ماہرین ذاتیات کے مطابق جب
دوشادی خواتین ایک دوسرے کو طعنے مہنے دینے پر آجائیں تو سچ کے سوا نہ کچھ
کہتی ہیں نہ سنتی ہیں ۔کاش ہمارے ہر دل عزیز میڈیا پر طعنے مہنوں کی مد میں
ہونے والی منہ ماری اور لفظی پنجہ آزمائی کے نازک مواقعوں پر بھی اسی سنہرے
اصول کو اپنا لیا جاتاتو آج ماہرین ابلاغیات اس قدربے تکلفی کے ساتھ ایک
دوسرے سے دست و گریباں نظر نہ آتے ۔طعنہ زنی، تیکھے لفظوں کے نیزوں سے
دوسروں کے غیرطبعی عیوب اوربشری کمزریوں کوڈنکے کی چوٹ پر ہائی لائیٹ کرنے
کا وہ ہنرانتقام ہے، جسے خرابی شہرت کے باعث نسوانی ویپن آف ماس ڈسڑکشن
سمجھا جاتاہے ۔ حالانکہ زیادہ تر نام نہاد امن پسند اورتشددپر قدرت نہ
رکھنے والے مرد حضرات بھی کلیجہ ٹھنڈا کرنے کے لیے طعنوں کاہی آسرا لیتے
پائے جاتے ہیں۔لیکن اس سے بھی بڑی ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ اس
غیرمعمولی وسیلہ اظہار سے کامل دستبرداری اختیارکرنا اور طعنے کا ادھار
رکھنا خود خواتین کے لیے ایک غیر فطری اور خلاف طبیعت آزمائش ہے۔یہی وجہ ہے
کہ روزاول سے طعنے مہنوں میں خواتین کی اسپشلائزیشن نہ صرف زیادہ مستند اور
مانی ہوئی ہے بلکہ مرد وں کے لیے قابل تقلید انٹلکچول اورلسانی برتری کا
درجہ بھی رکھتی ہے۔ اگر کسی زنانہ مزاج مرد کی مذمت کرنا مقصود تو اس غریب
کی ذاتی قابلیت کو پس پشت ڈ ال کرایک ہی بیان داغاجاتاہے کہ موصوف عورتوں
کی طرح طعنے دینے میں ماہر ہے۔ گھریلو زندگی میں طعنوں مہنوں کو ہمیشہ
ہمیشہ کے لیے امر کرنے کا کریڈٹ دو عظیم ازلی حریفوں یعنی ساس اور بہو کے
درمیان پائے جانے والی رقیبانہ جذباتیت کو جاتاہے۔جنکی دیکھا دیکھی باقی
رشتوں نے بھی آڑے وقتوں میں جی کا بخار نکالنے کے لیے انہی دو خواتین کو
رول ماڈل بنایا ۔ خصوصا شوہروں کی جبری تربیت اور باطنی اصلاح کاانقلاب بھی
طعنوں مہنوں سے ہی برپاہوا ۔ آج طعنے کو شادی شدہ زندگی میں ایسے ا زدواجی
ریموٹ کنڑول کا درجہ حاصل ہے جسے صرف بیویاں ہی کمال مہارت سے آپریٹ کرنا
جانتی ہیں۔ دوسری طرف عقیدت مندشوہر وں کے لیے یہ مذمت اور ملامت بھی لاڈ
پیار ہی کا درجہ رکھتی ہے۔ جس بدنصیب میاں کو اپنی بیوی سے چھوٹے موٹے طعنے
نہیں پڑتے ،سمجھ لیں وہ موصوف یا تو طبعی شرافت کے آخری درجے پر ہے یااسکا
ازدواجی درجہ خطرے میں ہے اور خوانخواستہ مستقبل قریب میں اس کے دامن تر پر
طلاق یافتہ ہونے کا دھبہ لگنے والاہے۔
نجی زندگی میں طعنے کا اس قدر کراماتی اثرو رسوخ کو دیکھ کچھ کہرام پسند
مردوں نے اس پرائی انٹلکچول پراپرٹی کوعوامی، گروہی اور کمرشل پھڈوں میں
سپر ہٹ میڈم آف للکار اوریلغار بنا ڈالا۔ انہی کی کاوشوں کاثمرہے کہ آج
ہماری ٹی وی سکرینوں پر ریٹنگ کے ایصال ثواب کے لیے ہونے والی نزاعی بحث و
تکرار طعنوں مہنوں کی مشقت سے چور اور بھرپور نظر آتی ہے۔اچھے خاصے پڑھے
لکھے مہانان نامی گرامی ، اچھل اچھل کر ایک دوسرے کو لعن طعن کرکے اور جعلی
کٹی سنا کراپنی کسماہٹ رفع کرتے اور عوام کی بے چینی بڑھاتے نظرآتے ہیں۔
خوش گفتار اینکر پرسن کی امامت میں ایک دوسرے کی وہ مٹی پلید کی جاتی ہے کہ
مسکین طبع ناظرین بھی اس گمراہ کن تفریحی کے وفورلطف سے عش عش کر اٹھتے ہیں
۔جوں جوں ایک دوسرے کے ہاتھوں پہنچنے والی جذباتی ، اخلاقی اور پیشہ وارنہ
ٹھیسوں کی کاروائیوں میں اضافہ ہوتا جارہے تو ں توں طبیعتوں میں طعنوں
مہنوں کا ابال سبی کے درجہ حرارت کی طرح نقطہ اشتعال کی طرف جاتادکھائی
دیتاہے۔ اسی ہنگامی صورتحال کے پیش نظر لوگوں نے طعنوں مارنے اور طعنے
کھانے کے لیے باقاعدالگ سے موزوں منہ مختص کرنا شروع کردئیے ہیں۔
مراعات یافتہ سیاست دان ہوں یا محض ہاتھ ملتے عوام، ہمارا ہدایت یافتہ
میڈیا ہو یا ہمارے جمہوریت پسند حکمران سبھی اپنے اپنے قول فعل کی
بدپرہیزیوں سے اپنے لیے شامت اعمال کا سامان پیدا کرتے رہتے ہیں۔چونکہ سب
سے زیادہ بلنڈرز، نادانیاں اور بے ایمانیاں کوچہ سیاست میں رونما ہوتی ہیں
، لہذا ایک دوسرے کی شان میں زہریلی قصیدہ گوئی اور لفظی پتھراو بھی یہیں
دیکھنے کو ملتاہے۔یہاں طعنوں مہنوں کی ایک لمبی لسٹ ہے جو خود بخود ترتیب
پاتی اور اپ ڈیٹ ہوتی رہتی ہے۔ حسب حال جس کے لیے جو طعنہ موزوں لگے اس کے
منہ پر دے ماراجاتاہے۔ یہاں کوئی کسی کو مارے طعنہ ٹیکس چو ری کاتو کوئی
ہیوی قرض خوری کا ، کوئی کرپشن اور ہیرا پھیری کا تو کوئی بجلی چوری
کا،کوئی نا اہلی کا تو کوئی ڈگری جعلی کا، کوئی ٹھہرامک مکا کاذمے وار
توکوئی فرینڈلی اپوزیشن ہونے کے سہے وار، کسی کو ملے طعنہ پینتیس پنکچڑز
لگانے کاانعام تو کسی پر کشکول جیسے مقدس برتن کی مسلسل بے حرمتی کا الزام،
کوئی دھاندلی کا مدد گارتو کوئی آمریت کا یار، کوئی سیاسی لوٹا تو کسی کا
قد کارکردگی میں چھوٹا،کوئی سیاسی ادار کار تو کوئی بے حسی اور بے بسی کا
سزا وار، کوئی رکھے دھرنوں کی طاقت پہ پختہ ایمان تو کوئی ٹیلی فونک سیاست
کی جان،کوئی سیاسی بے روزگار تو کوئی زبانی نمبرٹانگنے والی سرکار۔الغرض
جتنے متاثرہ منہ اتنے ہی طعنے کچھ برحق اور دستاویزی جبکہ کچھ زبانی کلامی
اور محض انتقامی کہ لہو لگا کر سیاسی شہید وں میں شامل ہونے کا رائج الوقت
چلن یہی ہے۔
اب ملالحظہ کیجیے خرابیوں کے زبان ذدہ عام نعروں میں عوام کے سماجی درجات
بلند کرتے چند نمونے، ہمارا ٹریڈ مارک عوامی طعنہ ہے جیسی عوام ویسے
حکمران۔۔۔ستویا دھنیا نوش جنتا۔۔۔ ہم قوم نہیں ہجوم ہیں وہ بھی بجلی اور
گیس چوروں کا ۔۔۔خاندانی منصوبہ بندی کے دشمن۔۔۔نالائق رعایا۔۔۔فریز مقدر
کی ٹھنڈی جمہور۔۔۔اپنی اور اپنے ووٹ کی اہمیت سے بے پروالوگ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
اب پـڑھیے طعنوں مہنوں کے قومی لنگر میں ہمارے ضرورت سے زیادہ چاک و چوبند
میڈیا کا حصہ۔۔۔ کوئی مارے طعنہ محترم میڈیا کو فحاشی پھیلانے کا تو کوئی
ریٹنگ کے لیے ہر حد سے گزر جانے کا۔۔۔کوئی کہے اسے بے لگام مقدس گائے تو
کوئی اس کی زیر تعمیربلوغت پر لمبے چوڑے سوالیہ نشان لگائے ۔۔۔کوئی کرے گلہ
سستی سنسنی پھیلانے کا تو کوئی بھولی بھالی عوام کو ہمواری رائے عامہ کے
نام پر کھل کر بیوقوف بنا نے کا ۔۔۔ کوئی ضمیر فروشی کا سزا وار تو کوئی
زبان فروشی کا طلب گار۔۔۔ کوئی مارننگ شوز کی ذہنی صحت پر انگلیاں اٹھائے
تو کوئی ایویں خواہ مخواہ لمبی چوڑی چوڑنے کے طعنے کھائے۔۔۔وغیرہ وغیرہ
تاہم اس ساری ریاضیات ر ائیگاں کا المیہ یہ ہے کوئی بھی فریق ایک دوسرے کی
طعنہ آمیز خاطرتواضع سے رنجیدہ، شرمندہ یا دل برداشتہ ہو کر اپنے اختیار
کردہ طور طریقوں یا کوتاہیوں پر نظرثانی کرنے پر ایمان لاتا دکھائی نہیں
دیتا۔ بجلی و ٹیکس چوری سے لے کر میڈیاکی سینہ زوری تک،مدتوں سے زبان ذد
عام حرف تنقید و طعنہ بننے والے سبھی کارہائے نمایاں پہلے سے زیادہ
جانفشانی اور خشوع و خضوع کے ساتھ سرانجام دئیے جارہے ہیں۔ہمارے نامراد
قومی طعنوں مہنوں پر پائی جانے والی لارج سکیل بے حسی اور بے رغبتی چیخ چیخ
ہمیں ایک ہی بات کہہ رہی ہے۔ ’’ جہاں لوگوں کو ڈھیٹ بن کر جینے کی عادت ہو
وہاں سماجی اور اجتماعی وارداتوں کا گند صاف کرنے کے لیے طعنوں کی نہیں
بلکہ زیرو میڑ جھاڑوں کی ضرورت ہوتی ہے‘‘ ۔ |