ذکر دو محکموں کا

ہم ایک ایسی بے حس قوم ہیں کہ جسے احساس زیاں تک نہیں ہے۔ حالانکہ یہ احکام بھی ہمارے پیش نظر ہیں کہ خود خدا نے بھی اس قوم کی کبھی حالت نہیں بدلی جسے اپنی حالت کے بدلنے کا خیال نہ ہو ۔ جب اس طرح کے نا قابل تردید حقیقتیں تاریخ ماضی اور زمانہ موجودہ کا حصہ ہوں اور ہمارے احساس اور نظروں سے پوشیدہ ہو تو اسے مجر مانہ غفلت کا نام دے کر خود کو اس خواب خرگوش سے جگا نا ہوگا۔ خواب خر گوش ہی ناکامی کی علامت ومثال ہے۔ یہی حقائق ہیں کہ آج پاکستان میں سرکاری ادارے نیست و نابود ہو کر تباہ ہو رہے ہیں بلکہ تباہ ہو چکے ہیں ۔

کسی بھی ملک کی ترقی اور ملک میں بسنے والوں کی بہترین صحت کے لئے پچیس 25سے پینتس35فیصد رقبہ پر درختوں کا ہونا لازمی ہے۔ ورنہ نتائج معاشرہ بیمار کی شکل میں ظہور پذیر ہوں گے ۔ درخت آکسیجن پلانٹس ہیں جو فطری و قدرتی طور پر پائے جاتے ہیں ۔ درختوں کا صفایا در اصل قدرت و فطرت کے قتل کے مترادف ہے۔ جو ایک بہت بڑا گناہ ہے۔

درختوں کے تحفظ اور جنگلات کی بڑھوتری ( نشوونما ) اور اضافہ کیلئے سرکاری سطح پر محکمہ جنگلات کام کر رہا ہے۔ جس کا مقصد اس قیمتی اثاثہ کا تحفظ اور اضافہ ہے۔ تاکہ ماحولیاتی حوالے سے پاکستان صحت مند فضا رکھے اور ملک میں قدرتی آکسیجن پلانٹس پھل پھول سکیں ۔ فضاء خوشگوار رہے اور ہر طرف سر سبز مناظر ہوں۔ صحراء ، جنگل ، تھل ، دامان ، پچادھ، چولستان، روہی، پہاڑ ارو شہر صحت مند ، صحت افزا ء اور حسین منظر پیش کریں۔جنگلات ( درختوں ) سے انتہائی قیمتی پرندے اور شہد کی پیداوار بھی حاصل کی جاتی ہے۔ جو ضروریات انسانی کے اہم اجزاء ہیں علاوہ ازیں جنگلات کیلئے بے شمار فوائد کو ہم شمار ہی نہیں کر سکتے ۔ باران رحمت کے بر سنے اور زمین کو ہر قسمی کٹاؤ سے بھی درخت /جنگلات محفوظ رکھتے ہیں ۔

یوں تو پورے پاکستان میں جنگلات کی تباہی کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ جس میں ٹمبر مافیاء اور محکمہ جنگلات کی باہم ساز ش کا قابل ذکر عمل دخل ہے۔ اگر اس ضمن میں پنجاب کے دور افتادہ ڈیرہ غازیخان ڈویژن میں جنگلات کے عمل فناء کا بہ غائر نظر مشاہدہ کیا جائے تو اس عمل میں ’’ نام آئے گا تمہارا ‘‘ کے مصداق محکمہ جنگلات کا نام آئے گا۔ ڈیرہ غازیخان ڈویژن کا علاقہ پچادھ جو ڈی جی خان کینال کا بالائی اور کوہ سلیمان کا وسیع و عریض زر خیز ترین مگر پانی نہ ہونے کے باعث بارانی علاقہ ہے۔ جنگلات ( درختوں ) سے محروم ہے۔ دیگر زرعی علاقوں پر موجود نجی جنگلات کو لوگ اپنی اپنی ذاتی ضروریات کے پیش نظر ختم کر چکے ہیں ۔ اس کے بر عکس انہار اور سڑکوں پر موجود سرکاری جنگلات جو انتہائی قیمتی درختوں پر مشتمل تھا جنگلات انتظامیہ ( افسرا ن و اہلکار ان ) کی بد عنوانی کی نذر ہو کر تقریباً نہ ہونے کے برابر رہ چکے ہیں ۔ اس پر جنگلات افسران اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی خاموشی کیا معانی لا رہی ہے ۔۔۔۔؟

٭ کس کس غم کو روئیں کس کس ظلم پر صدائے احتجاج بلند کریں ۔ جب سننے والا ہی کوئی نہ ہو تو کیا اس احتجاج کا کوئی فائدہ ہوگا ۔۔۔۔؟ یہ صدائے احتجاج تو صدا بصحر اء ثابت ہوگی اور کس کس نا انصافی پر فریاد کریں ۔۔۔۔؟ اس خطے کے مکینوں ( غلامان ہندو ستان ) نے سوچا تھا کہ قیام پاکستان سے وہ آزاد فضاؤں میں پر واز کرتے ہوئے ترقی کی منازل طے کریں گے۔ مگر سب تدبیریں الٹی ہوگئیں ۔ پاکستان بنانے والی عظیم شخصیات کو پس پشت ڈال کر جا گیر داروں ، سر مایہ داروں اور ملاؤں ( کرائے کے فتویٰ سازوں) کو مناصب اقتدار پر بٹھا دیا گیا۔ جس کا نتیجہ کیا نکلا۔۔۔۔؟ وہ انجام سب کے سامنے ہے۔ جو انتہائی تلخ ہے۔ جس کی تلخی نا قابل بر داشت ہے۔ ہر طرف دہشت کے سائے ہیں ۔ جو عوام پر منڈلا رہے ہیں ۔ یہی دہشت عملی شکل میں دہشت گردی ہے۔ یعنی موسوم بہ دہشت گردی ۔ جس کا نتیجہ قتل و غارت ہے۔ مذہب مسلک اور فرقوں کے نام پر قتل ، طبقات ، ذات ، برادری، قبائل ، لسانیات ، ثقافت اور صوبائی تنگ نظری کے نام پر خوں ریزی ۔ یہ سب کیوں ہے۔ ۔۔۔؟ وہ کون سے عوامل ہیں جن کی بنیاد پر شدید بے چینی اور اشتعال و انتشار ہے ۔ جب اس پر تجزیاتی نگاہ دوڑائی جاتی ہے۔ تو نا انصافی اور لاقا نونیت جیسے حقائق منظر عام پر آتے ہیں ۔ معاشرے میں لا قانونیت معاشرتی سطح پر افراتفری کا باعث بنتی ہے ۔ اور ملکی سطح پر قانون سے بغاوت جیسی تلخ حقیقتیں سامنے آنا شروع ہو جاتی ہیں ۔

عدم تشد دایک مثبت نظریہ ہے ۔ جب تربیت کا فقدان ہوگا تو تشدد رونماء ہوگا ۔ پاکستان میں مختلف حوالوں سے تشدد کو جائز سمجھا جاتا ہے ۔ یہاں اکثر یتی طبقے اقلیتی طبقات کو قتل کرنا جائز سمجھتے ہیں ۔ با اختیار اور طاقتور گروہ جو منظم شکل میں ہیں اور سرکار کی طاقت کے حامل ہیں کمزور عوام پر ظلم اور تشدد کو روا سمجھتے ہیں ۔ یہی جھلک مذاہب و مسالک میں بھی عیاں ہے ۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے خصوصاً محکمہ پولیس مکمل طور پر بے لگا ہو چکا ہے ۔ جسے لگام دینا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ کون ہے ’’مائی کا لال‘‘ جو اس بے لگام گھوڑے کو لگا م دے ۔

ایک عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ بر صغیر میں انگریز کے قبضہ کے دوران جب پولیس نظام کو ترتیب دیا گیا تھا ۔ تو ان باتوں کا خاص خیال رکھا گیا تھا کہ ۔ پولیس کی اس نہج پر تربیت اور ذہن سازی کی جائے کہ محکوم و مقبوضہ ہندستانیوں کو پولیس تشد د کے ذریعے مستقل محکوم رکھا جائے اور پولیس محض وی آئی پی شخصیات ( طبقہ امراء ) کی حفاظت اور ان کے گھروں کی چاکری کرے گی۔ عوام کی چھترول کرے گی اور پولیس مقابلوں میں پار کرے گی ۔ اب بھی یہی دستور رائج ہے ۔ تھانوں میں انتہائی قسم کا چھترکلچر مستعمل ہے ۔ علاوہ ازیں تشدد کے ان گنت طریقہ ہائے کار ہیں جن کے ذریعے عوا م پر ظلم کے پہاڑ توڑ کر ان پر قبضہ کنفرم کیا جا رہاہے ۔ جس کی مثال گزشتہ دنو ں تھانہ گگو منڈی میں پیش آئی ۔ جہاں حوالات میں بند چوری کے ملزم پر شدید تشدد کیا گیا جس سے تنگ آکر ملزم نے مبینہ طور پر تیز دھار آلے سے اپنا ہاتھ کاٹ کر بازو سے الگ کر دیا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حوالات میں تیز دھار آلہ کہاں سے آیا ۔۔۔؟ میرے خیال کے مطابق در حقیقت پولیس نے کسی با اثر شخصیت کے اشاروں پر اس کے ہاتھ کاٹے ہوں گے ۔۔۔۔؟
Mansha Fareedi
About the Author: Mansha Fareedi Read More Articles by Mansha Fareedi: 66 Articles with 47027 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.