ایک تھا تیتر ایک بٹیر

یہ امید ضرور رکھنی چاہیے کہ پاکستانی قوم ایک دن خود پرستی کے گرداب سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ یہ بھی امید رکھنی چاہیے کہ یہ قوم کسی دن اپنے چہرے پر چڑھایا عرب ثقافت کا فخریہ ماسک اتار پھینکے گی۔یہ امید بھی یقینا رکھنی چاہیے کہ ایک دن یہ قوم اپنی حقیقی شناخت سے آشنا ہو گی اور اسے قبول بھی کرے گی ۔ پھر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی نمبر پلیٹوں پر سرخ رنگ سے’ الباکستان‘ کی جگہ ’پاکستان‘ لکھا ہی دکھائی دے گا۔ رمضان کے مہینے میں عربی چوغے زیبِ تن کر کے عوام کو بیوقوف نہیں بنایا جائے گا۔ عرب جنگجوؤں کی فتوحات کو اپنے کھاتے میں ڈالنا بھی چھوڑ دیں گے۔ اپنے گریباں میں جھانک کر اپنی اوقات کا اندازہ خود لگائیں گے۔ ہم تو وہ قوم ہیں جس نے ان افراد کو بھی عاق کر دیا جنہوں نے واقعتاً پاکستان کا نام دنیا بھر میں سربلند کیا !!

غلامی کی ایسی بیڑیاں پاؤں میں پڑی ہیں کہ اس قوم کو خاص حد سے آگے جانے ہی نہیں دیتیں ! یہ پارسا دکھائی دے کر ہر کام میں شارٹ کٹ ڈھونڈنے والی غلام ذہنیت قوم ہے۔ آخرت میں کامیابی کا شارٹ کٹ دو چار افراد کو مرتد قرار دے کر قتال کا بازار گرم کرنا۔ پیسہ کمانے کا شارٹ کٹ بدعنوانی، دھوکہ دہی اور اختیارات کا نا جائز استعمال۔ امتحان میں کامیابی کا شارٹ کٹ نقل مافیا۔محبت میں کامیابی کا شارٹ کٹ پیر کا تعویذ۔ اقتدار پر براجمان ہونے کا شارٹ کٹ اسٹیبلشمنٹ کا کندھا!!!

اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان کے پہلے جمہوری وزیر اعظم سے لے کر موجودہ سیاستدانوں کی کھیپ تک بشمول حالیہ وزیر اعظم نواز شریف اور شارٹ کٹ سے وزارتِ عظمی کی کرسی پر براجمان ہونے کے خواب دیکھنے والے عمران خان صاحب تک سب اسی اسٹیبلشمنٹ کی چھتر چھایا میں پروان چڑھے ہیں۔ ویسے اس میں اچنبھے کی بھی کوئی خاص بات نہیں۔ ایک ایسا ملک جو وراثت میں انگریز کا نو آبادیاتی نظام لے کر1947 میں معرضِ وجود میں آیا ۔ جس کے قومی ادارے نہ ہونے کے برابر تھے ۔ سیاستدان اور سیاست ناتجربہ کار، کمزور تر اور اختلافات کا شکار تھی۔ایسی صورتحال میں بیوروکریسی اور افواج مضبوط تر ہوتی گئیں۔ افواج کو مضبوط کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت تھی پر نتیجہ یہ نکلا کہ افواج ہی اپنے آپ کو ملک کا کرتا دھرتا سمجھنے لگیں۔ بیوروکریسی اور فوج یک جان دو قالب ہوتے گئے اور سیاستدان تمام برائیوں کی جڑ قرار دیئے گئے! فوجی ڈکٹیٹروں کی جانب سے سیاستدانوں کے خلاف ایبڈو جیسے کالے قوانین بنائے گئے۔ ایسے مطلق العنانیت کے ماحول کے باوجود سیاستدانوں نے جمہوریت کے لئے آوازیں بلند کیں۔ انہی کوششوں میں سیاستدان پھانسی بھی چڑھے، گولیاں بھی کھائیں، جانیں بھی قربان کیں،قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، ہتھکڑیاں بھی لگیں، ملک بدر بھی ہوئے لیکن جمہوری عمل کے لئے تگ و دو جاری رہی۔فطری بات ہے جب پورا ملک ہی دس دس برس ڈکٹیٹر کے قبضے میں رہے گا تو سیاستدان نامی بوٹا بھی انہی کے باغیچوں میں پلے بڑھے گا ۔ سیاستدان نے دستیاب ماحول ہی میں پروان چڑھنا ہے، غلطیاں کرنی ہیں، سیکھنا ہے! آسمان سے تو کوئی اترنے سے رہا۔تو جو سیکھ گیا وہ سیاستداں اور جو اشاروں پر ناچتا رہا وہ کٹھ پتلی ۔ اظہر من الشمس ہے موسی نے بھی فرعون کے محل ہی میں پرورش پائی تھی! شوکت عزیز جیسا ٹیکنو کریٹ وزیرِ اعظم درآمد اور برآمد تو کیا جا سکتا ہے پراپنے اعمال کے لئے جوابدہ نہیں کیا جا سکتا ، نہ ہی ان جیسوں کو سیاستدان بنایا جا سکتا کیونکہ نہ وہ عوام سے نکل کر آتے ہیں اور نہ ہی انہوں نے واپس عوام کے پاس جانا ہے۔

اپنی قومی شناخت کے حوالے تک پر کنفیوژن کا شکار پاکستان جیسے ملک میں تو جمہوریت ابھی چلنا سیکھ رہی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار حکومت جمہوری طریقہ سے منتقل ہوئی ہے۔ بلاشبہ انتخابی عمل میں کمزوریاں موجود ہیں جنہیں آئینی طریقہ کار کے مطابق ٹھیک کیا جا سکتا ہے پر بھلا ہو شارٹ کٹیوں اور الباکستانی انقلابیوں کا جنہیں جمہوری نظام چلتا پسند ہی نہیں آتا۔ عوام الناس کے لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان کی بیماریوں کا علاج اب کوئی انقلاب نامی دیسی ٹوٹکا نہیں ہے بلکہ مرض بگڑ چکا ہے! علاج طویل المدت اور نظام کے مستقل مزاجی سے چلتے رہنے میں مضمر ہے۔

قومی اسمبلی میں موجود دھرنوں والی سیاسی جماعت کا واویلاپھر بھی کچھ سمجھ آتا ہے پر لندن میں موجود کینیڈین پارسا اور ایک عدد نیم مردہ سیاسی جماعت کون سے انقلاب کی باتیں کر رہے ہیں؟ ایک ایسا کینیڈین شہری جس کی مذہبی تجارت کی ویڈیو ریکارڈنگز انٹرنیٹ پر جا بجا موجود ہیں۔ ایک عدد ویڈیو میں یہ موصوف کسی قبر پر کھڑے ہو کر مردے سے ہمکلام ہیں اور اسے کلمہ پڑھوا رہے ہیں۔ پھر اچانک رقت آمیز لہجے میں اعلان فرماتے ہیں کہ کلمہ پڑھ لیا گیا ہے۔ مرید زمیں پر بچھے جاتے ہیں اور یہ حضرت فخر سے سرشار کھڑے ہیں۔ ایسا شخص انقلاب کیا لائے گا ہاں سرکس جیسا کوئی شو ضرور منعقد کر سکتا جیسا اسلام آباد میں کنٹینر والا میلہ لگایا تھا۔ ان کے مریدین کو سادہ لوح کہا جائے تو یہ لفظ بیوقوف سے زیادتی ہو گی۔ چودھری برادران کی سیاست مشرف صاحب سے شروع ہوئی اور مشرف صاحب کے ساتھ ہی ختم ہو گئی۔ اب مردہ سیاسی جسم کو کلمہ پڑھوانے کینیڈین سرکار کے بازو میں جا کھڑے ہوئے ہیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف کی حرکتیں اور لندن میں گرینڈ الائنس بنانے کی سعی! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ 1977 کا ری میک بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تب الیکشن میں دھاندلی کے الزامات اور نظام کی خرابیوں کو ہدف تنقید بنا کر نظام کو ختم کرنے اور نئے نظام کی تشکیل کے مقصد سے پاکستان قومی اتحاد وجود میں آیا تھا۔ ملک گیر احتجاج کئے گئے، حالات خراب ہوئے اور اختتام آپریشن فئیر پلے پر ہوا۔ جمہوری حکومت چلتی بنی، وزیرِ اعظم پھانسی چڑھا اور فوجی ڈکٹیٹر 1988 تک ملک پر قابض رہا۔یوں پاکستان نے اپنی تاریخ کا سیاہ ترین دور دیکھا اور خمیازہ آج تک بھگت رہا ہے۔

2014 میں فرق صرف اتنا ہے کہ ملک کی بڑی اور سیاسی شعور رکھنے والی جماعتیں جمہوری نظام کو چلانے پر متفق ہیں اور کسی بھی غیر آئینی اقدام کی صورت میں متحد رہنے کا عندیہ دے چکی ہیں جبکہ اس مرتبہ کا پیدا کردہ یہ گرینڈ الائنس انتہائی محدود سی عوامی حمایت رکھتا ہے ۔ اب اسے حمایت کہہ لیں ، مریدین کی محبت کہہ لیں، چودھری حضرات کی برداری ازم کہہ لیں۔ اس گرینڈ الائنس کے مستقبل کا اعادہ یوں کیا جا سکتا ہے:
ایک تھا تیتر ایک بٹیر
لڑنے میں تھے دونوں شیر
لڑتے لڑتے ہو گئی گم
ایک کی چونچ اور ایک کی دم
Jahid Ahmad
About the Author: Jahid Ahmad Read More Articles by Jahid Ahmad: 19 Articles with 12143 views Columnist for Roznama "Din"... View More