ٹیپو سلطان نے کہا تھا ’’شیر کی ایک سالہ
زندگی گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہے۔‘‘ اس وقت شیر ٹیپو سلطان تھا
اور گیدڑ وہ لوگ تھے جو تاجروں کے روپ میں آئے اور اپنی مکروہ چالوں سے اس
ملک کے مالک بن بیٹھے۔ مالک بننے کے لئے انہوں نے ہر گھٹیا حربہ آزمایا۔
ہمارے اپنے لوگوں میں بہت سے شیر ایسے تھے جنہوں نے وطن سے غداری کی اور ان
کا ساتھ دیا۔ لیکن اب وقت بدل گیا ہے۔ شاید شیر بھی بدل گئے ہیں۔ شیر اور
گیدڑ بھی اس دور جیسے نہیں رہے۔ اب تو سمجھ نہیں آتا انسان کسے شیر کہے اور
کسے گیدڑ۔ فیصلہ بہت دشوار ہو گیا ہے۔
انسان کی اوسط عمر دنیا کے مختلف ممالک میں 70 سے 80 سال تک ہے۔ مچھر کی
اوسط عمر فقط دو ہفتے۔ مگر کیا کیجئے مچھر شیر کی طرح جی رہا ہے اور انسان
کی دوڑ لگی ہے۔ خصوصاً پنجاب کے ارباب اختیار مچھر کا سن کر اس قدر تیز
رفتاری سے بھاگتے ہیں کہ گیدڑ تو گیدڑ انتہائی تیز رفتاری سے بھاگنے والا
چیتا بھی شرما جاتا ہے۔ اس بھاگ دوڑ نے سرکاری اہلکاروں کو اس قدر پریشان
اور ہلکان کر دیا ہے کہ سمجھ بوجھ استعمال کرنا وہ پسند ہی نہیں کرتے بلکہ
بس اوپر سے حکم ملا ہے کی گردان کے علاوہ کچھ کہتے سنتے ہی نہیں اور اوپر
سے حکم یہ ہے کہ ڈینگی مچھر کے خلاف بھرپور پراپیگنڈہ مہم چلاؤ۔ مچھر کو
کوئی نہیں دیکھتا۔ بس بینر پر بینر لگائے جا رہا ہے۔
پچھلے دنوں مجھے ایک دوست سے ملاقات کے لئے ایک سرکاری دفتر جانے کا اتفاق
ہوا۔ دفتر کا سربراہ ہی میرا دوست ہے۔ دیکھا میرے دوست سمیت فتر کے تمام
افسران دفتر کے باہر موجود ہیں اور توجہ دلاؤ جگہیں چن چن کر ان پر بینر
لگا رہے ہیں۔ ان بینروں پر درج تھا ’’ہمارا عزم۔ ڈینگی کا خاتمہ‘‘۔ نیچے
موٹے حروف میں ایک آدھ حکمران کا نام تھا۔ دفتر کے دیوار کے ساتھ ایک نالی
بہہ رہی تھی جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ جس کے سبب پانی بہہ کر گراؤنڈ میں
پھیلا ہوا تھا۔ میں نے اپنے دوست دفتر کے سربراہ کو توجہ دلائی کہ بھائی
ادھر بھی نظر ڈالو۔ نالی کے ٹوٹنے کے سبب گندہ پانی، گندگی کیچڑ، دلدل اور
افزائش مچھر کا ہر سامان موجود ہے۔ بینر لگانے کی بجائے اس کی مرمت کروا
دیتے تو زیادہ اچھا تھا۔ جواب ملا پیسے کہاں سے لائیں بجٹ نہیں ہے۔
بینر کے پیسے ہیں تو مرمت کے کیوں نہیں۔
ایک بیچارہ ٹھیکیدار قابو آ گیا تھا۔ اس کا پچاس ہزار کا بل تھا۔ اسے کہا
کہ ڈیڑھ دو ہزار کے بینر بنوا دو اور بل لے جاؤ۔ نالی کی مرمت کے لئے پہلے
تخمینہ بنتا پھر ٹینڈر ہوتا۔ دس ہزار کا کام پچاس ہزار میں کرواتے اور چھ
ماہ ویسے گزر جاتے۔ تم چپ کر کے دیکھو اور فضول سوال جواب اور تبصرے نہ
کرو۔ ہمیں یہی حکم ہے کہ پراپیگنڈہ مہم بڑی موثر بتاتی ہے۔ مچھر ہلاک کرنا
ہمارا کام نہیں ہے۔ یہ فقط اﷲ کا کام ہے کہ زندگی اور موت پر قادر ہے۔ ابھی
دس پندرہ دن میں شدید گرمی پڑے گی تو خود ہی مر جائے گا۔ اب شاہ پرستی
سرکاری ملازمت کا اصول زریں ہے اور ہم اسی اصول پر عمل پیرا ہیں ۔
میاں شہباز شریف پتہ نہیں کیوں ہمیشہ ہی سے افسر شاہی کے خلاف ہیں۔ جہاں سے
گزریں کمال کر جاتے ہیں۔ ڈاکٹر استاد یا انجینئر سامنے آئے تو معطل اور اگر
کوئی بیورو کریٹ تو گھورنے پر اکتفا کرتے اور اسے OSD بنا دیتے ہیں۔ عام
آدمی کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتے ہی نہیں۔ مچھروں سے مقابلے کے معاملے میں
بھی ان کا انتخاب عام مچھر نہیں بلکہ ڈینگی مچھر ہے جو ایک بیوروکریٹ مچھر
ہے۔ یہ مچھر ایلیٹ علاقوں میں رہتا ہے۔ گندہ پانی اسے پسند نہیں صاف پانی
میں وقت گزارتا ہے اور جس انداز میں یہ ترقی کر رہا ہے ہو سکتا ہے آئندہ
منرل واٹر میں گزارہ کرے۔ وقت کا بہت پابند ہے کاٹتا صرف صبح یا شام ہے۔ اس
کی باقی تمام عادتیں بھی دوسرے مچھروں سے بہت مختلف ہیں۔ لگتا ہے میاں
شہباز شریف کو اس کی یہ افسرانہ شان بالکل نہیں بھاتی۔ اسے معطل تو نہیں کر
سکتے البتہ اس کی افسرانہ شان میں تعطل پیدا کرنے کا ہر حربہ آزما رہے ہیں۔
ہر مچھر بڑا عاشق مزاج ہوتا ہے۔ جس طرح زرق برق لباس والی تتلیوں کو دیکھ
کر بھنورے کھنچے چلے آتے ہیں اسی طرح مچھر بھی زرق برق لباس والوں کا
دیوانہ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ مچھر کو ہر رنگ نہیں صرف نیلے لباس والے لوگ
بہت پسند ہیں۔ مچھر سے ملاقات کی خواہش ہو تو نیلے رنگ کے کپڑے پہن کر صبح
یا شام کسی باغ کے دو چکر لگا لیں۔ نیلے رنگ کے بہت سے عشاق مچھر دیوانہ
وار آپ کا استقبال کریں گے۔ گو سائنسدان اس کی وجہ نہیں جان سکے مگر ان کی
تحقیق میں ثابت کرتی ہے کہ نیلا رنگ ہر مچھر کی کمزوری ہے۔
غذا کے معاملے میں بھی مچھروں کی عادتیں بڑی مختلف سی ہیں۔ عام طور پر بچے
جب دودھ نہیں پیتے تو دودھ کی لذت کو بڑھانے کے لئے مائیں بچوں کے لئے کیلے
کا شیک تیار کر لیتی ہیں۔ کیلے کا ملک شیک دودھ کے مقابلے میں بچے کو بہت
بھاتا ہے اور وہ اسے شوق سے پیتا ہے۔ مچھر بھی کچھ اسی طرح کا شوق رکھتا
ہے۔ اسے خون تو پسند ہے مگر کیلے والا خون تو بے حد پسند ہے۔ آپ دو چار
کیلے کھا کر دوستوں کے ساتھ مچھر کے قریب سے گزریں۔ وہ دوسرے کسی کی طرف
دیکھے گا بھی نہیں۔ اپنی مرغوب غذا کے لئے سیدھا آپ ہی کے پاس آئے گا۔
سائنسدان کہتے ہیں کیلا کھانے والے افراد کو مچھر کے کاٹنے کا امکان عام
آدمی کے مقابلے میں ۱۰۰ فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ بس آپ نیلے کپڑے پہن لیں دو
چار کیلے کھا لیں آپ کہیں بھی ہوں ڈینگی بھاگتا آئے گا اور آپ کو پیار سے
گلے لگا لے گا یا گلے لگ جائے گا۔
ایک آدمی کی بیوی فوت ہو گئی۔ لوگ افسوس کے لئے آ رہے تھے۔ا س کا ایک
نزدیکی دوست بھی آیا۔ اسے پکڑ کر ایک طرف لے گیا اور پچھنے لگا یار کل شام
تک تو بھابھی ٹھیک تھیں یہ اچانک کیا ہو گیا۔ جواب ملا ’’رات میں نے دیکھا
ایک مچھر بار بار اس کے ماتھے پر بیٹھ رہا تھا۔ میرے ہاتھ میں ڈنڈا تھا بس
اسی لمحے میں نے زندگی کا خوبصورت ترین فیصلہ لیا اور بس۔‘‘ |