خوشحال پاکستان ....ہنوز دلی دور است
(عابد محمود عزام, karachi)
مالی سال 2014 کے اقتصادی سروے
کے مطابق پاکستان میں اقتصادی شرح نمو 6 سال بعد پہلی مرتبہ چار کے ہندسے
کو عبور کر گئی ہے۔ رواں مالی سال کے دوران مجموعی صنعتی ترقی، ملکی
برآمدات، زرمبادلہ کے ذخائر، ترسیلات زر، سرمایہ کاری، قومی محصولات اور
روپے کی قدر میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار
کے مطابق حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کے نتیجے میں ملکی معیشت میں بہتری آئی
ہے۔ گزشتہ 6 سال کے دوران پہلی دفعہ اقتصادی شرح نمو 4 فیصد سے بڑھی ہے اور
جون 2017ءتک اس کو 7 فیصد سے بڑھایا جائے گا۔ گزشتہ مالی سال میں صنعتوں کی
شرح ترقی 1.37 فیصد تھی، جو رواں سال بڑھ کر 5.84 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔وزیر
خزانہ کے مطابق دنیا بھر کے اور ملکی معاشی پنڈت ڈالر کی قیمت کو 120 تا
130 روپے تک بڑھا چکے تھے، جبکہ گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال کے دوران
ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 89 پیسے کی بہتری ہوئی ہے۔ رواں مالی
سال کے دوران حکومت کی معاشی کارکردگی پچھلے سال کی نسبت تو بہتر رہی ہے،
لیکن خود حکومت نے اپنے لیے جو اہداف مقرر کیے تھے ان میں سے بیشتر حاصل
نہیں کیے جا سکے۔ پچھلے سال بجٹ تقریر کے دوران اقتصادی ترقی کی شرح کا ہدف
4.4 مقرر کیا گیا تھا، جبکہ ترقی کی ریکارڈ شدہ رفتار 4.1 رہی ہے۔ ٹیکس
وصولی کی مد میں بھی حکومت اپنے مقرر کردہ ہدف تک نہیں پہنچ سکی اور مئی کے
مہینے تک 1955 ارب روپے کے ٹیکس جمع کیے، جبکہ پورے سال کے لیے 2475 ارب
روپے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔ زرعی شعبے کے لیے ترقی کا ہدف 3.8 فیصد مقرر
کیا گیا تھا، جبکہ اس شعبے نے 2.12 فیصد کی رفتار سے ترقی کی۔ حکومت سرمایہ
کاری کا ہدف 15.1 فیصد بھی پورا نہیں کر پائی اور اس ملک میں سرمایہ کاری
کی شرح کل مقامی پیداوار کا 14 فیصد رہی۔ مہنگائی یا افراط زر کی شرح حکومت
کے مقرر کردہ ہدف8 فیصد سے زیادہ یعنی 8.6 فیصد تک رہی۔ پچھلے سال ملک میں
مہنگائی کی شرح 9.6 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔
وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے اقتصادی سروے رپورٹ میں خود اعتراف کیا کہ ملک میں
غربت کی شرح پچاس فیصد سے زاید ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک کی نصف آبادی
غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔انہوں نے غربت کی اصطلاح کی وضاحت
کرتے ہوئے کہا کہ ہر وہ پاکستانی جس کی روزانہ آمدن دو ڈالر سے کم ہے، وہ
خط غربت سے نیچے تصور کیا جاتا ہے۔جائزہ رپورٹ میں دیے گئے عالمی بینک کے
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی 60 فیصد آبادی کی یومیہ آمدن دو ڈالر سے
کم ہے۔وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ غربت سے ملک کو نجات دلانے کے لیے روزگار
کے زیادہ مواقع پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خط غربت سے نیچے زندگی
گزارنے والوں پر توجہ دیں گے اور انہیں رعایتی نرخ (سبسڈیز) دی جائیں گی۔
حکومت غربت کے خاتمے کے منصوبوں پر خام ملکی پیداوار کا 4.5 فیصد مختص کرنے
میں سنجیدہ ہے، درمیانے درجے کے اخراجات کے منصوبہ کے لیے تخفیف غربت
پروگرام II میں غریبوں کی بھلائی کے 17 شعبوں کو ترجیحی حیثیت دی ہے۔
غریبوں کی بھلائی کے منصوبوں پر سال 2013-14ءمیں 588.105 ارب روپے خرچ کیے
گئے ہیں، اس عرصے میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 75 ارب روپے مختص
کیے گئے اور 5.25 ملین خاندانوں میں 48.18 ارب روپے تقسیم کیے جا چکے ہیں،
جبکہ پچھلے سال 4.8 ملین افراد میں 42.8 ارب روپے تقسیم کیے گئے تھے۔
پاکستان تخفیف غربت فنڈ کے تحت جولائی سے دسمبر 2013-14ءمیں 8.42 ارب روپے
خرچ کیے گئے۔
دوسری جانب اقتصادی جائزے کے مطابق ملک میں خواندگی کی شرح تو 60 فیصد ہے،
لیکن پانچ سے نو سال کی عمر کے 67 لاکھ بچے اسکول ہی نہیں جا پاتے۔ ابتدائی
تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکول نہ جانے والوں میں 39 فیصد لڑکے اور 46 فیصد
لڑکیاں ہیں۔ سروے کے مطابق بچوں کو پرائمری کی سطح پر تعلیم دلوانے کا سب
سے زیادہ رحجان پنجاب میں ہے، جہاں 93 فیصد بچے اسکول جاتے ہیں، جبکہ
بلوچستان میں پانچ سے نو سال کے عمر کے اسکول جانے والے بچوں کا تناسب 65
فیصد ہے۔ بچوں کے اسکولوں میں اندارج کے حکومتی منصوبے کے تحت 2013 سے 2016
تک پچاس لاکھ بچوں کو اسکولوں میں داخل کروایا جائے گا۔ پاکستان اپنی خام
ملکی پیداوار کا دو فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ
2018 تک تعلیم کے لیے مختص فنڈ دوگنا کر دیا جائے گا۔ سروے میں فراہم کیے
جانے والے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں آٹھویں جماعت تک 1000 طلبہ کے
لیے 42 اسکول ہیں ،جبکہ 1000 طلبہ کے لیے صرف ایک ڈگری کالج ہی موجود ہے۔
پاکستان میں ڈگری جاری کرنے کا اختیار رکھنے والے اداروں اور جامعات کی
تعداد صرف 156 ہے۔ ان میں سرکاری اداروں کی تعداد 88 اور نجی کی 69 ہے۔
ڈگری جاری کرنے والے اداروں میں 12لاکھ 30 ہزار طلبا و طالبات زیر تعلیم
زیر تعلیم ہیں۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ پاکستان میں صحت کے شعبے میں بھی
سہولتوں کا فقدان ہے۔ پاکستان میں صحت عامہ پر خام ملکی پیدوار کا محض چار
فیصد ہی خرچ کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد ایک لاکھ 67
ہزار سات سو 69 ہے۔ یعنی ایک ہزار99 افراد کے علاج معالجے کے لیے صرف ایک
ڈاکٹر ہے، جبکہ صرف سرکاری ہسپتالوں میں موجود وسائل اس قدر محددو ہیں کہ
1647 افراد کے علاج کے لیے ایک بستر ہے۔ اکنامک سروے کے مطابق پاکستان میں
ایک لاکھ لیڈی ہیلتھ ورکرز ہیں، جو گھر گھر جا کر خواتین اور بچوں کو طبی
سہولتیں فراہم کر رہی ہیں، لیکن ملک میں 1000 نوزائیدہ بچوں میں 66 بچے
اپنی پیدائش کے فورًا بعد مر جاتے ہیں اور صرف 52 فیصد بچے تربیت یافتہ طبی
عملے کی نگرانی میں پیدا ہوتے ہیں، جبکہ ملینیم ڈویلپمنٹ کے اہداف کے مطابق
یہ شرح 90 فیصد سے زیادہ ہونی چاہیے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کی ایک سالہ کارکردگی رپورٹ بہتر ہے، لیکن
اس میں سب کچھ حقائق کے مطابق نہیں۔ اقتصادی سروے میں جو ترقی دکھائی گئی
ہے، وہ خوردبین سے ہی دیکھی جا سکتی ہے۔ تر سیلات زر میں اگر 11.5 فیصد
اضافہ ہوا ہے تو وہ نظر بھی آنا چاہیے، اگر بازاروں میں دیکھا جائے تو
ضروریات زندگی کی اشیا میں کمی کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت کو آئے کو
ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے لیکن حکومت ابھی تک اپنے نعرے خوشحال
پاکستان کو عملی جامہ نہیں پہنا سکی، ضروریات زندگی کی اشیا تک عوام کی
پہنچ سے دور ہیں، یوں معلوم ہوتا ہے کہ خوشحال پاکستان کا نعرہ صرف عوام کے
دل لبھانے کے لیے ہے۔گزشتہ حکومت نے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا، عوام کو
مسلم لیگ(ن) سے توقعات تھیں کہ وہ کچھ کرے گی لیکن وہ بھی عوام کی توقعات
پر پوری نہ اتر سکی۔ جبکہ اقتصادی ماہرین نے وفاقی حکومت کے اقصادی سروے
برائے 2013-14ءکے بارے میں کہا ہے کہ فنانشل بیلنس شیٹ میں بہتری آئی ہے،
مگر معیشت کی بیلنس شیٹ کافی مایوس کن ہے۔ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے مطابق
اقتصادی سروے میں حکومت نے خود اعتراف کیا ہے کہ بیشتر اقتصادی اہداف حاصل
نہیں ہو سکے۔ سابق چیف اکانومسٹ ڈاکٹر راشد امجد نے کہا کہ فنانشل بیلنس
شیٹ میں بہتری آئی، لیکن پاکستان کی معیشت کی بیلنس شیٹ کافی مایوس کن ہے۔
تاہم کسی بھی حکومت کا پہلا سال شکوک وشبہات کا ہوتا ہے، اس لیے زیادہ
تنقید نہیں کرنی چاہیے، حکومت کو ایک اور موقع دینا چاہیے۔ |
|