نوٹ:دختران ملت مقبوضہ کشمیر کی
سربراہ آسیہ اندرا بی کے شوہر حریت رہنما ڈاکٹر قاسم فکتو کو بھارت کی جیل
میں 22سال آج مکمل ہوئے ہیں۔وہ بغیر کسی جرم کے صرف تحریک آزادی کشمیر میں
حصہ لینے کے جرم میں سزا کاٹ رہے ہیں۔قیدو بند کے 22سال مکمل ہونے پر
تحریراگر ممکن ہو تو سپیشل ایڈیشن میں شائع کر کے تحریک آزادی کشمیر کا
ساتھ دیجئے اور بھارتی مظالم کو عالمی دنیا کے سامنے بے نقاب کیجئے۔
بھارت نے سوا کروڑ کشمیریوں کا بنیاد ی اور پیدائشی حق حق خودارادیت طاقت
کے بل بوتے پر دبا رکھا ہے،اپنا حق مانگنے کی پاداش میں قابض ہندوستانی
افواج نے پانچ لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہیدکردیا ہے اور لاکھوں بے گھر
ہیں ،موجودہ تحریک کے اندر ایک لاکھ کشمیریوں کو شہید کیا گیا ،ہزاروں
نوجوانوں کو بھارتی فوج نے لاپتہ کیا ہواہے پانچ ہزار سے زائد گمنام قبریں
دریافت ہوچکی ہیں ان قبروں کی دریافت پر انسانی حقوق کی تنظمیں چیختی رہی
ہیں مگر عالمی برادری اور قوام متحدہ کے اداروں کو جس طرح نوٹس لیناچاہیے
تھا اس طرح نہیں لیا ،ہندوستان کے خلا ف سلامتی کونسل میں قرارداد پاس کرکے
اس پر پابندیاں لگنی چاہیے تھی تاکہ وہ اس طرح انسانی حقوق کی دھجیاں نہ
اڑائے،عالمی برادری کی طرف سے خاموشی ہندوستان کو اور شہ دے رہی ہے وہ
مظالم میں اضافہ کررہاہے اس سے ظاہر ہوتاہے کہ کشمیریوں کو صرف مسلمان ہونے
کی سزا دی جارہی ہے اگر وہ مسلمان نہ ہوتے تو شایدمشرقی تمیور اور جنوبی
سوڈان کی طرح کب کے آزاد ہوچکے ہوتے۔جموں کشمیر کے لوگ تاریخ انسانی کے
بدترین دور سے گذر رہے ہیں اور لاکھوں بھارتی فورسز کے ہاتھوں بے پناہ
مصائب اور مشکلات کا شکار ہیں۔ غاصب فورسز ریاست جموں کشمیر پر اپنے
غاصبانہ قبضہ کو جاری رکھنے کیلئے لوٹ مار ،قتل و غارت گری،خواتین کی عزت
ریزی،فرضی جھڑپوں میں نوجوانوں کی ہلاکتوں،دوران حراست غائب کرنے،ہزاروں
نوجوانوں کی زندانوں میں قید کرنے او ر انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں میں
ملوث ہوچکے ہیں۔بھارت سرکار مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی میں پیش پیش
نوجوانوں کو جیلوں میں ڈال دیتی ہے ۔جب بھی تحریک میں تیزی آتی ہے حریت
رہنماؤں کو نظر بند کر دیا جاتا ہے یوں کشمیر اس خطے بلکہ دنیا کی سب سے
بڑی جیل ہے جہاں مسلمان قید وبند کی صعوبتیں و بھارتی افواج کی درندگی
برداشت کررہے ہیں۔ایک طالب علم سے عمر قید سزا یافتہ ہونے کے سفر میں سینئر
حریت لیڈر ڈاکٹر عاشق حسین فکتو عرف ڈاکٹر قاسم نے جیل میں 22برس مکمل
کرلئے ہیں۔1967میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر قاسم نے اسلامیہ کالج سرینگر میں
کامرس مضمون میں گریجویشن حاصل کی۔ انہوں نے دختران ملت کی موجودہ چیئرپرسن
آسیہ اندرابی کے ساتھ شادی کی اور اسکے بعد انہوں نے اعلیٰ تعلیم یعنی ایم
اے ،ایم فل اسلامک سٹیڈیز اور مولوی فاضل کی ڈگری کشمیر یونیورسٹی سے حاصل
کی۔انکی زندگی نے 90کی دہائی کے ابتدائی ایام میں ہی ایک زبردست تبدیلی آئی
جب انہوں نے بھارتی افواج کے مظالم کے خلاف تحریک آزادی میں حصہ لیا ۔انہیں
سب سے پہلے1993میں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا اور6برس کی قید
کے بعد ٹاڈا عدالت نے انہیں تمام کیسوں سے بری قرار دیا لیکن پولیس نے
انہیں 2002میں اس وقت سرینگر ائر پورٹ پر گرفتار کیا جب وہ لندن میں ایک
کانفرنس میں شمولیت کے بعد واپس لوٹ رہے تھے۔ 2003میں انہیں معروف کشمیری
پنڈت ہیومن رائٹس کارکن ہردے ناتھ وانچو ،جنہیں 1992میں ہلاک کیا گیا تھا ،کے
قتل کے الزام میں مجرم قرار دے کر ان کے خلاف عمر قید کی سزا سنائی تاہم
ڈاکٹر قاسم نے ہمیشہ ان الزامات کو مسترد کیا۔اس دوران سپریم کورٹ نے ڈاکٹر
فکتو اور ان کے ساتھ اسی الزام کے تحت سزا کا ٹنے والے افراد کے حق میں جیل
میں گذارے گئے وقت کو شامل کرنے کا حکم دیا۔ڈاکٹر قاسم نے سزا کو عدالت میں
چیلنج کیا اور عدالت نے ریاستی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ ان کے کیس کا سرنو
جائزہ لیں۔3جون2008کو حکومت نے ڈی جی پی جیل خانہ جات اور پرنسپل ڈسٹرکٹ
اینڈ سیشن جج سرینگر حسنین مسعودی کی نگرانی میں ایک جائزہ بورڑ تشکیل دیا
تاکہ وہ ڈاکٹر قاسم کی جے کے جیل مینول 2000کے تحت رہائی کے حوالے سے اپنی
سفارش پیش کرسکیں۔تاہم سی آئی ڈی نے ان سفارشات کی مخالفت کی۔ کئی عارضوں
میں مبتلاء ڈاکٹر قاسم فکتو نے حال ہی میں ایس ایم ایچ ایس اسپتال میں طبی
ملاحظہ کے دوران بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی قید کو ایک سازش کے تحت طول
دیا جارہا ہے۔ ڈاکٹر قاسم نے انکشاف کیا کہ دوران قید مرکزی سرکار سے کچھ
نمائندوں نے انکی رہائی کے عوض انہیں ایک سینئر حریت لیڈر کی مخالفت کیلئے
کہا جبکہ 2005کے دوران اسی نمائندے نے انہیں اسلامک یونیورسٹی میں اسسٹنٹ
پروفیسر کے حیثیت سے تعینات کرنے کی پیش کش کی تھی تاہم ان دونوں پیش کشوں
کو انہیوں نے سختی سے ٹھکرا دیا جس کی وجہ سے ان کی قید کو طوالت دی جارہی
ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ 2002کے دوران آئی بی کے چند افسران نے ان سے
انتخابات میں حصہ لینے کی پیش کش کی تھی۔ وہ تالاب ٹلو جیل میں مقید تھے کہ
اس دوران آئی بی افسران نے انہیں وزارت تعلیم کاقلمدان بھی سنبھالنے کی
پیشکش کی تھی۔مجھے اس انکار کی سخت قیمت ادا کرنی پڑی کیونکہ اسی دوران مجھ
پر عمر قید کی سزا کا اطلاق کیا گیا۔1993میں انہیں اپنی اہلیہ کو محفوظ
راہداری کی پیش کش کرتے ہوئے امپھالا سے کسی غیر ملکی ریاست منتقل کئے جانے
کا بھی کہا گیا تھا تاہم انہو ں نے اسے بھی انکار کیا۔ قاسم فکتو کا شمار
ان سیاسی لوگوں میں ہوتا ہے جو کشمیر پر بھار ت کے جبری تسلط کے خلاف ایک
سیاسی تحریک چلا رہے ہیں بھارتی عدالت کا ڈاکٹر قاسم فکو کی عمر قیدکا
فیصلہ سیاسی انتقام پرمبنی تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں حریت رہنما ڈاکٹر قاسم کو
تادم مرگ قید کی سزا اور قید کے بائیس سال مکمل ہونا نام نہاد جمہوریت کے
دعویدار بھارت کے منہ پر طمانچہ ہے اس قسم کے ہتھکنڈے کشمیریوں کے جذبہ
حریت کو سرد نہیں کر سکتے ۔ دختران ملت جموں و کشمیر کی چیئرپرسن آسیہ
اندرابی نے بھارتی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ انکے شوہر ڈاکٹر قاسم فکتو
سمیت تمام کشمیری سیاسی نظر بندوں کو رہا کرے۔ انکے شوہر گزشتہ 22برس سے
غیر قانونی طور پر نظر بند ہیں اور بھارتی حکومت کو چاہیے کہ وہ انہیں رہا
کرے۔ قابض انتظامیہ کے جائزہ بورڈ کی طرف سے رہائی کی سفارش کے باوجود قابض
انتظامیہ نے ڈاکٹر فکتو کو نظر بند رکھا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں
سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ آسیہ اندرابی نے کہا کہ طویل غیر
قانونی نظر بندی کی وجہ سے انکے شوہر کئی امراض کا شکار ہو چکے ہیں اور
اگرانہیں کسی قسم کا کوئی نقصان پہنچا تو اس کی ذمہ دار قابض انتظامیہ ہو
گی۔ کشمیری اقوام متحدہ کی قرارداد وں کے مطابق اپنے پیدائشی حق کے لیے
جدوجہد کررہے ہیں اور اس جدوجہد کی اجازت اقوام متحدہ کا چارٹر دیتاہے،
دنیا میں ایک چھوٹے سے خطے میں اتنی تعداد میں فوج کہیں موجود نہیں ہے جتنی
ہندوستان نے کشمیرمیں رکھی ہوئی ہے،ان فوجیوں کے لیے ایسے کالے قوانین
بنائے گئے کہ جن کو وہ استعمال کرکے بدترین ریاستی دہشت گردی کررہے
ہیں،سکولوں کو فوجی چھانیوں میں تبدیل کیا چکاہے ،معیشت تباہ کردی ہے املاک
کو جلایا جارہے یہاں تک کہ کشمیریوں کو فون اور انٹرنیٹ کی سہولت بھی میسر
نہیں ہے،نہ تو انسانی حقوق کی کوئی تنظیم اندر جاسکتی اور نہ ہی ریلیف کا
کوئی ادارہ جاسکتا ہے،کشمیری شدید مشکلات کا شکار ہیں۔حکومت پاکستان مقبوضہ
کشمیر میں غیر انسانی ہتھکنڈوں کے خلاف آواز بلند کرے پاکستان اورآزاد
حکومتیں تحریک آزادی کشمیر کو فیصلہ کن بنانے کے لئے اپنی ذمہ داریاں پوری
کریں ۔ جب کوئی قوم آزادی کے لئے اٹھ کھڑی ہو تو کوئی حربہ اور ہتھکنڈہ اس
کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتا آزادی کی تحریکوں میں بے پناہ قربانیوں کا
عزم رکھنے والے کسی طاقت سے خائف نہیں ہوتے وہ وقت دور نہیں جب کشمیر بھارت
اور فلسطین اسرائیل کے چنگل سے آزاد ہو گا دنیا کی کوئی طاقت کشمیریوں اور
فلسطینیوں کو آزادی کے حصول سے نہیں روک سکتی۔ |