کیا وہ انسان نہ تھی؟

پسند سے شادی کرنے والی خاتون کو انصاف کے چمن میں یوں روندا گیا جیسے کوئی بے جان گھڑیا ہو یا کسی بدکرار کا پتلا ۔انسان خواہ باپ،بھائی ،ماں،بہن ہو یا کسی اور رشتہ دارکو اﷲ تعالیٰ کی اجازت کے بعد اپنی زندگی کافیصلہ کرنے پر تشدد کانشانہ بنانے یہاں تک کہ اُس کی روح اور جسم کا رشتہ ٹوٹ جائے کا اختیار کس نے دیا ہے ؟روز قیامت جب مقتول سوال اُٹھائے گی کہ مجھے کس جرم میں قتل کیا گیا؟آخر کیوں انسانیت کے ناطے بھی کوئی بچانے نہیں آیا؟کیا میں انسان نہ تھی ؟آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ کیا وہ انسان نہ تھی؟تو پھر نہ صرف اُس کے رشتہ دار جنہوں ظلم کیا بلکہ ہم سب سرجھکائے شرمندہ کھڑے ہوں اور کوئی جواب نہ دے پائیں گے۔ اپنی انا کو غیرت کا نام دینا کہاں کا انصاف ہے؟اب اُن غیرت مند رشتہ داروں کی غیرت کہاں جائے گی جب جیل میں اُن کی مائیں، بیٹیاں اور بہنیں ملنے آئیں گی؟گھر کے غیرت مند مرد جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہوں گے تو اُن کے مقدمہ پر خرچ کرنے کیلئے سرمایہ اُن کی عورتیں کہاں کہاں سے اکھٹا کریں گی؟ایسی باتیں توسوچ کرہی غیرت اپنی موت آپ مرجاتی ہے ۔پھر بھی غیرت کا نام لے کراپنی ہی بیٹی یا بہن کو اس بے دردی کے ساتھ قتل کردینا جیسا کہ لاہورمیں ایک خاتون کو مرضی کی شادی کرنے پر کردیاگیا اور وہ بھی کمرہ عدالت کے باہر جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے شیر جوان بھی موجود تھے ۔اس واقعہ کو یقینامعاشرتی بے حسی کہا جاسکتا ہے۔ چلو مان لیا کہ باپ اور بھائیوں کو غصے اور انا پرستی نے اندھا کردیا تھاپر سرعام ایک انسان کو قتل ہوتے دیکھ کر نہ صرف قانون نافذ کرنے والے ادارے کاکوئی اہلکار(جوعوام کی جان و مال اور عزت کی حفاظت کی ذمہ داری کا حلف اُٹھا کر بھرتی ہوتے ہیں ) آگے آیا اورنہ ہی کسی عام شہری نے انسانیت کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کی ۔ہم جانتے ہیں کہ یہ کوئی پہلا یا آخری قتل نہیں ہے ایسا ماضی میں بھی ہوتا آیا ہے اور جب تک انسان اور خاص طور پر مسلمان اپنی انا کے خول سے باہر نہیں آتا ایسا ہوتا رہے گا ۔چیف جسٹس آف پاکستان نے اس معاملے کا نوٹس لے کر انسانیت کو مزید پامال ہونے سے بچانے کی جو کوشش کی ہے وہ قابل ستائش ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ مجرموں کوماضی کی طرح سزائیں صرف سنائی جائیں گی یا اُن پر عمل کے بعد آئندہ کیلئے نشان عبرت بھی بنایا جاتا ہے ؟راقم تو صرف اس دل خراش سانحہ کی مذمت ہی کرسکتا ہے۔ آج کے معاشرے میں عورت کی بے توقیری دیکھتا ہوں تو دور جہالت کے بدصورت رسم ورواج تصویروں کی صورت آنکھوں کے سامنے سے گزر جاتے ہیں، مجھے احساس دلاتے ہیں کہ تُوبھی کسی مہذب معاشرے کا فرد نہیں بلکہ دورجہالت سے ملتے جلتے دور میں پیدا ہوا ہے۔جس نسل کی ماں ظلم زیادتی ،ناانصافی کا شکار ہووہ کس طرح پرامن ،باشعوراور باعزت معاشرہ قائم کرسکتی ہے۔جولوگ اپنی ماؤں ،بہنوں ،بیٹیوں اور بیویوں کو عزت وانصاف نہیں دے سکتے وہ کیونکر دنیا میں باعزت زندگی بسر کرنے کے حقدار ہوسکتے ہیں ۔غلام،بے توقیر اور ظلم کی چکی میں پسی ماں کس طرح بچوں کو خوددار،خودمختار،ایمانداراور باشعور بنا سکتی ہے؟جس معاشرے میں ماں ،بیٹی ،بہن اور بیوی کی کوئی عزت نہیں اُس معاشرے کے افرادکی دنیا کیا عزت کرے گی ؟جن کی ماں ،بہن،بیٹی اور بیوی کو اپنے بیٹے ،باپ،بھائی ،شوہر یا گھر پرکوئی حق نہیں وہ کس منہ سے دنیا سے اپنے یا انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں؟افسوس کہ اسلامی معاشرے کو غیرمذہب رسم ورواج نے یرغمال بنا کر ہمیں مفلوج کرکے حقائق سے اس قدر دور تر کردیاہے کہ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ بالغ مردوعورت کو اپنی زندگی کا فیصلہ یعنی نکاح کرنے کی اجازت اﷲ تعالیٰ نے دے رکھی ہے تو پھر ہم کون ہوتے ہیں غیرت کا نام لے کسی کی جان لینے والے ؟کس نے دیا ہے اختیار ہمیں کسی کو صرف اس لئے قتل کردینے کا کہ اُس نے اپنی پسند سے شادی کرلی تھی ؟افسو س اسلام سے پہلے معاشرے میں بھی عورتوں کی کوئی عزت اور قدرومنزلت نہ تھی ۔وہ ظلم وستم کاشکار تھی ۔حضرت عمرفاروق ؓ فرماتے ہیں کہ مکہ میں عورتوں کوبالکل ناقابل توجہ سمجھا جاتاتھا ،مدینہ میں نسبتاعورتوں کی قدر تھی پراس قدرنہیں جس کی وہ مستحق تھیں۔رسول ا ﷲؐنے حکم خُدا وندی کے تحت عورت کوعزت و احترام کا وہ مقام بخشا جس کی تاریخ انسانی میں مثال نہیں ملتی۔ اﷲ تعالیٰ کے محبوب نبی کریمؐ نے عورت کے حقوق و فرائض کا تعین فرمایا اور اسے ماں،بیٹی،بہن اور بیوی سمیت تمام رشتوں سے عزت عطا فرمائی۔ارشاد نبوی ہے ’’تم میں سے بہترین لوگ وہی ہیں جو(اپنی)بیویوں سے بہتر سلوک کریں اور میں اپنی بیویوں سے بہترین سلوک کرتا ہوں‘‘خطبہ حجتہ الوداع میں بھی عورتوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔آپؐ نے مسلمانوں کواس خطبہ کے ذریعے خواتین کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کا حکم دیتے ہوئے پابند کردیا کہ ان کے ساتھ بھلائی سے پیش آؤ،آپؐ نے فرمایا مردوں کایہ مقام نہیں کہ وہ عورتوں کو بھیڑبکری سمجھیں بلکہ سارا معاملہ اﷲ تعالیٰ کے قوانین کے تحت ہوناچاہئے اور انہیں ان کا جائز مقام ملنا چاہئے‘‘افسوس آج مسلمان معاشرہ بھی ہندو و دیگر غیر مسلم معاشروں کے رسم ورواج اپناچکا ہے جن میں عورتوں کو نہ تو عزت دی جاتی ہے اور نہ انسان سمجھا جاتا ہے۔آج عورت پر ہر طرح سے ظلم وستم ہورہے ہیں ْوہ ماں بھی ہے،بہن بھی،بیٹی بھی اور بیوی بھی ،ہمیں اُس کی ضرورت بھی بہت ہے لیکن اُس کی عزت کرنا ہمارے لئے باعث شرم بنتا جارہا ہے ۔قابل ذکر بات کہ لاہور میں عدالت کے باہر ایک خاتون کے باپ اور بھائیوں کے ہاتھوں بے دردی سے قتل ہونے پر برطانیہ اور امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان کے مذمتی بیانات کے ساتھ مجرموں کو انصاف کے کٹحر ے میں لانے کا مطالبہ آنے کے بعد بہت سے پاکستانیوں کی خودمختاری مجروح ہورہی اور وہ سوچ رہے کہ یہ کھلم کھلا پاکستان کے اندورنی معاملات میں مداخلت ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ انسانیت کو سرحدوں میں قید نہیں کی کیا جاسکتا۔ بیرونی مطالبہ کہ مجرموں کو انصاف کے کٹحرے میں کھڑا کیا جائے ناجائز اور نامناسب نہیں اور دوسری بات کہ جب ہم اپنے معاملات ٹھیک طریقے سے نہیں چلائیں گے تو پھر دوسروں کو مداخلت کا موقع ضرور ملے گا۔ہماری یہ خواہش کہ ہمارے اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت نہ ہو تب ہی پوری ہوسکتی ہے جب ملک میں قانون کی حکمرانی اورچاروں طرف انصاف کا بول بالا ہو-
Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 514116 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.