رشتوں کا خون۔۔۔کب تک۔۔؟؟

میرے ملک میں حوا کی بیٹیاں غیر محفوظ ہو گئیں،کہیں عزتیں پامال ہو رہیں تو کہیں زندگی سے جا رہی ہیں،معاشرہ غیرت،محبت،عزت وآبرو کے نام پر قتل کا نام دے کر روائیتی بے حسی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ہر جگہ،ہر روز نئے نئے واقعات سامنے آ رہے ہیں،پولیس کی ستائی مظفر گڑھ کی آمنہ خو سوزی کررہی ہے تو ملتان کی طالبہ سماج کے رواجوں پر جان دے دیتی ہے،لاہور کی فرحانہ کا انصاف کی دہلیز پر خون کردیا جاتا ہے،ہر طرف معصوم بچیوں سے زیادتی کی گونج سنائی دیتی ہے،ایسا کیوں؟ ذمہ دار کون؟ معاشرہ یا میڈیا،حکومت یا عوام،والدین یا کوئی اور؟ سب سوالات جواب کے منتظر ہیں۔اس پاک سرزمین میں اب تک کتنے غیرتی قاتل پھانسی پر لٹک چکے ؟ یہاں عورت کو مار ڈالنا بہت آسان کام ہے۔اگر خود لہو کے اڑتے چھینٹے نہیں دیکھ سکتے تو کسی نامحرم سے اپنی ہی بہو ، بیٹی ، بہن یا ماں کو قتل کروا دیتے ہیں اور پھر قانونِ قصاص کو دیدہ دلیری سے موم کی ناک بنا کر مقتولہ کے وارث کی حیثیت سے قاتل کو معاف کردیتے ہیں۔خود بھی بچ گئے ، خاندان کی ناک بھی اور ترکے کا حصہ بھی۔۔۔۔۔کیا کہا برادری سے باہر کا رشتہ آ رہا ہے۔ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ آئندہ ایسی بات سوچنا بھی نہیں، زندہ دفن کردیں گے۔ او ٹھیک ہے اسلام میں تاکید ہوگی کہ لڑکی کی مرضی معلوم کرو۔ لیکن اسے دین دنیا کی الف ب کا کیا پتہ۔ یہ کیسے اپنے فیصلے خود کر سکتی ہے،اسلام نے تو اور بھی بہت کچھ تاکید کی ہے۔ کیا اس پر عمل ہوتا ہے؟ بس ہم نے جہاں شادی طے کر دی وہیں پر ہوگی۔ ہچر مچیر کی تو مار کے اسی صحن میں گاڑ ڈالیں گے۔ بیٹی آخر ہم تیرا برا کیوں چاہنے لگے بھلا۔بیٹی تو کجا بیٹے کی نہیں سنی جاتی،چاچے،تایوں کی قبریں بچانے کیلئے اولاد کو قربانی پہ چڑھا دیا جاتا ہے،بیٹا انجینئر ہوتا ہے تو اس کی شادی ان پڑھ لڑکی سے کردی جاتی ہے،بیٹی ڈاکٹر تو اسے کسی ’’بابے دلہے‘‘ کی دلہن بنا دیا جاتا ہے،جیسے اولاد نہ ہو بھیڑ بکری ہو،جہاں چاہا،جیسے چاہا کھونٹے کے ساتھ باندھ دیا، ہمارے 80 فیصد لطیفے اور سو فیصد گالیاں عورت کے گرد گھومتی ہیں۔ مان جائے تو دیوی نہ مانے تو چھنال۔ کیا سارا سماج بچپن سے بڑھاپے تک اسی گھٹی پر نہیں پلتا۔ اور پھر یہی سماج ریاست، پنچایت، پولیس، کچہری میں بدل جاتا ہے۔کہیں ’’کالی‘‘قرار دے کر عورت قتل ہو رہی ہے تو کہیں ’’ونی‘‘ کے نام پر رسوا ہو رہی ہے۔ بھرے جرگے میں عورت کی زندگی و موت، غلامی و آزادی کا فیصلہ کرنے والے کسی کھوسے،لغاری،مزاری،بلوچ،پٹھان،سردار،مہر کو سزا نہیں ہوئی، جن کو قانون نے گرفت میں لیا بھی تو ’’چمک‘‘ کے کمال سے چھوٹ گیا،ہر سال شہری حقوق کی زنانہ و مردانہ تنظیمیں جانے کیوں اعداد و شمار جمع کرتی رہتی ہیں کہ اس سال ڈیڑھ ہزار عورتیں غیرت کے نام پر قتل ہوگئیں۔ پچھلے سال ایک ہزار ہوگئی تھیں۔ اور اس سے پچھلے سال۔ کیا ان تنظیموں کو اس کے سوا کوئی کام نہیں۔کسی کی بہن،بیٹی کے احساس کے لئے نہیں،یہ سب پیسے کا چکر اور کھیل ہے،ہمدرد ہوتیں توصرف سیمینارز تک محدود نہ رہتیں،خواتین،معاشرے کے ہر فرد کو تعلیم دیتیں،سیمینارز میں کیا ہوتا ہےٖ؟ انہی وڈیروں کو مہمان بنایا جاتا ہے جو معصوموں کے گلے گھونٹنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

یہ بیوی،بہو،بیٹی مارنے کھیل کب تک جاری رہے گا؟ظالم سماج کب تک رشتوں کے ارمانوں کا خون کرتا رہے گا؟یہ کب ختم ہوگا ’’کب‘‘کو بھی پتا نہیں۔۔
Azhar Thiraj
About the Author: Azhar Thiraj Read More Articles by Azhar Thiraj: 77 Articles with 68392 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.