منافقت چھوڑنا ہوگی! آغاز تو اچھا ہے
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
انڈیا نے نئی حکومت کے قیام کے
شروع دن سے ہی بہت سے تاریخی فیصلے کرنا شروع کردیئے ہیں۔سب سے پہلا اور
اہم فیصلہ حلف برداری کی تقریب میں سارک ممالک کے سربراہان کا مدعو کیا
جانا ہے جوکہ انڈیا کی خارجہ پالیسی کا سفر کی سمت اہم اشارہ اور پیش رفت
ہے بالخصوص ہمارے وزیر اعظم نواز شریف کو مدعو کرنا اور اہم امور پر گفتگو
کرنا بھی حکومت کی پالیسی اور ترجیحات کی جانب واضح اشارہ ہے اور اس مثبت ا
قدام کو سراہنا اور اسکی ستائش وخیر مقدم نہ کرنا بد دیانتی اور بخل کے
زمرے میں آتا ہے ۔نریندرمودی بھارت کے نئے وزیراعظم نے ’’اچھے دن آئیں گے‘‘
کی ایک امید جگائی ایک شمع روشن کی تھی اور اگر انڈین گورنمنٹ اپنے فرائض
منصبی کی پاسداری میں تعصبات سے پاک ہوکر آئینی تقاضوں کی تکمیل کرتی رہی
اور قومی خدمت کے جذبے سے آگے بڑھتی رہی تو انڈیا میں یقینا اچھے دن ضرور
آجائیں گے۔وزیر اعظم نواز شریف کو حلف برداری کی تقریب میں مدعو کرنا اچھے
دنوں کی نوید او ر اشارہ ہے اور آغاز سفر خوشگوار دکھائی دیتا ہے انڈین
گورنمنٹ کی حلف برداری کی تقریب کئی حوالوں سے تاریخی بن چکی ہے نریندر
مودی اور نواز شریف کی ملاقات کو تاریخی قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔اب
سے پہلے کسی بھی حلف برداری کی تقریب میں سارک ممالک کے سربراہان کو مدعو
نہیں کیا گیا تھا ۔اب سے پہلے سربراہان کی شمولیت سے خارجہ پالیسی کی اہمیت
کا اظہار بھی نہیں کیا گیا تھا۔اب سے پہلے حلف برداری کے دوسرے ہی دن ایک
ایسے ملک کے سربراہ سے ملاقات اور بات چیت کا اہتمام بھی نہیں یا گیا تھا
کہ جن سے تعلقات ہمیشہ سے کشیدہ چلے آرہے ہوں۔ان تمام باتوں کی وجہ سے نئی
انڈین حکومت نے بھرپور فعال ہونے کا مظاہرہ کیا اور اپنے مقاصد کا کھلم
کھلا اظہار بھی کردیا جس سے پوری دنیابالخصوص پڑوسی ممالک کو یہ پیغام بھی
مل گیا کہ بھارت کی نئی حکومت کی قیادت کے مستقبل میں ارادے کیا ہیں نواز
مودی ملاقات میں نئی دہلی نے اسلام آباد پر یہ واضح کررہا ہے کہ باہمی
تعلقات اچھے ضرور ہونے چاہیں لیکن اس کے کچھ اصول ہوتے ہیں اور ان اصولو ں
کی پاسداری ہر دو فریقین کی ذمہ داری اور فر ض ہے تالی ایک ہاتھ سے نہیں
بجتی اس لئے یہ ممکن نہیں کہ ایک طرف تو مذاکرات مذاکرات کا شور مچایا جاتا
رہے اور دوسری طرف سرحدوں پر تصادم بھی جاری ہے ایک طرف تو خیر سگالی کے
وفود بھیجے جاتے رہیں اور دوسرے طرف دہشت گردی مسلط کی جا تی رہی ۔انڈین
گورنمنٹ کے مطابق خوشگوار تعلقات کی بنیاد امن اور اعتماد ہے امن کیلئے شرط
اول دہشت گردانہ کاروائی(اتنگ واد) کو روکا جائے اور اعتماد کیلئے ضروری ہے
کہ ماضی کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔جس میں پڑوسی ممالک مسلسل
لیت ولعل اور ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے ۔نئی حکومت کے قیام کے موقع پر
پاکستانی سربراہ کودی جانے والی دعوت اگر دوستی کی خواہش کا اظہار ہے تو اس
موقع پر ہونے والی گفتگو مسائل کے تعین اور ان کے حل کی جانب ایک مثبت اور
سنجید ہ پیش قدمی ہے ۔
انڈین گورنمنٹ نے بہتر تعلقات کے تناظر میں اپنی طرف سے منافقت سے کام نہیں
لیا جوان کے دل میں تھا وہ لبوں پر لے آئے وہ صحیح ہے یا غلط اس کا فیصلہ
نواز گورنمنٹ کو کرنا بھی ہے اور یہ بھی باور کرانا ہے کہ یہ سب غلط فہمی
کا نتیجہ ہے مودی گورنمنٹ کا اپنے تحفظات کا اظہار کرنا اس بات پر بھی
دلالت کرتا ہے کہ وہ اپنے تحفظات کو دور کیے بغیر پاکستان سے بہتر تعلق کے
خواہاں نہیں ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ نواز گورنمنٹ اگر واقعی امن کی آشا کی
خواہش مند ہے اور انڈین گورنمنٹ سے سماجی ومعاشی اورکاروباری روابط مستحکم
کرنا چا ہتی ہے تو اس حوالے سے اس کے اقدمات کیا ہونے چاہیں کس طرح سے
پڑوسی ملک کے خدشات وتحفظا ت دور ہونے چاہیں۔خیرسگالی کے جذبات کو کیسے
پروان چڑھایا جاسکتا ہے آیاکہ ایسا ہو بھی سکتا ہے کہ نہیں۔یا صرف ہم ہی
امن کی آشا کا ڈھول پیٹتے رہیں گے۔ نواز شریف گورنمنٹ کومودی گورنمنٹ سے
ایک اور چیز ضرور سیکھ لینی چاہیے کہ ملک مفادات اور عوامی فلاح وبہبود کی
خاطر منافقانہ پالیسی ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے امریکہ افغانستان ودیگر
ممالک سے کھل کر بات کرنے میں ہی بھلائی اور بقا ہے۔نواز شریف کو 28 مئی
والہ حوصلہ دوبارہ سے پیدا کرنا پڑے گا نواز گورنمنٹ کو بھی چاہئے کہ وہ
انڈیا کو اس کا اصل چہرہ دکھائیں اور بتائیں کہ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی
ہوئی۔ |
|