چند روز قبل شہر قائد میں ملک کی
4بڑی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے جلسے ایک ہی روز ہوئے۔ پہلا کنونشن امیر
جماعۃ الدعوۃ پاکستان حافظ محمد سعید کی جانب سے یوم تکبیر کے حوالے سے
جاری ہفتہ تکبیر مہم کا حصہ تھا۔ اس کنونشن کی تیاریاں جماعۃ الدعوۃ کے
کارکنان نے نہایت گرم جوشی سے کر رکھیں تھیں۔ قائدین کی جانب سے مسلسل ملک
گیر دوروں کے سبب کارکنان میں جوش و خروش عروج پر تھا۔ لہذا کارکنان جماعۃ
الدعوۃ کے شب و روز محنتیں رنگ لائیں اور اس طرح جماعۃ الدعوۃ کا یہ تکبیر
کنونشن نہایت کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ متحدہ قومی موومنٹ کے زیر اہتمام اپنے
قائد سے اظہار یکجہتی کے لیے یکجہتی کانفرنس اسی روز شاہرہ قائدین پر منعقد
ہوا۔ متحدہ کے ہر جلسے کی طرح یہ کانفرنس بھی نہایت ہی کامیاب رہا ۔ شہر
قائد سمیت اندرون سے بھی متحدہ کے کارکنان نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ویسے
ہی قائد تحریک متحدہ قومی موومنٹ کی ایک کال پر منٹوں میں ہزاروں کا جلسہ
جب ہو سکتا ہے تو پھریہ کانفرنس تو تھی ہی الطاف حسین سے اظہار یکجہتی کے
لیے لہذا اس کو کامیاب ہونا طے شدہ تھا ۔ اسی روز تیسرا بڑا جلسہ جماعت
اسلامی کا نومنتخب امیر اور سینیٹر وزیر خیبر پختونخواہ سراج الحق کے اعزار
میں استقبالیہ تھاجو کہ جماعت اسلامی نے اپنے کراچی مرکز کے قریب رکھا۔
مذکورہ استقبالیے سے زیادہ تیاریاں جماعت نے سراج الحق کی امارت سنبھالنے
کے بعد پہلی بار کراچی آمد کے حوالے سے ان کے استقبال کی کر رکھیں تھیں
لہذا ہفتہ 25مئی کی شام ائیر پورٹ پر ان کا شاندار استقبال اور 26مئی کو
شاندار استقبالیہ کامیابی سے ہمکنار ہوا اسی روز 26مئی کو سابق حکمران
جماعت مسلم لیگ ق کی جانب سے پاک فوج کے ریلی اور بعد ازاں پریس کلب پر
مختصر جلسہ منعقد ہوا جو کہ ملک بھر میں فوج کی حمایت اور جنگ و جیو گروپ
کے خلاف جاری لہرکا تسلسل تھا لہذا وہ ریلی بھی کامیابی سے ہمکنار ہو ئی۔
26مئی کا دن گرمی کے لحاظ سے عروج پر تھا اس کے باوجود عوام نے گرمی کو
خاطر میں لائے بغیر تمام تقریبات میں شرکت کی۔ اس روز شہر میں جاری دہشت
گردی اور مارا ماری کے لحاظ سے بھی نسبتاً پر امن رہا کہیں سے کسی
ناخوشگوار واقعے کی اطلاع نہیں ملی تکبیر کنونشن، استقبالیہ، یکجہتی
کانفرنس اور پاک فوج حمایت ریلی سبھی کامیاب ہوئے۔ اول الذکر تینوں بڑے
پروگرام ایک دوسرے کے قریب طے کیے گئے تھے۔ جس کی وجہ سے کچھ حلقوں میں اس
حوالے سے بھی تشویش تھی کہ کہیں کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو جائے
تاہم انتظامیہ سمیت تمام جماعتوں کے منتظمین اس بات پر قابل مبارکباد ہیں
کہ انہوں نے اپنے کارکنان اور انتظام کو اس طرح طے کیے رکھا کہ سب تقاریب
کامیابی سے منعقد ہوئی۔ یہاں ایک چھوٹا سا واقعے کا ذکر کروں گا۔ مزار قائد
کے قریب واقع پیپلزسیکریٹریٹ پر جماعۃ الدعوۃ کے کارکنان تکبیر کنونشن میں
پیدل کلمہ طیبہ کے جھنڈے اٹھائے جلسہ گاہ کی جانب بڑھ رہے تھے اس لمحے
اندورن سندھ سے متحدہ کے کانفرنس میں شرکت کے لیے چند بسیں وہاں سے گزریں۔
جماعۃ الدعوۃ کے کارکنان خاموشی سے گزر رہے تھے۔ تاہم جب متحدہ کے کارکنان
نے نعرے بازی شروع کی تو پھر جماعۃ الدعوۃ کے کارکنان نے نعرہ تکبیر بلند
کیا ۔ نعرہ تکبیر جس شدت سے لگایا گیا اس کا جواب اس سے کہیں زیادہ جوش و
جذبے اور شدت سے دیا گیا۔ جماعۃ الدعوۃ کے کارکنان کے کارکنان کے نعرہ
تکبیر کے بعد متحدہ کے کارکنان نے خاموشی میں ہی عافیت سمجھی۔ یوں وہ لوگ
اپنے جلسہ گاہ اور دعوہ والے اپنے جلسہ گاہ کی جانب بڑھ گئے۔ نعرہ تکبیر کی
تو بات ہی کچھ اور ہے۔ کلمہ گو کے سامنے جب نعرہ تکبیر بلند ہوتا ہے تو نہ
چاہتے ہوئے بھی اس کے جسم کاانگ انگ اس نعرے کا جواب دیتا ہے ۔ نعرہ تکبیر
کی فضا جب فضا میں گونجتی ہے تو پھر اس کے سامنے کوئی صدا ٹھہر نہیں پاتی۔
یہ نعرہ تکبیر کا جوش ہے کہ واہگہ بارڈر پر پرچم اتارنے کی تقریب کے دوران
جب نعرہ تکبیر بلند ہوا تو ’’بہادر‘‘ بھارتی فوجی کی پینٹ گیلی ہو گئی ۔ یہ
نعرہ تکبیر جب میدان جہاد میں بلند ہوتا ہے تو کفار کے قدم اکھڑ جاتے ہیں۔
شکست ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ یہاں یہ امر ملک کی تمام دینی و سیاسی جماعتوں
کا قابل تعریف ہے کہ جو اپنے نعروں کا آغاز نعرہ تکبیر سے کرتے ہیں۔ ان
جماعتوں کو جو خالصتاً سیاسی ہیں انہیں بھی مشورہ ہے کہ وہ اپنا پہلا نعرہ
تکبیر کاص لگائیں اور پھر دیکھیں کہ ان کے جلسے، ریلی، کانفرنس کیسے کامیاب
نہیں ہوتے؟؟؟
شہر قائد میں ایک ہی روز ہونے والے ان تمام تقاریب کی جماعۃ الدعوۃ اور
متحدہ نے بھر پور تیاریاں کیں۔ بڑے بڑے ہولڈنگ بورڈ پر یکجہتی کے حوالے سے
الطاف حسین کی تصاویر آویزاں کی گئیں۔ جماعۃ الدعوۃ کے گشتی فلوٹس اور بڑی
گذر گاہوں پر بینرز، ہولڈنگ بورڈزپر تکبیر کنونشن سے متعلق سجائے گئے۔
متحدہ کی جانب سے ان کے قائد تحریک الطاف حسین کی تصاویر کے ساتھ ایک لفظ
سبھی کی توجہ کا مرکز بنا۔ اس جملے پر عوام کے اندر بھی چہ مگوئیاں شروع
ہوئیں۔ جس کی ترجمان مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد نے ایک
کانفرنس کے ذریعے کی۔ انہوں نے کہا کہ پوری قوم کا بابا، روحانی باپ
(Father of the nation ) کہلانے کا صرف اور صرف مستحق بانی پاکستان قائد
اعظم محمد علی جناح ہیں ان کے علاوہ یہ اعزاز کسی کو بھی نہیں دیا جا سکتا۔
آفاق احمد کی یہ بات درست ہے یہ عوامی رائے ہی نہیں ایک اٹل حقیقت ہے کہ
بابائے قوم صرف قائد اعظم ہیں متحدہ کے کارکنان نے یہ اعزاز بھی قائد کو دے
ڈالا۔ بعد ازاں متحدہ کی ہی جانب سے اس عمل کی وضاحت رابطہ کمیٹی کے رکن نے
کرتے ہوئے کہا کہ یہ تمام بینرز جن پر Father of the nationدرج تھا سب عوام
نے خود سے لگائے ہیں۔ عوام جانتی ہے اور خواص بھی جانتے ہیں کہ ان مین کتنی
جرات ہے اور کیا اتنی جرات ہے کہ وہ ایسی کسی نے بھی گستاخی کے مرتکب ہوں۔
متحدہ کے کارکنان اور عوام تنظیم کی مرضی و منشاء کے خلاف ایک قدم اٹھانا
تو درکنار بولنا اور سوچنا بھی گوارا نہیں کر سکتے بھلا وہ پھر خود سے
بابائے قوم کا قائد اعظم سے لے کر الطاف حسین کو کیسے دے سکتے ہیں۔ یہ حرکت
متحدہ کے کارکنان نے یا پھر عوام میں سے جس کسی نے بھی کی۔ متحدہ قائد اور
تحریک کی اعلی قیادت کی جانب سے اس کا نوٹس لیا جانا چاہیے۔ ایسے حالات میں
کہ جب متحدہ قائد الطاف حسین لندن میں مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں ایسے
موقع پر یہ کون لوگ ہیں کہ متحدہ قائد کے لیے یہاں بھی صورتحال خراب کرنا
چاہتے ہیں۔ قومی اداروں، قومی نعروں اور قومی شخصیات سے ان دنوں بگاڑنے
یاان کی صورت مسخ کرنے کی کوشش کے نتائج سب کے سامنے ہیں پاک فوج کے ادارے
آئی ایس آئی پر جیو کے بے بنیاد الزامات کا نتیجہ قائد تحریک الطاف حسین نے
بھی دیکھا ہے اور متحدہ قومی موومنٹ کے بھی ۔ وہ جیو کہ جو ایک بے لگام
سرکش گھوڑا بن چکا تھا آج اس کی انتظامیہ، اس کے کارکنان معاشرے میں عدم
تحفظ کے ساتھ ساتھ نشان عبرت بنتے جا رہے ہیں۔ ہماری قوم بہت جذباتی ہے۔
اپنے ملک، اپنے دین، اپنی فوج اپنی مٹی اپنی تہذیب و ثقافت اور سب سے بڑھ
کر اپنی خودی کے لیے بہت جذباتی ہے۔ یہ قوم امت مسلمہ کا ہی نہیں انسانیت
کا درد اپنے دل میں رکھتی ہے اور دنیا کے کسی بھی گوشے میں اور مسلمانان
اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں پر سراپا احتجاج بن جاتی ہے۔ لہذا نو منتخب
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ 28مئی 1998ء
میں ہماری حکومت نے تمہارے 5ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 6 ایٹمی دھماکے کیے
تھے جس کے بعد آج تم خوف میں مبتلا ہو کر رام رام کیے جارہے ہو۔ مظلوم
کشمیریوں اور بھارت میں مسلمانوں پر ظلم ڈھائے جا رہے ہو۔ مودی یہ بات بھی
یاد رکھیں کہ یہ مظالم کے سلسلے اگر جاری رہے تو پھر اکھنڈ بھارت کا شیرازہ
تو ویسے ہی بکھر چکا ہے موجودہ بھارت بھی سلامت نہیں رہے گا یہ بھی ٹکڑوں
میں تقسیم در تقسیم ہو گا اور اسی بھارت میں کئی پاکستان دنیا کے نقشے پر
وجود میں آجائیں گے۔ لہذا بھارت، اسرائیل امریکہ اور وہ تمام پاکستان کے
دشمن پاکستان میں سازشوں سے باز آجائیں تو بہتر ہے۔ پاکستان کے غیور عوام
اب جاگ چکے ہیں لہذا تمہاری اور تمہارے چیلوں کی کوئی سازش کامیاب نہیں
ہونے دیں گے۔ غلطی کا احساس ہونا اچھی بات ہے۔ خواہ وہ isi کے خلاف جیو کے
زہر اگلنے کا احساس ہو یا پھر الطاف حسین کے نام کے ساتھ بابائے قوم کے
القاب دینے کی غلطی کا احساس جیو جنگ گروپ کو اپنی غلطی کا احساس ہو چکا ہے
گزشتہ دنوں ممتاز اسلامک اسکالر اور جیو کے بھاری تنخواہ دار ملازم ڈاکٹر
عامر لیاقت نے تو نمک حلالی کا مظاہرے کرتے ہوئے پاک فوج، آئی ایس آئی اور
عوام سے معافی مانگ لی ہے تاہم جرائم بڑے ہیں لہذا سزا تو ملنی چاہیے۔
بدنام زمانہ وینا ملک کو شائستہ واحدی کی جانب سے جو اعزاز دیا گیا ،دانستہ
یا نادانستہ اس میں غلطی کا اعتراف اور معذرت گو شائستہ واحدی نے ایک کیمرے
کے سامنے کر دیا تھا لیکن اس کے باوجود عوامی جذبات نے قابو ہیں ۔ شائستہ
واحدی کیا اور وینا ملک کیا مقابلہ کر سکتی ہیں ان عوامی جذبات کا لہذا وہ
دونوں ملک سے فرار ہو چکی ہیں۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ شائستہ واحدی
سمیت مارننگ شوز کرنے والی تمام خواتین میں سے کتنوں نے امریکہ میں ناکردہ
گناہوں کی سزا بھگتنے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا ذکر اپنے پروگراموں میں
کیا ہو گا؟ شاید کسی نے بھی نہیں۔ یقینا کسی نے بھی نہیں کیا ہو گا۔ وہ تو
جانتی بھی نہیں ہو ں گی کہ یہ عافیہ صدیقی آخر ہیں کون؟ شائستہ واحدی اور
وینا ملک جیسی خاتون سمیت بے شمار خواتین کو اپنے پروگرام میں بلوا چکی ہیں
لیکن کیا انہوں نے کبھی عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی، ان کے بچوں،
مریم اور حمد کو اپنے پروگرا میں بلوایا؟ عافیہ کی ماں کو بلوایا؟ نہیں
قطعی نہیں اس لیے کہ عافیہ ان کی نظر میں وینا ملک سے کم اہمیت کی حامل ہے۔
اس لیے پروگرام کی ریٹنگ بڑھانی ہے کم نہیں کرنی۔ عافیہ صدیقی آج بھی رہائی
کی منتظر ہے۔ متحدہ قائد نے ایک بار عافیہ صدیقی کے لیے جلسہ کیا تھا انہوں
نے عافیہ کو بہادری پر سلام بھی پیش کیا تھا۔ اس کے بعد آج تلک الطاف حسین
انہیں بھولے ہوئے ہیں۔ الطاف حسین صاحب کو شہر قائد ہی لوٹنا ہے۔ اس لیے ان
کی خدمت میں عرض ہے کہ عافیہ بھی اسی شہر قائد کی باسی تھی اس کی رہائش بھی
آپ کی رہائش سے زیادہ دور نہیں، اس لحاظ سے آپ ان کے درد کو سمجھیں، جہاں
آپ مظلوموں کے قائد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہاں اس مظلوم کی بھی داد رسی
کریں۔ اس کے لیے آواز اٹھائیں پھر دیکھیں یہ قوم کس طرح آپ کو اپنے دلوں
میں جگہ دیتی ہے۔ آپ اس قوم کی بیٹی کو واپس لانے کی کوشش کریں کامیابی
ناکامی بعد کی باتیں ہیں۔ آپ قدم تو بڑھائیں عافیہ کو واپس لانے کے لیے پھر
دیکھیں یہ قوم لندن جا کر آپ کو اپنے کندھوں پر کیسے اٹھا کر لاتی ہے۔ آپ
کو اپنے دلوں اور ذہنوں میں جگہ دیتی ہے۔آپ بابائے قوم نہ سہی پر بابائے
قوم کے نقشے پر قدم پر تو چل سکتے ہیں ناں؟ اس لیے بابائے قوم کے عظیم
فرزندالطاف حسین صاحب آگے بڑھیں اور عافیہ سمیت باقی دکھی اور مظلوم دیگر
بہنوں کے لیے آواز اٹھائیں۔ یہ قوم آپ کے ساتھ ہے اور منتظر بھی۔ |