اسلامی طرز فکر کی حامل بے مثال شخصیت "پروفیسر حفیظ الرحمن احسن"

 تخلیق آدم کا وجود صدیوں پرانا ہے لیکن کچھ ایسی شخصیات بھی دنیا میں آئی ہیں جن کی زندگی کا ایک ایک لمحہ انسانیت کے لیے سائبان کی حیثیت رکھتا ہے ان کی حیثیت ایسے پاکیزہ سرچشمے کی ہے جن سے لاکھوں لوگ بلاامتیاز فیض یاب ہوتے ہیں ۔ میری مراد پروفیسر حفیظ الرحمن احسن صاحب سے ہے ۔میرا ان سے تعلق 1984ء میں اس وقت قائم ہوا جب میں جزوقتی ملازمت کی تلاش میں ان تک پہنچا تھا اردو بازار کی جلال دین ٹرسٹ بلڈنگ کے ایک چھوٹے سے کمرے میں بہت بڑی شخصیت بیٹھی دکھائی دی انہوں نے مجھے تین سو روپے ماہانہ پر جزوقتی ملازم رکھ لیامیز کی ایک جانب میرا ٹائپ رائٹر تو دوسری جانب پروفیسر حفیظ الرحمن احسن تشریف فرما ہوا کرتے تھے۔ پروفیسر صاحب کے چہر ے پر خدا کانور ٗ گفتگو میں ٹھہراؤ ٗ تحریروں میں ٹھنڈک اور شاعر ی انسانیت کے لیے ہدایت کا سرچشمہ تھی ۔حسن اتفاق سے انہی دنوں میں چار مرلے کا ایک پلاٹ 28 ہزار روپے میں خریدنا چاہتا تھا پانچ ہزار روپے کم تھے جب کہیں سے ادھار نہ مل سکا تو میں نے ڈرتے ڈرتے حفیظ صاحب کے روبرو اپنا یہ مطالبہ رکھ دیا انہوں نے اسی وقت یہ دیکھے بغیر پانچ ہزار روپے مجھے دینے کا حکم صادر کردیا کہ تین سو روپے ماہانہ کا ملازم یہ پیسے واپس کیسے کرے گا۔ان کی یہ شفقت اور اعتماددیکھ کر میرے دل سے ان کے لیے دعا نکلی ۔دس سال تک میں ایوان ادب میں کام کرتا رہا اس دوران درجنوں کی تعداد میں غریب عورتوں اور فقیروں کو باقاعدہ خیرات لینے کے لیے وہاں آتے دیکھا انتہائی مصروفیت کے باوجود حفیظ صاحب کے ماتھے پر کسی فقیر یاضرورت مند کو دیکھ کر کبھی شکن پیدا نہیں ہوئی ۔وہ اپنی کمائی کو اﷲ کا مال سمجھ کر اس کے بندوں میں بے حساب بانٹتے رہے۔ حالانکہ انہوں نے علامہ اقبال ٹاؤن میں مکان بنانے کے لیے خود ہاؤس بلڈنگ فنانس سے قرض لیا تھا ان کی دریا دلی اور معصومیت کااندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ وہ مقررہ وقت گزرنے کے ایک سال بعد تک بھی پیسے جمع کراتے رہے ایک دن ہاؤس بلڈنگ فنانس سے انہیں خط موصول ہوا کہ جناب بس کریں اب تو ہاؤس بلڈنگ فنانس آپ کی مقروض ہوچکی ہے از راہ کرم ادا شدہ زائد رقم واپس لے لیں ۔ ایک مرتبہ کراچی کے کسی ادارے کے تحریری آرڈر پر ہزاروں روپے کی کتابیں بلٹی کروائی گئیں ۔ بلٹی ٹرکوں کے اڈے سے بروقت نہ چھڑائی جاسکی جب وہاں آگ لگی تو اڈے پر رکھی ہوئی ہزاروں روپے کی کتابیں راکھ کا ڈھیر بن گئیں ۔قصور کتابیں منگوانے والے کا تھا لیکن صبرکاگھونٹ دانستہ حفیظ صاحب کو پینا پڑا ۔انہی دنوں ان کے جواں سال بیٹے بلال فاروق کا اچانک انتقال ہوگیا میں نے بیٹے کی موت پر دھاڑ یں مارکر انہیں کبھی روتے نہیں دیکھا جب بھی لوگ تعزیت کے لیے آتے تو ان کی زبان سے یہی الفاظ ادا ہوتے ۔"ہم سب اﷲ کے لیے ہیں اور اسی کی جانب لوٹ کر جانے والے ہیں" ۔ زندگی میں اتنا صابر اور شاکر انسان میں نے نہیں دیکھا ۔وہ چھوٹے سے کمرے میں بیٹھنے کے باوجود بہت بڑے انسان ہیں ۔ان کی معروف کتابوں میں تحسین اردوشامل ہے کئی پبلشرز اس کتاب کو بغیر اجازت کے خود چھاپ کر فروخت بھی کرتے رہے ۔پتہ چلنے کے باوجود حفیظ صاحب نے کسی کے خلاف یہ کہتے ہوئے کاروائی نہیں کی کہ اﷲ نے جتنا رزق میرے نصیب میں لکھاہے وہ مجھے ہر حال میں مل جائے گا ۔ابھی میری ملازمت کو چند دن ہی گزرے تھے کہ انہوں نے خطوں کے جواب مجھے لکھوائے جس کاپی پر یہ خط لکھے تھے سائیکل کے پچھلے کیریئر پر رکھ کر جب میں گھر پہنچا تو کاپی غائب تھی بہت دکھ ہوا میرا یہ خیال تھا کہ حفیظ صاحب مجھے ملازمت سے فارغ کردیں گے لیکن جب میں نے انہیں کاپی گرنے کے بارے میں بتایا تو انہوں نے ڈانٹنے کی بجائے فرمایا چلو دوبارہ لکھوا دیتا ہوں ۔یہ دیکھ کر میرے دل میں ان کا احترام اور زیادہ بڑھ گیا میں پکا نمازی نہیں تھا جبکہ وہ چھوٹی سی جگہ پر بھی خود مصلے پر کھڑے ہوکر نماز کی امامت کرواتے تھے کچھ دن نماز کی ادائیگی کے دوران میں کام میں مصروف رہا ایک دن خود ہی مجھے شرم آئی اور میں بھی وضو کرکے ان کی امامت میں نماز پڑھنے لگا اور آج تک دن میں فرضی نمازوں کے علاوہ چار مزید نمازیں ( تہجد ٗ اشراق ٗ چاشت ٗاوابین) بھی پڑھتا ہوں مجھے پکانمازی بنانے اور تحقیق و تخلیق کی دنیا میں قدم جمانے میں حفیظ صاحب کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔اس وقت اﷲ تعالی کے فضل و کرم سے میں 60 کتابوں کی تالیف و تصنیف کرچکا ہوں اور تین ہزار سے زائد کالم لکھ چکا ہوں گزشتہ چار سال سے عظیم صحافی اور جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے والے ڈاکٹر مجید نظامی کے اخبار نوائے وقت میں باقاعدہ کالم لکھ رہاہوں تو یہ تحریر و تخلیق کے سرچشمے بھی حفیظ الرحمن احسن صاحب کی اخلاقی تربیت کا نتیجہ ہیں ۔ پروفیسر حفیظ الرحمن احسن صاحب 9 اکتوبر 1934ء میں ضلع سیالکو ٹ کے نواحی شہر "پسرور " میں عبدالعزیز کے گھر پیدا ہوئے ۔تعلیم مرے کالج اور پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی ایم اے عربی کرنے کے بعد شعبہ تدریس کو ذریعہ معاش بنایا لیکن ملازمت کو جاری نہ رکھ سکے۔ مستعفی ہوکر اردو بازار میں ایوان ادب کے نام سے چھوٹا سا پبلشنگ ادارہ قائم کیا جس میں پروفیسر ارشد بھٹی (مرحوم ) پروفیسر شفیق ٗ پروفیسر حفیظ صدیقی کی رفاقت بھی انہیں حاصل رہی ۔اسی ادارے میں پروفیسر آسی ضیائی ٗ پروفیسر طاہر شادانی ٗ پروفیسر محمد حنیف ٗ پروفیسر عبدالحمید ڈار ٗ پروفیسر امین جاوید جیسی عظیم شخصیات نے اپنی تحقیقی اور تخلیقی کاوشوں کو کتابی صورت دے کر شائع کیا جنہیں نوجوان نسل کی کردار سازی میں اہم مقام حاصل ہے ۔پروفیسر حفیظ الرحمن احسن کا شمار مولانا سیدابوالا مودودی ؒ کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے انہوں نے سید مودودی کے درس و تدریس کے لیکچروں کو آڈیو ٗ ویڈیو اورکتابی شکل میں جمع بھی کیا مولانا کی ہدایت پر ہی انہوں نے ماہنامہ ادبی "سیارہ" کی ادارتی ذمہ داریوں کو اپنے ذاتی خرچ سے بہت خوب نبھایا اور اب بھی نبھا رہے ہیں اس کے باوجود کہ آپ کی عمر 79 سال ہوچکی ہے پھر بھی تحریکی ٗ تحقیقی اور تخلیقی سرگرمیوں کو خیر باد نہیں کیا ۔آپ کا شمار نہ صرف بہت اچھے شاعروں ٗ ادیبوں اور نعت گو شاعروں میں ہوتا آپ حلقہ ادب لاہور کے روح رواں بھی ہیں ۔آپ کی تخلیقات وتصنیفات میں شعری مجموعہ ٗ فصل زیاںٗ ننھی منی خوبصورت نظمیں ٗ موج سلسبیل ٗ ستارہ شام ہجراں کا اور نوائے راز شامل ہیں جبکہ بوقلم کے عنوان کے تحت علمی اور ادبی مضامین اشاعت کے منتظر ہیں ۔میرا شمار آج بھی ان کے نیازمندوں ٗ بیٹوں اور فرماں بردار شاگردوں میں ہوتا ہے اﷲ تعالی انہیں صحت کاملہ ٗ ایمان کی سلامتی اور عمر خضرعطا فرمائے ۔ آمین
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784989 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.