نواز شریف اور جنگل کی رات

سفر یوں بھی وسیلہ ظفر ہوتا ہے اور پھر دوستوں کے ساتھ۔ مدت بعد ہوتو اس کی ظفر مندی بڑھ جاتی ہے۔ہم بھی مدت بعد ملے تھے۔ہم میں سے ایک ایک لمبی جلا وطنی کاٹ کے وطن واپس آیا تھا۔ہم تینوں مل کے ایک اور دوست سے ملنے جا رہے تھے۔ہم نے حسب دستور گاڑی کا تیل پانی اور ہوا چیک کی۔تیل بھی ٹھیک ہی تھا پانی بھی تھا لیکن ٹائر حالانکہ ٹیوب لیس تھے لیکن ان میں سے ایک کی ہوا ہمیں کچھ کم محسوس ہوئی۔بابا ہمارا پرانا خدمت گار تھا۔اس نے بہت زور دیا کہ آپ بیٹھیں میں ٹائر مرمت کروا لاتا ہوں۔ ہم پہ تو دوست سے ملنے کا بھوت سوار تھا۔ طے ہوا کہ راستے میں مرمت کروا لیں گے۔ مدت بعد ملے تھے دھیان ہی نہ رہا۔پہاڑی علاقے کا سفر تھا۔ راستہ پتھریلا اور پتھر بھی نوکدار۔راستے میں ایک جگہ ایک شخص نے ہمیں روکا اور توجہ دلائی کہ ہمارے ٹائر میں ہوا کم ہے۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ ہم رکتے اور اس ٹائر کی ہوا روکنے کی کوئی تدبیر کرتے لیکن آپس کی بات ہے کہ مدت بعد ملنے کی خوشی اور پھر ایک اور دوست سے ملنے کی لگن نے ہمیں سب کچھ بھلا رکھا تھا۔ہم چلتے رہے اورآخرہمیں گاڑی کھڑی کرنا پڑی کہ اب ٹائر بالکل فلیٹ ہو گیا تھا۔ہم نے سپیئر ٹائر نکالا تو پتہ چلا کہ وہ تو پہلے ہی ہماری عدم توجہی کا ماتم کر رہا ہے۔ پہاڑی علاقے کا آسمان بھی بالکل عورت کی طرح ہوتا ہے۔ہنستے ہنستے اچانک رونااور روتے روتے اچانک ہنسنا۔

ہماری قسمت میں رونا تھا۔آسمان اس دن رویا اور اتنا کہ اس سڑک پہ گھنٹوں بعد جو گاڑی آتی ہو گی وہ بھی نہ آسکی۔ہم جنگل کے بیچو بیچ حیران و پریشان کھڑے تھے۔گاڑی پنگچر،موسم نا مہربان ،سنسان راستہ ،ہم پھنس چکے تھے۔سمجھ میں نہیں آ رہا تھاکیا کریں۔وہ مدت بعد ملنے کی خوشی ،خوش گپیاں ایک اور بچھڑے سے ملنے کی لگن ،سب ہوا ہو گیا۔بابا اس وقت شدت سے یاد آیا۔ اس نے کہا تھا میں ٹائر مرمت کروا لاتا ہوں۔ہم نے سنی ان سنی کر دی۔ ہم پہ دوست سے ملنے کا بھوت سوار تھا۔ہم نے عقل کی بات پاؤں تلے روند ڈالی تھی اور اب قدرت ہمیں سبق سکھانا چاہتی تھی۔شام ڈھلنا شروع ہو گئی تھی ساتھ ہی ہم بھی۔ موبائل تھے لیکن رابطہ کوئی نہیں ۔کم از کم یہ خوشی تھی کہ ہم اکٹھے تھے۔شہر دور تھا۔شہر میں ہم تینوں بادشاہ تھے اپنی اپنی جگہ ۔تعلقات ،وسائل ،نوکر چاکر،سب کچھ تھا۔لوگ عزت کرتے تھے۔لیکن ہم نے اصولوں کی خلاف ورزی کی تھی۔سب کچھ چیک کیا لیکن اضافی ٹائر ۔۔۔۔۔اور پھر پنکچر ٹائر پہ بھی توجہ نہ دی۔بے احتیاطی اور ذرا سی غفلت نے ہمیں ایسے آگھیرا تھا کہ سب راستے بند ہو گئے۔وہ ہمارا دیہاتی دوست جسے ہم ملنے جا رہے تھے بھی دیہاتی ضرور تھا لیکن دنیا اسے جانتی تھی۔ سب کچھ ہمارے حق میں تھا لیکن وقت ہمارے خلاف ہو گیا تھا۔یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ وقت خلاف ہو جائے تو ایران کا رضا شاہ،عراق کا صدام حسین ،لیبیا کا معمر قذافی اور مصر کا حسنی مبارک ٹکے ٹوکری ہو جاتے ہیں۔ ہماری کیا حیثیت تھی۔

آگے گڑھا اور پیچھے کھائی تھی۔ہم بالکل درمیان میں تھے۔نہ آگے جا سکتے تھے نہ پیچھے۔ ایسی حالت میں بوجھ اٹھانا ویسے بھی کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا۔ جنگل ہو گا تو درندے تو ہوں گے۔پاس پڑوس سے عجیب ڈرواؤنی آوازیں آنا شروع ہوئیں ۔ گیدڑ تو سر شام ہی ہمیں آ آ کے دیکھ رہے تھے لیکن اب بھیڑئیے نما کچھ جانور بھی ہمارے آس پاس منڈلانے لگے۔بابا رہ رہ کے یاد آرہا تھا لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ہم نے گاڑی بند کی شیشے چڑھائے اور ایک دوسرے کے گلے لگ کے سردی کی شدت کم کرنے کی کوشش کرنے لگے۔

اس کے بعد جنگل کی اس کہانی میں بڑے ٹوئسٹ آئے لیکن اس کے بعد کی کہانی کو یہیں روکتے ہیں۔آج نواز شریف بھی آپ کو تقریباِِ اسی طرح کی صورتِ حال سے دو چار نہیں لگتے۔بابا انہیں اور ان کے دوستوں کو ڈی چوک تک سمجھانے آیا تھا۔ وہ انہی کے بھلے کی بات کر رہا تھا۔اس وقت انہیں اقتدار سے ملنے کی خوشی تھی۔اقتدار جو ان سے سالوں پہلے روٹھ گیا تھا۔ اس وقت بھی وہ بموں کو لات مارنے کا شوق پورا کر رہے تھے۔آج بھی وہ یہی کر رہے ہیں۔بابا اب ایک بار پھر ان کے سامنے کھڑا ہونے کی تیاری میں ہے۔ نواز شریف کو مغل بادشاہ کہتے ہیں۔وہ اپنے آپ کو سمجھتے بھی ایسے ہی ہیں۔ان سے زیادہ کون جانتا ہے کہ پاکستان جیسے ممالک میں اقتدارپھولوں کی سیج نہیں ہوتا ۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں جمہور نام کی کوئی چیز نہیں۔ اس لئے حکمرانوں کی کوئی اخلاقی حیثیت نہیں۔ اندرونی اور بیرونی دباؤ اسی لئے تو برداشت نہیں ہو پاتے۔بابا بظاہر آپ کو مخالف دکھتا ہے لیکن وہ آپ کے بھلے ہی کی کہتا ہے۔ عمران خان کی بات میں وزن ہے۔ انتخابی اصلاحات وقت کی ضرورت ہیں۔بچے جمورے جنہیں آپ جمہور کہہ کے بے وقوف بناتے ہیں جان گئے ہیں کہ اس منحوس اور بد بودار انتخابی نظام میں ان کے لئے کوئی گنجائش نہیں۔اس نظام کے تحت نواز کے بعد شہباز، پھر حمزہ پھر مریم اور بے نظیر کے بعد زرداری اور بلاول ،ولی خان کے بعد اسفند ولی،مفتی محمود کے بعد فضل الرحمن،شجاعت اور پرویز کے بعد مونس ،بس یہی چند خاندان ہیں جہاں انسان نہیں حکمران جنے جاتے ہیں۔پاکستان کی باقی سب مائیں بانجھ ہیں ۔ وہ بچے تو جنتی ہیں،بس بچے جنہیں بالآخر حکمرانوں کے جلسوں کی رونق بڑھانا ہوتی ہے۔نہ صاحب ! آپ کی گاڑی کے دونوں ٹائر پنگچرہیں۔موسم خراب ہے جنگل ہے اور اوپر سے آسمان ۔اس کے بھی تیور ٹھیک نہیں دکھتے۔

آپ اس ملک کے بادشاہ بن سکتے ہیں۔ہم تو ویسے ہی جمہوریت سے زیادہ بادشاہت کے دلداہ ہیں۔بس ایک ہی شخص کو محبوب بنائے رکھنا۔ موحد جو ہوئے لیکن جناب والا!بادشاہ کی کوئی اخلاقی اساس بھی تو ہونی چاہئیے۔ٹائر پنگچر لمبا سفر اور جنگل کی خون آشام شام ،جناب اپنی زندگی کی فکر کیجئیے۔ذاتی بھی اور سیاسی بھی۔ہمارے پاس تو وقت نہیں تھا اس لئے ہم جنگل میں گِھر گئے۔آپ ابھی شہر سے نکلے نہیں۔ابھی بھی وقت ہے۔ اپنے اقتدار کی ان تیزی سے بیٹھتی ٹیوبوں میں انتخابی اصلاحات کی ایماندارانہ ہوا بھروا لیں۔ اس میں آپ ہی کا بھلا ہوگا۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268420 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More