انصاف کا قتل عام

پاکستان میں انصاف کی فراہمی کس قدر آسان ہے اس بات کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دیوانی مقدمات میں اکثر و بیشتر مقدمات کے فیصلے اس وقت ہوتے ہیں جب اپنے حق کی جنگ لڑنے والے ہی اس فانی دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں انصاف کی وہ قدرو منزلت نہیں ہے جو کہ مغربی معاشرے میں انصاف کو دی جاتی ہے۔ وہاں قانون کی حکمرانی ہے اور انصاف چاہے کو ئی غریب ہے یا کوئی بہت اونچا عہدے پر فائز ہے اس کے لئے قانون ایک جیسا ہوتا ہے اورانصاف کی فراہمی کیلئے تمام تر حقائق کو مد نظر رکھ کر جلدازجلد عدالتیں فیصلے کرتی ہیں۔یہاں خود اپنا ذاتی تجربہ بیان کروں گا کہ میرے والد ظہور احمد بخاری نے زرعی رقبہ واقع موضع کچہ بھپلہ تحصیل لیاقت پور، ضلع رحیم یار خان کے حصول کیلئے ایک دعویٰ دائر کیا تھا جو کہ تقریباََ22سال کی مدت کے بعد حتمی فیصلے کی طرف آیا تھا اور ابھی حال یہ ہے کہ اس کے قبضے کے حصول کیلئے الگ جنگ لڑی جائے گی فی الوقت تو متعلقہ پٹواری محض جیب گرم نہ ہونے کی وجہ سے انتقال کی کاروائی کا حیلے بہانوں سے ٹال رہاہے اور جلد انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ بن رہاہے اور میں جو کہ حق بولنے لکھنے کا دعویٰ دار ہوں انصاف کے حصول کیلئے بنا رشوت کے کام کے ہو جانے کی امید میں دن پر دن گذارتا جا رہاہوں کہ شاید اﷲ تعالیٰ کا کرم ہو جائے تو بات بن جائے۔ کیا متعلقہ حکام بالا اس حوالے سے میری شنوائی کرنا چاہیں گے؟ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ہم لوگ رشوت کے زور پر حق لینے /انصاف ملنے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں اور جو لوگ رشو ت نہیں دے سکتے ہیں وہ اپنے پاس تمام تر ثبوت رکھ کر ،قابلیت ہونے کے باوجود بھی اپنے لئے انصاف حاصل نہیں کرپاتے ہیں کہ انصاف کو ہم میں سے ہی کچھ لوگ روپے کی بنیاد پر فراہمی کو ممکن بناتے ہیں۔

یوں تو ہم ہر معاملے میں مغرب کی تقلیدکرتے ہیں مگرہمارے ہاں عدالتوں میں منصف خود بکنے کیلئے تیار ہوتے ہیں یا انکو مک مکا پر مجبور کرکے انصاف اپنے لئے لوگ خرید لیا کرتے ہیں۔ ایک صورت اور بھی ہوتی ہے کہ لوگ پیسے کے زور پر نقل بمطابق اصل کے مطابق قانونی دستاویزات تیار کرلیتے ہیں اور انکو کچھ پیچیدگیوں کی وجہ سے عموما َ عدالتوں میں ثابت قدرے مشکل ہو جاتا ہے یا پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ پیشی پر پیشی عدالتی اہلکاروں کی وجہ سے آگے سے ٓگے ہوتی جاتی ہے یا وکیل صاحب اپنی دکانداری چمکنے کے چکر میں ،پیسہ بٹورنے کے لئے ایسے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں کہ انصاف دوسری پارٹی کے لئے ایک ’’خواب‘‘سا بنا جاتا ہے۔ اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ انصاف ہونا چاہیے،انصاف ہی سب کچھ ہے کہنے والے ہی انصاف کی فراہمی میں بسااوقات بہت بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں کہ اس طرح سے انکے مفادات کو زک پہنچتی ہے۔جس کی وجہ سے وہ انصاف ہوتا ہوا نہیں دیکھ پاتے ہیں اور یوں انصاف کے قتل کی وجہ سے بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں۔

غریب تو یوں بھی غریب ہی ہوتا ہے اگر وہ امیر ہوتا تو وہ پھر غریب ہی کیوں کہلواتا،وہ اپنی غریبی کی وجہ سے وہ کچھ سہہ لیتا ہے جس کا ہم لوگ محض تصور ہی کر سکتے ہیں۔جناب بس اتنا سمجھ لیجئے کہ اگر ہم ’’غریب‘‘ کو دو وقت کی روٹی کیلئے ہی اتنا ٹرپاتے ہیں تو سوچ لیجئے کہ ’’انصاف‘‘ کا حصول اسکو کتنا مہنگا پڑے گا۔اگر ہم پاکستان میں اپنے ارد گرد کے حالات کا بغور معائنہ کریں تو پتا چلے گا کہ یہاں بہت سے مسائل کی بڑی وجہ ناانصافی ہے۔ ہماری نوجواان نسل اس وجہ سے بھی جرائم کی جانب راغب ہو رہی ہے کہ انکو نوکریاں میرٹ پر نہیں مل پا رہی ہیں۔اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان اپنے چیلوں چمچوں اوراپنے عزیز رشتے داروں کو آگے کر دیتے ہیں اور ہمارے اداروں کے حکام بالا ان کو ’’آقا‘ سمجھتے ہوئے انکے کہے اور حکم کے مطابق انہی کو بھرتی کر لیتے ہیں ۔

جہاں بھرتی میرٹ پر ہوتی ہے وہاں مجبوری یہ ہوتی ہے کہ’’نکمے‘‘ بھرتی ہو گئے تو پھر وہاں کام کون کرے گا۔جن لوگوں کو میرٹ پر نوکریاں نہیں ملتی ہیں وہ انتقامی طور پر غیر قانونی و غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں اور یوں معاشرے میں بے راہ روی بڑھتی جا رہی ہے۔اگر ہم اپنے دین اسلام کے حوالے سے بات کریں تو قرآن وحدیث میں جا بجا ہمیں ایسے پیغامات ملتے ہیں جس سے انصاف کی اہمیت کا پتا چلتا ہے مگر یہ بھی ایک لمحہ فکریہ ہے کہ بحیثیت مسلمان ہم ایسے ہوگئے ہیں ایسی باتوں کو نظر انداز کرتے ہیں بس وہی باتیں اور عمل کرتے ہیں جس سے ہماری اپنی ذات کو فائدہ ہوتا ہوچاہے اس سے دوسروں کی حق تلفی ہی کیوں نہ ہو۔

انصاف زندگی کے تمام تر معاملات میں جب تک نہیں آئے گا اس وقت تک ہم لوگ پرسکون زندگی نہیں گذار سکیں گے ۔ہم اگر اپنے اردگرد دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ہمارے والدین بھی کہیں نہ کہیں ہمارے ساتھ ناانصافی کر جاتے ہیں مگر ہم اچھی اولاد ہونے کی وجہ سے چپ رہتے ہیں ۔اگر اصولی طور پر بات کی جائے تو اولاد کی زندگی کے فیصلے کرتے ہوئے انصاف سے کام لینا چاہیے اور انکی خواہش اور دلچسپی کا بھی مدنظر رکھنا چاہیے مگر ہم اس سے پہلو تہی کر تے ہیں اور بعدازں دونوں فریق ہی مسائل کا شکار ہوتے ہیں اور والدین کچھ ذیادہ ہی دکھی ہوتے ہیں اگر،ہمارے ادارے اورہم خود تمام تر معاملات میں انصاف کو مدنظر رکھیں تو بہت سے مسائل سے بآسانی چھٹکارہ مل سکتا ہے اور روز بروز انصاف کے ہوتے قتل عام سے بھی ہمیں نجات مل جائے گی۔
 
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 481801 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More