھی ہونگے،کہ ایسے لوگ یا کم عمر افراد
جن کے پاس گاڑی چلانے کا لائسنس نہیں،جن کو قانون اجازت نہیں دیتا ان کو نہ
صرف روکا جائے بلکہ ان پر سختی کی جائے کہ وہ گاڑی نہ چلائیں،اور اگر کوئی
ایسا کرتا ہے تو اسے جرمانہ عائد کیا جائے،اس کے علاوہ بھی وہ ڈرائیور
حضرات جو لائنسنس رکھتے بھی ہیں تو آبادی،بازار،اور سکولوں کے قریب سے گاڑی
کو اس رفتار سے چلایا جائے کہ کسی بھی ایسے حادثے کے ہونے کا امکان نہ ہو ا
اور اگر کوئی اجنبی یا مقامی اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اسے اسی وقت یا
اگلے سٹاپ پر روک کرا سے جرمانہ کیا جائے،تما م گاؤں والوں کو اپنی مدد آپ
ہر خطرناک جگہ پر اور سکول، آبادی والی جگہوں پر بورڈ لگانے چاہئے کہ گاڑی
آہتہ چلائی جائے۔اس کے علاوہ ہمیں چاہیےء کہ ایسے سمینار،ورک شاپس،اور،
پروگارموں کا انعقاد کریں جن میں عوام کو یہ آگاہی دی جائے ،یہ باور کروایا
جائے،کہ وہ اپنے اپنے طور پر ان اصولوں ، ان ضابطوں کا خیال رکھیں،والدین
کو اپنے بچوں پر نظر رکھنی چاہئے کہ وہ کیا کر رہا ہے اور کس طرح کی
اکٹیوٹیز میں ملاوث ہے،یہ بچے کس کے ہیں یہ ہم سب کے اس قوم کے اس ملک کے
بچے ہیں ان کی جان و مال کی حفاظت ہم سب کو کرنی چاہیے،آج یہ حادثہ یہاں
ہوا کل یہ کسی دورے گاؤں ہو سکتا ہے وہ بھی اپنے ہیں،کل کسی اور کا بچہ بھی
کر سکتا ہے،اس لئے ہمیں بلا تفریق ،خود سے کچھ کرنا ہوگا ،ہمیں پہلے اپنے
اونٹ باندھ کر پھر اﷲ پر توقل کرنا ہوگا ،اونٹ بھی کھلے ہوں اور چوری بھی
نہ ہوں اور اگر ہو جائیں تو اپنی غلطی ماننے کے بجائے سب الزام قسمت پر لگا
کر۔۔۔ یا ہونا تھا ہو گیا کہہ کر ۔ خود کو پھر سے آزاد کر لیں ،اور یہ امید
بھی رکھیں کے ہم محفوظ ہیں ممکن نہیں ہمارے دین ،مذہب،اور انسانیت کا تقاضہ
ہے کہ ہم حفاظتی تدابیر کریں اپنے آپ کو درست کریں،ورنہ یہ اداسیاں،یہ
حادثے،ہمارا پیچھا نہیں چھوڑے گے ،اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو یہ اجتماعی
طور پر قوم معاشرے کی غفلت ہوگی ،ہمیں خود سے کچھ کرنا ہوگا اور کرنا
چاہیے،اگر اس حادثے کے بعد ہماری آنکھیں کھل جائیں تو یہ بھی ہمارے زندہ
ضمیری اور زندہ قوم ہونے کی نشانی ہے۔ |